hamare masayel

دوران نماز جیب سے چابی نکال کر پھینکنا

(سلسلہ نمبر: 676)

دوران نماز جیب سے چابی نکال کر پھینکنا

سوال: میں فرض نماز پڑھنے کے دوران اپنی جیب سے گاڑی کی چابی اس وقت نکال کر باھر پھینک دی جس وقت میرا بیٹا بھائیوں سے گاڑی کی چابی کے بارے مین پوچھے جا رہا تھا اور آواز میرے کانون تک آرہی تھی، تو کیا میری نماز فاسدہوگئی؟ براہ کرم جواب سے مطلع فرمائیں۔

المستفتی: محمد ہارون القاسمی۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: صورت مسئولہ میں نماز ہوگئی کیونکہ نہ تو یہ عمل کثیر ہے اور نہ خارج نماز کا لقمہ قبول کرنا ہے، اس لئے چابی نمازی سے مانگی نہیں گئی تھی بلکہ اس نے از خود چابی نکال کر پھینک دیا البتہ نماز میں ان چیزوں سے احتیاط کرنا چاہئے۔

الدلائل

 عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتِ : اسْتَفْتَحْتُ الْبَابَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي تَطَوُّعًا، وَالْبَابُ عَلَى الْقِبْلَةِ، فَمَشَى عَنْ يَمِينِهِ – أَوْ عَنْ يَسَارِهِ – فَفَتَحَ الْبَابَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مُصَلَّاهُ. (سنن النسائي، رقم الحديث: 1206).

‏ ‏قوله: (فمشى عن يمينه) ‏ ‏كان الباب في إحدى جهتيه ويمكن هذا بعمل يسير والله تعالى أعلم. (حاشية السندي على النسائي).

ویفسدها العمل الکثیر لا القلیل، والفاصل بینهما أن الکثیر هو الذي لا یشک الناظر لفاعله أنه لیس في الصلاۃ، وإن اشتبه فهو قلیل علی الأصح. (مراقي الفلاح) وقال الطحطاوي: کذا في التبیین وهو قول العامة وهو المختار وهو الصواب کما في المضمرات. (طحطاوي: 177).

کل عمل یقام بالیدین عادۃ فهو کثیر. (الفتاویٰ التاتارخانیة: 2/ 234، الرقم: 2263 زکریا).

وإن حصل تذکرہ من نفسه لا بسبب الفتح لا تفسد مطلقاً۔ (رد المحتار: الصلاۃ/ ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیها، 2/ 382 زكريا).

والله أعلم .

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.

22- 11- 1442ھ 4- 7- 2021م الأحد.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply