حضرت مولانا محمد احمد صاحب فیض آبادی، سابق ناظم تعلیمات دارالعلوم ،دیوبند KB 560
حضرت مولانا محمد احمد صاحب فیض آبادی، سابق ناظم تعلیمات دارالعلوم ،دیوبند
بقلم: حضرت مولانا مفتى محمد اجمل قاسمی، خادم تدریس جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مراد آباد، يوپى، انڈيا۔
دنیا سے سب كو ہی جاناہے ،استاذ محترم حضرت مولانا حكیم محمد احمد صاحب فیض آبادی رحمہ اللہ بھی اللہ كو پیارے ہوگئے ‘‘كل من عليها فان ويبقى وجه ربك ذوالجلال والاكرام’’مولانا اپنی عمر طبعی پوری كرچكے تھے، ہرطرح كی خدمت سے معذور اورخود ہمہ وقت كسی خدمت گزار اورمعاون كے محتاج تھے،یادداشت اورپہچان تقریبا ختم ہوچكی تھی،اس لیےان كے وفات كی خبر ذہن ودماغ كے لیے كوئی غیر متوقع حادثہ نہ تھی؛ لیكن چوں كہ وہ ہمارے بڑے محسن اوركرم فرما ں تھے، اس لیے دل نے ان كی وفات پر صدمہ محسوس كیا، اللہ رب العزت حضرت والا كی مغفرت فرمائے،اورانہیں ان كی دینی وعلمی خدمات كا بہترین صلہ عطا فرمائے آمین!
حضرت مولانا كی دینی وتعلیمی خدمات كا دورانیہ پحاس سال سے متجاوز ہے،اس طویل مدت میں آپ نے پانچ دینی مدارس میں اپنی تدریسی وانتظامی خدمات پیش كیں،اورجہاں بھی رہے اپنی قوت كار ،قوت كردار، اعلی تدریسی صلاحیت ،اخلاص وبے لوثی،محنت وجانفشانی اورحسن انتظام و انصرام كے روشن نقوش چھوڑے۔
تدریسی سفر كا آغاز
حضرت مولانا نے اپنے تدریسی سفر كا آغاز فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی رحمہ اللہ كے ایما پر جامعہ قاسمیہ ‘‘گیا’’ بہار سے كیا، جہاں مولانا كے رفقائے تدریس میں حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برتہم اورحضرت مولانا قاری محمد عثمان منصور پوری رحمہ اللہ بھی تھے،گیا میں مولانا نے درس نظامی كی مشكل كتابیں پڑھائیں،نحووصرف كی ابتدائی كتابیں قواعد كے اجراء كے ساتھ پڑھانے كی طرح ڈالی،كتابیں بھرپور تیاری سے پڑھاتے، ابتدائی كتابوں میں نوٹس لكھواتے،خود بھی محنت كرتے اورطلبہ سے بھی بھر پور محنت لیتے،تكرار ومطالعہ كے اوقات میں ان كی نگرانی فرماتے۔تعلیم وتربیت سے بھرپوردلچسپی ،بہترین تدریسی صلاحیت، اورطلبہ كے تئیں خلوص و ہمدردی، ان كی تعلیمی نگرانی نیزمنظم اوراصول پسند زندگی كی وجہ سے آپ نےجلد ہی انتظامیہ وطلبہ كی نظر میں اونچا مقام حاصل كرلیا،اوردونوں ہی طبقے مولانا كی صلاحیتوں اورخوبیوں كے معترف اورقدردان ہوئے، حضرت مولانا كے برادر زادے اورچہیتے شاگردحضرت مولانا خورشید انورقاسمی صاحب نے بتایا كہ مدرسہ قاسمیہ گیا كے مہتمم حضرت مولانا قاری فخرالدین صاحبؒ جوشیخ الاسلام حضرت مدنیؒ كے خلیفہ تھے مولانا سےان كی تعلیمی خدمات اورمدرسہ كے تئیں ان كی جانفشانی كےسبب بڑا لگاؤ ركھتے تھے،خط وكتابت میں ہمیشہ علامہ محمد احمد صاحب كے لقب سے مخاطب كیا كرتے تھے۔غرض بہار كےاس علاقے میں جامعہ قاسمیہ ‘‘گیا’’ حضرت مولانا كی مساعی جمیلہ كی بدولت اپنے بہترتعلیمی نظام كے حوالے سے اتنا معروف ومشہور ہواكہ اس كی مختصر عمارت طلبہ كے لیے ناكافی ہوگئی۔
جامعہ قاسمیہ‘‘ گیا’’میں حضرت مولاناكو مقبولیت توخوب ملی، مگر وہا ں كی آب وہوا آپ كوزیادہ راس نہ آئی،چنانچہ تقریبا ہرسال بیمار پڑجاتے، خود اپنا علاج خود كرتے،كبھی ڈاكٹر سے بھی رجوع كرنے كی ضرورت پڑجاتی،بیماری میں بھی وہ اپنے تدریسی معمولات برقرارركھتے،درس گاہ جانے كی ہمت نہ ہوتی تواپنے كمرے میں ہی بلا كر طلبہ كو پڑھاتے۔ باربار كی علالت سے دل برداشتہ ہوكر‘‘ گيا ’’كو خیر باد كہنے كا فیصلہ كیا، والد صاحب كی بھی رائے ہوئی كہ‘‘ گیا’’ كے بجائے قریب ہی میں كہیںتدریسی خدمت انجام دیں،تاكہ صحت بہتر ہوسكے، چنانچہ اپنےگاؤں كےقریب مدرسہ انوارالعلوم بھولے پور امبیڈكرنگر كے ذمہ داروں كی درخواست پر وہاں سےوابستہ ہوگئے، گیاسےجدائیگی كا فیصلہ وہاں كی انتظامیہ اورطلبہ دونوں كے لیے تكلیف دہ تھا،چنانچہ جامعہ قاسمیہ گیا میں پڑھنے والے عربی ششم كے طلبہ حضرت مولانا سے پڑھنے كے لیے اپنے علاقہ كا مدرسہ چھوڑكروطن سے دور ایك گمنام مدرسہ میں تعلیم حاصل كرنے كے لیے بھولے پورآگئے۔
حضرت مولانا نےمدرسہ انوار العلوم میں كام شروع كیا،اورتھوڑے ہی دنوں میں مدرسہ كے تعلیمی نظام كو بہت مستحكم اورمضبوط بنادیا،مدرسہ كے بام ودر تكرار ومذاكرے كے غلغلے سے معمور ہوگئے، اورمدرسہ كو پورے علاقے میں بڑی شہرت ملی، مولانا نے یہاں رہتےہوئے كھیتی بھی بڑی لگن سے كی اورپیدوار بھی خوب ہوئی، لیكن مولانایہاں بھی زیادہ مدت قیام نہ كرسكے ، مولانا مزاجا نظم وانتظام اورطلبہ كی تادیب میں سخت واقع ہوئے تھے ،آپ كی سختی كولےكر كچھ لوگوں كو شكایت تھی،مولانا كی عدم موجودگی طلبہ اور بارچی میں كسی بات پر لڑائی ہوگئی،جس كوبہانہ بناكر بعض مقامی لوگوں نےشورش برپاكردی،جس كی وجہ سے مولانا وہاں سے خاموشی كے ساتھ علاحدہ ہوگئے،مدارس میں شورش سے مولانا كو سخت نفرت تھی ،ہنگاموں میں شریك ہونے كے بجائے علاحدگی كو ترجیح دیتے تھے،فرمایا كرتے تھے كہ میں گھر تك كا سفر خرچ محفوظ ركھتاہوں ؛ تاكہ بوقت ضرورت بلاپس وپیش روانہ ہوسكوں ،بھولے پور سے مدرسہ فرقانیہ گونڈہ چلے گئے، وطن سے دوری كافیصلہ مولانا كے لیے شاق تھا،لیكن اس كے نتائج آپ كے حق میں بہتر نكلے،مولانا نے ایك دفعہ ایك بھولے پوری طالب علم سے فرمایا كہ بھولے پورسے میری علاحدگی بھولے پور كے لیے جیسی بھی رہی ہو میرے حق میں توبہتر ثابت ہوئی،میں وہاں رہتا توكھیتی كسانی میں ضائع ہوكر رہ جاتااورعلمی ترقی كی وہ راہیں میرےلیے شاید نہ كھلتیں، جووہاں سے علاحدہ ہونے كے بعد كھلیں۔بہر حال حضرت مولانا كے بھولے پورسے علاحدہ ہوتے ہی وہاں كی رونقین جلد ہی ماند پڑگئیں جس كو ہر خاص وعام نے شدت سے محسوس كیا، بلكہ بعض لائق وفائق طلبہ نے تو مولاناكی علاحدگی كے بعد تعلیم ہی ترك كردی، مولانا نے یہاں جلالین تك كتابیں پڑھائیں۔
مدرسہ فرقانیہ گونڈہ میں
مدرسہ انوار العلوم بھولے پور سے علاحدہ ہونے كے بعد آپ مدرسہ فرقانیہ گونڈہ تشریف لے گئے ،اس مدرسہ میں پہلے آپ تعلیم بھی حاصل كرچكے تھے،كم وبیش چارسال آپ نے یہاں تدریسی خدمات انجام دیں،سابقہ دونوں مدرسوں كی طرح یہاں بھی متوسطات تك تعلیم تھی،چنانچہ آپ نے یہاں ہدایہ اول،شرح جامی ،قطبی وغیرہ كتابیں پڑھائیں،تعلیم ودارالاقامہ كی نگرانی كےساتھ آپ یہاں نائب مہتمم بھی رہے،زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا كہ مدرسہ كے ذمہ داروں میں اختلافات رونما ہوئے،جس كی وجہ سے مولانا وہاں سے مدرسہ شاہی چلے گئے ،دارالعلوم دیوبند سے آپ كی فراغت1378ھ ہوئی ،پانچ سال مزید دیوبندمیں علوم وفنون كی تكمیل اورفن طب كی تحصیل میں گذارنے كے بعد آپ نے تدریس كے میدان میں قدم ركھا تھا، توگویا آپ كی تدریس كی شروعات كا سال1382ھ ہوگااورمدرسہ شاہی میں آپ كاتقرر1394ھ میں ہوا،اس اعتبار سے مدرسہ قاسمیہ گیا سے لے كر فرقانیہ گونڈہ تك آپ كی تدریسی مدت گیارہ ، بارہ سال ہوتی ہے،آپ كی تدریس كایہ دور گویا ایك عبوری دورہے، اس كے بعدپھر آپ كی تدریسی زندگی میں ٹھہراؤ اوراستحكام كا زمانہ شروع ہوتاہے۔
جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مراد آباد میں
جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد میں آپ كا تقرر10 ذی قعدہ 1394 میں درجہ وسطی میں ہوا،اور3 محرم الحرام1395 سے آپ نے یہاں تدریسی خدمت كا آغاز كیا،حضرت مولانا سیدارشد مدنی دامت بركاتہم جومدرسہ قاسمیہ گیا میں حضرت مولانا كے ساتھ تھے،وہ پہلے ہی وہاں سے جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد آچكے تھے،اورناظم تعلیمات كےعہدے پر فائز تھے،مدرسہ شاہی میں حضرت مولانا كا تقرر درحقیقت حضرت مولانا ارشد صاحب مدنی كی سعی پر خلوص كا نتیجہ تھا جسے فخرالمحدثین حضرت مولانا فخرالدین مرادآبادی كی تائید حاصل رہی ،مولانا مدنی دامت بركاتہم بحیثیت ناظم تعلیمات 16 شوال 1394 ھ كومجلس شوری مدرسہ شاہی كے نام اپنی ایك تحریر میں لكھتے ہیں:
ٗٗ‘‘مولانا محمد احمدصاحب حضرت مولانا سیدفخرالدین صاحب كے منتخب كردہ ہیں،اورمناسب ہیں،راقم الحروف بھی ان سے واقف ہے،نیزمجھ كو دارالطلبہ كے نظم میں ان سے زیادہ مدد مل سكے گی،اس لیے میری گذارش ہے كہ اگرموصوف ہی كا تقرركرلیا جائے توزیادہ مناسب ہوگا’’۔(تاریخ شاہی نمبر348)
مدرسہ شاہی میں گذرے ہوئے ماہ وسال حضرت مولانا كی حیات مستعار كا سنہرا دور اورتعلیمی خدمات كا بہترین زمانہ ہے،مدرسہ شاہی میں آپ كے عزم وحوصلے كو ایك بڑی جولان گاہ میسر آئی،جہاں آپ كی تدریسی اورانتظامی صلاحیتوں كےبہترین جوہر سامنے آئے،اوربہترین مصرف میں استعمال ہوئے،مدرسہ شاہی سے پہلے آپ نے جوخدمات انجام دیں اس نے آپ كی شخصیت سازی، آپ كے مس خام كو كندن بنانے اور ایك نوفارغ التحصیل كو ایك تجربہ كار مدبر ومدرس بنانے میں بنیادی كردار ادا كیا، چنانچہ مولانا نے مدرسہ شاہی میں ایك قابل و فاضل اورباتوفیق مدرس كی حیثیت سے نحومیر سے لےكر صحیح بخاری تك كی تقربیا تمام ہی كتابیں پوری كامیابی اوراستادانہ مہارت كے ساتھ پڑھائی،اورتدریس كے حوالے نہایت قابل اعتماد،محترم اورنیك نام رہے، تدریسی میدان میں حضرت مولاناكی ہمہ جہت خدمات كا اندازہ ان كتابوں سے ہوتاہے جومختلف سالوں میں آپ كے زیرتدریس رہیں، آپ نے مدرسہ شاہی میں رہتے ہوئے مندرجہ ذیل كتابیں پڑھائیں، جب كہ ابتدائی كچھ سالوں كی تفصیلات فراہم نہ ہوسكیں:
بخاری،مسلم، ترمذی، ابوداؤد، موطا امام مالك، نسائی، ابن ماجہ، شمائل ترمذی، طحاوی، مشكاة ، شرح عقائد، تفسیرجلالین، حسامی، تفسیربیضاوی ، ہدایہ،مختصرالمعانی، نورالانوار، كنزالدقائق ،سلم العلوم ،ملاحسن،شرح جامی،اصول الشاشی، شرح وقایہ، ترجمہ قرآن، كافیہ،شرح تہذیب، روضتہ الأدب،نحومیر۔
مدرسہ شاہی میں آپ نے مختلف اوقات میں مختلف ذمہ داریاں سنبھالیں ،اورمدرسہ كے تعلیمی نظم وانتظام كو بہتر اورمعیاری بنانے میں نمایاں اورقابل قدر كردار ادا كیا،تعلیم كے ساتھ طلبہ كی تربیت كی خدمت انجام دی، قیام كے بیشتر زمانے میں دارالاقامہ كی نظامت اورنگرانی كی ذمہ داری انجام دی،مختلف اوقات میں نائب مہتمم، نائب ناظم تعلیمات، ناظم تعلیمات،شیخ الحدیث اورصدرالمدرسین كے عہدے پر فائز رہے،اورمدرسے كےانتظام واستحكام میں حصہ لیا،مدرسہ شاہی كے سابق مہتمم حضرت مولانا رشیدالدین حمیدی رحمہ اللہ كو حضرت مولانا پر بڑا اعتماد تھا،مولانا حمیدی رحمہ اللہ نہیں چاہتے تھے كہ حضرت مولانا مدرسہ شاہی كو چھوڑ كردارالعلوم دیوبند جائیں، چنانچہ حضرت مولانا كو دارالعلوم دیوبند سے تدریس كے لیے جب بلایا گیا،اور مولانا آمادہ بھی ہوگئے، تو مولانا حمیدیؒ نے سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب سے باقاعدہ ایك سال كے لیےمدرسہ شاہی میں حضرت مولانا كے قیام كی منظوری لی،چنانچہ حضرت مولانا نے مولاناحمیدی ؒكی خواہش پر ایك سال مزید مدرسہ شاہی میں قیام كیا اورپھر دارالعلوم دیوبند تشریف لےگئے۔
مدرسہ شاہی میں الوداعی خراج عقیدت
حضرت مولانا كومدرسہ شاہی میں كیساوقار واعتبار اوركیسی ہردلعزیزی حاصل تھی ،اس كی عكاسی اس خراج عقیدت سے ہوتی ہے جومدرسہ شاہی كے اساتذہ كی طر ف حضرت مولاناكودارالعلوم دیوبند تشریف لے جانے كے موقع پر پیش كیاگیا،یہ خراج عقیدت اورتہنیت نامہ راقم الحروف كو حضرت مولانا كے برادرزادے حضرت مولانا خورشید انورقاسمی استاذ حدیث مدرسہ شاہی سے فراہم ہوا، جس پر 11 ذی قعدہ 1411 كی تاریخ درج ہے ، ذیل میں اس تہنیت نامہ كا ایك اقتبا س پیش خدمت ہے :
‘‘حضرت صدر المدرسین جامعہ! ہم اس حقیقت كے اظہار میں كوئی تامل محسوس نہیں كرتے كہ ہم سبھی اساتذہ جامعہ آپ كے بارے میں ایك كامیاب مدرس ہونے كے ساتھ اس بات كا یقین ركھتے ہیں كہ آپ كا علم ہمدوشِ عمل اورعملِ بےپایاں علم كا آئینہ دار ہے۔ منطق وفلسفہ، بلاغت ومعانی میں آپ كو تبحر اورحدیث وتفسیر اورفقہ میں مہارت تامہ حاصل ہے،ہم آپ كے حددرجہ متواضع، منكسرالمزاج اورخوددار ہونے كی شہادت پیش كرتے ہیں،اوراس حقیقت كا اظہار كرتے ہیں كہ آپ كا تدبر وتفكر اس درجہ بڑھا ہواہے كہ فكر ونظر میں غلطی كا امكان كم ہی رہ جاتاہے،آپ نظم ونسق میں ماہر ہیں،آپ كےیہاں ہر كام اپنے وقت پر ہوتاہے،كوئی چیزاپنے وقت سے موخر نہیں ہوتی،یہی وجہ ہے كہ حضرت مہتمم صاحب كے زیر نگرانی آپ نے مدرسہ شاہی كے تمام شعبوں كے سربراہ ہونے كی حیثیت سے وہ كارنامے انجام دئے ہیں جس كی كوئی نظیر نہیں ملتی…..’’
مدرسہ شاہی میں آپ كے قیام كی كل مدت 17 سال رہی۔
مادر علمی دارالعلوم دیوبند میں
مدرسہ شاہی میں آپ شیخ الحدیث اورصدرالمدرسین كے عہدے پر فائز ہوچكے تھے،اوراہمیت ومقبولیت بھی اللہ نے خوب دی تھی، اس لیے دارالعلوم دیوبندسے جب تدریس كے لیے دعوت آئی توآپ كے بہت سے اعزاء اورمحبین كی رائے یہی تھی كہ حضرت مولانا كو مدرسہ شاہی میں رہ كرہی كام كرنا چاہیے؛ اس لیے كہ جومقام مرتبہ اوركام كرنے كے جومواقع انہیں فی الحال یہاں میسر تھے دارالعلوم دیوبند میں اس كی توقع نہیں تھی،حضرت مولانا كے چھوٹے بھائی مولانا ابوبكر صاحب مرحوم جو حضرت مولانا كی نظر میں صائب الرائے و صاحب فہم تھے ان كی بھی یہی رائے تھی ؛ مگر مادرعلمی سے مولانا كو جو والہانہ تعلق تھا وہ ہر چیزپر حاوی رہا، ایسےتمام مخلصین كے لیے حضرت مولانا كی طرف سےایك ہی جواب تھا اوروہ یہ كہ ‘‘دارالعلوم مجھے اگر جھاڑودینے كے لیے بلائے گاتو بھی میں جاؤں گا’’چنانچہ حضرت مولانا تشریف لے گئے اوران كا جانا دارالعلوم كے حق میں بہتر ثابت ہوا اوربقول مولانا خود ان كے حق میں بھی بہتر ثابت ہوا۔(یہ تفصیلات كچھ توراقم الحروف نےبراہ راست حضرت سےسنی ہیں،اوركچھ ان كےقابل اعتماد اعزاء سے )
1411ھ میں امیدوں كے نشیمن مادرعلمی دارالعلوم دیوبند میں آپ كا تقرر عمل میں آیا ،اور1439 سال تك آپ نے تعلیمی وانتظامی شعبوں میں اپنی بہترین خدمات پیش كیں،ایك طرف جہاں آپ نےہزاروں تشنگان علوم نبوت كوفیض یاب كیا وہیں مدرسہ كے تعلیمی وتربیتی نظام كوبہتر اورمستحكم كرنے میں بھی اہم كردار ادا كیا، دارالعلوم دیوبند میں آپ كا قیام كم وبیش 28 سا ل رہا، اس عرصے میں زیادہ تر آپ سے ہدایہ آخرین اورمشكاة المصابیح كے اسباق متعلق رہے۔
دارالعلوم دیوبند میں آپ كازندہ جاوید كارنامہ
كار آمد اورمفیدتحقیق وتالیف ایك ایسا ذریعہ ہے جس سے آدمی كا فیض عموما تادیر قائم رہتاہے،اوراس كی نیكیوں كے دفتر میں اضافہ ہوتا رہتاہے،مولانا تصنیف وتالیف كے آدمی بالكل نہ تھے؛ مگر توفیق الہی نےان سےایك ایسا بنیادی كام لیا جس كا فیض سداقائم اوراجر وثواب ان شاءاللہ دائم رہے گا۔
حضرت مولانا نے ایك مرتبہ غالبًا میرے استفسار پر یا ازخود فرمایا: كہ دارالعلوم دیوبند میں منتہی درجات كی تعلیم توہمیشہ اچھی رہی،مگر ابتدائی درجات كی تعلیم دارالعلوم دیوبند كے لحاظ سےكمزوراورغیر معیاری تھی،حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحبؒ (سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند )ابتدائی درجات كی تعلیم كے سلسلے میں فكرمندتھے،میں جب دارالعلوم میں پہنچا توحضرت مولانا نے مجھے مدرسہ ثانویہ كی ذمہ داری قبول كرنے كو كہا،دارالعلوم جیسے ادارےمیں جہاں بڑے لوگ موجود تھے میرے لیے یہ بڑی آزمائش تھی،بہر حال حضرت مہتمم صاحب كا جب اصرار ہوا تومیں نے اللہ كے بھروسہ پر اس ذمہ داری كو قبول كرلیا، اورثانویہ كی تعلیم كو بہتر بنانے كے سلسلے میں بڑے اساتذہ سے مشورے كیے،مگر كام كی كوئی بہتر صورت سامنے نہیں آئی، بلكہ بعض لوگوں كی تبصرے میرے لیے مایوس كن بھی رہے،ایك صاحب نے فرمایا كہ مدرسہ ثانویہ كو مولانا وحیدالزماں صاحب جیسا دبنگ آدمی نہ قابوكرسكا توآپ كیا كرسكیں گے،ایك صاحب نےكہاكہ دارالعلوم میزان منشعب پڑھانے كے لیے قائم كیا گیاہے؟
بہر حال میں نے كام شروع كردیا،میں نے ترتیب یہ بنائی كہ صبح وشام پہلا گھنٹہ لگنے سے پہلے میں اپنے دفتر پہنچ جاتا،اورجوطلبہ لیٹ آتے ان كی تادیب كرتا،تھوڑے دنوں میں ہی تقریبا سبھی طلبہ وقت پر مدرسہ پہنچنے لگے، اسباق كی حاضری كا نظام بہتر ہوگیا ، ادھر میرے وقت پر پہنچنے كی وجہ سے اساتذہ میں بھی وقت پر حاضری كا اہتمام پیدا ہوا،مدرسہ ثانویہ كےتعلیمی نظام كی سب سے بڑی كمزوری یہی تھی كہ وہاں اسباق كی حاضری كا نظام بہت ہی ڈھیلا تھا،الحمد اللہ بغیركسی بڑی كاروائی اورمشقت كے اس پر قابو كرلیا گیا۔
پھر اس كے بعد طلبہ كےماہانہ جائزے كاسلسلہ شروع كیا،جس كے نتائج طلبہ كے سامنےآتے ،اس سے طلبہ میں محنتولگن اورایك دوسرے سے آگے بڑھنے كی فكر پیداہوئی،تدریس اور نتائج كی بہتری كے حوالے سے اساتذہ كی فكرمندی میں بھی اضافہ ہوا،اسی طرح مغرب بعد طلبہ كواساتذہ كی نگرانی میں تكرار ومذاكرےكا پابند بنایا گیا،اس ترتیب سے رفتہ رفتہ مدرسہ ثانویہ كا نظام اوراس كا تعلیمی معیاراتنا بہتر ہوگیا،كہ وہ دوسرے مدرسوں كے لیے ایك قابل تقلیدنمونہ بن گیا۔
حضرت مولانا نے فرمایا كہ میں نے غور كیا كہ مولانا وحیدالزماں صاحب كو مدرسہ ثانویہ كے نظام كوسدھارنے میں كامیابی كیوں نہیں ملی، تواس كی وجہ مجھے یہ سمجھ میں آئی كہ مولانا بلاشبہ ایك بہترین منتظم اورمدبر تھے،مگر ان كی ذمہ داریاں اورمصروفیات چوں كہ بہت زیادہ تھیں اس لیے وہ مدرسہ ثانویہ كو وہ وقت نہیں دے سكتے تھے جواس كی نگرانی كےلیے ضروری تھا؛ اس لیے وہ كامیاب نہ ہوسكے۔
مولانانے فرمایا كہ ثانویہ كے تعلیمی معیار كو بہتر بنانے كے سلسلے جومیں نے كام كئے حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب مہتمم دارالعلوم اس كی وجہ سے میری بڑی قدر كرتےتھے،اوربڑی محبت كا معاملہ فرماتے تھے۔
