طویل مدتی قرضے پر زکاۃ كا حكم

طویل مدتی قرضے پر زکاۃ كا حكم

طویل مدتی قرضے پر زکاۃ كا حكم

آج کل حکومتی ادارے یا غیر سرکار ی بینکوں کی طرف سے تجارت، تعمیرمکان اور زراعت کے لیے ایک بڑی رقم قرضے پر دی جاتی ہے اور قسط وار ایک طویل مدت کے بعد اس کی ادائیگی ہوتی ہے، جیسے کہ اگر دس لاکھ روپے قرض لیا ہے تو ہر سال ایک ایک لاکھ کرکے دس سال میں اس کی ادائیگی مطلوب ہوتی ہے۔

اور زکوٰۃ کے معاملے میں ضابطہ یہ یہ ہے کہ اگر کسی کے ذمے ایسا قرض ہے جس کا مطالبہ انسانوں کی طرف سے کیاجائے تو پورے سرمایہ میں سے  قرض کے بقدر مال کو غیر موجود سمجھاجائے گا، گویا کہ وہ اس مال کا مالک ہے ہی نہیں بلکہ وہ قرض دینے والوں کا ہے اور اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ بقیہ مال نصاب کے بقدر ہے یا نہیں، نصاب کے بقدر ہے تو بچے ہوئے مال کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی ورنہ نہیں، اس لیے کہ حدیث میں ہے کہ:

 (۱)”فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ”. (صحيح البخاري: 1395، صحيح مسلم: 19)

’’پھرانہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے مالوں میں سے  صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالداروں سے لیاجائے گا اور ان کے فقیروں کو واپس کر دیاجائے گا‘‘۔

اورظاہر ہے کہ جو شخص قرض میں گھرا ہو ا ہو اسے مالدار نہیں بلکہ محتاج اورضرورت مند سمجھا جائے گا۔

 اور حضرت عثمانؓ رمضان کے موقع پر کہاکرتے تھے:

’’هذا شهر زکاتکم فمن کان عليه دين فليؤدہ حتی تخرجوا زکاۃ أموالکم‘‘.

’’یہ تمہاری زکاۃ کا مہینہ ہے، اس لیے جس کے ذمے کسی کا قرض ہو تو قرض ادا کردے تاکہ بقیہ مال کی زکاۃ ادا کرسکو۔ (الموطأ: 253/1،  مصنف ابن أبي شيبة: 194/3،  مصنف عبدالرزاق: 92/4)

انہوں نے یہ بات صحابہ کرام کے مجمع میں کہی اور کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر صحابہ کرام کا اتفاق ہے۔ (المغني: 264/4)

مذکورہ ضابطہ کے تحت طویل مدتی قرض کو بھی الگ کرکے زکاۃ فرض ہونا چاہیے لیکن طویل مدتی قرضوں کو منہا کرنے کی صورت میں شاید ہی کسی سرمایہ دار پر زکوٰۃ واجب ہو بلکہ وہ خود مستحق زکوٰۃ نکل آئے گا، حالانکہ وہ ان قرضوں سے بڑے معاشی فائدے حاصل کرتا ہے اور اس کا شمار مالداروں میں ہوتا ہے اور ایساکرنے کی صورت میں مستحقین ہمیشہ اپنے حق سے محروم رہیں گے، اس لیے اس معاملے میں شریعت کے روح سے ہم آہنگ بات یہ ہے کہ ہرسال قرض کی جو قسط ادا طلب ہے اسے زکاۃسے الگ سمجھاجائے گا اور بقیہ مال میں زکاۃ واجب ہوگی اور باقی قرض کو پورے مال سے الگ نہیں کیاجائے گا۔ چنانچہ فقہاء حنفیہ نے لکھا ہے کہ ادھار مہر قرض میں شمار نہیں ہوگا اس لئے اسے مال زکاۃ سے الگ نہیں کیا جائیگا اور مہر کے بقدر رقم منہا کئے بغیر پورے مال میں زکاۃ واجب ہوگی کیونکہ عام طور پر اس کا مطالبہ نہیں کیا جاتا۔[1]


حواله

[1]  قال بعض مشايخنا إن المؤجل لا يمنع . لأنه غير مطالب به عادة.  (البدائع: 84/2)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply