خواتین کی امامت
ولی اللہ مجید قاسمی، انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو ۔
عورت اپنی فطرت اور ساخت کے لحاظ سے پوشیدہ رکھنے کے لائق ہے اسی حقیقت کو نبی کریمﷺ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: المرأةُ عورةٌ، فإذا خرَجَتْ اسْتَشْرَفَها الشيطانُ۔ [1]
عورت چھپانے کے لائق ہے اور جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان تاک میں لگ جاتا ہے ۔(ترمذی وغیرہ)
نماز کی حالت میں اس کی نسوانی اعضاء مزید نمایاں ہوجاتے ہیں اس لئے اس کے لئے گھر کے تاریک گوشے میں نماز پڑھنے کو بہتر قرار دیا گیا ہے ۔[2]
اور چاروں امام تقریباً اس پر متفق ہیں کہ عورت سمٹ کر نماز پڑھے گی تاکہ اس کے قابل شہوت حصے نمایاں نہ ہوں۔
اور مردوں کی امامت سے منع کیا گیا ہے[3] بلکہ عورتوں کی امامت میں بھی کراہت ہے اور اگر وہ ایسا کرتی ہے تو امام کی جگہ کے بجائے اسے مقتدی عورتوں کے بیچ میں قیام کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ عورتوں کے سامنے بھی اس کے جنسی اعضا ظاہر نہ ہوں۔
مردوں کی امامت:
تمام فقہاء اس پر متفق ہیں کہ مردوں کی امامت کے لئے مرد ہونا شرط ہے لہذٰا کوئی عورت مردوں کا امام نہیں بن سکتی اور اس کی اقتداء میں کسی مرد کی نماز درست نہیں ہوگی۔[4]
دلائل یہ ہیں:
1- رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی صف مردوں سے پیچھے رکھی ہے اور اس کے باوجود فرمایا: خير صفوف النساء آخرها و شرها أولها.(صحيح مسلم:440)
2 – پیچھے رہنے کے باوجود مردوں سے قربت کی وجہ سے ان کی پہلی صف کو بدترین صف کہا گیا ہے تو اگر عورت کو مردوں کی امامت دے دی جائے تو اس کی شر انگیزی دو آتشہ ہوجائے گی ۔
3- بعض صحیح احادیث میں ہے کہ نمازی کے سامنے سے کسی عورت کے گزرنے سے اس کی نماز ختم ہوجاتی ہے ۔اہل ظاہر نے حدیث کے ظاہر کو دیکھتے ہوئے کہا کہ حقیقتاً اس کی نماز فاسد ہوجاتی ہے اور اب اسے ازسر نو دوبارہ پڑھنا ہوگا اور دوسری احادیث کی روشنی میں فقہاء اس کی تاویل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نماز کے فساد سے مراد خشوع وخضوع کا خراب ہوجانا ہے لہذا نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
اور جب محض گزرے کی وجہ سے نماز فاسد یا خشوع و خضوع ختم ہوجاتا ہے اور نماز کی یکسوئی متأثر ہوجاتی ہے تو اگر اسے امام بنا دیا جائے تو مردوں کی نماز کیسی ہوگی ؟سوچا جاسکتا ہے۔
4- نبی اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں اور اسی طرح سے صحابہ کرام اور تابعین و تبع تابعین کے زمانے میں بھی اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی حالانکہ ان ادوار میں ازواج مطہرات اور باکمال خواتین موجود تھیں لیکن کسی کو بھی مسجد کا امام مقرر نہیں کیا گیا ۔یہاں تک کہ اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی کہ انھوں نے بوقت ضرورت اپنے محرم مردوں اور شوہروں کی امامت کی ہو۔ [5]
5- حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لا تؤمن إمرأة رجلاً. کوئی عورت کسی مرد کی امامت نہ کرے ۔[6]
5-حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں:أخروهن من حيث أخرهن الله .[7]
جیسے اللہ تعالیٰ نے ان کو پیچھے رکھا ہے اسی طرح انھیں پیچھے رکھو ۔
عورتوں کو پیچھے رکھنے کے اس حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں ان کو آگے بڑھانا ممنوع ہے [8]
یہ گرچہ ایک صحابی کا فتوا ہے مگر صف بندی میں عورتوں کو پیچھے رکھنے کی احادیث اور عملی تواتر سے اس کی تائید ہوتی ہے ۔اور صحابہ کرام میں سے کسی سے اس کی مخالفت منقول نہیں ہے اس لئے اس پر ایک طرح سے ان کا اجماع ہے ۔
6- حضرت علی کہتے ہیں: لا توم المرأة.
عورت کسی کی امامت نہ کرے[9]
ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی عورت اپنے گھر کے لوگوں کی امامت کرسکتی خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں ۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں: عَنْ أُمِّ وَرَقَةَ بِنْتِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ الْأَنْصَارِيِّ وَكَانَتْ قَدْ جَمَعَتِ الْقُرْآنَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَهَا أَنْ تَؤُمَّ أَهْلَ دَارِهَا، وَكَانَ لَهَا مُؤَذِّنٌ، وَكَانَتْ تَؤُمُّ أَهْلَ دَارِهَا.(مسند احمد :27283.ابو داؤد:591)
شعیب ارناؤط کی تحقیق کے مطابق حدیث ضعیف ہے ،دوسرے یہ کہ “أھل دار” سے مراد گھر کی عورتیں ہیں کہ عربی زبان میں عام طور پر یہ لفظ خاتونِ خانہ کے لئے استعمال ہوتا ہےچنانچہ خود ایک دوسری روایت میں اس کی وضاحت ہے جس کےالفاظ یہ هيں: عنأ م ورقة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذن لها أن يؤذن لها و يقام و تؤم نساءها (السنن:1069)
عورتوں کی امامت
کوئی عورت عورتوں کی امامت کرسکتی ہے یا نہیں؟ اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ،شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک اس کے لئے عورتوں کی امامت جائز بلکہ ان کے لئے جماعت سے نماز پڑھنا مستحب ہے اور حنفیہ کے یہاں تنہا عورتوں کی جماعت مکروہ ہے [10] تاہم نماز ہوجاتی ہے۔
اس کے برخلاف مالکیہ کے نزدیک فرض و نفل کسی بھی نماز میں عورت کی امامت جائز نہیں ہے ۔[11]
ایک چوتھی رائے یہ ہے کہ فرض میں وہ امامت نہیں کریگی البتہ نوافل جیسے کہ تروایح میں کرسکتی ہے ۔امام شعبی،نخعی اور قتادہ اسی کے قائل ہیں۔ (الاوسط من السنن و الاجماع و الاختلاف لابن المنذر 259/4)
شافعیہ کے دلائل
1- حضرت ام ورقہ کے بارے میں گزر چکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں گھر کی عورتوں کی امامت کرنے کا حکم دیا اور ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ حدیث حسن ہے (التلخیص 27/2)اور اس سلسلے کی بعض روایات میں ہے کہ یہ حکم فرائض کے سلسلے میں تھا تؤم اہل دارھا فی الفرائض ۔(السنن الکبری للبیہقی:5354) اور جب فرائض میں درست ہے تو نوافل میں بدرجہ اولی جائز ہے ۔
2- حجیرہ بنت حصین کہتی ہیں: امتنا أم سلمة في صلاة العصر فقامت بيننا ۔
ام المومنین حضرت ام سلمہ نے عصر کی نماز میں ہماری امامت فرمائی اور انھوں نے ہمارے درمیان قیام کیا۔ (مصنف ابن ابي شيبه536/1. مصنف عبدالرزاق: 5082. الأوسط: 258/4)
3- ریطہ حنفیہ کہتی ہیں: إن عائشة أمتهن و قامت بينهن في صلاة مكتوبة.
ام المؤمنین حضرت عائشہ نے ان لوگوں کی امامت فرمائی اور درمیان میں کھڑی ہوئیں ،یہ فرض نماز کا واقعہ ہے۔ (مصنف عبدالرزاق: 5086. الأوسط: 258/4)
4- حضرت عطاء کہتے ہیں: عن عائشۃ وكان عندها نسوة من أهل العراق فحضرت الصلاة فامتهن وسط الصف.
حضرت عائشہ صدیقہ کے پاس عراق کی کچھ خواتین آئی تھیں کہ نماز کا وقت ہوگیا تو انھوں نے ان کے درمیان صف میں رہ کر ان کی امامت فرمائی اور یہ عصر کی نماز کا واقعہ ہے۔ (الأوسط 259/4)
5 -تمیمہ بنت سلمہ کہتی ہیں: عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ: أَنَّهَا أَمَّتْ نِسَاءً فِي الْفَرِيضَةِ فِي الْمَغْرِبِ، وَقَامَتْ وَسَطَهُنَّ، وَجَهَرَتْ بِالْقِرَاءَةِ.
حضرت عائشہ صدیقہ نے مغرب کی نماز میں عورتوں کی امامت فرمائی اور درمیان صف میں کھڑی ہوئیں اور آواز کے ساتھ قرأت کی۔ (المحلی لأبن حزم 119/4)
6- عَنْ أُمِّ الْحَسَنِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ وَهِيَ خَيْرَةُ -، هُوَ اسْمُهَا، ثِقَةٌ مَشْهُورَةٌ – حَدَّثَتْهُمْ: أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ كَانَتْ تَؤُمُّهُنَّ فِي رَمَضَانَ، وَتَقُومُ مَعَهُنَّ فِي الصَّفِ.
حضرت ام سلمہ رمضان میں عورتوں کی امامت فرماتیں اور ان کے ساتھ صف میں کھڑی ہوتی تھیں۔(المحلی 119/4)
7- عنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ جَارِيَةً لَهُ تَؤُمُّ [نِسَاءَهُ] فِي لَيَالِي رَمَضَانَ.
حضرت عبداللہ بن عمر اپنی باندی کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ رمضان میں عورتوں کی امامت کرے ۔(المحلی 119/4.المفصل فی احکام المرءۃ 253/1)
8-حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں: تَؤُمُّ الْمَرْأَةُ النِّسَاءَ فِي التَّطَوُّعِ تَقُومُ وَسْطَهُنَّ.
عورت عورتوں کی امامت کرسکتی ہے اور ان کے بیچ میں کھڑی ہوگی ۔ ( المحلى 119/4.مصنف عبد الرزاق:5228.المفصل254/1)
مالکیہ کے دلائل:
1-حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ علیہ وسلم نے فرمایا: لا خير في جماعة النساء إلا في مسجد جماعة.
خواتین کی جماعت میں کوئی خیر نہیں ہے الا یہ کہ مسجد میں ہو۔ (مسند احمد 24376.المعجم الأوسط 9359.اعلاء السنن 243/4) شعیب ارناؤط کی تحقیق کے مطابق حدیث ضعیف ہے۔مگر اس طرح کی حدیث حضرت عبداللہ بن عمر (مجمع الزوائد 329/2)اور خولہ بنت یمان (مجمع الزوائد 333/2)سے بھی منقول ہے اور گرچہ ان میں سے ہر ایک کی سند پر کلام کیا گیا ہے مگر مجموعی حیثیت سے اس میں قوت آجاتی ہے اور لائق استدلال ہے۔[12]
علامہ عثمانی صاحب اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
حدیث میں کہا گیا ہے کہ مسجد جماعت سے باہر عورتوں کی جماعت میں کوئی خیر نہیں ہے اور یہ معلوم ہے کہ مسجد میں ان کی جماعت مردوں کے ساتھ ہوگی کیونکہ کوئی اس کا قائل نہیں ہے کہ وہ مردوں کے بغیر مسجد میں جماعت کریں گی لہذا اس سے معلوم ہوا کہ مسجد کے علاوہ کہیں اور مردوں کے بغیر ان کے لئے جماعت سے نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔(اعلاء السنن242/4)
2- المدونة کے حوالے سے حضرت علی کا فتویٰ گزر چکا ہے کہ عورت امامت نہیں کرسکتی ہے ۔یہ روایت بالکل عام ہے اور مرد وعورت ہر ایک کی امامت کو شامل ہے۔
3- حضرت عبد اللہ بن عمر کے آزاد کردہ غلام حضرت نافع کہتے : لا أعلم المرأة توم النساء.
میں نہیں جانتا کہ کوئی عورت عورتوں کی امامت کرے گی ۔(ابن ابی شیبۃ 537/1.الاوسط 259/4)
4-مشہور تابعی حضرت سلیمان بن یسار اور حسن بصری کہتے ہیں کہ کوئی عورت امام نہیں بن سکتی ہے نہ فرض میں اور نہ نفل میں اور حضرت عمر بن عبدالعزیز سے بھی یہی منقول ہے ۔(الأوسط 259/4)
حنفیہ کے دلائل
1- مالکیہ کے دلائل سے حنفیہ بھی استدلال کرتے ہیں ،البتہ ان کا کہنا ہے کہ ان دلائل سے کراہت ثابت ہوتی ہے ،شرط و وجوب نہیں اس لئے کراہت کے ساتھ نماز ہوجائے گی ۔
2- رسول اللہ ﷺکے عہد مبارک میں عورتوں کی امامت کا اہتمام نہیں ملتا ہے حالانکہ پردے کے لحاظ سے بہتر تھا کہ عورتوں کی جماعت کے لئے الگ سے ایک جگہ مقرر کردی جاتی اور ازواج مطہرات یا باکمال خواتین میں سے کوئی ان کی امامت کرتی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی پسندیدہ شکل نہیں ہے ۔علامہ عثمانی لکھتے ہیں:
صحابہ کرام کے عہد مبارک میں اور بعد کے زمانے میں عورتوں کی جماعت کے واقعات بہت کم ملتے ہیں حالانکہ جماعت کی فضیلت سب کو معلوم تھی اور اسے حاصل کرنے کا داعیہ بھی موجود تھا اس کے باوجود عام طور پر جماعت کا ثبوت نہیں ملتا ہے گویا کہ اس دور میں ان کی جماعت ایک طرح سے متروک تھی جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی جماعت پسندیدہ نہیں ہے اور کراہت سے یہی مراد ہے ۔اور امام محمد کے کلام سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے جماعت سے نماز پڑھنے کے متعلق حضرت عائشہ صدیقہ کے عمل کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ عورتوں کی جماعت ہمیں پسند نہیں ہے اور اگر کوئی عورت جماعت سے نماز پڑھتی ہے تو وہ صف کے درمیان میں کھڑی ہوگی ہماری یہی رائے اور اسی کے قائل امام ابوحنیفہ ہیں (إعلاء السنن 244/4)
3- خواتین کی امامت سے متعلق تمام روایات میں ہے کہ وہ امام کی جگہ پر آگے کھڑے ہونے کے بجائے صف کے ساتھ لگ کر کھڑی ہوئیں اور یہ روایتیں صحیح سندوں سے ثابت ہیں (دیکھئے:نصب الرایہ 30/2)اور ظاہر ہے کہ امام کی متعین جگہ کو ترک کرنے میں کراہت ہوگی چنانچہ علامہ عثمانی لکھتے ہیں:
امام کا صف کے آگے رہنا سنت مؤکدہ ہے لہذا صف کے درمیان میں قیام مکروہ ہوگا تو اگر آگے بڑھنے میں اس سے زیادہ کراہت نہ ہوتی تو حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ اسے ترک نہ فرماتیں ۔ (إعلاء السنن 244/4)
4- اگر وہ امام کی متعین جگہ پر کھڑی ہوتی ہے تو جنسی اعضا کے نمایاں ہونے کا خطرہ ہے کہ نماز کی بعض ہیئتیں ایسی ہیں کہ ان میں اعضاء کی ساخت اور زیادہ ظاہر ہوتی ہے اور اسی کا لحاظ کرتے ہوئے عورت کو سمٹ کر نماز پڑھنے اور امامت کی جگہ پر نہ بڑھنے کا مکلف بنایا گیا ہے ۔چنانچہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں:
إذا ثبت هذا : فإنها إذا صلت بهن قامت فى وسطهن ، لا نعلم فيه خلافاً بين من رأى لها أن تؤمهن ، ولأن المرأة يستحب لها التستر ، ولذلك لا يستحب لها التجافى ، وكونها فى وسط الصف أستر لها لأنها تستر بهن من جانبيها فاستحب لها ذلك كالعريان ، فإن صلت بين أيديهن احتمل أن يصح لأنه موقف في الجملة لهذا كان موقفاً للرجل ، واحتمل أن لا يصح لأنها خالفت موقفها أشبه مالو خالف الرجل موقفه .(المغنی 202/2)
ان دلائل سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائلین و مانعین میں سے ہر ایک کا نظریہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے اس لئے کسی بھی رائے کو بلا دلیل یا کمزور دلیل پر مبنی قرار دے کر رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔
تراویح کی جماعت
تراویح میں قرآن سنانامردوں کی طرح سے عورتوں کے لئے بھی حفظ قرآن کو باقی رکھنے کا ایک اہم ذریعے ہے، تجربہ یہ ہے کہ خواہ مرد ہو یا عورت اگر اسے تراویح پڑھانے کا موقع نہ ملے تو پھر قرآن یاد رکھنا مشکل ہوتا ہے اور بڑی محنت و مشقت کے بعد جو عظیم نعمت اور بیش بہا دولت حاصل ہوئی تھی وہ دو چار سال میں ضائع ہوجاتی ،اس کے برخلاف اگر تراویح پڑھانے کا موقع ملتا رہے تو ذمے داری نبھانے کے لئے یاد رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
ایسی صورتحال میں کیا امام شافعی و احمد اور امام نخعی و شعبی وغیرہ کے نقطہ نظر پر عمل کرتے ہوئے تراویح کے لئے اس کی گنجائش ہوسکتی ہے؟ ۔
بہت سے علماء بعض شرطوں کے ساتھ اس کی اجازت دیتے ہیں ۔اس سلسلے کے فتاوے درج ذیل ہیں:
1 -دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
سوال:
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ تراویح میں عورتوں کی جماعت کیسی ہے ،جب کہ امام بھی عورت ہو اور مقتدی بھی عورت؟جو عورت حافظِ قرآن ہو اور تراویح میں سنائے بغیر اس کا قرآن کریم حفظِ نہ رہ سکتا ہو،بھولنے کا اندیشہ ہو تو ایسی حافظہ عورت گھر کے اندر عورتوں کی جماعت میں تراویح کے اندر قرآن کریم سنا سکتی ہے ،یا نہیں؟
جواب:
عورتوں کی جماعت کے بارے اصل حکم یہی ہے کہ ان کی جماعت مکروہِ تحریمی ہے۔ (ویکرہ تحریما جماعۃ النساء ولو في التراویح. وفي الرد: قولہ:(ولو في التراویح)أفاد أن الکراھۃ في کل ما تشرع فیہ جماعۃ الرجال فرضا أو نفلا.(الدر المختار مع رد المحتار: باب الإمامۃ: ١/٥٦٥، سعید) اگر چہ تراویح میں ہو،اس لیے خواتین کو تراویح اور وتر کی نماز بغیر جماعت کے الگ الگ پڑھنی چاہیے، البتہ جو عورت قرآن کریم کی حافظہ ہو اور تراویح میں سنائے بغیر حفظ رکھنا مشکل ہو اور بھولنے کا قوی اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں عورتوں کی جماعت تراویح میں حافظہ عورت کو قرآن کریم سنانے کی کوئی تصریح تو نہیں ملی، لیکن حضرت مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب بلا تداعی صرف گھر کی خواتین کو حافظہ خاتون کے قرآن کریم کی یادداشت محفوظ رکھنے کی غرض سے اس شرط کے ساتھ اجازت دیا کرتے تھے کہ حافظہ خاتون کی آواز گھر سے باہر نہ جائے اور تداعی سے پرہیزکیا جائے، تداعی کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر دو باتوں میں سے کوئی بات نہ پائی جائے، ایک یہ کہ اس کے لیے باقاعدہ اہتمام کر کے خواتین کو نہ بلایا جائے،دوسرے یہ کہ اگر چہ اہتمام سے خواتین کو نہ بلایا ، لیکن اقتداء کرنے والی خواتین کی تعداد امام خاتون کے علاوہ دو تین سے زیادہ نہ ہو، حضرت مفتی اعظم پاکستان کی اس اجازت کی تائید تصریحاتِ ذیل سے ہوتی ہے، بلکہ آخری تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ حافظہ خاتون کی اگر صرف ایک ہی خاتون مقتدی ہو اور دونوں برابر کھڑی ہوں تو اس میں کچھ کراہت نہیں ۔
بہر حال جہاں تک ہو سکے حافظہ خواتین کو بھی ختم تراویح کی جماعت سے پرہیز کرنا چاہیے، البتہ بوقتِ ضرورت شرائط ِمذکورہ کے ساتھ اس مذکورہ گنجائش پر عمل کر سکتی ہیں ۔
و إمامۃ المرأۃ للنساء جائزہ إلا أن صلاتھن فرادی أفضل .(خلاصۃ الفتاوی: کتاب الصلاۃ: الفصل الخامس عشر في الإمامۃ والاقتداء، جنس آخر في صحۃ الاقتدائ: ١/١٤٧، رشیدیہ)
وکرہ جماعۃ النساء تحریما للزوم أحد المحظورین قیام الإمام في الصف الأول وھو مکروہ أو تقدم الإمام وھو أیضا مکروہ في حقھن.(حاشیۃ الطحاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاۃ: ٣٠٤، قدیمي)
قولہ ویکرہ تحریماً جماعۃ النساء : لأن الإمام، إن تقدمت لزم زیادۃ الکشف وإن وقفت وسط الصف لزم ترک المقام مقامہ وکل منھما مکروہ کما في العنایۃ وھذا یقتضي عدم الکراہۃ لو اقتدت واحدۃ فقط محاذیۃ لفقد الأمرین.(حاشیۃ الطحطاوي علی الدر:کتاب الصلاۃ:١/٢٤٥، دارالمعرفۃ).فقط واللہ أعلم بالصواب
2- دار الافتاء جامعہ بنوریہ
حافظہ عورت اپنے گھر کی عورتوں یا محلے کی تمام عورتوں کو رمضان المبارک میں فرض نماز باجماعت اور تراویح پڑھا سکتی ہے یا نہیں؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں مسئلہ کی پوری وضاحت مطلوب ہے۔
الجوابُ حامِدا ًو مُصلیِّا ً
عورتوں کا تنہا جماعت کرانا چاہے فرائض میں ہو یا تراویح میں ناپسندیدہ اور مکروہ ہے، تاہم اگر کوئی خاتون حافظہ ہو اور حفظ کو محفوظ رکھنے کی غرض سے وہ صرف اپنے گھر کی عورتوں کو تراویح پڑھا دے تو شرعاً اس کی گنجائش ہے، اگرچہ احتراز اس سے بھی بہتر ہے۔
مأخَذُ الفَتوی
فی الفتاوى الهندية : و يكره إمامة المرأة للنساء في الصلوات كلها من الفرائض و النوافل إلا في صلاة الجنازة. هكذا في النهاية اھ(1/ 85)۔
و في تحفة النبلاء في جماعة النساء : و أخرجَ مُحَمَّدُ بنُ الحَسَنِ في كتاب ((الآثار)): أَخْبرنا أَبو حَنِيْفَةَ نا حَمَّاد عن إِبراهيم عن عائشةَ رَضِي الله عَنْهُ : أنَّها كانت تَؤُمُ النِّساءَ في شهرِ رمضانَ ، فتقومُ وَسْطَهُنَّ، قال مُحَمَّدُ : لا يعجبنا أن تَؤُمَ المرأةُ ، فإن فعلتْ قامتْ في وَسْطِ الصَّفِ مع النِّساءِ كما فعلتْ عائشةَ ، و هو قولُ أبي حنيفةَ. انتهي (ص: 15)۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب
3- مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب لکھتے ہیں:
جواب:-
(الف) اگر خواتین اپنی جماعت بنا کر نماز پڑھ لیں، تو نماز کے درست ہوجانے پر تو جمہور کا اتفاق ہے، علامہ ابن ہمام ؒ بڑے محقق، فقیہ اور محدث ہیں،وہ تو اس سلسلہ میں اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں : فإنھن لو صلین جماعۃ جازت بالإجماع (فتح القدیر:۱؍۳۰۶) مگر اجماع کا دعویٰ محل نظر ہے، مالکیہ کے یہاں خواتین کی جماعت جائز نہیں؛ (الخرشی: ۲؍۱۴۵) البتہ اس میں شبہہ نہیں کہ خواتین کی جماعت کا اہتمام بہتر نہیں ہے ؛کیونکہ اس میں فتنہ کا اندیشہ ہے، اسی اندیشہ کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف مردوں پر جماعت کو واجب قرار دیا اوردوسری طرف عورتوں کے لئے مستحب بھی نہیں رکھا ؛ بلکہ فرمایا کہ ان کا گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: و صلاتک في دارک خیر لک من صلاتک في مسجد قومک ألخ (مسند احمد، حدیث نمبر: ۲۶۵۵۰ ) اس لئے خواتین کے لئے تراویح کی جماعتوں کا اہتمام ایسا عمل نہیں ہے کہ اس کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔
فتنہ کا اندیشہ دو وجوہ سے پیدا ہوتا ہے، ایک تو دور دور سے خواتین کا آنا، دوسرے نماز پڑھانے والی حافظہ کی آواز ؛ اس لئے اگر گھر کی خواتین یا پڑوس کی خواتین ایسے محفوظ گھر میں جمع ہوجائیں،جہاں پردہ کا پورا اہتمام ہو اور دور سے آنا نہ پڑے، نیز امامت کرنے والی حافظہ خاتون قرآن ایسی معتدل آواز میں پڑھے کہ آواز نماز میں شریک ہونے والی خواتین تک محدود رہے، غیر محرموں تک نہ پہنچے، تو اس کی گنجائش ہے ؛البتہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی روایت کے مطابق خواتین امامت کرتے ہوئے صف کے بیچ میں ہی کھڑی ہوں گی، نہ کہ صف کے آگے ؛ چنانچہ روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہارمضان کے مہینہ میں خواتین کی امامت کرتی تھیں اور بیچ میں کھڑی ہوتی تھیں: کانت تؤم النساء فی شھر رمضان فتقوم وسطا (کتاب الآثار، حدیث نمبر: ۲۱۷) یہی رائے میرے استاذ حضرت مولانا مفتی نظام الدین اعظمی ؒ سابق صدر مفتی دارالعلوم دیوبند کی بھی ہے، چنانچہ اپنے ایک تفصیلی فتوی کے اخیر میں فرماتے ہیں :
( ب) اگر اتنی بڑی جماعت کی امامت ہو، جس میں آواز معتاد آواز سے زائد ہوتو تمام قیود و شرائط کے باوجود مکروہ تحریمی و ناجائز ہوگا۔
(ج) اگر ماہِ رمضان میں حافظہ قرآن عورتوں کی چھوٹی جماعت جس میں آواز معتاد کے اندر اندر رہے اور تمام قیود وشرائط کے اندر رہے اور عورت صف سے صرف چار انگل آگے رہے تو ’’الأمور بمقاصدھا ‘‘ کے تحت یہ فعل جائز رہے گا۔
(د) اگر ماہِ رمضان المبارک میں صرف دو دو، تین تین عورتوں کی جماعت جو محض بہ نیت حفظِ قرآن پاک اور بطور دور ہو، اور قیود و شرائط کے موافق ہو اور مکان محفوظ کے اندر ہو، جس میں آواز اپنی معتاد آواز سے زائد نہ رہے تو بلا شبہ جائز رہے گی؛ بلکہ ’’الأمور بمقاصدھا ‘‘ کے تحت مستحسن بھی ہوسکتی ہے۔ والعلم عند اللہ ‘‘ (مطبوعہ سہ ماہی حراء، شمارہ نمبر: ۱؍صفحہ نمبر: ۸۳)
نیز وہ لکھتے ہیں:
سوال (668) کیا خواتین کے لئے نماز تراویح پڑھنا ضروری ہے، نیز ان کے لیے کسی گھر میں جمع ہو کر کسی خاتون کی امامت میں تراویح پڑھ لینا جائز ہے؟ اور تنہا نماز تراویح پڑھی جائے تو کتنی رکعتیں پڑھنی چاہئے؟ تسنیم تمبسم ، امان نگر )
جواب: (الف) جیسے مردوں کے لئے تراویح سنت مؤکدہ ہے ، اسی طرح عورتوں کے
کے لئے بھی سنت مؤکدہ ہے، تراویح کے حکم میں مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق نہیں ۔ (وهي سنة للرجال و النساء ” (الفتاوى الهندية: ١١٦/١) )
(ب) خواتین گھر میں جمع ہو کر کسی خاتون کی اقتداء میں تراویح پڑھ لیں، تو دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے، ایک یہ کہ آواز اتنی بلند نہ ہو کہ غیر محرم مردوں تک پہونچے ، دوسرے اتنی دور سےنہ آتی ہوں کہ فتنہ یعنی راستہ میں چھیڑ چھاڑ یا بد نگاہی وغیرہ کا اندیشہ ہو ، مگر اس کے باوجود ان کے کے لیے تنہا نماز تراویح پڑھنا زیادہ ثواب ہے ، علامہ ابن ہمام نے اس مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئےلکھا ہے کہ: ” فإنما يفيد نسخ السنية و هو لا يستلزم ثبوت كراهة التحريم في الفعل بل التنزيه ومرجعهماإلى خلاف الأولى (فتح القدیر 307/1)
عورتوں کے لیے جماعت کے سنت ہونے کا حکم اب باقی نہیں ہے،وہ منسوخ ہو گیا ہے، لیکن جواز کا حکم باقی ہے، زیادہ سے زیادہ خلاف اولی کہا جا سکتا ہے۔
البتہ اس صورت میں امامت کرنے والی عورت صف سے آگے کھڑی ہونے کے بجائے ، پہلی صف کے وسط میں کھڑی ہوگی ، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا معمول منقول ہے ،وہ رمضان المبارک کے مہینہ میں خواتین کی امامت فرمایا کرتی تھیں ، اور صف کے بیچ میں کھڑی ہوتی تھیں۔ (کتاب الآثار للامام محمد 603/1)
(ج) نماز تراویح جماعت سے پڑھی جائے یا تنہا ، رکعات کی تعداد میں کوئی فرق نہیں ہے، ہر صورت میں بیس رکعت ادا کی جائے گی۔(کتاب الفتاویٰ 396/2)
حواشى
[1] أخرجه الترمذي (١١٧٣) واللفظ له، والبزار (٢٠٦١)، وابن خزيمة (١٦٨٥) مطولاً.)
[2] صَلاةُ المَرأةِ في بَيتِها أفضَلُ من صَلاتِها في حُجرَتِها، وصَلاتُها في مَخدَعِها أفضَلُ من صَلاتِها في بَيتِها. أخرجه أبو داود (٥٧٠) واللفظ له، وابن خزيمة (١٦٨٨)، والطبراني (٩/٣٤١) (٩٤٨٢) إن أحب صلاة المرأة إلى الله في أشد مكان في بيتها ظلمة (صحيح ابن خزيمة:1691۔السنن الکبری للبیہقی 5146)
[3] لأن في إمامتها للرجال افتنانا بها.(الموسوعة الفقهية204/6)
[4] يشترط لإمامة الرجال ان يكون الإمام ذكرا فلا تصح إمامة المرأة للرجال و هذا متفق عليه بين الفقهاء (الموسوعة الفقيه 204/6)
[5] فالجمهور على أنه لا يجوز أن تؤم الرجال ، واختلفوا في إمامتها النساء ، فأجاز ذلك الشافعي ، ومنع ذلك مالك ، وشذ أبو ثور والطبري ، فأجازا إمامتها على الإطلاق ، وإنما اتفق الجمهور على منعها أن تؤم الرجال ؛ لأنه لو كان جائزاً لنقل ذلك عن الصدر الأول ، ولأنه أيضاً لما كانت سنتهن في الصلاة التأخير عن الرجال علم أنه ليس يجوز لهن التقدم عليهم ، لقوله : أَخُرُوهُنَّ حَيْثُ أَخْرَهُن الله (بداية المجتهد354/1)
[6] الراوي: جابر بن عبدالله • ابن الملقن، البدر المنير (٤/٤٣٣) • ضعيف • أخرجه ابن ماجه (١٠٨١)، وعبد بن حميد في ((مسنده)) (١١٣٤)، وأبو يعلى (١٨٥٦) باختلاف يسير.
[7] ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے فرمان کی حیثیت سے یہ روایت مجھے نہیں ملی ۔(الدرایہ171/1)البتہ محدث عبد الرزاق (المصنف:5115)ابن خزیمہ (الصحیح: 1700)اور طبرانی (المعجم الکبیر:9484)نے حضرت عبداللہ بن مسعود کے قول کی حیثیت سے نقل کیا ہے اور ہیثمی کہتے ہیں:رجالہ رجال الصحیح ۔(مجمع الزوائد 35/2)اور حافظ ابن حجر نے اس کی سند کو صحیح قراردیا ہے ۔(الفتح الباری 400/1)
[8] والامر بتاخيرهن نهي عن الصلاة خلفهن(الموسوعة الفقيه 204/6)
[9] یہ روایت المدونہ میں مذکور ہے اور علامہ ظفر أحمد عثمانی کی تحقیق کے مطابق اس کی سند کے تمام راوی قابل اعتماد ہیں۔(اعلاء السنن 250/4)
[10] مولانا عبد الحی فرنگی محلی نے اس موضوع پر تحفۃ النبلاء کے نام سے ایک رسالہ لکھا ہے جس میں انھوں نے ثابت کیا ہے کہ مکروہ تحریمی قرار دینا صحیح نہیں ہے ،بلکہ زیادہ سے زیادہ اسے خلاف اولی کہا جاسکتا ہے اور انھوں مکروہ تحریمی کے دلائل پر تفصیلی گفتگو کرکے ان کی تردید کی ہے مثلا وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی عورت ڈھیلا ڈھالا کپڑا پہن کر امام کی متعین جگہ پر نماز پڑھائے تو اس کے اعضاء ظاہر نہیں ہونگے اور یہ کوئی مشکل کام اور نادر شکل نہیں ہے چنانچہ علامہ عینی اپنی کتاب “البنایہ” میں لکھتے ہیں:
لانسلمُ أَنَّهُ نادر؛ لأنَّ المرأة شأنها التَّسَترِ في كل الأحوال لا سيما في الصلاة خصوصاً إذا أمَّت فإنَّها تحترز عن انكشاف شيء من أعضائها غاية الاحتراز، فحينئذ لا يوجد الكشف أصلاً فضلاً عن زيادة الكشف.(تحفہ النبلاء/39) لھذا اگر کوئی عورت مکمل پردے کے ساتھ نماز پڑھتی ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ آگے بڑھ کر نماز پڑھانے کو مکروہ قرار دیاجائے، نیز جو چیز ظاہر ہورہی ہے عورت کے لئے نماز یا غیر نماز میں اسے چھپانا واجب نہیں ہے اور زیادہ سے زیادہ اسے افضل کہا جائیگا اور آگے بڑھنے میں اسی “افضل “کو ترک کرنا ہوگا اور ترک افضل کو مکروہ تحریمی کیسے کہا جاسکتا ہے؟ ۔
نیز اگر یہ کہا جائے کہ آگے بڑھنے کی وجہ سے وہ دوسری عورتوں سے ممتاز اور نمایاں ہوجائے گی تو اس کے ممنوع ہونے کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ ایسا تو انفرادی طور پر نماز پڑھنے میں بھی ہوسکتا ہے چنانچہ شیخ الاسلام علامہ ھروی لکھتے ہیں: لا يتفاوت النظر الى العورة بأن يكون الناظر مقتديا بصاحب العورة أو لا فيجب ان لا تجوزصلاة المرأة وحدها قدام إمرأة اخرى (تحفة النبلاء/41)
مکروہ تحریمی کی دوسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ آگے بڑھ کر نماز پڑھائی ہے جو اس کے واجب یا سنت مؤکدہ ہونے کی دلیل ہے اور جس کی خلاف ورزی مکروہ تحریمی ہے ۔مولانا فرنگی محلی اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ جس کام کو حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ام سلمہ نے انجام دیا ہو اور جس کے مطابق حضرت ابن عباس کا فتوا موجود ہو اسے مکروہ تحریمی کیسے کہا جاسکتا ہے ؟۔علاوہ ازیں آگے بڑھ کر نماز پڑھانا یہ مردوں کے لئے سنت ہے اور عورتوں کا حکم اس سے الگ ہے کہ بہت سے احکام میں دونوں کے درمیان فرق ہوتا ہے اور یہ فرق امہات المؤمنین کے عمل سے اور ابن عباس کے فتوے سے ثابت ہے اور کسی دوسرے صحابی سے اس کی مخالفت منقول نہیں ہے اس لئے اس پر ایک طرح سے اجماع ہے ۔
بعض لوگوں نے حضرت عائشہ صدیقہ وغیرہ کے عمل کو ابتداء اسلام پر محمول کرکے اسے منسوخ قرار دیا ہے لیکن نقل کردہ روایات کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعات آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد سے متعلق ہیں ۔
بعض لوگوں نے اس کے لئے ان احادیث کو ناسخ قرار دیا جس میں گھر کے تاریک گوشے میں نماز پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے کہ وہاں جماعت کی گنجائش نہیں ہوتی ہے ۔اسکے جواب میں علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں:
وبتقدير التسليم فإنَّما يفيدُ نَسْخَ السُّنية، وهو لا يستلزم ثبوت كراهة التحريم في الفعل بل التنزيه، ومرجعها إلى خلاف الأولى، ولا علينا أن نذهب إلى ذلك، فإنَّ المقصود اتباع الحق حيث كان. انتهى”.
اور صاحب فتح القدیر کیا اس عبارت کو نقل کرنے کے بعد مولانا فرنگی محلی کہتے ہیں: أقول: أشار بآخر كلامه إلى أن كراهة التحريم ليس بحق، واتباع الحق حيث ما كان أحق، كيف لا ؟ وقد دلت آثار وأخبار على المشروعية ولم يتعين ناسخ لها ولا يصح حملها على ابتداء الإسلام. والعلل التي ذكروها للكراهة كلها معلولة، فغاية ما في الباب أن تكون جماعتهنَّ خلاف الأولى نظراً إلى ظاهر ما يفيده حديثُ أَبِي دَاوُدَ
وابْنِ خُزَيْمَةَ وغيرهم، وهو أمر آخر.(تحفۃ النبلاء 64)
قلت: فهذا القدر ينفي الكراهة التحريمية، كيف ولو كان كذلك لما أَمَرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عليهِ وَسَلَّم أَمَّ وَرَقَةَ بِما أَمَرَها، ولما ارتكبت عائشة وأمُّ سَلَمَةَ فعلها . والظَّاهِرُ أَنَّ مُحَمَّدَ بنَ الحَسَنِ أشار في كتاب «الآثار» إلى هذا،حيث قال: لا يعجبنا، على ما مر نقله في المرصد الأول.(حماد عن إبراهيم عن عائشةَ رَضِي الله عَنْهُ : أَنَّها كانت تَؤُمُ النِّسَاءَ في شهر رمضان، فتقومُ وَسْطَهُنَّ ، قال مُحَمَّدُ : لا يعجبنا أن تؤم المرأة، فإن فعلت قامت في وَسْطِ الصَّفِ مع النِّساءِ كما فعلت عائشة، وهو قول أبي حنيفة. انتهى. تحفۃ النبلاء/22)
والذي يظهرُ أنَّ الحكم بالكراهة لا سيما بالتحريمية من تخريجات المشايخ على حسب أفهامهم ومزعوماتهم لا من كلام أئمتهم، ولعل لكلامهم وجهاً لم نطلع عليه، وما اطلعنا عليه قد بَيَّنَا حَالَهُ، وفوق كـلّ ذي علم عليم، وذلك فَضْلُ الله يؤتيه من يشاء وهو ذو الفضل العظيم.تحفۃ النبلاء/65
اور علامہ عثمانی لکھتے ہیں:
وأيضاً وجود جماعتهن في ذلك العصر كان قليلا، ولم يثبت جماعتهن بطريق العادة لهن مع توفر الدواعي إلى نيل فضائلها ، فكون جماعتهن كالمتروك في ذاك الزمان دليل على أنهم كانوا لا يستحسنونها ، وهو المراد بالكراهة، وبه يشعر كلام الإمام محمد في كتاب الآثار، فذكر أولا أثر عائشة أم المؤمنين رضى الله عنها أنها كانت تؤم النساء في شهر رمضان فتقوم وسطا ، ثم قال: لا يعجبنا أن تؤم المرأة، فإن فعلت قامت في وسط الصف مع النساء، كما فعلت عائشة، وهو قول أبي حنيفة اهـ (ص: (۳۸). قال الشيخ : وما روى عن أم ورقة غايتها الإباحة لا نيل الفضيلة، ولما كان فيه شبهة الكراهة كان الاحتياط في الترك، لأن الشئ إذا تردد بين المندوب والمكروه كان ترك المندوب أولى، ونظيره تقدم المحرم على المبيح إذا تعارضا اهـ.اعلاء السنن 244/4)
[11] دیکھئے: الاختیار 205/1.حاشیہ الدسوقی326/1.نہایۃ المحتاج 167/2.کشاف القناع48/1.
[12] تعجب خیز یہ ہے کہ اسی روایت کو علامہ بیہقی نے درج ذیل الفاظ کے ساتھ نقل کرکے عورتوں کی جماعت کے استحباب کو ثابت کیا ہے : لا خير في جماعة النساء الا في صلاة أو جنازة. (الخلافيات بين الامامين393/3) اور حضرت عبادہ بن صامت سے منقول حدیث میں ہے : أنَّ رسولَ اللهِ ﷺ سُئِل عن جَماعةِ النِّساءِ؟ فقال: لا خَيرَ في جَماعتِهنَّ إلّا عندَ ذِكْرٍ أو جَنازةٍ، وإنَّما مَثلُ جَماعتِهنَّ إذا اجتمَعْنَ كمَثلِ صَيْقلٍ أدخَلَ حديدةً في النارِ، فلمّا أحرَقَها ضرَبَها، فأحرَقَ شَرَرُها كلَّ شيءٍ أصابَتْ. مجمع الزوائد (١٠/٨٠) • [فيه] يحيى بن إسحاق عن عبادة ويحيى لم يدرك عبادة وبقية رجاله رجال الصحيح۔
اور خولہ بنت یمان کی روایت میں ہے : لا خيرَ في جماعةِ النِّساءِ إلّا عندَ ميِّتٍ فإنَّهنَّ إذا اجتمَعْنَ قُلْنَ وقُلْنَ. الطبراني، المعجم الأوسط (٧/١٥١) • لا يروى هذا الحديث عن خولة بنت اليمان إلا بهذا الإسناد تفرد به الصلت بن مسعود
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.