ریڈیائی یا الیکٹرانک اذان کاجواب
ریڈیائی یا ٹیلیفونک اذان کی دو شکلیں ہیں ایک یہ کہ براہ راست انہیں نشر کیا جائے، دوسرے یہ کہ اسے پہلے رکارڈ کر لیا جائے اور پھروقت ہونے پر نشر کیاجائے، پہلی صورت میں سننے والے نے اگر ابھی اس وقت کی نماز نہیں پڑھی ہے اور اس اذان کاوقت ہوچکا ہے تو اس کے لیے جواب دینا مستحب ہے خواہ قریب کی مسجد سے براہ راست مؤذن کی آواز آئے یا لاؤڈ اسپیکر اور ریڈیو وغیرہ کے ذریعے اس کی آواز دور کی مسجد سے سنی جائے۔
اور اگر سننے والے نے اس وقت کی نماز پڑھ لی ہے یا اس کے اعتبار سے ابھی اس کا وقت نہیں ہوا ہے، جیسے کہ ریڈیو کے ذریعہ مکہ کی آواز ہندوستان میں سنی جائے یا یہاں کی اذان مکہ میں سنائی دے تو اس صورت میں جواب دینا مسنون نہیں ہے، کیونکہ موذن اس کے ذریعے نماز کے لیے بلارہا ہے اور سننے والا اس کو ادا کر چکا ہے یا اس کے اعتبار سے ابھی اس کاوقت ہی نہیں ہوا ہے توجب اسے نماز کے لیے جانا ہی نہیں ہے تو اس کا جواب کیسے دے گا ؟ اور حی علی الصلاۃ و حی علی الفلاح کا جواب لاحول کے ذریعے دے کر اللہ تعالیٰ سے اس کی ادائیگی کی توفیق کی دعا کیسے کر ے گا، جب کہ وہ اسے پڑھ چکا ہے؟ البتہ اگر کوئی ذکر کے ارادے سے جواب دینا چاہے توا س میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اور دوسری صورت میں بہر حال اذان کا جواب دینا سنت نہیں ہے کیوں کہ اس اذان کا کوئی اعتبار نہیں ہے[1] اور اسی بنیاد پرکہا گیا ہے کہ آواز بازگشت یا پرندے وغیرہ کے ذریعے آیت سجدہ کے سننے پر سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہے۔[2]
حوالاجات
[1] وأما أذان الصبي الذي لا يعقل فلا يجزئ ويعاد؛ لأن ما يصدر لا عن عقل لا يعتد به كصوت الطيور. (البدائع:150 /1)
[2] ’’لا تجب أي سجدۃ التلاوۃ بسماعه من الصدی والطیور‘‘. (رد المحتار: 583/2)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.