hamare masayel

ذبح میں کتنی رگوں کا کٹنا ضروری ہے، جانور ذبح کرنے کا طریقہ

(سلسلہ نمبر: 456)

ذبح میں کتنی رگوں کا کٹنا ضروری ہے؟

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کسی بھی جانورکی گردن میں کل کتنی رگیں ہوتی ہیں ذبح میں انمیں سےکم از کم کتنی اور کن کن رگوں کا کاٹنا ضروری ہے؟

المستفتی: محمد نبی حسن چمپارنی بیت العلوم سرائیمر اعظم گڑھ۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

جانور کے حلق میں بڑی چار رگیں ہوتی ہیں، ایک نرخرہ جس سے سانس لیتا ہے، دوسری وہ رگ جس سے دانہ پانی جاتا ہے اور دو شہ رگیں جو نرخرہ کے دائیں بائیں ہوتی ہیں۔

 ذبح کا بہتر اور متفق علیہ طریقہ یہ ہے کہ یہ چاروں رگیں کٹ جائیں، اگر ان چار میں سے تین ہی رگیں کٹیں تب بھی ذبح درست ہے، اس کا کھانا حلال ہے اور اگر دو ہی رگیں کٹیں تو وہ جانور مردار ہوگیا اس کا کھانا درست نہیں۔

الدلائل

وعروقه الحلقوم كله وسطه أو أعلاه أو أسفله: وهو مجرى النفس على الصحيح، والمريء، هو مجرى الطعام والشراب، والودجان، مجرى الدم، وحل المذبوح بقطع أي ثلاث منها؛ إذ للأكثر حكم الكل. (الدر المختار)

(قوله وعروقه) أي الحلق لا الذبح قهستاني. (رد المحتار: 6/ 295).

قال: “والعروق التي تقطع في الذكاة أربعة: الحلقوم، والمريء، والودجان” لقوله عليه الصلاة والسلام: “أفر الأوداج بما شئت”. وهي اسم جمع وأقله الثلاث فيتناول المريء والودجين. (الهداية شرح البداية: 4/ 348).

والله أعلم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

4- 1- 1442ھ 24- 8- 2020م الاثنين.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply