محتویاتِ مقالہ بعنوان: علامہ حبيب الرحمن اعظمی بحیثیت ایک عظیم نَقَّاد
(بموقع: سیمینارجمعیۃ علماء ہند، جیت پیلیس، سارناتھ، بنارس)
(بتاریخ: ۱۸/جمادی الاخری ۱۴۴۰ھ = ۲۴/فروری۲۰۱۹ء)
(۱) نقد کی تعریف
(۲) شرائط نقد
(۳) فنون اسلامیہ میں نقد کی حیثیت
(۴) علامہ اعظمیؒ بحیثیت عظیم نقاد
(۵) شیخ احمد محمد شاکرؒ کی “مسندالإمام أحمد” کی تحقیق پر علامہ اعظمیؒ کے انتقادات
(۶) علامہ اعظمیؒ کے نقد کا ایک شاہکار: الألباني شذوذہ وأخطاؤہ
(۷) امام بیہقی ؒ کی “السنن الکبری” پر علامہ اعظمیؒ کے استدراکات
(۸) تحفۃ الاحوذی شرح جامع ترمذی پر علامہ اعظمیؒ کے استدراکات
(۹) اصطلاحات جرح وتعدیل کے تعلق سے علامہ اعظمیؒ کے انتقاد کی ایک جھلک
(۱۰) حافظ مزیؒ کی “تحفۃ الأشراف”سے متعلق علامہ دمیریؒ پرایک اہم استدراک
(۱۱)علامہ مرتضی زبیدی ؒ کی وطنیت کے تعلق سے “تاج العروس” کے مقدمہ نگار پر انتقاد
(۱۲) فن شاعری کی صنف “بحر سریع اور بحر رمل” کے تعلق سے علامہ اعظمیؒ کا نقد
(۱۳) ہدیۂ تشکر
علامہ اعظمی بحیثیت ایک عظیم نَقَّاد
مقالہ نگار: امداداللہ امیرالدین مئوی قاسمی
الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین، وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین، أما بعد!
نقد کی تعریف:
نقد عربی زبان کا لفظ ہے: نقد الشيءَ نقدًا: نقره ليختبره، أو ليميز جيدہ من رديئهِ، نقد الدراهم والدنانير: ميز جيدها من رديئها يقال: نقد النثر، ونقد الشعرَ: أظهر ما فيها من عيب أو حسن.[1] اس کے معنی : کھرے کھوٹے کی پہچان کرنا، اور کسی چیز کی اچھائی وبرائی کو پرکھنا ہے، یعنی نقد و تنقید صحیح و ضعیف کی تمیز کا نام ہے، اسی کے ہم معنی لفظ” تنقید” باب تفعیل سےہے، اور اردو میں مستعمل ہے۔ تنقید ایک اصطلاح ہے جس میں کسی شخصیت یا فن پارے کے منفی اور مثبت پہلو شمار کرائے جاتے ہیں، بلفظ دیگر کسی چیز کے تجزیاتی مطالعہ کے علاوہ اس کی تشریح، اور اس کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانا، اور پسندیدگی وناپسندیدگی کا اظہارنقد کہلاتا ہے۔ عموماً تنقید کے دو پہلوہوتے ہیں: ایک یہ کہ تنقیدبرائے اصلاح ہو، وہ تنقید کے لائق ہو، اور اس میں اخلاص ہو، تو جس پر تنقید کی گئی ہے اس کو فائدہ ہوتا ہے، دوسرے یہ کہ تنقید کی ضرورت ہی نہیں تھی، یا تھی مگر تنقید اصلاح کی غرض سے نہیں کی گئی، تو اس سے دل شکنی ہوتی ہے، اور یہ تنقید، تنقیص بن جاتی ہے۔
ایک نقاد چونکہ فن کی ترقی کا خواہاں ہوتا ہے، اس لئے اس کی تنقید کا مقصد ہمیشہ مثبت اور تعمیر ی ہوتا ہے، وہ مصنف کی تضحیک نہیں کرتا، اور نہ اس کی تصنیف کی بے قدری کرتا ہے، بلکہ اسے فنکار سے یک گونہ ہمدردی ہوتی ہے، وہ اس کی تخلیق کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے محاسن و معائب کی نشاندہی کرتا ہے، اس سے اس کا مقصد فنکار کی حوصلہ شکنی نہیں ہوتا، بلکہ اس کی حوصلہ افزائی ، رہنمائی اور اصلاح پیش نظر ہوتی ہے، اس طرح کسی فن پارے کے تجزیہ سے حاصل شدہ تاثرات و تجربات سے صاحبان ذوق کو لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
شرائطِ نقد:
تنقید کا مقصد فن پاروں کی تشریح و توضیح کرنا ہے۔ نقاد نقد و جرح کرتے وقت صرف کسی فن پارے کے محاسن و معائب ہی بیان نہیں کرتا بلکہ اس کی معنویت کو بھی اس طرح عیاں اور واضح کردیتا ہے کہ اس کی تفہیم میں قاری کو بڑی مدد ملتی ہے، اور وہ اس کی اثر انگیزی سے بڑا متأثر ہوتا ہے، اور یہی وہ فنی تأثر ہے جو نقاد کی کوشش کے بغیر ممکن نہیں۔ناقد کے لیے ایک اہم شرط یہ ہے کہ وہ نقد کی اہلیت رکھتا ہو، اہلیت سے مراد یہ ہے کہ جس فن یا رجال فن پر کوئی شخص نقد کرنا چاہتا ہے تو اسے اس فن میں مہارت اور رسوخ حاصل ہونا چاہیے، کسی فن سے متعلق بات کرنے کے لیے تو شاید اس فن میں مہارت تامہ یا رسوخ کی ضرورت نہ ہو، لیکن نقد و تنقید ایک اعلیٰ ترین علمی کام ہے جس کے لیے از بس ضروری ہے کہ ناقد کا علم متعلقہ فن کے صرف مبتدیات تک محدود نہ ہو۔
ا ن تمام باتو ں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ناقد کا فرض ہے کہ اس کا علم وسیع اور ذہن تیز ہو ، عدل سے کام لے، تعصب اور جانبداری نہ برتے، جذبات سے بالاتر ہو کر بے لاگ تجزیہ کے بعد کسی فن پارے پر اپنی رائے کا اظہار کرے،تاکہ رائے متوازن ، معیاری اور صحت مند سمجھی جائے، وہ اپنے ان فرائض کو مکمل دیانت داری سے بجالائے تاکہ فن کا معیار بلند ہو، ادیب و قاری کے ذوق سلیم میں اضافہ ہو، وہ ذاتیات اور پسند و ناپسند کا غلام نہ بنے ، نیزاسے مصنف کے احساسات اور جذبات سے آشنا ہونا چاہیے تاکہ وہ فن پارے کا صحیح طریق سے جائزہ لے سکے، ورنہ اس کے تأثرات بے ربط اور بے معنی ہوں گے۔
فنون اسلامیہ میں نقد کی اہمیت
اسلامی فنون میں فن نقد کو بڑی اہمیت حاصل ہے،کیوں کہ مکمل دین ہم تک نقل کے ذریعہ پہونچا ہے، اور نقول واخبار کی صداقت واعتبار ناقلین کی ثقاہت واعتماد پر منحصر ہے، اس اعتبار کو جانچنے اور پرکھنے، نیز دین کو افتراء وتحریف سے محفوظ رکھنے کے لیے فن اسماء الرجال اور جرح وتعدیل وجود میں آیا، حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ(ت:۱۸۱ھ) فرماتے ہیں: الإسناد عندي من الدین، لولا الإسناد لقال من شاء ما شاء،[2] یہ فن جرح وتعدیل، نقد ہی سے عبارت ہے،اور قرون أولیٰ مشہود لہا بالخیر سے ہی جاری وساری ہے، اسلامی تاریخ اپنے دامن میں بہت سی ایسی شخصیات کو سموئے ہوئے ہے جو فن نقد میں امامت کے درجے پر فائز ہیں، جن میںامام شعبہؒ (ت:۱۶۰ھ)،امام یحییٰ القطانؒ (ت:۱۹۸ھ)، امام یحییٰ بن معینؒ (ت:۲۳۳ھ)، حافظ علی بن المدینیؒ (ت:۲۳۴ھ) ، امام بخاریؒ (ت:۲۵۶ھ)، حافظ ابو زرعہ رازیؒ (ت:۲۶۴ھ)، حافظ ابن ابی حاتم بستیؒ (ت:۳۲۷ھ)، حافظ مزّیؒ (ت:۷۴۲ھ)، حافظ ذہبیؒ (ت:۷۴۸ھ)، اور حافظ ابن حجرؒ (ت:۸۵۲ھ) نمایاں ہیں۔
علامہ اعظمی بحیثیت عظیم نقّاد
امیر الہند اول محدث کبیر ابوالمآثر حضرت مولاناحبیب الرحمن الاعظمی(۱۳۱۹ھ-۱۴۱۲ھ) اسلامی علوم وفنون میں یکتائے زمانہ اور یگانۂ روزگار تھے، تفسیر وحدیث، فقہ وتاریخ، لغت وادب، اور تراجم وتذکرہ ہوں، یامنطق و فلسفہ، اور علم کلام یا فن شاعری، ہر ایک میں آپ کو نمایاں مقام اور عبقری حیثیت حاصل ہے، آپ کی علمی گہرائی وگیرائی اور دقت نظری، اور اس پر بلا کا حافظہ علماء ہند وبیرون ہندسب کے نزدیک مسلّم ہے،یہی وجہ ہے کہ آپ کے علمی شاہ کاروں میں نہ صرف محدثانہ، بلکہ ناقدانہ رنگ پوری طرح نمایاں ہے، آپ کی تحریریں آپ کی شخصیت کو ایک محدث ہی نہیں، بلکہ صاحب بصیرت اور نکتہ رس نقّاد کی صورت میں بھی آشکارا کرتی ہیں۔
ایک حقیقی نقّاد کے لیے جو اوصاف اور شرائط ہونی چاہئیں، اللہ تعالی نے وہ تمام علامہ اعظمیؒ میں بدرجۂ اتم ودیعت کر رکھی تھیں، سچ یہ ہے کہ دقت نظری اور حق شناسی علامہ اعظمیؒ کا ایک خاص وصف ہے، جس میںنہ صرف آپ اپنے معاصرین پر فوقیت رکھتے ہیں، بلکہ گذشتہ کئی صدیوںمیں بھی آپ کی نظیر نایاب نہیں تو کمیاب ضرورہے، آپ کا یہ وصف حدیث اور علوم حدیث کے ساتھ ساتھ دیگر فنون: فقہ، تاریخ، ادب وغیرہ میں بھی جلوہ نما ہے،بلکہ یہ وصف آپ کی پہچان اور تعارف کی حیثیت رکھتا ہے،علامہ اعظمیؒ کے ایک سچے قدر داںاور جاں نثارحضرت شیخ عبدالفتاح ابوغدہؒ(ت:۱۴۱۷ھ) ایک موقعہ پر لکھتے ہیں: العلامۃ الکبیر المحقق المحدث مولانا الشیخ حبیب الرحمن الأعظمي، الذي عرفہ علماء بلاد الشام ومصر والمغرب وغیرها ، من تحقیقاتہ واستدراکاتہ النادرۃ الغالیۃ علی العلامۃ الشیخ أحمد محمد شاکر رحمہ اللہ تعالی في تحقیقہ لکتاب “مسندأحمد”.[3] (علامۂ کبیر، محقق، محدث، حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب الاعظمی، جن سے شام، اور مصر ومغرب وغیرہ ممالک کے علماء، “مسند احمد” پر علامہ شیخ احمد محمد شاکرؒ کی تحقیق پر آپ کی نادر اور بیش قیمت تحقیقات واستدراکات کے ذریعہ متعارف ہوئے ہیں)۔نیزدار المصنفین کے باوقار مجلہ “معارف” جس میں علامہ اعظمیؒ کے بہت سارے مضامین شائع ہوئے ہیں، اس کے ایڈیٹر جناب ضیاء الدین اصلاحی صاحب (ت:۱۴۲۹ھ) لکھتے ہیں: مولانا سلیس ، شگفتہ، پُر مغز اور حشوو زوائد سے پاک اردو لکھتے تھے، جو ما قلّ وما دلّ کا نمونہ ہوتی تھی،مستقل کتابوں کے علاوہ انھوں نے معارف اور برہان میں متعدد محققانہ مضامین بھی لکھے ہیں، ان میں سے اکثر میں کسی مصنف یا مقالہ نگار کی فرو گذاشتوں کی نشان دہی کی گئی ہے، اور یہ بڑے بیش قیمت ہیں، جن سے علمی وتحقیقی کام کرنے والے بے نیاز نہیں ہوسکتے۔[4]
مزید برآںیہ کہ نقد کرتے ہوئے آپ کا شہاب قلم ادب کی حلاوت اور مخالف کے مقام ومرتبہ سے صرف نظر نہیں کرتا، بلکہ حسن اخلاق کا آئینہ دار نظر آتاہے۔ ذلك فضل اللہ یؤتیہ من یشاء.
آپ کی خدمات علمیہ کو تمام تر علمائے راسخین نے سراہا ہے، اور آپ کی شان میں مدح سرائی کی ہے، جن کی کچھ تفصیل علامہ اعظمیؒ کی بے نظیر سوانح “حیات ابو المآثر” جلد اول، صفحہ ۵۳۳ تا ۵۹۶ پر دیکھی جاسکتی ہے، سطور ذیل میں ہم چند ایسی تحریریں نقل کررہے ہیں، جو آپ کی دقتِ نظر اورکمالِ نقد کے اعتراف سے تعلق رکھتی ہیں:
خواجہ عبدالحئ پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی کی کتاب ” التفسیر الحدید” پر علامہ اعظمیؒ کی ناقدانہ تحریر “التنقید السدید علی التفسیر الحدید” شائع ہوئی، تو اس کو ملاحظہ فرمانے کے بعد حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ (ت:۱۳۶۲ھ)نے ۲۴/صفر ۱۳۴۹ھ، کوعلامہ اعظمیؒ کے نام خط لکھا: ’’احقر اشرف علی عفی عنہ نے اس تنقیدی مضمون کو غایت شوق سے حرفاً حرفاً دیکھا، اور اس حدیث کا مصداق پایا:
قال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم : يحمل هذا العلم من كل خلف عدوله، ينفون عنه تحريف الغالين، وانتحال المبطلين، وتأويل الجاهلين.[5]
ما شاء اللہ قوت استدلال، حسن ادا، دفع شبہات، لین کلام، غرض ہر پہلو سے بے تکلف اس شعر کا نمونہ ہے
ز فرق تا بقدم ہر کجا کہ می نگرم کرشمہ دامن دل می کشدکہ جا اینجاست
بارك اللہ تعالی في إفادات المصنف وإفاضاتہ.[6]
وسیع النظر فقیہ ومحقق علامہ زاہدالکوثری ؒ(ت:۱۳۷۱ھ)، علامہ اعظمیؒ کواپنے خطوط میں جن القابات سے نوازتےہیں، وہ آپ کی فن نقد میں مہارت کے اعتراف سے عبارت ہیں، کبھی’’ حضرۃ مولانا العلامۃ الأوحد والنحریر المفرد‘‘ سے خطاب کرتے ہیں، تو کہیں ’’الجھبذ الفرید‘‘ اور ’’العلامۃ النحریر الأستاذ الکبیر‘‘ جیسے القابات، جو خالصتاً فن نقد میں مہارت تامہ پر دلالت کرتے ہیں، سے آپ کی پذیرائی کرتے ہیں۔
حافظ زیلعیؒ(ت:۷۶۲ھ) کی معرکۃ الآراء تالیف ’’نصب الرایۃ‘‘ کی چوتھی جلد کے شروع میں علامہ زا ہدالکوثریؒ نے علامہ قاسم بن قطلوبغاؒ کی تخریج ہدایہ ’’منیۃ الألمعی‘‘ کا اضافہ فرمایا ہے، اس موقعہ پر علامہ اعظمیؒ نے حافظ ابن حجرؒ کی تصنیف ’’الدرایۃ‘‘ پر علامہ قاسم بن قطلوبغاؒ کے استدراکات ایک قلمی نسخے سے نقل کرکے مئو سے شیخ کوثریؒ کی خدمت میں بھیجا، جسے شیخ نے نعمت بیش بہا سمجھا، اور اپنے مقدمے میں علامہ اعظمیؒ کا شکریہ ان الفاظ میں ادا کیا ہے: هذا وإني أشكر مولانا العلامة النحرير والجهبذ الخبير أبا المآثر حبيب الرحمن الأعظمي، السالف الذكر، على تفضله بكتابة التعليقات بخط يده المباركة، ومبادرته بإرسالها إلى هذا العاجز، مع ما له من الأشغال الكثيرة، فإنه هو السبب الأوحد لنشر الاثنين معاً.[7] (علامه، ماهر نقّاد، وسیع العلم محقق ابو المآثر مولانا حبیب الرحمن الاعظمی، جن کا اوپر تذکرہ گذرا ہے، میں ان کی اِس کرم فرمائی پر ان کا شکر گذار ہوں کہ کثرت اشتغال کے باوجود ان تعلیقات کو اپنے ہاتھوں تحریر کرکے اس عاجز کے پاس بھیجا، دراصل دونوں کی ایک ساتھ اشاعت کا وہ تنہا ذریعہ بنے ہیں۔
معروف محقق ونقّاد شیخ عبدالفتاح ابوغدہؒ نے مستور کی تعدیل اور قبولِ روایت کے موضوع پر اپنی ایک اہم تحقیق علامہ اعظمیؒ کی خدمت میں پیش کی تھی، جس کو حضرت ؒ نے پسند فرمایا، اس کی تصویب کی، اور اس پر اپنے تأثرات شیخ کو ارسال کیے تھے، اس کا تذکرہ شیخ ؒ نے ان الفاظ میں کیا ہے: وأرسلت أيضا صورة عن هذا البحث إلى شيخنا العلامة المحدث الحافظ الفقيه والناقد البارع المحقق الضليع المفيد: فضيلة الشيخ حبيب الرحمن الأعظمي في أعظم كره بالهند، حفظه اللہ تعالى وأمتع به المسلمين،الخ،[8] ( میں نے اس بحث کی ایک کاپی اپنے شیخ، علامہ ، محدث، حافظ، فقیہ، ماہر نقّاد اور بلندپایہ محقق حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب الاعظمی کی خدمت میں اعظم گڈھ، ہندوستان روانہ کی تھی)
علامہ زاہد الکوثریؒ (ت:۱۳۷۱ھ) کی مشہور تصنیف “فقہ أھل العراق وحدیثھم” میں شیخ عبد الفتاح ابو غدّہؒ نے بطور تکملہ وتذییل، ہند وپاک کے چالیس علماء ومحدثین کا ذکر کیا ہے، جن میں سےتینتیس (۳۳) علامہ بنوریؒ (ت:۱۳۹۷ھ)کے مرتب کردہ، اور آخر کے سات(۷) شیخ کے قلم سے ہیں، اس تکملے میں نمبر (۳۹) پر حضرت شیخ علامہ اعظمیؒ کے تعارف میں یوں رطب اللسان ہیں: العلامة ،المحدث البارع، الفقيه، الشيخ حبيب الرحمن الأعظمي، صاحب التعليقات البديعة، والتحقيقات النادرة، العالم بالرجال والعلل، وتعليقاته وتحقيقاته السنية، على “سنن سعيد بن منصور”، و “الزهد” لابن المبارك، و “مسند الحميدي”، واستدراكاته على الشيخ أحمدشاكر في تعليقه على “مسند أحمد”، ثم تعليقاته الحافلة على “مصنف عبدالرزاق” الذي يطبع الآن بعون اللہ، كلها تنطق بسموّ فضله وبسطة يديه في هذا العلم الشريف، وقد قارب السبعين أو جاوزها، أمدّ اللہ في عمره ونفع به.[9]
(علامہ، ماہر فن محدث، فقیہ مولانا حبیب الرحمن الاعظمیؒ، انوکھی تعلیقات اور نادر تحقیقات کے حامل، علم رجال اور علل کے شناور، جن کی بیش بہا تعلیقات وتحقیقات سے سنن سعید بن منصور، حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ کی کتاب الزہد، اور مسند حمیدی مزین ہیں، مسند احمد کی شیخ احمد شاکرؒ کی تحقیق پر آپ کے استدراکات ہیں، نیز حال ہی میں زیور طبع سے آراستہ ہونے والی مصنف عبد الرزاق پر آپ کی جامع تعلیقات ہیں، یہ سارے کارنامے آپ کی رفعتِ شان، اور حدیث پاک کے تعلق سے آپ کی وسعت علمی کے غمّاز ہیں، آپ کی عمر تقریبا ستر (۷۰) سال یا اس سے زائد ہوچکی ہے، اللہ تعالی آپ کی عمر دراز کرے اور آپ کا نفع جاری رکھے، آمین۔)واضح رہے کہ حضرت شیخ کی یہ تحریر ۱۳۹۰ھ کی ہے۔
اسی کتاب کے مقدمے کے دوران حاشیے میں مصنف عبد الرزاق کے تعلق سے بر سبیل تذکرہ حضرت شیخ، علامہ اعظمیؒ کا ذکر خیر اِن الفاظ میں کرتے ہیں: بتحقيق العلامة المحدث المحقق الجليل، المشهود له بالبراعة في هذا الفن من أهله، الشيخ حبيب الرحمن الأعظمي- حفظه اللہ ورعاه- [10] (علامہ، محدث، عظیم محقق مولانا حبیب الرحمن الاعظمیؒ کی تحقیق سے آراستہ ہے، جن کی اس فن میں مہارت اہل فن کے نزدیک مسلّم ہے)
نیز مشہور محقق علامہ شعیب ارنؤوط (ت:۱۴۳۸ھ)امام بخاریؒ(ت:۲۵۶ھ) کے قول “فیہ نظر” کے تعلق سے علامہ اعظمی ؒ کےاستدراک پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:وهذه فائدة نفيسة تُنبئ عن إمامة هذا الشيخ – حفظه اللہ ونفع به – بعلم الجرح والتعديل، ودراية واسعة بقضاياه.[11] (یہ ایک عمدہ نکتہ ہے، جس سے فن جرح وتعدیل میں حضرت شیخ اعظمی کی شانِ امامت اور اس کے مسائل پر آپ کی علمی وسعت جھلکتی ہے۔
علامہ اعظمیؒ کی تصانیف و استدراکات علمیہ کا شمار کراتے ہوئے استاذ محترم مولانا مسعود احمد صاحب الاعظمی رقم طراز ہیں: آپ کے اردو مضامین کی تعداد تقریبا ایک سو بیس ہے، جبکہ عربی مضامین دس ہیں، آپ کی مکمل نامکمل کتابیں اور رسالے اردو میں چالیس اور عربی میں سات ہیں، نیز بیس سے زائد کتابیں آپ کی تحقیق سے آراستہ ہوئی ہیں، ان عظیم علمی خدات کے ساتھ ساتھ علامہ اعظمیؒ کے بیش قیمت مفید استدراکات اور فی البدیہہ دقیق تعقبات بھی ہیں، جو آپ کی مطالعہ کردہ کتب کے حواشی پر جا بجا بکھرے ہوئے ہیں، میرا خیال ہے کہ علامہ اعظمی ؒکے یہ استدراکات آپ کی مہارت، علمی گہرائی وگیرائی، برجستگی، اور دورانِ مطالعہ آپ کے استحضار کی ایک بڑی دلیل اور گواہ ہیں، جو اتنے وافر مقدار میں ہیں کہ اگر ان کو جمع ومرتب کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب وجود میں آجائے گی۔[12]
حضرت محدث کبیر علیہ الرحمہ کے انتقادات واستدراکات مختلف علوم وفنون سے تعلق رکھتے ہیں، جن کی تفصیلات کا نہ یہ مقالہ متحمل ہے، نہ مقالہ نگار کے بس کی بات ہے۔ استاذ مکرم حضرت مولانا مسعود احمد صاحب الاعظمی نے علامہ اعظمیؒ کے ان شہ پاروں کو بہت عمدگی اور سلیقہ کے ساتھ زریں لڑی میں پِرویا ہے، چنانچہ “مقالات ابو المآثر” کی تین جلدیں، اور” حیات ابوالمآثر” کی دو جلدیں اس کی گواہ ہیں، بالخصوص مقالات کی تیسری جلد تقریباً پوری کی پوری آپ کے تنقیدی مقالات ومضامین پر مشتمل ہے، اسی طرح مجلہ “المآثر “کے شماروں میں بھی یہ علمی شذرات جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔
ذیل میں ہم مشتے نمونہ از خروارے چند اہم استدراکات اور انتقادات ذکر کرتے ہیں:
شیخ احمد محمد شاکرؒ کی”مسندالإمام أحمد” کی تحقیق پر علامہ اعظمیؒ کے انتقادات
علامہ اعظمیؒ کے کلک گہربار سے جن کتابوں پر قیمتی استدراکات منصۂ شہود پر آئے ہیں، ان میں بہت زیادہ شہرت کے حامل، علامہ شیخ احمد محمد شاکرؒ(ت:۱۳۷۷ھ) کی “مسند احمد”کی تحقیق پر آپ کے استدراکات ہیں،جن کو فاضل محقق ؒ نے مسند کی پندرہویں جلد میں بڑے اہتمام اور شکریہ کے ساتھ طبع کیا ہے،ان کے منظر عام پر آنے کے بعدآپ کی شہرت وناموری اور علم حدیث میں آپ کے تبحّر کا اثرچہار دانگ عالم میں چھا گیا، اور خود شیخ احمد محمد شاکرؒ آپ کے شیفتہ وگرویدہ ہوگئے۔
چنانچہ شیخ احمد محمد شاکرؒ نے علامہ اعظمیؒ کے استدراکات کو بسر وچشم قبول کرتے ہوئے اظہار تشکر اور علمی عظمت و رفعت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا تھا: لقد جاءني كتابكم الأول النفيس…. أما استدراكاتكم فكلها نفيسة غالية، ولا أقول هذا مجاملة…. وأشكركم خالص الشكر على هذه العناية الجيدة، وأرجو أن تزيدوني من إشاراتكم وإرشاداتكم، خدمة للسنة النبوية المطهرة، وأنتم ، كما رأيت من عملكم، من أعظم العلماء بها في هذا العصر، فالحمدلله على توفيقكم…. ثم أكرر الرجاء أن لا تحرموني من آرائكم النيرة وتحقيقاتكم النفيسة.[13] (آپ کا والا نامہ موصول ہوا….جہاں تک آپ کے استدراکات کا سوال ہے تو سب کے سب عمدہ اور بیش قیمت ہیں، اور میں یہ بات بطور خوشامدنہیں کہہ رہا ہوں …. اس عظیم توجہ فرمائی پر آپ کا خلوص دل سے شکر گزار ہوں، اور امید رکھتا ہوں کہ حدیث پاک کی خدمت کے جذبے سے مجھے مزید مشوروں اور رہنمائیوں سے نوازیں گے،آپ کے اس عظیم عمل کو دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہونچا ہوں کہ آپ اس زمانہ میںسنت نبویہ کے ایک عظیم ترین عالم ہیں۔ فالحمد للہ علی ذلك، آخر میں پھر میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے اپنی قیمتی آراء اور تحقیقات سے محروم نہ رکھئے گا۔اھ)
شیخ احمد محمد شاکرؒ کی تحقیق پر علامہ اعظمیؒ کے انتقادات اور استدراکات بہت ہیں، ان کا ایک حصہ تو مسند احمد کی پندرہویں جلد میں شیخؒ نے شامل اشاعت کیا ہے، اور دوسرا حصہ بھی علامہ اعظمیؒ نے شیخ کی خدمت میں بھیجا تھا، مگران تک یہ حصہ پہونچنے سے پہلے پیام اجل پہنچ گیا،رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔ یہ حصہ اور آگے کے بہت سارے استدراکات مجلہ “البعث الاسلامی” (ج۴، ش۱)، مجلہ “ترجمان الاسلام” بنارس ، (علامہ اعظمیؒ پر خصوصی اشاعت)، اور مجلہ “المآثر” (ج۱، ش۴، اور ج۲، ش۱) کے صفحات کی زینت بن چکے ہیں۔ ذیل میں علامہ اعظمیؒ کے انتقادات کے کچھ نمونے پیش ہیں:
مسند احمدجلد۲ صفحہ ۲۸۰، حدیث نمبر ۱۱۸۷ میں ایک جملہ آیا ہے: اخطت استك الحضرۃ، اس پر علامہ اعظمیؒ نے لکھا کہ یہ جملہ اس طرح نہیں ہے، بلکہ درست: أخطأت استك الحضرۃ ہے، چنانچہ کنز العمال اور مجمع الزوائد میں اسی طرح ہے۔
مسند احمد جلد ۴ صفحہ ۳۲۲، حدیث نمبر ۲۹۰۰ میں علقمہ بن وعلہ کا نام آیا ہے، اس پر شیخ محقق لکھتے ہیں: علقمہ بن وعلہ کا میں نے نہ کہیں تذکرہ پڑھا، نہ اس کے علاوہ کہیں ان کا ذکر دیکھا، مجھے نہیں معلوم کہ یہ کون ہیں؟ شاید عبد الرحمن بن وعلہ کے بھائی ہوں۔اھ اس پر علامہ اعظمیؒ نے استدراک کیا کہ علقمہ بن وعلہ کا تذکرہ ابن یونس کی تاریخ مصر میں، سمعانی کی کتاب الانساب میں، اور ابن اثیر کی لباب میں ہے، اور یہ واقعۃً عبدالرحمن بن وعلہ کے بھائی ہیں۔
مسند احمد جلد۵ صفحہ۲۹۴، پر شیخ محقق نے لفظ “دربان” کی تشریح ایک قسم کے کپڑے سے کی ہے، علامہ اعظمیؒ نے ان پر نقد کرتے ہوئے لکھا کہ دربان فارسی زبان کا لفظ ہے، اس کے عربی معنی حاجب اور بوّاب کے ہیں، پھر مولانا نے حدیث میں وارداس پورے جملے کی تشریح بھی کی ہے، جس سے آپ کے قول کی تائید ہوتی ہے۔
علامہ اعظمیؒ کے نقد کا ایک شاہکار: الألباني شذوذہ وأخطاؤہ
علامہ اعظمیؒ کی علمی ودینی غیرت وحمیت کا شاہ کار یہ علمی سرمایہ چار حصوںمیں(۱۷۲) صفحات پر اشاعت پذیر ہوا تھا، اس میں عرب دنیا کی ایک مشہور اور نامور شخصیت شیخ ناصرالدین البانی(ت:۱۴۲۰ھ) پر عالمانہ نقد کیا گیا ہے۔ شیخ البانی اپنی علمی ناپختگی، فطری حدّت، اور کسی بڑے کی رہنمائی سے محرومی کے باعث مزاج میں ضرورت سے زیادہ شدت، نیز حد اعتدال سے بڑھے ہوئے بے باکانہ انداز اور دائرۂ ادب سے متجاوز اسلوب بیان کی وجہ سے بے شمار تسامحات وتناقضات کے شکار ہوئے ہیں،یہی نہیں بلکہ ان کی جرأت و بیباکی نے وہ گل کھلائے کہ نئی نسل کا مزاج بدل کر رکھ دیا، احادیث ضعیفہ کو موضوعہ کے ساتھ شامل کرکے، اور سنن اربعہ ودیگر کتب حدیث کی صحیح وضعیف میں تقسیم کرکے ایسا ذہن بنا دیا کہ احادیث ضعیفہ سے اعتماد ختم ہوگیا، صرف اصطلاحی صحیح احادیث پر انحصار کا مزاج بن گیا، جب کہ واقعہ یہ ہے کہ دین کی صحیح شکل بنا ہر قسم کی صحیح، حسن، ضعیف احادیث کے امتزاج کے ممکن نہیں ہے، ہاںاتنا ضرور ہے کہ ہر قسم کی احادیث کو اس کے صحیح محمل پر رکھا جائے۔
عرب نسلِ نوجو تساہل پسندی اور تن آسانی کی خوگر ہوچکی ہے، اس نے شیخ البانی کے افکار کو بسر وچشم قبول کیا، اور انھیں اس قدر بڑھاوا دیا کہ ان کا نام بطور استناد استعمال کرنے لگے، اور اس فکر نے ایسا نقصان پہونچایا جس کی تلافی کے لیےشاید صدیاں درکار ہوں، غالباً یہی وجہ ہے کہ شیخ البانی پر نقد کرتے وقت علامہ اعظمیؒ کا شہاب قلم عادت کے خلاف صفت جلالیہ کا پرتو نظر آتا ہے،یہ وہ دور تھا جب شیخ البانی کے خلاف لب کشائی کی کوئی ہمت نہیں کرپارہا تھا، ایسے میں علامہ اعظمیؒ کے شہاب قلم سے یہ شاہکار وجود میں آیا، جس نے شیخ کے مبلغ علم اور ان کے تناقضات کو اس طرح مدلل و آشکارا کیا کہ علمی دنیا میں دھوم مچ گئی، اور علمائے کرام جو پہلے ہی سے شیخ کی مچائی تباہی سے نالاں تھے، انھیں یہ جوہر بیش بہا ہاتھ لگ گیا، اور پھر شیخ کے افکار وخیالات پر قدغن لگانے اور امت کو ان کے پھیلائے غلط افکار سے بچانے کے لیے کئی تصانیف وجود میں آئیں،چنانچہ شیخ حسن سقاف کی“تناقضات الألباني الواضحات” اورشیخ محمود سعید ممدوح کی بہترین تصنیف “التعریف بأوھام من قسّم السنن إلی صحیح وضعیف” وغیرہ کتابیں علامہ اعظمیؒ کی رہنمائی کی مرہون منت ہیں،ولکن الفضل للمتقدم
شیخ البانی کے بارے میں خود علامہ اعظمیؒ لکھتے ہیں:
الشيخ ناصرالدين الألباني شديد الولوع بتخطئة الحذّاق من كبار علماء الإسلام، ولايحابي في ذلك أحدا، كائنا ما كان، فتراه يوهّم البخاريَّ ومسلما، ومن دونهما، ويغلط ابن عبدالبر وابن حزم وابن تيمية والذهبي وابن القيم وابن حجر والصنعاني والشوكاني، ويكثر من ذلك حتى يظن الجهلة والسذَّج من العلماءأن الألباني نبغ في هذا العصر نبوغاً يندر مثله.
(شيخ ناصرالدين الباني كواکابر علمائے اسلام کے ماہرین کو غلط ٹھہرانے کا بہت شوق ہے، اس سلسلے میں وہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے،چنانچہ وہ بخاری، اور مسلم وغیرہ کی فرو گزاشتیں دکھاتے ہیں، اور ابن عبدالبر، ابن حزم، ابن تیمیہ، ذہبی، ابن قیم، ابن حجر، صنعانی، اور شوکانی وغیرہ کی غلطیاں نکالتے ہیں، اور یہ کام اس کثرت سے کرتے ہیں کہ علم سے ناآشنا اور سادہ لوح علماء یہ گمان کرنے لگے کہ البانی کو اس فن میں وہ کمال حاصل ہے جس کی نظیر مشکل ہے۔ [14]
علامہ اعظمیؒ نے اس کتاب میں شیخ البانی کی کتب سے ایسے نمونے پیش کیے ہیں جن میں شیخ اپنی تحقیقات کو نادر، انوکھی اور اچھوتی، نئی اور بے مثل تحقیق وغیرہ الفاظ سے موسوم کیا ہے، حالانکہ وہ تحقیقات یا تو متقدمین سے ماخوذ ہیں یا لایعبأبہ ہیں، اور چونکہ شیخ البانی نے اساتذہ اور اہل علم کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہیں کیا ہے،جو کہ رسوخ فی العلم اور فکری اعتدال کے لیے ضروری ہے، بلکہ گھڑی سازی کے پیشے کے ساتھ ساتھ کتابوں کا مطالعہ کرتے کرتے مقام اجتہاد تک پہونچے ہیں، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ان سے فہم وتحقیق میں ایسی ایسی غلطیاں سرزد ہوئیںجن کا مبتدی طلبہ سے بھی صدور نہیں ہوتا۔
علامہ اعظمیؒ نے شیخ البانی پر استدراکات اور انتقادات کومندرجہ ذیل عنوانات پر منقسم کیا ہے:
۱- مبلغ علم الألباني ۲- ولوع الألباني بنقض کلام ابن تیمیۃ۳-مناقضات ۴-تحریم الصورۃ التي توطأ ۵-ھل خاتم الذهب محرم علی النساء؟ ۶-خرق الإجماع ۷-اختلاف العلماء ۸-ستر المرأۃ ۹-السفر لزیارۃ القبر النبوي ا ۱۰-تطبیق الألباني ذم المعتزلۃ علی ذم أتباع الأئمۃ ۱۱- انقراض الاجتهاد، ان کے علاوہ ذیلی عناوین بھی قائم کیے ہیں۔
ان میں سے بعض عنوانات پر کسی قدر مفصل گفتگو مولانا اعجازاحمد صاحب اعظمیؒ(ت:۱۴۳۴ھ) کے قلم سے مجلہ “المآثر” کے ابتدائی شماروں میں آچکی ہے، نیز حیات ابو المآثر کے اندر بھی اس کی تفصیلات موجود ہیں، اورخود عربی میں یہ فن پارہ بھی مطبوع اور متداول ہے، اس لیےمقالے کی طوالت کے خوف سے ہم ان انتقادات کی مثالوں سے صرف نظر کرتے ہیں۔
امام بیہقیؒ کی “السنن الکبری” پر علامہ اعظمیؒ کے استدراکات
پانچویں صدی ہجری کے نصف اول کے عظیم المرتبت اور بلند پایہ محدث ومصنف امام بیہقی (ت:۴۵۸ھ) محتاج تعارف نہیں ہیں، آپ کی بے شمار تصانیف میںسب سے مشہور تصنیف “السنن الکبری” ہے، اس اہم کتاب کے متعدد مقامات پر حضرت محدث کبیر علامہ اعظمیؒ کے بیش بہا استدراکات موجود ہیں، جو استاذ محترم حضرت مولانادکتور مسعود احمد صاحب الاعظمی دامت برکاتہم کے قلم گہر بار سےمزین ہو کر مجلہ “المآثر” (جلد۱۸شمارہ ۴، ج۱۹ش۱، ج۱۹ش۳، ج۲۰ش۲، ج۲۱ش۱) میںپانچ قسطوں میں شائع ہوئے ہیں، جن کی تعداد تقریباً ستاون(۵۷) ہے، ہم ان میں سے کچھ نمونے ذیل میں نقل کرتے ہیں، جو علامہ اعظمیؒ کی وسعت علم اور دقت نظر کے غماز ہیں:
جلد ۱، صفحہ۹۰ پر ایک روایت ہے، جس میں یہ الفاظ ہیں: من أفتاك بهذہ المسألۃ؟، علامہ اعظمیؒ نے اس پر علامت لگا کر تحریر کیا ہے کہ : من أفتاك بهذا؟ أمسیلمۃ؟ وقد کان السائل مع مسیلمۃ مرۃ، راجع “المصنف لابن أبي شیبۃ”، و “عبدالرزاق”، و”تاریخ البخاري”، یعنی اس روایت میں من أفتاك بهذہ المسألۃ کے بجائے من أفتاك بهذا؟ أ مسیلمۃ؟ صحیح معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ سائل ایک دفعہ مسیلمہ کے ساتھ ـ تھا، مصنَف ابن ابی شیبہ وعبدالرزاق، اور تاریخ بخاری کی طرف مراجعت کرنی چاہیے۔اھ
چنانچہ مصنف ابن أبی شبیہ (۱/۱۷۵)، مصنف عبدالرزاق (۱/۳۳۹)، اور تاریخ بخاری (جلد ۱، قسم ۱، صفحہ ۴۳۷، و۴۳۹ ) میں ایسے متعدد شواہد ہیں جو علامہ اعظمیؒ کے احتمال کو درست اور ثابت قرار دیتے ہیں۔
جلد ۱، صفحہ ۱۲۴پر امام بیہقیؒ نے مسّ مرأۃ سے وضو ٹوٹنے کو حضرت عمر، حضرت عبداللہ بن مسعود، اور حضرت عبداللہ بن عمرثکا قول قرار دیا ہے، علامہ اعظمیؒ نے اس پر استدراک کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: العجب من البیهقي أن لایتکلم في ھذہ الروایۃ، وقدعلم أنہ من روایۃ الدراوردي عن الدیباج، وقد خالفہ عبیداللہ بن عمر عند ابن أبي شیبۃ (١/٧٨)وتابعہ مالك عند المصنف، فوقفاہ علی ابن عمر، وهکذا رواہ العمري عن نافع، وقد ذکرهذہ الروایات کلها الدارقطني في سننہ، وزاد أنہ صحیح حدیث الدراوردي عن الدیباج، وروی عبدالرزاق أن عمر بن الخطاب خرج إلی الصلاۃ فقبلتہ امرأتہ، فصلی ولم یتوضأ.
اس استدراک کا حاصل یہ ہے کہ مسّ مرأۃ سےوضو کے وجوب کا قول حضرت عمرص کی جانب منسوب کرنے کی دلیل وہ روایت ہے جسے عبدالعزیز دراوردی نے محمد بن عبداللہ دیباج عن الزہری کی سند سے نقل کیاہے، اس میں یہ حضرت عمرص کا قول ہے، جبکہ امام زہریؒ کے دوسرے دو شاگرد عبیداللہ بن عمر، اور امام مالک، جو انفراداً بھی دیباج سے بدرجہا اعلی مرتبہ رکھتے ہیں، وہ دونوں متفق ہوکر اس کو عبداللہ بن عمرص کا قول بتا رہے ہیں، مزید برآں عبیداللہ اور ان کے بھائی عبداللہ نے حضرت نافع کی روایت میں بھی اس کو حضرت عبداللہ بن عمرص کا قول بتلایا ہے، تو ا س قول کا حضرت عبداللہ بن عمرص پر موقوف ہونا راجح ہونا چاہیے ، مگران سب کے باوجود امام بیہقی ؒکا کچھ کلام نہ کرنا باعثِ تعجب ہے۔مزید یہ کہ مصنف عبدالرزاق (۱/۱۳۵) میں صراحت ہے کہ حضرت عمرؓ مسّ مرأۃ یا قبلہ کے موجبِ وضو ہونے کے قائل نہیں تھے۔
جلد۲، صفحہ۴۶ پر امام بیہقیؒ نے نماز میں جہراً بسم اللہ پڑھنے سے متعلق باب قائم کرکے تقریباً بیس روایتیں نقل کی ہیں، پھر آگے صفحہ ۵۰ پرعدم جہر کا باب قائم کیا ہے، اور اس میں آٹھ روایات ذکر کی ہیں، وہیں ایک روایت ذکر کرکے امام بیہقی ؒ لکھتے ہیں: کذا کان في کتابي”عن أبیہ عن ابن عباس” وهو منقطع، یعنی میرے نوشتے میں یہ روایت اسی طرح عن أبیہ عن ابن عباس ہے، اور یہ سند منقطع ہے۔ علامہ اعظمیؒ امام بیہقیؒ کے لفظ “منقطع” پر علامت لگا کر حاشیہ میں زبردست نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں: لا أعتقد أن البيهقي لايدري أنه صح عن ابن عباس أنه قال: الجهر ببسم الله الرحمن الرحيم قراءۃ الأعراب، أخرجه ابن أبي شيبة وعبدالرزاق، وروينا الإسرار بها أو ترکها رأسا عن علي وابن مسعود وعمار وأنس وابن الزبير، کما روينا ذلك عن الخلفاء الثلاثة وعن الحسن وابن سيرين و قتادۃ وعمر بن عبدالعزيز وأبي وائل وإبراهيم النخعي وعروۃ والحکم وحماد وأبي إسحاق، ولکن المصنف لم يذکر شيئاً من ذلك في باب من قال لا يجهر بها، إلا الأقل من القليل.
( یعنی مجھے یقین نہیں آتا کہ امام بیہقی ؒ کو یہ معلوم نہ ہو کہ حضرت ابن عباسص سے بسند صحیح ثابت ہے کہ بآواز بلند بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا أعراب کی قراءت ہے، ابن عباسؓ کے اس قول کو ابن أبی شیبۃ (۲/۳۸۴) اور عبدالرزاق (۲/۸۹) نے روایت کیا ہے، بسم اللہ کو آہستہ پڑھنے یا سرے سے نہ پڑھنے کی روایتیں حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت عمار، حضرت انس، اور حضرت عبداللہ بن زبیرثسے ہمیں پہونچی ہیں، نیزحضرات خلفاء ثلاثہ، حسن بصریؒ، ابن سیرینؒ، قتادہؒ، عمر بن عبدالعزیزؒ، ابووائلؒ، ابراہیم نخعیؒ، عروہؒ، حکم ؒ، حمادؒ، اور ابواسحاق ؒوغیرہم سے اسی قسم کی روایتیں ہم تک پہونچی ہیں، لیکن امام بیہقی ؒ نے “من قال لايجهر بها” کے باب میں ان میں سے کم سے کم روایتیں ذکر کی ہیں۔)
تحفۃ الأحوذي شرح جامع الترمذي پر علامہ اعظمیؒ کے استدراکات
ترمذی شریف جس کا شیخ ابو غدہؒ کی تحقیق کے مطابق مکمل نام ” الجامع المختصر من السنن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعرفة الصحيح والمعلول وما عليه العمل” ہے،متونِ حدیث میں ایک اہم مقام رکھتی ہے، اور بقول شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلویؒ (ت:۱۲۳۹ھ): تصانیف بسیار دریں فن شریف از وے یادگار است، وایں جامع بہترین آں کتب است، وبلکہ بعضے وجوہ وحیثیات از جمیع کتب حدیث خوب تر واقع شدہ۔ (اس فن شریف میں امام ترمذیؒ (ت:۲۷۹ھ) کی بہت سی کتابیں یادگار ہیں، اور ان کی کتاب جامع ان کتابوں میں سب سے بہتر ہے، بلکہ بعض وجوہ اور حیثیتوں سے حدیث کی تمام کتابوں سے زیادہ بھلی ہے۔) [15] اس اہمیت کے پیش نظر حضرات محدثین وعلمائے کرام نے اس کی متعدد شرحیں لکھی ہیں، عربی زبان میں اس کی ایک مکمل اور اچھی شرح معروف غیر مقلد عالم مولانا عبدالرحمن صاحب مبارکپوریؒ(ت:۱۳۵۳ھ) کی “تحفۃ الاحوذی” ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ شرح وبسط کے اعتبار سے بہترین شرح ہے، مگر اس پر مخالفتِ حنفیت کا رنگ غالب اور نمایاں ہے، اس شرح کے فقہی اعتراضات اور مغالطات کا محاکمہ اور مسکت جواب صاحب “معارف السنن” نے بہت حد تک دے رکھا ہے، البتہ وہ مکمل نہ ہوسکا تھا، اس کی تکمیل کا کارواں اس وقت بنام “ھدیۃ الأحوذي”مولانا ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم کی سرپرستی میں دیوبند میں رواں دواں ہے، اللہ کرے منزل مقصود تک بعافیت پہنچ جائے۔
علامہ اعظمیؒ نے اس شرح پر جو استدراکات زیب قرطاس کیے ہیں، ان میںاکثر فقہی مباحث سے صرف نظر کرتے ہوئے محدثانہ انداز اختیار کیا ہے، ان میں آپ کا حدیثی عکس نظر آتا ہے۔ یہ استدراکات مجلہ “المآثر” کے( جلد ۱۰، شمارہ ۱، تاجلد ۱۸، شمارہ ۳) بائیس قسطوں[16] میں شائع ہوئے ہیں، جن کی تعداد تقریباً ایک سو اسی ہے (۱۸۰)،[17]یہ استدراکات علامہ اعظمیؒ کی دقت نظر اور وسعت علم کے غماز ہیں، جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں، ذیل میں کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں:
جامع ترمذی میں پہلا باب ہے: باب ما جاء لا تقبل صلاۃ بغیر طھور، اس میں مولانا مبارک پوریؒ نے ما فی الباب کی تخریج کرکے کچھ اور احادیث کا حوالہ دیا ہے کہ یہ احادیث بھی باب سے متعلق ہیں، جو علامہ ہیثمی ؒ(ت:۸۰۷ھ) کی “مجمع الزوائد” میں مذکور ہیں، ان میں ایک روایت رباح بن عبدالرحمن بن حویطب کی ہے، جسے وہ اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں، علامہ اعظمیؒ نے اس پر استدراک کرتے ہوئے فرمایا کہ: حديثها عند الترمذي وابن ماجه، كما في تهذیب التهذيب، (ترجمۃ رباح) وإنما اختصر حدیثہ الترمذي، فلم یذکر إلا الشطر الذي فیہ ذکر التسمیۃ، انظر ص٣٨، وخفي هذا علی الشارح فلم یعزہ إلیہ. (رباح بن عبدالرحمن عن جدتہ والی حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے، جیسا کہ تہذیب التہذیب میں رباح کے ترجمے میں مذکور ہے، البتہ اتنی بات ہے کہ امام ترمذی نے اس کا اختصار کرتے ہوئے صرف وہی ٹکڑا نقل کیا ہے جو وضوء کے وقت بسم اللہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، اور یہ حدیث صفحہ ۳۸ پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے، لیکن یہ بات شارح کی نگاہ سے پوشیدہ رہ گئی، اور انھوں نے اس کے لیے ترمذی کا حوالہ نہیں دیا۔)[18]
صفحہ ۴۰ پر باب ما جاء في المضمضۃوالاستنشاق میں بطور استدراک مولانا مبارک پوریؒ لکھتے میں : وفي الباب أحادیث أخری، منها حدیث أبي هریرۃ، (اس باب میں (امام ترمذیؒ کی ذکر کردہ فی الباب کی احادیث کے علاوہ) دوسری احادیث بھی ہیں، جن میں حدیث ابو ہریرہص بھی ہے،) علامہ اعظمیؒ نے أبي ھریرۃ پر علامت لگا کر لکھا ہے: سبحان اللہ! أ لیس الترمذي ذکر حدیث أبي هریرۃ فتستدرکہ ، یعنی جب امام ترمذیؒ نے خود ہی اس باب میں حدیث ابوہریرہص ہونے کا ذکر کردیا ہے، جیسا کہ ان کی عبارت ہے: وفي الباب عن عثمان …. وأبي هریرۃ، اب اس کے بعدمولانا مبارک پوریؒ کا حدیث ابوہریرہص کا استدراک چہ معنی دارد؟[19]
صفحہ ۵۶ پر امام ترمذیؒ نے باب في إسباغ الوضوءمیں فی الباب کے تحت متعدد صحابہ کی احادیث کا ذکر کیا ہے، مولانا مبارک پوریؒ نے اپنی عادت کے مطابق ہر ہر حدیث کا مخرج ذکر کیا ہے، مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی حدیث کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے، علامہ اعظمیؒ نے استدراک کیا کہ : أما حدیث عائشۃ فأخرجہ إسحاق في مسندہ (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی تخریج امام اسحاقؒ نے اپنی مسند میں کی ہے۔)[20]
یہاں یہ ذکر مناسب ہوگا کہ مولانا مبارک پوریؒ نے فی الباب کی احادیث کی تخریج میں عموما علامہ شوکانیؒ(ت:۱۲۵۰ھ) کی “نیل الاوطار” پر اعتماد کیا ہے، جس کے نتیجے میں بہت ساری احادیث کے مخارج، خواہ وہ صحیحین ہی کیوں نہ ہوں، ان پر مخفی رہ گئے ہیں، علامہ اعظمیؒ نے ان پر جا بجا استدراک کیا ہے،جو مجلہ”المآثر” میں بالترتیب ان نمبرات پر نقل کیے گئے ہیں:
۱۱، ۱۶، ۱۷، ۲۱، ۲۵، ۲۶،۳۰، ۳۱،۳۲، ۳۳، ۳۴، ۳۵، ۳۹، ۴۰، ۴۱، ۴۲، ۴۴، ۴۶، ۴۷، ۴۸، ۵۰، ۵۳، ۵۴، ۵۵، ۵۶، ۵۷، ۵۸، ۵۹، ۶۰، ۶۴، ۶۵، ۶۷، ۶۸، ۶۹، ۷۹،۸۲،۸۸، ۹۱، ۹۲، ۹۴، ۹۵، ۹۷، ۹۸، ۹۹، ۱۰۱، ۱۰۴، ۱۰۵، ۱۰۷، ۱۰۹، ۱۱۰، ۱۱۱، ۱۱۲، ۱۱۴، ۱۱۶، ۱۱۷، ۱۱۸، ۱۲۳، ۱۲۶،۱۲۴،۱۲۶، ۱۲۷، ۱۲۸، ۱۲۹، ۱۳۳، ۱۳۵، ۱۳۶، ۱۳۷، ۱۳۸، ۱۴۰، ۱۴۱، ۱۴۲، ۱۴۳، ۱۴۶، ۱۴۷، ۱۴۹، ۱۵۱، ۱۵۳، ۱۵۴، ۱۵۵، ۱۵۷، ۱۵۸، ۱۵۹، ۱۶۰، ۱۶۱، ۱۶۲، ۱۶۳، ۱۶۴، ۱۶۵، ۱۶۶، ۱۷۲، ۱۷۴، یہ کل اکیانوے (۹۱)مقامات ہیں۔
علامہ اعظمیؒ کےبعض استدراکات بہت طویل ہیں، مثلاً استدراک نمبر(۱۵۰)، جن کے ضمن میں بہت سی مفید باتیں اور متعدد انتقا دات آگئے ہیں، یہ سارےکے سارے استدراکات یقیناً آپ کے علمی درک ورسوخ، وسعت مطالعہ اور نقّاد طبع پر مہر ثبت کرتے ہیں۔
اصطلاحات جرح وتعدیل کے تعلق سے علامہ اعظمیؒ کے انتقاد کی ایک جھلک:
حدیث شریف کی حفاظت وصیانت کے لیے حضرات محدثین نے بہت سارے اصول وضع کیے ہیں، ان ہی میں سے الفاظِ جرح وتعدیل بھی ہیں، جو راوئ حدیث کا درجہ اور اس کے اعتبار سے اس کی حدیث کا رتبہ طے کرتے ہیں، ان الفاظ میں سے کچھ عام معنی میں ہوتے ہیں کہ ہر محدث ان سے ایک ہی مفہوم اخذ کرتا ہے، اور کچھ خاص اصطلاحیں ہیں، جن کے معانی ومفاہیم سب کے نزدیک یکساں نہیں ہوتے، اب اگر ان خاص اصطلاحات کے ایجاد کاروں نے ان کے معانی بیان کردئیے ہوں تو فبہا، ورنہ ان معانی کی تعیین میں متاخرین میں بڑا اختلاف ہوتا ہے، ہر محدث اپنی معلومات کی روشنی میں ان الفاظ کا محمل تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہ کوشش کبھی تو بار آور ہوتی ہے، اور کبھی درستگی کو نہیں پہونچتی، اور دیگر علماء کو نقد واستدراک کا موقعہ فراہم کرتی ہے۔
چنانچہ امام بخاریؒ کی ایک اصطلاح “فیہ نظر” بھی ان ہی اصطلاحات کے قبیل سے ہے جس کی مراد حضرت امامؒ نے واضح نہیں کی ہے، حافظ ذہبی (ت:۷۴۸ھ ) اور حافظ عراقیؒ (ت:۸۰۶ھ) نے اس کا ایک محمل متعین کیا، جس پر علامہ اعظمیؒ کی دقت نظری اور وسعت علمی نے سوالیہ نشان لگا دیا ہے، علامہ اعظمیؒ کے نقد کا تذکرہ شیخ ابوغدہؒ نے ان الفاظ میں کیا ہے:
وقد انتقد أستاذنا العلامة المحدث المحقق النبيل الشيخ حبيب الرحمن الأعظمي كلام الحافظ الذهبي وكلام الحافظ العراقي: فلان فيه نظر، يقوله البخاري فيمن تركوا حديثه، فكتب إلي، سلمه الله تعالى، من الهنديقول: لا ينقضي عجبي حين أقرأ كلام العراقي هذا، وكلام الذهبي أن البخاري لايقول:”فيه نظر” إلا فيمن يتهمه غالبا، ثم أرى أئمة هذا الشان لايعبأون بهذا، فيوثقون من قال فيه البخاري:”فيه نظر”، أويدخلونه في الصحيح، ثم ذكر أمثلة لذلك، وبعد ذلك يقول: والصواب عندي أن ما قاله العراقي ليس بمطرد ولا صحيح على إطلاقه، بل كثيراً ما يقوله البخاري ولا يوافقه عليه الجهابذة. وكثيراً ما يقول ويريد به إسنادا خاصا، وكثيراً ما يقوله ولا يعني الراوي، بل حديث الراوي، فعليك بالتثبت والتأني. انتهى كلام شيخناحبيب الرحمن. وقد أيقظ، حفظه الله وأمتع به، إلى موضوع من العلم هام جداً، كان مأخوذا بالتسليم والمتابعة من العلماء، فجزاه الله تعالى خيرا عن السنة وعلومها.[21]
(حافظ ذہبیؒ اور حافظ عراقیؒ کے کلام: امام بخاریؒ “فلان فیہ نظر” ایسے راوی کے بارے میںکہتے ہیں جس کی روایت علماء کے نزدیک متروک ہو،اس پر ہمارے استاذ علامہ محدث عظیم محقق مولانا حبیب الرحمن الاعظمی نے نقد کرتے ہوئے ہندوستان سے مجھے لکھا ہے کہ: جس وقت میں حافظ عراقیؒ اورحافظ ذہبیؒ کی یہ بات پڑھتا ہوں تو میری حیرت کی انتہا نہیں رہتی کہ امام بخاریؒ “فیہ نظر” اکثر وبیشتر اسی شخص کے بارے میں استعمال کرتے ہیں، جو ان کے نزدیک متہم ہوتا ہے۔ پھر میں اس فن کے ائمہ کو دیکھتا ہوںکہ اس جرح کی پرواہ نہ کرتے ہوئےایسے راویوں کی توثیق کرتے ہیں، جن کی نسبت امام بخاریؒ نے “فیہ نظر” کہا ہے،یا اس کی روایت کردہ حدیث کو صحیح میں جگہ دیتے ہیں۔
پھر حضرت نے اس کی مثال میں گیارہ (بارہ) راویوں کے نام اور ان کے تعلق سے علمائے جرح وتعدیل کے اقوال نقل کیے ہیں، آگے فرماتے ہیں: میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ حافظ عراقیؒ نے جو بات کہی ہے، وہ نہ تو قاعدہ کلیہ ہے، اور نہ علی الاطلاق درست ہے، بلکہ بسا اوقات امام بخاریؒ یہ کلمات صادر فرماتے ہیں، اور ان سے دوسرے ماہرین فن اتفاق نہیں کرتے، اور کبھی ایسا ہوتا ہےکہ امام بخاریؒ ان الفاظ سے کوئی خاص سند مراد لیتے ہیں، اور بہت سی جگہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کی مراد راوی نہیں بلکہ اس کی حدیث ہوتی ہے، لہذا اس مسئلے میں بہت غور وفکر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
آگے شیخ ابو غدہؒ فرماتے ہیں:اللہ تعالی حضرت کی حفاظت فرمائے ، انھوں نےعلم حدیث کی ایک اہم بحث کی طرف توجہ دلائی ہے، جو اَب تک اہل علم کے نزدیک مسلّم اور معمول بہ رہی ہے، اللہ جل شانہ مولانا کو حدیث اور علوم حدیث کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔اھ)
علامہ اعظمیؒ کی یہ نادر تحقیق جب دنیائے علم میں جلوہ افروز ہوئی تو ارباب فن نے اس کی پذیرائی کی، اور اسے تحسین وآفرین سے نوازا، وہیں اس زریں نقد پر کچھ کج فہموں نے خامہ فرسائی بھی کی، جس کا مدلل اور جامع جواب حضرت استاذ مولانا مسعود احمد صاحب کے قلم گہر بار سے تین قسطوں میں مجلہ “المآثر” (جلد۱۵، شمارہ ۲،ج ۱۵، ش۴، ج۱۶،ش ۱)کی زینت بن چکا ہے، اور بعد میں رسالے کی شکل میں الگ سے اشاعت پذیر بھی ہوگیا ہے۔ جزاہ اللہ عنا أحسن الجزاء
حافظ مزیؒ کی “تحفۃ الأشراف” کے تعلق سےعلامہ کمال الدین دمیریؒ پر ایک اہم استدراک
حافظ جمال الدين أبو الحجاج يوسف بن عبد الرحمن المزي (ت: ۷۴۲ھ) کی معرکۃ الآراء تصنیف”تحفة الأشراف بمعرفة الأطراف” ایک محدود دائرے میں مختلف اسانید و طرق کے علم کا عمدہ اور آسان ذریعہ ہے، اس میں حافظؒ نے کتب ستہ اور ان کے مؤلفین کی دیگر کتابوں کی احادیث مع اسانید ذکر کی ہیں، جسے دیکھ کر باحث کو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ حدیث کن کن کتابوں میں کن کن سندوں سے منقول ہے، کتاب کو صحابہ کرام ث کی مسانید پر مرتب کیا ہے، ایک صحابی کی جملہ مرویات ان کی سندوں کے ساتھ لاتے ہیں، اور جن کتابوں میں وہ احادیث مذکور ہیں ، ان کا حوالہ بطور رمز دیتے ہیں،ان رموز کی وجہ سے بعض مرتبہ محققین کو اشتباہ ہو جاتا ہے، اور “تحفۃ الاشراف” میں انفرادی رمز دیکھ کر حدیث پر انفراد کا حکم لگا دیتے ہیں، جبکہ وہ حدیث دیگر کتب میںبھی مذکور ہوتی ہے، ابن ماجہ شریف کے شارح علامہ کمال الدین دمیریؒ (ت:۸۰۰ھ) کو بھی متعدد مقامات پر اس طرح کے مغالطے ہوئے ہیں۔چنانچہ ابن ماجہ شریف کی پہلی حدیث “ما آتاکم الرسول فخذوہ، الحدیث” پر “انفرد بہ ابن ماجہ” کا حکم لگایا ہے، کیوں کہ حافظ مزیؒ نے اس حدیث پر تنہا ابن ماجہ کا رمز “ق” نقل کیا ہے ( تحفۃ الاشراف: ۱۲۳۹۲)،حالانکہ یہ حدیث مسلم شریف(۷/۹۱) اور ترمذی شریف(۲۶۷۹) میں بھی مذکور ہے،البتہ اتنا ضرور ہے کہ اعمش ؒ سے نقل کرنے والے متعددہیں،اور ابن ماجہ ان میں سے ایک طریق میں منفرد ہیں، حضرت محدث کبیرعلامہ اعظمیؒ کا اس موضوع پر ایک اہم استدراک مولانا لطیف الرحمن صاحب بہرائچی دامت برکاتہم نے اپنی”الدیباجہ شرحِ ابن ماجہ” میں بسط وتفصیل سے ذکر کیا ہے، فجزاهما اللہ خیرا،لکھتے ہیں: قال الشارح كمال الدين الدميري في “الديباجه”: هذا مما انفرد به المصنف. قال شيخنا حبيب الرحمن الأعظمي حفظه الله ورعاه: فيه نظر، فإن الحديث رواه أصحاب الستة وغيرهم بطرق عديدة، فكيف يصح أن يقال في مثل هذا أنه مما انفرد به المصنف، اللهم إلا أن يقال : إنه عنى طريق جرير عن الأعمش، فإن كان هذا مراده لزمه أن يقيد بهذا القيد كما فعل المزي، فإنه إذا رمز لهذا الحديث ب”ق”وحدها، قال: ق في السنة عن محمد بن الصباح عنه، يعني عن جرير عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة ص به.[22]
واقعہ یہ ہے کہ صاحب “تحفۃ الاشراف” حافظ مزیؒ نے تحفہ میںرموز کے تعلق سے اپنا منہج اور طریقۂ کارصراحتاً ذکر نہیں کیا ہے، کہ وہ احادیث اور اسانیدپر یہ انفراد واشتراک کے رموز کس اصول کے تحت لاتے ہیں، مگر ان کی کتاب اور اس پر محقق کے مقدمہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے کتب ستہ کی احادیث کو صحابہ، تابعین، تبع تابعین، اور کہیں کہیں اتباع تابعین کے ناموں پر اس طرح مرتب کیا ہے کہ بسہولت مختلف سندیں ایک ساتھ ایک جگہ معلوم ہوجائیں، چنانچہ وہ کسی صحابی کی حدیث کا ایک ٹکڑاشروع میں نقل کرتے ہیں، پھر کتب ستہ وغیرہ میں موجود اس کی سندیں ذکر کرتے ہیں، اس کے بعد ہر کتاب کی سند پر اس کا رمز لگاتے ہیں۔
مثلا کتب ستہ کے لیے “ع”، تنہا بخاری شریف کے لیے “خ”، تنہا مسلم شریف کے لیے “م”، تنہا ترمذی شریف کے لیے” ت”، تنہا ابوداود شریف کے لیے “د”، تنہا نسائی شریف کے لیے “س”، اور تنہا ابن ماجہ شریف کے لیے”ق” کا رمز اختیار کرتے ہیں، اب کسی حدیث پر ان انفرادی رموز کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مذکورہ حدیث صرف اسی کتاب میں ہے، بلکہ حدیث کی سندیں جمع کرتے ہوئے اس طرح کا انفرادی رمز مختلف مقاصد سے ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر حافظ مزیؒ ایک حدیث کا ابتدائی حصہ کسی صحابی کے ترجمہ میں نقل کریں، اور وہیں صحابی کے شاگرد(دوسرا طبقہ) اور شاگرد کے شاگرد(تیسرا طبقہ) کا بھی ترجمہ قائم کیا ہو، اور جن کتابوں میں وہ حدیث ہے ان کی سندیں صحابی اور صحابی کے شاگرد تک ایک ہوں، لیکن شاگرد کے شاگرد میں کسی مؤلف کی سند الگ ہو، تو حافظ مزی رحمہ اللہ وہاں انفراد کا رمز استعمال کرتے ہیں، مثلا اگر حضرت ابوہریرہ ص سے ان کے شاگرد ذکوان روایت کریں، اور ذکوان سے زید بن اسلم روایت کریں، تو انفرادی اور اشتراکی رمز کے لیے زید بن اسلم(تیسرے طبقے) کا اعتبار کرتے ہیں، اسی کو مدار رمز قرار دیتے ہیں، اگر سارے مصنفین ذکوان میں متفق ہوں، اور امام ابن ماجہ زید بن اسلم میں منفرد ہوں، تو اس پر انفرادی رمز “ق” لگا تے ہیں۔
اسی طرح اگر شاگرد کے شاگرد کا شاگرد (چوتھا طبقہ) بھی ترجمے کا حصہ بنا ہو تو یہی چوتھا انفراد واشتراک کا سبب قرار پائے گا، اب اگر کوئی حدیث بہت سی کتابوں میں ہو، اور تیسرے طبقے تک سب مشترک ہوں، مگر چوتھے طبقے میں امام ابن ماجہ کی سند الگ ہوجائے، تو وہاں انفراد کا رمز ق ذکر کرتے ہیں، مثلا حضرت ابوہریرہ صسے ذکوان روایت کریں، ذکوان سے اعمش، اور اعمش سےجریر بن عبد الحمید روایت کریں، تو مدارِ رمز جریر قرار پائیں گے۔
اس کے برعکس کبھی کبھی صحابی کے ساتھ صرف ان کے شاگرد کا ترجمہ قائم کرتے ہیں، تو مدارِ رمز وہی شاگرد قرار پائیں گے، جن جن کتابوں میں وہی شاگرد ہوں گے، ان پر اشتراک کا رمز، اور جن میں صحابی کے دوسرے شاگرد ہوں گے وہاں انفراد کا رمز استعمال کرتے ہیں۔
حاصل یہ کہ ان تینوں شکلوں میں انفراد کا رمز خاص سند کے اعتبار سے لگایا جاتا ہے، مطلقا حدیث کے اعتبار سے نہیں۔ لہذا جہاں پر حافظ مزیؒ کسی حدیث پر انفراد کا رمز لگائیں، اور وہ حدیث صرف اسی ایک کتاب میں ہو، دوسری کتابوں میں نہ ان صحابی سے ہو نہ کسی اور صحابی سے، تو وہاں انفراد کا رمز حدیث پر کہلائے گا۔اور اگر دوسری کتاب میں دوسرے صحابی سے منقول ہو تو اس پر انفراد واشتراک کے فیصلے کے لیے دیگر کتب زوائد وغیرہ کی مراجعت کرنی ہوگی، صرف تحفۃ الاشراف کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔
علامہ مرتضی زبیدی ؒ کی وطنیت کے تعلق سے “تاج العروس” کے مقدمہ نگار پر انتقاد
عربی زبان کامشہور اور معرکۃ الآراءلغت ’’تاج العروس‘‘ محتاج تعارف نہیں، یہ علامہ سیدابو الفیض محب الدین محمد مرتضی زَبیدی بلگرامی (ت:۱۲۰۵ھ) کی تصنیف ہے، جس میں فاضل مصنف نے علامہ مجد الدین فیروزآبادی(ت:۸۱۷ھ) کی مقبول اور جامع کتاب ’’القاموس المحیط‘‘ کی جامع شرح کی ہے، جو لغوی تحقیقات سے بھرپور ، مقبولِ خاص وعام ہے، یہ کتاب ۱۳۸۵ھ میںشیخ عبد الستار احمد فراج کی تحقیق کے ساتھ حکومت کویت نے شائع کی تھی، اس طبع کے آغاز میں محقق نے ایک مقدمہ شامل کیا ہے، جس میں مصنفِ کتاب کے ہندوستانی ہونے کی بحث چھیڑی ہے، اور تقریباً تین صفحات میں ان کے ہندوستانی ہونے کو مشکوک ومستبعد قرار دینے کی کوشش کی ہے، علامہ اعظمیؒ نے ان کی رگ تشکیک کاٹنے اور مسئلۂ زیر بحث کی تحقیق کے تناظر میں سات صفحات پر مشتمل ایک وقیع مضمون بعنوان ‘‘السيد مرتضی هندي لا يحوم حولہ شك‘‘زيب قرطاس کيا، جو مجله ’’البعث الاسلامی ’’ (ج۲۰ش۸، ص۵۷-۶۳) میں اشاعت پذیر ہوا تھا۔
اس مضمون میں علامہ اعظمیؒ نے نہایت مستحکم تاریخی دلائل کے ساتھ ان کی بحث کا جواب دیتے ہوئے علامہ مرتضی زبیدی کے ہندیّ الاصل ہونے کا اٹل اور ٹھوس ثبوت فراہم کیا ہے، چنانچہ آغازِ مضمون میں لکھتے ہیں: من الموسف جداً أن السيد عبد السلام أحمد فراج في مقدمته التي قدّمها كمحقق ل‘‘تاج العروس‘‘ – من الآثار الخالدة للعلامة السيد مرتضى الهندي الزبيدي ثم المصري – قد أثار بحثاً لا مسوِّغ له، وهو أن السيد المذكور هندي أم لا؟ ومآل البحث استبعاد هنديته والتشكيك فيها دون الاعتماد على دليل وبرهان، وكان من الواجب إذ لم تتوفر عند المحقق الفاضل مصادر ترجمته أن يسأل الذين يعرفونه عن كثب، ويراجعهم في ذلك، قبل أن ينتهي إلى نتيجة، فسبب بإهمال هذا الواجب اغترار الكثيرين من قارئيه بما كتبه، وتقليدهم له في هذا الخطأ الفاضح.
