hamare masayel

دورانِ عدت سفر، عدت میں گھر سے نکلنا، عدت میں پردہ

عورت دوران عدت سفر نہیں کرسکتی

سوال:  کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک صاحب کا سعودی عرب میں انتقال ہوگیا ہے (اللہ ان کی مغفرت فرمائے)   اب ان کی بیوی جو کہ عدت میں ہیں ہندوستان سے سعودی عرب آنا چاہتی ہیں کیا شرعاً اس کی اجازت ہے؟ برائے مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں!

       المستفتی: حافظ ابو بکر اعظمی منجیرپٹی مقیم سعودی عرب


الجواب:  باسم الملهم للصدق والصواب

شوہر کی وفات کے وقت عورت جس گھر میں رہائش پذیر ہو، شدید مجبوری کے بغیر اس گھر سے نکلنا جائز نہیں، البتہ اپنے معاشی انتظام کے لیے عورت دن میں یا رات کے کچھ حصہ میں اپنے گھر سے نکل سکتی ہے، مگر اس کے لیے سفر شرعی کی مقدار (کم از کم 78کلو میٹر ) تک دور جانا جائز نہیں. ( مستفاد بہشتی زیور  واحسن الفتاویٰ : 5/529)۔

حج جو کہ اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے اور بڑی مشکلات کے بعد اس کی منظوری ہوتی ہے اگر منظوری کے بعد شوہر کا انتقال ہوجائے تو حج پر نہیں جاسکتی اور اس کے لئےلازم ہے کہ وہ اپنا سفر حج ملتوی کردے اور گھر میں رہ کر عدت گذارے۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں اس عورت کا بلا شرعی جواز کے سفر کرنا درست نہیں البتہ اگر بیوی کے گئے بغیر تدفین وغیرہ نہیں ہوسکتی تو جاسکتی ہے لیکن جن کاغذات پر بیوی کی اجازت اور دستخط کی ضرورت ہوتی ہے انھیں عدت میں رہتے ہوئے بھی بھیجا جاسکتا ہے اس لیے شرعاً اس سفر کی اجازت نہیں ہے۔

نوٹ: اگر کسی مجبوری کی وجہ سے جانا ضروری ہے تو پہلے اس کو بیان کرکے حکم شرعی معلوم کرلیں۔


الدلائل:

قال الله تعالى: وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجاً يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْراً فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (سورة البقرة/ 234).

عن سعید بن المسیب أن عمر بن الخطاب رضي اللّٰه عنه کان یرد المتوفی عنهن أزواجهن من البیداء، یمنعهن الحج. ( الموطأ للإمام مالک: الطلاق/باب مقام المتوفی عنها زوجها في بیتها حتی تحل، الرقم: ۸۸ ، شرح معاني الآثار: باب إحداد المعتدة ومنع سفرها، الرقم : ٤٤۸۲).

عن مجاهد أن عمر وعثمان ردّا نسوة حاجّاتٍ ومعتمراتٍ ، حتی اعتددن في بیوتهن.  (المصنف لابن أبي شیبة، کتاب الحج/من کره لها أن تحج في عدتها ۸/ ۵۰٤ رقم: ۱٤٦۷). المعتدة لا تسافر لا لحج ولا لغیره ۔(فتاویٰ عالمگیری ج۲ / ۱٦۲ الباب الرابع عشر فی الخداد)(هدایه اولین ج۲ ص ٤۱۰).

وتعتدان أی معتدة موت و طلاق فی بیت وجبت فیه ولایخرجان منه إلا أن تخرج أو ینهدم المنزل … ونحو ذٰلک من الضرورات۔ (شامی، کتاب الطلاق، باب العدة، زکریا دیوبند ۵/۲۲۵، کراچی ۳/۵۳٦).

ذهب الفقهاء إلی أن المتوفی عنها زوجها لا تخرج لیلا، ولا بأس بأن تخرج نهارا لقضاء حوائجها۔ (الموسوعة الفقهیة الکویتیة ۲۹/۳۵۰(. و أما المتوفی عنها: فلا تخرج لیلا، ولا بأس أن تخرج نهارا فی حوائجها. (الفقه الاسلامی و أدلته، هدی انٹرنیشنل دیوبند ۷/٦۲۰، دار الفکر ۹/۷۱۹۸).

ولا تخرج المرأة إلی الحج في عدة الطلاق أو الموت، وکذا لو وجبت العدة في الطریق في مصر من الأمصار وبینها وبین مکة مسیرة سفر لاتخرج من ذلک المصر ما لم تنقض عدتها۔ (فتاوی قاضی خان مع الهندیة، زکریا ۱/ ۲۸۳، عالمگیری، زکریا قدیم ۱/ ۲۱۹، جدید ۱/ ۲۸۲).   والله أعلم.

 حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي

14/1/1440ه 25/9/2018م الثلاثاء


عدت میں پردہ اور علاج کے لئے باہر جانے کا حکم

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

امید کہ مزاج گرامی بخیر ہوگا

سوال: مفتی صاحب ایک مسئلہ یہ دریافت کرنا ہے کہ حالت عدت میں کن کن لوگوں سے پردہ کرنا ضروری ہے، اگر عورت بیمار ہو جائے اور حالت زیادہ بگڑنے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے گا،  والسلام

المستفتی:  محمد انظر اعظمی ، قاسمی انسٹی ٹیوٹ سرائے میر اعظم گڑھ.

الجواب باسم الملهم للصدق والصواب

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

غیر محرم مردوں سے عورتوں کو پردہ کرنا ہرحال میں ضروری ہے، اِس میں عدت کی حالت کا الگ سے کوئی خاص حکم نہیں ہے۔

بیماری کی صورت میں علاج ومعالجه کے لئے ڈاکٹر کو  هي گھر بلایا جائے، اگر طبیعت زیادہ خراب ہو اور کوئی مسلمان دیندار تجربہ کار ڈاکٹر یا حکیم ہسپتال میں داخل کر کے علاج کرانے کا مشورہ دے اور اس کی شدید ضرورت ظاہر کرے تو بقدر ضرورت گھر سے باہر نکلنے اور ہسپتال میں داخل ہو کر علاج کرانے کی گنجائش ہے ،ضرورت سے زیادہ باہر رہنا جائز نہیں ہے. واللہ اعلم بالصواب.


الدلائل:

قال الله تعالى:{وَقُل لِّلْمُؤْمِنَـاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَـارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلاَ يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلاَّ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلاَ يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلاَّ لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ ءَابَآئِهِنَّ أَوْ ءَابَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَآئِهِنَّ أَوْ أَبْنَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَتِهِنَّ أَوْ نِسَآئِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَـانُهُنَّ أَوِ التَّـابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِى الإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُواْ عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَآءِ وَلاَ يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُواْ إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ. (سورة النور: 31).

قال اللّٰه تعالیٰ: {وَاُحِلَّ لَکُمْ مَا وَرَآئَ ذٰلِکُمْ} [النساء: 24].

وقال تعالیٰ: {قُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهنَّ} [النور: ۱۸].

عن جابر رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: لا یخلون رجل بامرأة إلا کان ثالثها الشیطان. (مشکاة المصابیح / باب النظر إلی المخطوبة ۲٦۹).

عن جابر رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: ألا! لا یبیتن رجل عند امراة ثیب، إلا أن یکون ناکحًا أو ذا محرم۔ (صحیح مسلم، کتاب السلام/ باب تحریم الخلوة بالأجنبیة والدخول علیها ۲؍۲۱۵ رقم: ۲۱۷۱ بیت الأفکار الدولیة، مشکاة المصابیح: النکاح/النظر إلی المخطوبة وبیان العورات، الفصل الثاني ۲٦۸).

عن عقبة بن عامر رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: إیاکم والدخول علی النساء أي غیر المحرمات عن طریق التخلیة أو علی وجه التکشف۔ (مرقاة المفاتیح، کتاب النکاح / باب النظر إلی المخطوبة ٦؍۲۵۳ رقم: ۳۱۰۲ دار الکتب العلمیة بیروت، ٦؍۱۹۲ المکتبة الأشرفیة دیوبند).

وفي «الفتاوى» : وإذا لم يكن معالمعتدة في منزل العدة أحد وهي تخاف بالليل لا من اللصوص… الجيران بل تخاف بالقلب من أمر الميت والموت، إن كان الخوف شديداً كان لها الانتقال؛ لأنها تخاف ذهاب عقلها، وإن (لم) يكن الخوف شديداً فليس لها الانتقال. (المحيط البرهاني (468/3).  وَتَعْتَدُّ الْمُعْتَدَّةُ فِي مَنْزِلٍ يُضَافُ إلَيْهَا) بِالسُّكْنَى (وَقْتَ) وُقُوعِ (الْفُرْقَةِ وَالْمَوْتِ) لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {لا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ}[الطلاق: ١] (مجمع الانهر: 473/1).

   والله أعلم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله

             8/2/1440ه 18/10/2018م الخميس


حالت عدت میں سفر حج ‌

سوال: ایک بیٹے نے اپنا اور والدہ کا حج کا فارم بھرا تھا نام بھی آگیا؛ لیکن والد کا انتقال ہوگیا ،ایسی صورت میں عدت مکمل نہ ہونے کی صورت میں کیا بیوہ حج کیلئے جاسکتی ہے؟ برائے کرم جلدی جواب دیں۔

المستفتی منصور احمد قاسمی پوٹریا جون پور

الجواب باسم الملهم للصدق والصواب

عدت ختم هونے سے قبل حج کے لئے سفر کرنا جائز نهیں ہے، چاہے عورت عمر دراز ہی کیوں نہ ہو۔ (مستفاد: فتاوی دارالعلوم 6/ 534) ۔

الدلائل:

ولا تخرج المرأة إلی الحج في عدة الطلاق أو الموت، وکذا لو وجبت العدة في الطریق في مصر من الأمصار وبینها وبین مکة مسیرة سفر لا تخرج من ذلک المصر ما لم تنقض عدتها. (فتاوی قاضی خان مع الهندیة، زکریا 1/ 283، الفتاوى الهندية، زکریا قدیم 1/ 219، جدید 1/ 282، هکذا فی الشامي کراچی 2/ 465، زکریا 3/ 465).

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله، أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية، بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.

20/8/1439ه 6/5/2018م الأحد.

۞۞۞۞۞۞۞

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply