(سلسلہ نمبر: 447)
سود کا پیسہ غریب سید کو نہیں دے سکتے
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں ایک غریب سید بہت ہی پریشان حال ہیں کیا ان کو بینک سے ملنے والے انٹرسٹ کو دیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
المستفتی: حکیم محمد اشرف امروہوی بنگلور۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:
انٹریسٹ (سود) کا پیسہ مال خبیث ہے اور سادات قابل احترام ہیں، اگر سید فیملی غریب ومحتاج ہوں تو نفلی صدقات یا عطیات وغیرہ کے ذریعہ ان کی امداد کی جائے، اور ان کو سودی رقم نہ دی جائے، اس لئے سود کا مصرف مستحقین زکوٰۃ ہیں اور سید کو زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی، البتہ اگر کوئی مستحق زکوٰۃ کی رقم لے کر بلا کسی دباو کے اپنی مرضی سے سید کو دیدے تو جائز ہے؛ کیا بلکہ حسب ضرورت وموقعہ باعث ثواب بھی ہوگا۔
الدلائل
عن أنس بن مالك رضي الله عنه، قال : أتي النبي ﷺ بلحم فقيل : تصدق على بريرة. قال: “هو لها صدقةولنا هدية”. (صحيح البخاري، الرقم: 2577).
قال رسول الله ﷺ: إن هذه الصدقات إنما هي أوساخ الناس، وإنها لا تحل لمحمد، ولا لآل محمد. (صحيح مسلم، الرقم: 1072).
ولا (يصرف) إلى بني هاشم. (الدر المختار مع رد المحتار: 2/ 350).
والله أعلم
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.
25- 12- 1441ھ 16- 8- 2020م الأحد.
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.