بہرحال مدرسہ ثانویہ كا استحكام اوراس كا بہترین نظام مولاناكا ایك بےمثال كارنامہ اوران كےحسن انتظام كابہترین نمونہ ہے،جس سے آج بڑی تعداد میں بہترین اورجیدالاستعدادطلبہ نكل رہے ہیں،اور دوروقریب مدارس میں جابجا اس كی تقلید جاری ہے،مولانا نے مدرسہ ثانویہ كو ایك ایسی مستحكم اورمنظم حالت میں چھوڑا ہے كہ افراد اورمنتظمین كے بدلنےسے ان شاءاللہ العزیز اس كے ضیاع كا خطرہ پیدا نہیں ہوگا۔
مدرسہ ثانویہ میں حضرت مولانا نے جویہ كارہائے نمایاں انجام دئے،ان میں حضرت مولاناارشد مدنی صاحب دامت بركاتہم كی سرپرستی كا بھی اہم كردار ہے،مولانا مدنی ناظم تعلیمات تھے،اورمولانا محمداحمد صاحب ان كےنائب ومعاون ،ظاہر یہ ہے كہ مولانا نے جوكچھ بھی كیا وہ مولانامدنی كی سرپرستی اوربھرپور تعاون كے بغیر ان كے لیے ممكن نہ تھا۔
شعبہ تعلیمات كا انتظام وانصرام
ثانویہ كے علاوہ تعلیمات كے ماتحت انجام پانے والے دیگر كاموں میں بھی مولانا محمد احمد صاحب مولانا مدنی دامت بركاتہم كے بہترین معاون اورمخلص شریك كار رہے۔ واقعہ یہ ہے كہ شعبہ تعلیمات میں ان دونوں بزرگوں كی جوڑی بہترین جوڑی رہی،اوران دونوں حضرات كی وجہ سے اس شعبہ كا وقار واعتبار نہایت بلند ہوا۔
حضرت مولانا ارشد مدنی دامت بركاتہم كے نظامت تعلیمات سے مستعفی ہونے كے كچھ سال بعد حضرت مولانا رحمہ اللہ ناظم تعلیمات بھی بنائے گئے، لیكن آپ كی نظامت كا زمانہ مختصر ہی رہا،شعبہ تعلیمات جیسے اہم ادارےكوچلانے كے لیے بڑی توانانی،حاضر دماغی اوركشادہ ذہنی دركارتھی،مولاناكے قوی اب مضمحل ہوچكے تھے،یادداشت بكثرت ذہول كا شكار ہونے لگی تھی، پھر مولانا عہدكہن كی پیدا وار اورہر چيز كوروایتی اندازمیں چلانے كے عادی تھےحالاں كہ زمانے كے تقاضے بدل چكے تھے،ان وجوہات كےسبب مولانا جلد ہی گراں بار ہوكر نظامت سے مستعفی ہوگئے، بہرحال نائب ناظم تعلیمات رہ كر انہوں نے جوبہترین كاركردی پیش كی وہ ان كی زندگی كا ایك روشن باب ہے۔
حضرت مولانا كا انداز تدریس
مولانا ایك بہترین اوركامیاب مدرس تھے، ان كےعہدشباب كے شاگردوں میں ان كےلیے جوگرویدگی اوروالہانہ لگاؤ دیكھا وہ شاگردوں میں استاتذہ كے حوالے سےخال خال ہی دیكھنے كوملتاہے،ان كے قدیم شاگردوں میں كئی بعض ایسے ملے جوتنقید كے نشتر چلانے میں بڑے بے رحم واقع ہوئے تھے، مگر مولانا كانام آیا تو ان كااندازسراپا ادب وتعظیم ہوگیا، اور وہ مولانا كی تدریس كے بڑے مداح نظر آئے،ہمیں مولاناسے ابتدائی كتابیں پڑھنے كا موقع نہیں ملا؛مگر جن كوملا ان كےبیان سے اندازہ ہوتاہے كہ فنون (نحو وصرف ومنطق ،بلاغت) كی ابتدائی كتابوں میں مولانا كاانداز یہ تھا كہ وہ تعریفات وقواعد طلبہ كو ازبر كراتےتھے ،اورپھر مثالوں میں قواعد كے اجرا پرزور دیتے تھے،وہ طلبہ كے سامنے مثالوں كا اجراء كركے ان كویاد كرنے كا پابند بنانے كے بجائے طلبہ كومكلف كرتے كہ محنت كركےازخوداجراكریں،اس میں ابتداء میں طلبہ پرزورزیادہ پڑتاہے،مگر تھوڑےہی دنوں میں اجراء طلبہ كے لیے كھیل اورتفریح ہوجاتاہے،حضرت مولانانے یہ طریقہ اپنے استاذ حضرت مولانا ضیاء الحق صاحب برہی عادل پور فیض آباد سے اخذ كیا تھا،حضرت مولاناكے بقول مولانا ضیاء الحق فیض آبادیؒ ابتدائی كتابوں كی تدریس كے مجتہد تھے، كافیہ جیسی مشكل سمجھی جانے والی بعض كتابوں میں مولاناطلبہ كوكاپی بھی لكھایا كرتے تھے تاكہ طلبہ كواستاذ كی منشا كے مطابق استاذ ہی كےالفاظ وانداز میں سبق یاد كرنے میں سہولت ہو۔
عام كتابوں كی تدریس میں مولانا كا نہج یہ تھا كہ عبارت پڑھواتے،طالب علم كوئی غلطی كرتا تواس كی اصلاح كرتے،عبارت میں كوئی قابل وضاحت چیز ہوتی تواس كی وضاحت كرتے،مشكاةشریف كےاسباق میں الفاظ حدیث كی تشریح كرتے،پھر مختصرا انداز میں عبارت كامطلب بیان كرتے ، اورمتعلقہ ضروری تشریح كرنے بعد عبارت پر اسے منطبق كرتے،ان كاكوئی سبق نہ توسرسری ہوتا اورنہ ہی اس میں بہت زیادہ تحقیق وتدقیق ،اورطول طویل بحثیں،وہ ہرہرمسئلے اورہرہرحدیث پر ركتے اورضروری توضیح وتشریح كے بعدآگے بڑھتے،ان كے یہاں روزآنہ كےسبق كی مقدار متعین تھی، وہ نصاب كوتعلیم كےدنوں پرتقسیم كرلیتے،اوراسی كے مطابق پورے سال پڑھاتے، سال كے پہلے سبق میں جو انداز ،رفتار اوركیفیت ہوتی آخری سبق تك وہی باقی رہتی ،اس میں ذرا بھی فرق نہ آتاتھا۔
ہم نے مولانا سے مشكاة المصابیح كا تیسرا حصہ پڑھا،مولاناكے اسباق بڑے دلچسپ رہے،سبق میں وہ موقع محل كےاعتبار سے اشعار وواقعات بھی سناتے تھے،كتاب الرقاق پڑھاتے ہوئے وہ بكثرت آبدیدہ ہوجاتے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی وفات سے متعلق احادیث پڑھاتے ہوئے مولانا پر اس قدررقت طاری ہوئی كہ سلسلہ كلام جاری ركھنا مشكل ہوجاتا، گویا یہ اسباق انہوں نے روایتی انداز كے ساتھ ان كیفیات كے ساتھ بھی پڑھا ئے جوان ابواب كے پڑھنے سے مقصود ہیں،وہ ایك طبیب حاذق بھی تھے،اس لیےمشكاة میں ان كی كتاب الطب كے دروس بہت پسندكئے جاتے تھے‘‘الحبة السوداء’’(كلونجی دانہ) كی افادیت پر احادیث آئیں توحضرت مولانا اپنے ساتھ كلونجی كے دانے لے كر آئے اورطلبہ كوبتایا كہ یہ‘‘ الحبة السوداء’’ ہے۔بہر حال مشكاة میں مولانا كےاسباق دلچسپ ہونے كے ساتھ پراثر بھی ہوتے تھے، البتہ ہدایہ ثالث میں بوڑھاپے كی وجہ ذہول كااثر كچھ كچھ ظاہر ہونے لگا تھا،بیان مسئلہ یا بیان مذاہب میں كبھی كبھی چوك ہوجایا كرتی ،متنبہ ہونے پر جس كا وہ استدراك كرتے۔
مولانا اسباق اورعام حالات میں ٹھہر كر بولنے كے عادی تھے، آواز پست تھی،وہ نہ خطیب تھے نہ خطیبوں كی طرح لسّان، اسباق ہمیشہ تیاری اورمطالعہ سے پڑھاتے تھے،دوران مطالعہ ضروری باتوں كوقلمبند كرنے كا بھی مزاج تھا۔
مولانا كا نظم وانتظام
مولاناجہاں بھی رہےنظم وانتظام كی ذمہ داریاں ان كے ساتھ لگی رہیں،اورانہوں نےان ذمہ داریوں كوبڑی محنت وجانفشانی اوراخلاص و بے لوثی سےانجام دیا،مولانا كوئی سماجی اوررابطہ عامہ كے مد كے آدمی نہ تھے،اس لیے مدارس كے خارجی امور سےمولانا كو نہ كوئی مناسبت تھی،اورنہ ہی اس طرح ذمہ داریاں مولانا سے كبھی وابستہ ہوئیں،البتہ وہ داخلی نظم وانتظام سنبھالنے اور تعلیم وتربیت كو مستحكم بنانے كی بہترین صلاحیت كے مالك تھے، اللہ تعالی نے ان كو زبردست قوت ارادی ،اعلی درجہ كا عزم وحوصلہ اورغیر معمولی قوت تنفید سے نوازا تھا، چنانچہ جب وہ كسی چیز كوٹھان لیتے تھے تواسے كر گذرتے تھے،ایك دفعہ ذكر كیا كہ مدرسہ شاہی میں امتحانات میں دورہ حدیث كے طلبہ بڑی بے اصولیاں كیا كرتے تھے،بہت سےطلبہ امتحانات میں دھڑلے سے نقل كرتے ،بعض طلبہ امتحان میں شریك ہی نہ ہوتے تھے كہ ضمنی امتحان میں آسانی سےپاس ہوجائیں،متنبہ كرنے پر نہ سنتےتھے اورنہ مانتے تھے،اورذمہ داران مدرسہ اس لحاظ میں ان پرسختی اوركاروائی كرنے سے كتراتے تھے كہ كہیں وہ مدرسہ چھوڑ كر چلے نہ جائیں گے،مولانا نے فرمایا: اس صورت حال سے میں فكرمند تھا اورمیں نے امتحان كے نظام كودرست كرنے كاارادہ كیا ،بعض ذمہ داروں كو تشویش ہوئی كہ طلبہ شورش برپا كریں گے،مگرمیں نے اطمینان دلایا كہ سب قابومیں آجائےگا ،فرمایا : طلبہ نے جیسا كہ توقع تھی امتحان سے پہلے ہنگامہ شروع كیاكہ ہم امتحان میں شریك نہیں ہوں گے،مگر میں ڈٹا رہا كہ امتحان توشفافیت كے ساتھ ہی ہوگا جسے شریك ہونا ہے شریك ہونہیں شریك ہونا ہے توچلاجائے،امتحانات شروع ہوگئے اورطلبہ نے شركت بھی كی؛ مگر باربار تنبیہ كے باوجود حسب سابق كچھ طلبہ نقل كرنے سے باز نہ آئے، میں نے ایسے طلبہ كے پرچے سوخت كردئے،ادھر ضمنی امتحانات میں بھی میں نے سختی كی، نتیجہ یہ ہوا ایك ہی دوامتحان كے بعد نظا م درست ہوگیا، اورامتحانات میں شفافیت پیداہوگئی۔
مولانا كا خیال تھا اوربجا تھا كہ معیاری اورصاف ستھرے امتحانات كے بغیر معیار تعلیم كبھی بھی بہتر نہیں ہوسكتا،اوروہ ہمیشہ اسی سوچ كے تحت كام كرنے كے عادی رہے۔
مولانا كی ذاتی زندگی مرتب تھی،ان كی طبیعت كاخمیرنظم وضبط كی پابندی اوراصول پسندی سے اٹھا تھا،جس ضابطے یا اصول كووہ نافذ كرنا چاہتے خود سوفیصداس پر پورے اترتے تھے،اس لیے لوگوں كو ان پر انگشت نمائی كا زیادہ موقع نہیں ملتا تھا، مولانا اصول كے نافذ كرنے میں بےلچك تھے،حالاں كہ بعض خاص صورتوں میں استثنائی معاملات ناگزیر ہوجاتے ہیں،مولانا كی یہ سخت گیری بعض دفعہ لوگوں كے لیے شكایت اوربددلی كا سبب بنتی تھی،لیكن مولانا كو كسی سے ستائش كی توقع ہوتی نہ خفگی كی پرواہ۔
تعلیم كےساتھ تربیت
مولانا تعلیم كے ساتھ تربیت پر بھی توجہ دیتےتھے،اورجہاں بھی طالب علم سے كوئی غلطی ہوتی فوراً تنبیہ كرتے،اوراس تنبیہ میں زبان،ہاتھ اورقلم كا استعمال كرنے میں قطعا گریز نہ كرتے، درس گاہ ،گذرگاہ ، مدرسہ ،مسجد ،دسترخوان، سفر وحضر ہرجگہ حضرت مولانا كو دیكھنے كا موقع ملا، ہرجگہ انہیں روك ٹوك اورغلطیوں پر تنبیہ كرتے ہوئے پایا،ان كی طبیعت میں جلالی رنگ غالب تھا، لہذاان كی تنبیہ اكثر غصےكے اندازمیں ہی ظاہر ہوتی تھی۔مولاناكہا كرتے تھے كہ اساتذہ پہلے طلبہ كےساتھ دارالاقامہ میں ہی رہا كرتےتھے،جس كی وجہ سے وہ ہمہ وقت اساتذہ سے مربوط رہتے تھے، ان كی خدمت كیاكرتے تھے جس سےانہیں زندگی كے بہت سےآداب اورقرینے اساتذہ سے سیكھنے كو ملتے تھے اورتعلیم كے ساتھ تربیت بھی ہوتی رہتی تھی،پھراساتذہ كی ضرورتوں كا خیال كرتےہوئے فیملی كواٹرس بنائے گئے ،اس سے اساتذہ كوتویقینا بڑی راحت ملی ،مگر طلبہ اپنے اساتذہ كی صحبت سے محروم ہوگئے، اوران كی تربیت كا بڑا نقصان ہوا۔
اخلاق وعادات
حضرت مولانا جس خاندان كے وارث وامین تھے وہ علاقے میں اپنی دینی عزیمت و صلابت، اسلامی غیرت وحمیت، منكر پر برملا نكیر كرنے كی رندانہ جراءت،ذوق عبادت وتلاوت، امانت ودیانت، معمولات كی پختگی،اورمحنت وجفاكشیوسخت كوشی میں ممتاز معروف؛ بلكہ ان خوبیوں كی وجہ سے دل پسند اورمحبوب بھی رہاہے،مردوں كے ساتھ گھر كی عورتوں میں بھی یہ اوصاف بہت نمایاں تھے، زمانے كی نیرنگیوں نے نئی نسل كو اپنی خاندانی روایات كے بارےمیں سست اورغافل ضروركردیاہے، مگر اس نسل میں بھی متعدد افراد ہیں جو اپنی خاندانی امتیازات كوباقی ركھے ہوئے ہیں، ہمارےگھرانےكی مولانا كے گھرانے سے رشتہ داریوں كاسلسلہ پرانا اور نزدیكی رہاہے ،گاؤں بھی بالكل قریب قریب ہیں،اس لیے آمدورفت بھی خوب ہے، بریں بنا راقم الحروف اس خاندان كے احوال سے گھر ہی كے كسی فرد كی طرح واقف ہے۔
حضرت مولاناكو ان تمام خاندانی خصوصیات وامتیازات سے وافرحصہ ملا تھا ، امانت ودیانت كا عنصر بہت نمایاں تھا،ان كےكاموں میں احتساب كی روح پائی جاتی تھی ،ان كے اندرورع وتقوی اورفكر آخرت تھی ،وہ نظام الاوقات كے حددرجہ پابند اور اصول پسندی میں فرد تھے،درس وتدریس ہو، انتظام وانصرام ہو، كھان پان ہو ، یا زندگی كی دیگر مصروفیات ومعمولات ان كی پوری زندگی نظم وضبط كے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی،وہ فطری طورپر ان باتوں كے خوگر تھے، اور اپنی زندگی كے تمام مراحل میں اس حوالے سے وہ جانے پہچانے گئے،مولانا میں فطرتا سخت گیری اورغصے كا عنصر غالب تھا، اس لیے ہركس ناكس كے لیے مولانا كو نبھانا آسان نہ تھا،بہت سے طلبہ مولانا كی سختی كی تاب نہ لاكر تعلیم سے دوربھی ہوگئے،اور جنہوں نے برداشت كرلیا وہ عموما سنور گئے اوركسی لائق ہوگئے،البتہ وقت ،حالات اورعمر كے گذرنے كے ساتھ ان كے مزاج میں خاصی تبدیلی پیدا ہوگئی تھی، ان كے دوستوں ، بےتكلف ملنے جلنے والوں اورنیازمندوں كی فہرست بہت طویل نہ تھی؛لیكن جوبھی دوست یانیازمند تھے وہ بہت پكے ،حددرجہ مخلص اوربے لوث محبت كرنےوالےتھے،اورحضرت مولانا بھی ان كے لیے ریشم كی طرح نرم اورحددرجہ مہربان تھے،ہمارے ایك خاندانی چچامولانایسین صاحب تھے جودارالعلوم دیوبند میں حضرت مولانا قمرالدین گورگھ پوری دامت بركاتہم كے ہم درس تھے،حضرت مولانا سے ان كابڑا یارانہ تھا،مولانا كے بعض عزیزوں نے بتایا كہ مولانایسین صاحب ملاقات كے لیے اگر مولانا محمداحمد صاحب كے گھر جاتے تو مولانا ان كوچھوڑنے ان كے گھر تك جاتے،اورجب مولانا ان سے ملاقات كرنے ان كے گھر آتے تووہ مولانا كوچھوڑنے ان كے گھر تك جاتے ،حالاں كہ دونوں گاؤں كا فاصلہ تقریبا تین كلومیڑہے،ہم نے بھی اس مشایعت كا ایك منظر دیكھاہے،جو مولانا كے مزاج ومذاق كودیكھتےہوئے ہم جیسوں كے لیے باعث حیرت تھا۔
مولانا رشتوں كوجوڑنےوالے، تعلقات كو نبھانے والے،مہمان نوازاورمہمانوں كی آمدسے خوش ہونے والے تھے،راقم الحروف نے بارہا ان باتوں كا مشاہدہ كیاہے۔
شب وروز
مولاناكاایك نظام الاوقات تھا جس پر وہ سختی سے عامل تھے،موسم یامصروفیات كی كمی بیشی سےاس پركوئی فرق نہ پڑتاتھا، وہ طلوع فجر سےایك گھنٹہ پہلے لازما اٹھ جاتے،تہجد اداكرتے اوردرسی كتب كے مطالعہ میں لگ جاتے،فجركا سلام پھیرتےہی عموما وہ دارالاقامہ كے اپنے حلقہ كاجائزہ لیتے،نماز میں كاہلی برتنے والوں كو تنبیہ كرتے،بازنہ آتا تواس كی سیٹ كاٹ دیتے تھے،اس كے بعدگھر آكر قرآن پاك كی تلاوت كرتے،كچھ وقت بچتا تومطالعہ كرتے،كبھی كوئی مریض آجاتا تواس كودیكھتے،اورپھر ناشتہ اورمدرسہ كی تیاری میں لگ جاتے۔
وقت سے پہلے مدرسہ پہنچ جاتے،دوپہر كوكھانے كے بعد لازما تھوڑی دیر قیلولہ كرتے،ظہر بعد مدرسہ آتے،عصر بعد مریضوں كےعلاج میں مشغول رہتے،یہی لوگوں سےملاقات كا بھی وقت تھا،مریضوں كودیكھتے اوردوائیں تجویزكرتے،اورمہمانوں كی چائے سےضیافت كرتے،وہ ایك سند یافتہ طبیب حاذق تھے،جہاں بھی رہے درس وتدریس كے ساز علاج ومعالجے اوردواسازی كا سلسلہ بھی قائم ركھا،مریض اگر باقی رہتےتومغرب بعد بھی دیكھتے ورنہ مغرب بعدكاوقت مطالعہ كتب میں استعمال ہوتا،كھانا اورنماز عشاء سےفارغ ہوكر دس بجے تك اسباق كی تیاری اورمطالعے میں مشغول رہتے،اوردس بجے لازما بستر پر چلے جاتے،تمام نمازیں مسجد میں باجماعت ادا كرنے كے عادی تھے۔
فجر بعدكی نیند ان كے نزدیك قابل نفرت عادت اورناقابل معافی جرم تھا نہ كبھی خود سوتے،نہ گھروالوں كوسونےدیتے،اہل تعلق میں كسی كےبارےمیں معلوم ہوجائےكہ وہ فجر بعد سوتا ہے،تواس پر سخت ناراضگی اورتعجب كا اظہاركرتے،بد قسمتی سے فجر كے بعد تھوڑی سی نیند بادہ صبوحی كی لت كی طرح میرے ساتھ بھی لگی ہوئی،اس كےبغیر اسباق بیداری اوربےدارمغزی كے ساتھ پڑھنا پڑھا مشكل ہوتا ہے،میں اپنی اس لت كی وجہ سےہمیشہ مولانا كے عتاب سےخائف رہا۔
گھریلو حالات،اورطالب علمی
حضرت مولانا كے بیان كے مطابق ان كے والدحاجی عبدالرحمن خان صاحب چھوٹےسے ایك زمین دار ، اورصوم وصلاة كے پابند تھے،مگر جہالت اورناواقفیت كی وجہ سے تعزیہ داری ،محرم اورڈھول تاشہ كی رسمیں گھرمیں انجام پاتی تھیں،پھر شیخ الاسلام حضرت مدنی سے تعلق ہوا تودینداری كی طرف مائل ہوئے،اوراپنے بچوں كودینی تعلیم دینے كاارادہ كیا،مولانا كل پانچ بھائی تھے،جن میں تین الحمدللہ عالم باعمل اوردارالعلوم دیوبندسےفارغ التحصیل تھے، بڑے بھائی مولانا جمال الدین صاحب حضرت مدنی كےشاگرد تھے،مولانا نے فرمایا كہ بڑے بھائی جب پڑھ كرآئے،توانہوں نے گھر خاندان میں جوغلط رسمیں رائج تھیں ان پر تنبیہ شروع كی،اوروالد صاحب بےچوں وچرا ان كی باتوں پر عمل كرتے گئے،جن رسموں میں وہ جی جان سے شریك رہا كرتےتھے ان سےیكسرعلاحدگی اختیار كرلیؑ۔ حاجی عبد الرحمن صاحب وضع داری،مہمان نوازی اورغریب پروری میں مشہور تھے،ان كی دینداری اورخلوص ہی كافیض ہے كہ آج ان كے پوتوں اورنواسوں میں اكثریت حافظ اورخاصی تعداد علماء كی ہے، جن میں كئی ایك دینی خدمات میں بھی مشغول ہیں۔
آپ موضع پریتم پور ضلع فيض آباد (موجوده امبیڈ کر نگر ) میں پیدا ہوئے ، تاریخ پیدائش یكم رمضان المبارك بروزجمعہ ہے،اورسن پیدائش غالبا1354 ہے،انگریزی اعتبارسے تاریخ پیدائش 10 نومبر 1937ءلكھی گئی ہے،آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے بڑے بھائی مولانا جمال الدین صاحب سےحاصل كی،حفظ قرآن حضرت مولانا قاری عبدالوہاب ؒبانی مدرسہ فرقانیہ گونڈہ كے پاس شروع كیا، پھرقاری خان زمان صاحب ؒ استاذ فرقانیہ گونڈہ كے پاس مكمل كیا، اورسترہ سال كی مدت میں حافظ قرآن ہوگئے، مولانا اپنے گاؤں كے پہلے حافظ تھے ،اس لیے پور ے علاقے میں وہ پریتم پور والے ‘‘حافظ جی’’ كےنام سےجانے جاتے رہے،بہت بعد میں لوگوں نے ان كے نام كے ساتھ مولانا كا سابقہ اوراستاذ دارالعلوم كا لاحقہ لگانا شروع كیا۔
فارسی اورعربی كی ابتدائی تعلیم آپ نے مدرسہ ضیاء العلوم مانی كلاں ضلع جونپور میں پائی ،یہاں آپ كے استاذ مولاناعبدالرحیم فیض آبادی،اورمولانا ضیاء الحق فیض آبادی تھے،یہ دونوں بزرگ راقم الحروف كے گاؤں برہی عادل پوركے رہنے والے تھے، اول الذكر فارسی اورثانی الذكر ابتدائی عربی درجات كی تدریس كے حوالے بہت مشہور تھے،حضرت مولانا آخر الذكر كے بہت ہی مداح تھے،اورانہیں ابتدائی عربی كتب كی تدریس كا مجتہد كہتے تھے،اس كےبعد آپ نے مدرسہ فرقانیہ گونڈا داخلہ لیا،آپ كافیہ میں داخلہ چاہتے تھے ،لیكن آپ كے خصوصی استاذ مولانا افضال الحق جوہر قاسمی اعظمی نے امتحان لینے كے بعد مولانا كی خواہش كےعلی الرغم شرح جامی پڑھانا شروع كردی،اس طرح آپ كاایك سال بچ گیا، مولانا جوہرقاسمی سے آپ كو بہت لگاؤ تھا،اورمولانا جوہر قاسمی بھی آپ كو بہت عزیز ركھتے تھے ، شوال1374 ھ میں دارالعلوم دیوبند میں داخلے كے لیے شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی كی معیت میں دیوبند تشریف لے گئے،ٹانڈہ سےلے كر دیوبند تك حضرت كا ساتھ رہا، پھر حضرت ہی سے بیعت وارادت كا تعلق بھی قائم ہوگیا،اورقیام دارالعلوم كے زمانہ میں حضرت كی عنایات حاصل رہیں، البتہ حضرت كے وصال ہوجانے كی وجہ سے صحیح بخاری آپ نے حضرت مولانا سید فخرالدین صاحب شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند سے پڑھیں،اورحضرت كی توجہات وعنایات آپ كوحاصل رہیں،مولانامدنی رحمہ اللہ كے وصال كے بعد آپ نے حضرت مولانا اسعد مدنی رحمہ اللہ بیعت وارادت كا تعلق قائم كیا۔
دورۂ حديث شريف ميں جن اساتذه سے آپ نے حديث كا درس ليا اس كى تفصيل اس طرح ہے، صحیح بخارى حضرت مولانا فخر الدين احمد مراد آبادى، صحیح مسلم و جامع ترمذی حضرت علامہ محمد ابراہیم بلياوى، سنن ابو داودحضرت مولانا سيد فخر الحسن، سنن نسائی حضرت مولانا بشير احمد صاحب بلند شہرى ، سنن ابن ماجہ اور موطأ امام مالك حكیم الاسلام حضرت قارى محمد طيب صاحب قاسمى،طحاوى شريف حضرت مولانا ظہور احمد ديوبندى، شمائل ترمذى حضرت مولانا سيد حسن ديوبندى،موطأ امام محمدحضرت مولانا محمد جليل صاحب كيرانوى اور حضرت مولانا سيد حسن صاحب ديوبندى سے مشتركہ طور پر پڑھىں۔
فراغت كےبعد دارالعلو م میں دوسال مزیدعلوم وفنون كی تكمیل كی، علم ہیئت آپ نے امام فن مولانا بشیر احمد صاحب سے پڑھی، تین سال جامعہ طبیہ دیوبند میں طب كی تعلیم حاصل كی،طب كی كتابیں حكیم محفوظ علی خان اورحكیم محمدعمرصاحب سے پڑھیں،طبیہ كی تعلیم كے دوران شیخ القراء قاری حفظ الرحمن صاحب سے حفص سےلے كر سبعہ كی تك قراءات پڑھیں اورفن تجویدحاصل كیا،اس طرح مادرعلمی میں آپ نے كل 9 سال گذارے۔
آپ كے رفقائے درس ميں حضرت مولانا رياست على بجنورى، مولانا رشيد الدين حميدى، مولانا محمد مسلم صاحب اعظمى (والد ماجد مفتى محمد راشد صاحب اعظمى)، مولانا جميل احمد اعظمى مدنى (والد ماجد مولانا عارف جميل صاحب مباركپورى) اور مولانا شبیہ احمد فیض آبادی شیخ الحدیث جامع مسجد امروہہ وغيره شامل ہيں۔
حضرت مولانا سے راقم الحروف كا تعلق
جیسا كہ عرض كیاگیا كہ ہمارےگھرانے سےحضرت مولانا كی متعدد قریبی رشتے داریاں تھیں،ہمارے گھرانے بلكہ گاؤں میں وہ حافظ ماموں كےنام سے یاد كئے جاتے تھے،ذكر ان كا بارہا سنا تھا؛لیكن جیسا كہ یاد پڑتاہے كہ دیدار پہلی بار دارالعلوم دیوبند میں اس وقت ہوا،جب ہم 2000ء میں داخلہ كے لیے دارالعلوم پہنچے،قدكافی پستہ،بدن ہلكا پھلكا،چہرہ پرجلال وخوبصورت، داڑھی لمبی،گھنیاورگھنگھریالی،دوپلی ٹوپی ،سادہ اورصاف ستھری وضع،آواز دھیمی،چال ڈھال میں چاق چوبند اورمستعد،اپنا تعارف كرایا،توخیرخیریت دریافت فرمائی،اورداخلہ امتحان كے مناسب كچھ ہدایات دیں،اللہ كے فضل سے سال ہفتم داخلہ ہوگیا،ملاقات ہوئی،توبہت خوشی كااظہارفرمایا،ہفتم ثالثہ میں نام آیا،توحضرت سے وہاں مشكاة كا آخری حصہ پڑھنے كی سعادت ملی،اورگاہے گاہے حضرت كےیہاں آنا جانا بھی رہا، امتحانات میں نمبرات اچھے آتے رہے،اورتكمیل ادب وافتاء میں داخلہ ملتا گیا،جس كی وجہ سےحضرت مولانا بڑی شفقت اورمحبت كامعاملہ فرمانے لگے،ان كارعب انس میں تبدیل ہوتاگیا،بڑی تكلفی سے باتیں كرتے،بالكل گھل مل جاتے،اورپرانے واقعات،كھیت ،كھلیان ،باغ اورگاؤں گھرقصے بڑی دلچسپی سے سناتے،كوئی مشورہ لیاجائے توبڑے اہتما م سے بات سنتے اورمشورہ دیتے۔
جب میں تكمیلات میں پہنچا توحضرت نے كئی بار مجھ سے فرمایا كہ تم دارالعلوم معین مدرس كے لیے درخواست ضروردینا،اس سےتجربہ بھی ہوگا اور تمہاری صلاحیت بھی اساتذہ كے سامنے آئیں گی توكام كرنے كے بہترین مواقع بھی پیدا ہوں گے؛ مگر طبیعت اس طرف مائل نہ ہوسكی، مولانا یہ بھی فرماتے تھے كہ جوپڑھنا ہے پڑھو؛ مگر جب تعلیم ختم كرنے كاارادہ ہو توآگے كے لیے مشورہ ضرور كرنا،چناں چہ حسب حكم جب تعلیمی سفر ختم كرنے كاارادہ كیا توحضرت كے پاس مشورہ كے لیے حاضر ہوا،دوایك جگہوں سےاشارے ملے تھے، حضرت سےاس كا ذكر كیا،مگر حضرت كی رائے ہوئی كہ مدرسہ شاہی چلے جاؤ،یہ نام میرے لیے اپنی حیثیت سے بہت بڑا معلوم ہوا؛ مگر حضرت نے اطمینان دلایا،شاہی كے بعض ذمہ داروں سے بات بھی كی ،اورایك زوردار سفارشی تحریر بھی مدرسہ شاہی كے حضرت مہتمم صاحب كے نام لكھی،جومیری تمام تر نااہلی كے باوجود میرے لیے ایك وقیع سند كا درجہ ركھتی ہے،مولانا نے لكھا:
باسمہ تعالی
محترم جناب مہتمم صاحب مدرسہ شاہی مرادآباد زیدمجدكم
السلام علیكم ورحمتہ اللہ وبركاتہ
محترم مجھے یاد نہیں ہے كہ میں نے كبھی كسی كی سفارش بلامكمل جانكاری اوراعتمادكلی كے كی ہو،مولوی اجمل سلمہ میرے شاگر د ہونے كے علاوہ دارالعلوم دیوبند آنے كے بعد سے مجھ سے بہت قریب رہے،اورضروری مواقع پر مشورہ لیتے رہے،میں اعتماد كرتاہوں كہ موصوف مدرسہ شاہی كے لیے ہر اعتبار سے مفیدسے مفید تر ثابت ہوں گے۔
محمد احمد غفرلہ
16،10،30ھ
بہرحال حضرت مولانا كی یہ تحریر، اوراسی كے ہمراہ استاذی حضرت مولانا نورعالم صاحب استاذ ادب دارالعلوم دیوبند كی ایك وقیع سفارشی تحریر مدرسہ شاہی میں راقم الحروف كے تقرر كے لیے كافی سمجھی گئی ،اوران كے بعد كسی انٹرویووغیر ہ كی ضرورت محسوس نہیں كی گئی۔
كچھ نصیحتیں
میں مدرسہ شاہی كے لیے روانہ ہوا تومولانا نے چند نصیحتیں كیں(1) فرمایا: مولوی صاحب! آپ ہمیشہ ‘‘كار خود كن كاربے گانہ مكن’’ كے اصول پر عمل كیجئے، اپنی ذمہ داریوں اور امورمفوضہ كوپوری مستعدی اورامانت داری سے انجام دیجئے ،اوردوسرے معاملات میں بالكل دخل نہ دیجئے ،ان شاء اللہ عافیت سے رہیں گے۔(2) فرمایا: ہم نے سختی كے ذریعہ طلبہ پر قابوپایا ؛ لیكن اب سختی اورمارپیٹ كا زمانہ نہیں رہا،طلبہ پرترغیب وتشویق اوردلجوئی كے ذریعہ قابو كیجیےاورمارپیٹ كوسب سےآخری درجے پر ركھیے۔(3) ذمہ داروں سے تعلق اور رابطہ ركھیئے، مگرنہ اتنا قریب رہیے كہ لوگ آپ كو خاشامدی سمجھیں،اورنہ دوری اختیار كیجئے كہ ذمہ دار وں كسی غلط فہمی كا موقع ملے۔(4) طلبہ سے جسمانی خدمت لینے سے مكمل پرہیزكیجئے،كسی نوعمر طالب علم كوتنہا اپنے كمرے میں نہ آنے دیجئے،اگر ضرورت ہوتویاتوكمرے كے باہرجاكر اس سے بات كیجئے،یا اس كے ساتھ كچھ اورطلبہ بلالیجئے، تہمت اورفتنے كی جگہوں سےاحتیاط بہت ضروری ہے۔مولاناكی یہ باتیں میرے لیے بڑی چشم كشا اورمفید ثابت ہوئیں۔
ایك بار كہا كہ تم دیوبندنہیں آتے،میں نے عرض كیا حضرت مجھے سفر سے بڑی وحشت ہوتی ہے،بس مجبوری میں ہی سفركرتاہوں، مجھے دیوبند نہ آنے پرشرمندگی كااحساس ہے،فرمایا: میرےاستاذ مولاناضیاء الحق صاحب فرماتے تھے كہ مولوی صاحب مدرسی نام ہے پير كٹواكر بیٹھ جانے كا،كامیاب مدرس وہی ہے جوجم كربیٹھ جائے،اورناغہ نہ كرے،سفر نہ كرنا مدرس كے لیےاچھی بات ہے۔ ایك دفعہ میں اپنے بعض حالات كی وجہ سے كافی الجھن میں مبتلا تھا،ملاقات كے وقت استفسار پر اس كا اظہار كیا،فرمایا: الخیر فیما وقع،ان شاء جوہوااسی میں بہتری ہوگی ،پرانی بات بھول جائیے،اورجم كركام كیجئے،مولانا كی اس بات سے مجھے بہت تسلی ملی۔
وفات
اوپر گذر ا كہ مولانا نے كم وبیش دار العلوم میں28 سال خدمات انجام دیں،اخير ميں جب آپ كى صحت خراب رہنے لگى تو آپ صفر 1439ھ میں تدریسی خدمت سے ازخودمستعفى ہوگئے، حالاں كہ اساتذہ دارالعلوم میں سے آپ كے بعض بہی خواہ حضرات كا مشورہ تھا كہ آپ استعفی نہ دیں، جوہوسكے پڑھادیں ، باقی تكمیل كوئی كردے گا؛مگر حضرت مولانا كا كہنا تھا كہ جب میں كام نہیں كروں گا تو تنخواہ كس بات كی لوں گا، بلا شبہ یہ حضرت كے غایت درجہ تدین كی دلیل ہے، تدریس سے مستعفی ہونے كے بعدآپ دار الشفاء، دارالعلوم دیوبند میں یونانی معالج كے طور پر خدمات انجام دينےلگے،مگر جلد ہی خرابی صحت كی وجہ سے اس سے بھی مستعفی ہوگئےؑ۔
گذشتہ چند سالوں سے آپ بيمار چل رہے تھے، درميان ميں بہت زياده علالت كى خبريں آرہى تھيں اور افاقہ بھى ہوجاتا تھا مگر آپ كا وقت موعود آچكا تھا بالآخر 87/ سال كى عمر ميں(قمرى اعتبار سے 89/ سال) آپ نے داعئ اجل كو لبيک كہا اور جان جان آفريں كے سپرد كردى، 25/ فرورى 2024ء مطابق 14/شعبان المعظم 1445 ھ بروز اتوار صبح نو بجے دیوبند میں اپنے مكان آپ نے وفات پائی،اورتدفین قبرستان عابد ی میں مسجد عابدی كے سامنے قبرستان كی پوربی سمت میں ہوئی ، راقم الحروف كو بھی جنازہ اورتدفین میں شركت كی سعادت حاصل رہی ،الله تعالى آپ كى مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائےاور جنت الفردوس آپ كا مسكن بنائے آمین!
اولاد
مولانا كے تین بیٹے اوردوبیٹیاں حیات ہیں،بیٹے مولاناشفیع الرحمن ،حافظ مطیع الرحمن،مولاناحبیب الرحمن ہیں،سب خودكفیل اورصاحب اولاد ہیں،آخرالذكر نے مولانا كی صحت وبیماری كے زمانے میں جوبےلوث خدمت وہ بے مثال ، قابل رشك اورلائق تحسین ہے،اللہ تعالی دنیا وآخر میں اس كا اپنی شایان شان اجرعطا فرمائے آمین! ایك بیٹے جوسب سے بڑے اورلائق فائق تھے،وہ عین جوانی میں انتقال كرگئے،بڑی بیٹی بھی ابھی كچھ ماہ پہلے وفات پاگئیں ،اللہ ان مرحومین كی مغفرت فرمائے آمین!
حضرت مولانا محمد احمد صاحب فیض آبادی، سابق ناظم تعلیمات دارالعلوم ،دیوبند KB 560
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.