(یعنی بڑے افسوس کہ بات ہے کہ علامہ سید مرتضی زبیدیؒ کے زندہ جاوید شاہکار ’’تاج العروس‘‘ کے محقق سید عبد السلام (غالباًعبد الستار) احمد فراج نے اپنے مقدمے میں ایک فضول بحث یہ چھیڑی ہے کہ علامہ زبیدی ہندوستانی ہیں یا نہیں؟اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ انھوں نے بنا کسی دلیل کے علامہ زبیدی کے ہندی الاصل ہونے کو مستبعد ومشکوک قرار دیا ہے، حالانکہ مصنف کے حالاتِ زندگی سے متعلق مصادر ومراجع تک عدم رسائی کی صورت میں فاضل محقق کی ذمہ داری تھی کہ کوئی حتمی نتیجہ اخذ کرنے سے قبل واقف کاروں سے معلوم کرتے، ان سے مراجعت کرتے، اس ذمہ داری سے صرف نظر کرنے کی بناء پر ان کی یہ تحریربہت سے قارئین کے لیے حقیقت سے ناآشنائی، اور اس صریح غلطی میں پڑنےکا ذریعہ بن گئی ہے۔)
اس کے بعد علامہ اعظمیؒ نے بڑے مستحکم اور جرأت مندانہ انداز میں اپنا دعوی ذکر کیا ہے، لکھتے ہیں: والحقيقة التي لا يحوم حول ثبوتها وجلائها شك، أن السيد مرتضى هندي، استوطن عشيرته “بلجرام” الهند، منذ قرابة خمسة قرون، وإن الذين ترجموا له من أهل الهند فيهم من رأى أباه وصحب جده وهو نسبيه وبلديه، وفيهم من عاصره.
(یعنی یہ حقیقت ہے، جس میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے، کہ سید مرتضی ہندوستانی ہیں، ہندوستان کا بلگرام شہر تقریباً پانچ سو سال سے ان کے خاندان کا وطن رہا ہے، اور جن ہندوستانی مؤرخین نے ان کا تذکرہ کیا ہے، ان میں کچھ تو ایسے ہیں جنھوں نے ان کے والد کو دیکھا ہے، ان کے دادا کے شاگرد اور ان کے ہم نسب وہم وطن رہے ہیں، اور بعض وہ ہیں جو ان کے ہم عصر ہیں۔)
چنانچہ علامہ اعظمیؒ نے علامہ زبیدیؒ کے دادا سید قادری کے شاگرد اور ہم نسب وہم وطن سید غلام علی بلگرامی،ؒ علامہ زبیدیؒ کے معاصر اور ’’بحر ذخار‘‘ کے مؤلف شیخ وجیہ الدینؒ کی تصریحات، اور نواب صدیق حسن خاںؒ وصاحب ’’نزہۃ الخواطر‘‘ مولانا عبد الحی صاحب لکھنویؒ کی نقول، اور خود علامہ زبیدیؒ کے ایک علمی برنامج کے قلمی نسخے سے ثابت کیا ہے کہ وہ ہندوستانی ہیں۔
تمام دلائل وشواہد ذکر کرنے کے بعد علامہ اعظمیؒ اپنا فیصلہ رقم کرتے ہیں: فعلم بهذا كله أن الزبيدي هندي الأصل، تولد من أبوين هنديين، وأن إنكار هذه الحقيقة سفسطة، والشك فيها ارتياب في رؤية الشمس في وضح النهار.
(ان تفصیلات سے معلوم ہوگیا کہ علامہ زبیدی اصلاً ہندوستانی ہیں، ان کے والدین ہندوستانی ہیں، اس حقیقت کا انکار یقیناً سطحیت ہے، اور ان کے ہندیّ الاصل ہونے میں شک کرنا روز روشن میں سورج کے وجود میں شک کرنے کے مرادف ہے۔)
استاذ محترم مولانا ڈاکٹر مسعود احمد صاحب نے (حیات ابو المآثر: ج۲، ص۵۰۸-۵۰۹) میں اس پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔
فن شاعری کی صنف “بحر سریع اور بحر رمل” کے تعلق سے علامہ اعظمیؒ کا نقد
ابتدا میں یہ بات گذری کہ علامہ اعظمیؒ کی شخصیت ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہے، آپ کے انتقادات بھی متعدد علوم وفنون سے تعلق رکھتے ہیں، چنانچہ شاعری جو ایک الگ اور مختلف فن ہے، عام طور پر علمائے کرام کی دسترس سےباہر رہتی ہے، مگر علامہ اعظمیؒ کی عبقری شخصیت نے اس میدان میں بھی اپنا جلوہ دکھایا ہے، جسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے، اور بقول مولانا مسعود احمد صاحب: جسے دیکھ کر یہ باور کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ اسی خامۂ گہربار کی کرشمہ سازی ہےجو علم حدیث کے سمندر میں غوطہ خوری، حدیث پاک کے مخطوطات میں غوّاصی، اور مصنف عبدالرزاق، مسند حمیدی، سنن سعید بن منصور کی تحقیق ، اور الحاوی جیسی کتاب کی تصنیف کے لیے وقف رہا ہے۔اھ[23]
فن عروض کو شاعری میں اہم مقام حاصل ہے، جو دراصل شعر کی موزونیت کو پرکھنے کا معیار ہے، علامہ اعظمیؒ نے اس استدراک کے اندر اس فن میں جس درجہ کے درک اور رسوخ کا مظاہرہ کیا ہے، وہ ایک ماہر فن ہی کے بس کی بات ہے، اس بحث کا پس منظر یہ ہے کہ سید سلیمان ندویؒ (ت:۱۳۷۳ھ)کی وفات پر علامہ اعظمیؒ نےایک نظم لکھ کر قاضی اطہر مبارک پوریؒ(ت:۱۴۱۷ھ) کے پاس روزنامہ” انقلاب” میں اشاعت کے لیےممبئی بھیجا تھا، قاضی صاحبؒ نے اس کے بعض اشعار کو وزن سے ساقط خیال کرکےان میں کچھ تبدیلی کردی تھی، مثلاً آخری شعرجس سے سن وفات نکلتا ہے، یوں تھا:
فقرۂ تاریخ کا جویا تھا میں دل نے کہا فاضل یکتا گیا
قاضی صاحب ؒ نے اسے تبدیل کرکے:
فقرۂ تاریخ کا جویا تھا میں بول اٹھا دل فاضل یکتا گیا
کردیا تھا، نظم شائع ہونے کے بعد جب علامہ اعظمیؒ نے یہ تبدیلیاں دیکھیں، تو قاضی صاحب کے نام وہ مکتوب لکھا جس نے علامہ اعظمیؒ کی شخصیت کے ایک نئے اور انوکھے پہلو سے پردہ اٹھا دیا۔
علامہ اعظمیؒ نے اپنے مکتوب میں لکھا تھا: آپ کے تصرفات کی نسبت گزارش ہے کہ اصلاح اگر موجَّہ ہو تو میں صرف خوش نہیں بلکہ شکر گذار بھی ہوتا ہوں، مگر آپ نے اپنے تصرفات کی کوئی وجہ نہیں لکھی، میں نے یہ وجہ سمجھی ہے کہ آپ نےاس نظم کو مثنوی مولانا رومؒ(ت:۶۷۲ھ) کے وزن پربحرِ رمل مسدس محذوف میں خیال کیا ہے، اس لیے جو مصرعے وزن سے گرتے تھے آپ نے اس وزن پر بنا ڈالا، حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے، میری نظم “قران السعدین”، “مخزن اسرار”، مطلع الانوار”، اور “سبحۃ الابرار” کے وزن پر بحرِ سریع مطوی موقوف سے ہے، جس کا عروض وضرب مختلف یعنی ایک مطوی مکسوف (فاعلن) اور دوسرا مطوی موقوف (فاعلان) ہوسکتا ہے، اس بحر میں یہ بات ہوئی ہے، اس کے بعض شعر یا مصرعے بحرِ رمل میں بھی پڑھے جاسکتے ہیں، جیسے مولانا جامیؒ(ت:۸۹۸ھ) کے یہ اشعار:
رفتن او جستن تیر از کماں جستن او حجت طے مکان
توبہ دہ از سرکشی ایام را باز خر از ما خوشی اسلام را
اس مکتوب کو قاضی صاحبؒ نے یکم جنوری ۱۹۵۴ء کے “انقلاب” میں ایک عمدہ نوٹ کے ساتھ یہ عنوان لگا کر شائع کیا: “ایک علمی اور ادبی مکتوب گرامی، بحرِ سریع اور بحرِ رمل کی ناقدانہ تشریح”، اور اخیر میں علامہ اعظمیؒ کی نظم من وعن شامل اشاعت کی، اس نوٹ میں قاضی صاحب لکھتے ہیں: ناظرین کرام کو یاد ہوگا کہ چند دنوں پہلےانقلاب میں حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ کے متعلق آپ (علامہ اعظمیؒ) کے تأثرات اور اشعار درج ہوئے تھے، چونکہ آپ کے بعض اشعار باوجود بحور وقوافی پر پورے اترنے کے بظاہر وزن سے باہر معلوم ہوتے تھے، اور ناواقفوں کے لیے غلط فہمی کا باعث بن سکتے تھے، اس لیے نہایت عزت واحترام سے ہم نے ان میں تصرفات کردئیے تھے، اس کا مقصد بالکل نیک تھا، اور علم وفن کے پہاڑوں کے سامنے اپنی بلندی دکھانی نہیں تھی۔ حضرت مولانا نے کمال شفقت کے ساتھ ان اشعار کے متعلق توضیح فرما دی ہے، اور شعر وادب کے بعض مخفی گوشوں پر روشنی ڈالی ہے، نیز ہماری عربی نظم پر بھی استاذانہ نظر فرمائی ہےـ ،اس لیے ہم نہایت فخرومسرت کے ساتھ یہ گرامی نامہ شائع کرنے کی عزت حاصل کرتے ہیں، ساتھ ہی آخر میں آپ کی نظم من وعن شائع کرتے ہیں۔ هكذا أمرنا أن نفعل بكبرائنا.
روزنامه انقلاب ميں جب علامہ اعظمیؒ کا مکتوب شائع ہوا تو شرف زیدی نام کے ایک صاحب نے آپ کے مکتوب کے جواب میں مضمون لکھا، جو روزنامہ “جمہوریت” میں شائع ہوا، مولانا مسعود صاحب لکھتے ہیں: کہ اس کے بعد علامہ اعظمیؒ نے وہ مضمون سپردِ قلم فرمایاجو بغیر عنوان کے آپ کے مسودات میں محفوظ ہے، یہ ایک مراسلے کی شکل میں ہے، جو غازی صاحب (غالباً مولانا حامد الانصاری غازی ) کے نام مکتوب ہے۔ اھ
علامہ اعظمیؒ کا یہ مراسلہ بہت سی علمی ابحاث کو سمیٹے ہوئے ہے، فن شاعری سے متعلق نقد کے ساتھ ساتھ اس میں بہترین اسلوب اور حسین پیرایۂ بیان نمایاں ہے، نیز جواب دیتے ہوئے آپ کا ظریفانہ انداز جھلکتا ہے، مثلاً زیدی صاحب نے آپ پر اشکال کیا تھاکہ فقرۂ تاریخ والے شعر کو اگر بحرِ رمل پر تقطیع کریں گے تو فاضل کے لام کے پیٹ سے ایک ی نکال کر “فاضلے یک” کہنا پڑے گا، اوراگر ایسا کرتے ہیں تو تاریخ کے عدد بجائے (۱۳۷۳ )کے،( ۱۳۸۳) ہوجائیں گے، اور اس وزن کو برابر کرنے میں علامہ ندوی بھی دس سال بعد مرحوم ہوں گےاھ، علامہ اعظمیؒ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ: ہر چند کہ میں اس تصرف کو جو میری نظم میں ہوا ہے بے ضرورت سمجھتا ہوں، تاہم اس تصرف کے بعد بھی فقرۂ تاریخ بالکل صحیح ہے، اور اس کے عدد اس (ی) کی وجہ سے جو بضرورتِ تقطیع زیادہ کی جاتی ہے، تاریخ کے عدد نہیں بڑھ سکتے، تاریخ میں صرف مکتوبی حروف کے عدد لیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد علامہ اعظمیؒ نے بطور مثال حضرت امیر خسرو دہلویؒ(ت:۷۲۵ھ) کی تاریخ وفات سے متعلق ایک شعر نقل کیا ہے، اس میں حضرت امیر کی تاریخ وفات “طوطی شکر مقال” (۷۲۵)ہے، یہاں بھی طوطی کی یاء کے پیٹ سے ایک یاء نکال کر ” طوطیے” پڑھنا وزن کی درستگی کے لیے ناگزیر ہے،علامہ اعظمیؒ فرماتے ہیں: باایں ہمہ تاریخ کا عدد نہیں بڑھا، اور حضرت امیر خسروؒ دس سال بعد مرحوم نہیں ہوئے، اسی طرح علامہ ندویؒ بھی بحرِ رمل میں میرے مصرع کی تقطیع کی وجہ سے دس سال بعد مرحوم نہ ہوں گے، جس کا مجھے دلی افسوس ہے! کاش میری تاریخ، تقطیع کی وجہ سےغلط ہوجاتی اور اس کے عوض علامہ ندویؒ دس سال بعد مرحوم ہوتے تو مجھے بہزار دل وجان قبول ہوتا۔اھ
یہ مکمل بحث مجلہ “المآثر” (جلد ۲۰ شمارہ ۱، صفحہ ۳۹ تا۵۲) میں بحوالہ “حیات ابو المآثر” (جلد دوم صفحہ ۵۳۷-۵۴۸) مفصل موجود اور اصحاب ذوق کو سامان تسکین مہیا کررہی ہے۔
ہدیۂ تشکر:
آخر میں ہم علامہ اعظمیؒ کے سوانح نگار ،آپ کی علمی میراث امت تک پہونچانے کا ایک اہم ذریعہ،اور اس عظیم سیمینار کے کنوینر، استاذ محترم مولانا ڈاکٹر مسعود احمد صاحب دامت برکاتہم کی خدمت میں ہدیۂ تشکر بیش کرتے ہیں، جنھوں نے ہمارے لیے یہ بہترین سرمایے میسر کردئیے ہیں، جن کی روشنی میںیہ چند سطریں صفحۂ قرطاس پر بکھر سکی ہیں، حقیقت یہ ہے کہ علامہ اعظمیؒ پر کسی تحریر یا تحقیق کی تخلیق آپ کی مرتب کردہ بے نظیر سوانح اور مقالات ومضامین سے مستغنی نہیں ہوسکتی۔ فجزاہ اللہ عنا أحسن الجزاء
مآخذ ومراجع
(۱) الألباني شذوذہ وأخطاؤہ : حضرت مولانا حبیب الرحمن الاعظمیؒ (ت:۱۴۱۲ھ)
(۲) بستان المحدثین: حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ (ت:۱۲۳۹ھ)
(۳) التاریخ الکبیر : امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ (ت:۲۵۶ھ)
(۴) تحفۃ الأحوذي: مولانا عبد الرحمن مبارک پوریؒ (ت:۱۳۵۳ھ)
(۵) تحفۃ الأشراف بمعرفۃ الأطراف : حافظ جمال الدین مزیؒ (ت:۷۴۲ھ)
(۶) تکملہ “فقہ أھل العراق وحدیثھم”: شیخ عبد الفتاح أبو غدہ ؒ (ت:۱۴۱۷ھ)
(۷) جامع ترمذی: امام أبو عیسی ترمذیؒ (ت:۲۷۹ھ)
(۸) حاشیہ “الرفع والتکمیل فی الجرح والتعدیل” : شیخ عبد الفتاح أبو غدہؒ (ت:۱۴۱۷ھ)
(۹) حاشیہ “صحیح ابن حبان بترتیب إحسان” : علامہ شعیب ارنؤوط ؒ(ت:۱۴۳۸ھ)
(۱۰) حیات ابو المآثر، ہر دو جلد: حضرت مولانا ڈاکٹر مسعود احمد صاحب دامت برکاتہم
(۱۱) الدیباجۃ شرح ابن ماجہ: حضرت مولانا لطیف الرحمن صاحب بہرائچی دامت برکاتہم
(۱۲) السنن الکبری: امام بیہقیؒ(ت:۴۵۸ھ)
(۱۳) صحیح مسلم: امام مسلم بن حجاج نیشاپوریؒ (ت:۲۶۱ھ)
(۱۴) مجلہ “المآثر”: مدرسہ مرقاۃ العلوم مئو
(۱۵) مجلہ “المجمع العلمي العربي”: دمشق
(۱۶) مجلہ “معارف”: دار المصنفین، اعظم گڈھ
(۱۷) محدث الھند الکبیر: حضرت مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن صاحب دامت برکاتہم
(۱۸) مسند الإمام أحمد: امام احمد بن حنبلؒ (ت:۲۴۱ھ)
(۱۹) مشکاۃ المصابیح: علامہ خطیب تبریزیؒ (ت:۷۴۱ھ)
(۲۰) المصنف لابن أبی شیبۃ: امام ابو بکر بن أبی شیبہؒ (ت:۲۳۵ھ)
(۲۱) المصنف لعبد الرزاق: امام عبد الرزاق صنعانیؒ (ت:۲۱۱ھ)
(۲۲) المعجم الوسیط
(۲۳) مضامین ومقالات: حضرت مولانا حبیب الرحمن الاعظمیؒ (ت:۱۴۱۲ھ)
(۲۴) مقدمہ “تاج العروس”: شیخ عبدالستار احمد فراج
(۲۵) ملحق ب “محدث الھند الکبیر”: حضرت مولانا ڈاکٹر مسعود احمد صاحب دامت برکاتہم
(۲۶) منیۃ الألمعي: شیخ علامہ زاہد الکوثریؒ (۱۳۷۱ھ)
(۲۷) مولانا حبیب الرحمن الاعظمیؒ اور ان کی علمی خدمات: ڈاکٹر صہیب ندوی
حواشی و تعلیق
[1] المعجم الوسيط،۹۴۴۔
[2] ترمذی: ۴۰۵۳۔
[3] مجلة المجمع العلمي العربي: اکتوبر ۱۹۶۳ء۔
[4] ماہنامہ معارف: اپریل ۱۹۹۲ء۔
[5] ترجمہ:اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ یہ علم دین ہرنسل کے عادلین حاصل کرتے رہیں گے، جو اسے غلو کرنے والوں کی تحریفات، باطل پرستوں کے افتراء، اور جاہلوں کی تاویلات سے پاک کریں گے۔ (مشکاۃ: باب العلم: رقم۲۴۸، بحوالہ سنن کبری للبیہقی:رقم ۲۰۹۹۱)۔
[6] حیات ابو المآثر:ج۱ ص۵۳۵۔
[7] منیۃ الألمعي: ص۸، مطبوعہ’ ’مجلس علمی ڈابھیل‘‘۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: حیات ابو المآثر: ج۱،ص۵۷۱-۵۷۲۔
[8] حاشیہ الرفع والتكميل في الجرح والتعديل: ص ۲۴۸۔
[9] فقہ أھل العراق وحدیثھم للعلامۃ الکوثري: ص٨٢ ۔
[10] (حوالۂ بالا: ص۴)
[11] حاشیہ صحیح ابن حبان بترتیب احسان :۴/۳۹۲۔
[12] ملحق ب”محدث الھند الکبیر”، للدکتور مسعود أحمد الأعظمي: الفصل الثاني۔
[13] محدث الهند الكبير: ص ٣٥-٣٦۔
[14] حیات ابو المآثر:ج۲ص۴۸۴۔
[15] بستان المحدثین۔
[16] ان استدراکات کی دسویں قسط کتابت کی غلطی سے مکرر ہوگئی ہے، اس لیے آگےکے نمبرات میں فرق ہوگیا ہے، درست تعداد وہی ہے جو ہم نے لکھی ہے۔ تفصیل یہ ہے: (ج۱۰ش۴،ج۱۱ش۱، ج۱۱ش۲، ج۱۱ش۳، ج۱۱ش۴،ج۱۲ش۱، ج۱۲ش۲، ج۱۲ش۳، ج۱۳ش۱، ج۱۳ش۲، ج۱۳ش۳، ج۱۴ش۱، ج۱۴ش۲، ج۱۴ش۴، ج۱۵ش۱، ج۱۵ش۳، ج۱۶ش۲، ج۱۶ش۳و۴، ج۱۷ش۱، ج۱۸ش۱، ج۱۸ش۲، ج۱۸ش۳) ۔
[17] ان استدراکات کے نمبرات میں بھی دو جگہ سہو ہوا ہے، ۳۱ نمبر مکررہے، اور ۱۲۴، ۱۲۵، ۱۲۶، ۱۲۷، ۱۲۸ بھی مکرر ہیں۔
[18] مجلہ المآثر:ج۱۰، شمارہ ۴، استدراک نمبر۵۔
[19] ایضاً:ج۱۰، شمارہ ۴، استدراک نمبر۸۔
[20] ایضاً:ج۱۱، شمارہ ۱، استدراک نمبر۱۱۔
[21] (حاشیہ الرفع والتكميل: ص۳۸۹-۳۹۱)۔
[22] الدیباجه على ابن ماجه: ج۱/ص۵۶، طبع اول، مطبوعہ مولانا ابو الکلام آزاد عربک اینڈ پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، ٹونک، راجستھان۔
[23] (حیات ابو المآثر: ج۲، ص۵۳۷)۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.