hamare masayel

وکیل کی فیس یا رشوت میں سود دینا

(سلسلہ نمبر: 647)

وکیل کی فیس یا رشوت میں سود دینا

سوال: ایک ٹرسٹ ہے کہ جس کے تحت مسجد اور  مدرسہ دونوں چلتا ہے سوال یہ ہے کہ مسجد اور مدرسے کا جو پیسہ بینک میں جمع ہوتا ہے اور اس کا انٹریسٹ (سود) جو آتا ہے کیا اس انٹریسٹ (سود) سے مسجد یا مدرسے یا ٹرسٹ کے کسی کام کے خاطر وکیل کی فیس ادا کر سکتے ہیں یا رشوتا کسی کام میں خرچ کر سکتے ہیں چونکہ بغیر رشوت کے کوئی سرکاری کام ہوتا ہی نہیں؟ برائے کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں۔  اللہ آپ حضرات کو دارین میں بہترین بدلہ عنایت فرمائے آمین.

المستفتی:  آفاق احمد خان کوپر کھیرنہ، ممبئی۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: سود کی رقم کا حکم یہ ہے کہ جہاں سے ملی ہے وہیں واپس کردی جائے، اگر یہ ممکن نہ ہو تو غریب مسلمان کو بلا نیت ثواب دینا ضروری ہے، اس کو وکیل کی فیس یا رشوت میں نہیں دے سکتے. ہاں اگر بلا رشوت کوئی کام نہ ہو تو مجبوراً اپنا پیسہ رشوت میں دے سکتے ہیں لیکن سود کی رقم نہیں دے سکتے۔

الدلائل

ویردونها علی أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبه. (رد المحتار: 6/ 385،  کراچی).

دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسه وماله ولاستخراج حق له لیس برشوۃ یعني في حق الدافع. (رد المحتار: 6/ 423، بيروت).

الثالث: أخذ المال لیسوي أمرہ عند السطان دفعًا للضرر أو جلبًا للنفع وهو حرام علی الآخذ فقط. (رد المحتار: 8/ 34، زکریا).

والله أعلم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.

19- 9- 1442ھ 2- 5- 2021م الأحد.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply