Hamare Masayil Aur Unka Hal

قربانی کا گم شدہ جانور اگر ایام قربانی کے بعد ملے

قربانی کا گم شدہ جانور ایام قربانی کے بعد ملے تو کیا حکم ہے؟

گرامي قدر مفتی صاحب  حفظہ اللہ ورعاہ … السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اللہ کرے بخیر ہوں۔

سوال: عرض یہ کہ اگر قربانی کے لئے خریدا یا پالا ہوا جانور گم ہوجائے اور چند دنوں بعد پھر مل جائے تو اس قربانی کےجانور کا کیا حکم ہے آیا اس کو صدقہ کردیا جائے یا ذبح کرے کہ خود استعمال کرے؟

مدلل جواب عنایت کریں گے، ممنون ہوں گا۔

المستفتی : محمد طاسین ندوی مدنی جلپا پور نیپال۔

 ۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞

الجواب باسم الملهم للصدق والصواب: وعليكم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

صاحب نصاب پر شریعت کی طرف سے صرف ایک قربانی واجب ہے اور صرف جانور خرید لینے سے اسی جانور کی قربانی متعین نہیں ہوتی بلکہ اس کی جگہ پر دوسرے جانور کو بھی ذبح کرسکتا ہے؛ لیکن فقیر پر شریعت کی طرف سے قربانی واجب نہیں ہے البتہ وہ قربانی کے لئے جتنے جانور از خود خرید لے سب کی قربانی متعین طور پر واجب ہوجاتی ہے۔

 صورت مسئولہ میں جس کا جانور گم ہونے کے بعد دوبارہ مل گیا ہے اگر وہ شخص مالدار ہے تو چونکہ وہ ایک جانور ذبح کر کے اپنا فریضہ پورا کرچکا ہے لہذا اس جانور صدقہ کرنا ضروری نہیں بلکہ ذبح کرکے خود استعمال بھی کرسکتا ہے اور بیچ کر اس کی قیمت سے فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے۔

 اگر وہ شخص فقیر ہے تو چونکہ جانور خریدنے ہی سے اس کے ذمہ قربانی واجب ہوگئی تھی لیکن غائب ہونے کی وجہ سے وقت پر قربانی نہیں کرسکا تو اب جانور کو صدقہ کردے اور اگر بیچ دیا ہو تو اس کی قیمت کو صدقہ کردے ۔واللہ اعلم بالصواب۔

الدلائل

وإذا اشتری الغني أضحیة فضلت فاشتری أخری ثم وجد الأولی في أیام النحر کان له أن یضحي بأیتهما شاء، ولو کان معسرًا فاشتری شاة وأوجبها، ثم وجد الأولی، قالوا: علیه أن یضحي بهما، کذا في فتاوی قاضي خان. (الفتاویٰ الهندیة، کتاب الأضحیة / الباب الثاني في وجوب الأضحیة بالنذر الخ ۵/۲۹٤).

اشتری الفقیر لها ثم سرقت، واشتری أخریٰ لها فوجد الأولی ضحی بهما، ولو غنیًا بالواحدة؛ لأنها علی الغني بإیجاب الشرع وهو واحد لا غیر، وعلی الفقیر بالشراء وهو متعدد. (الفتاوی البزازیة علی الفتاویٰ الهندیة، کتاب الأضحیة / الرابع فیما یجوز من الأضحیة ٦/۲۹۲).

ولو اشتریٰ الموسر شاة للأضحیة فضلت فاشتری شاة أخری لیضحی بها، ثم وجد الأولی في الوقت، فالأفضل أن یضحي بهما؛ فإن ضحی بالأولی أجزأه ولا تلزمه التضحیة بالأخریٰ، ولاشيء علیه غیر ذلک، سواء کان قیمة الأولی أکثر من الثانیة أو أقل … لأن التضحیة بها لم تجب بالشراء؛ بل کانت الأضحیة واجبة في ذمته بمطلق الشاة، فإذا ضحیٰ بالثانیة فقد أدی الواجب بها بخلاف المتنفل بالأضحیة إذا ضحی بالثانیة أنه یلزمه التضحیة بالأولی أیضًا؛ لأنه لما اشتراها للأضحیة فقد وجب علیه التضحیة بالأولی أیضًا بعینها فلا یسقط بالثانیة. (بدائع الصنائع، کتاب الأضحیة / فصل في کیفیة الوجوب: 4/ 199-200 زکریا).

وفي فتاویٰ أهل سمرقند: الفقیر إذا اشتری شاة للأضحیة فسرقت فاشتری مکانها ثم وجد الأولیٰ فعلیه أن یضحي بهما، ولو ضلت فلیس علیه أن یشتري أخریٰ مکانها، وإن کان غنیًا فعلیه أن یشتري أخریٰ مکانها. (البحر الرائق/کتاب الأضحیة ۸/۱۷۵ کراچی).

وإن سرقت أو ضلت، فشری أخریٰ ثم وجدها في أیام النحر، ذبح إحداهما لو غنیًا. وکلاهما لو فقیرًا، إلا إذا نواها عن الأولیٰ، لعدم تعدد الالتزام بالشراء حینئذٍ. (الدر المنتقی علی هامش مجمع الأنهر / کتاب الأضحیة ۲/۵۲۰، دار إحیاء التراث العربي بیروت: ٤/۱۷۲ مکتبة فقیه الأمة دیوبند).

وقالوا: إن أداءها فی وقتها بإراقة الدم وقضاءها بعد مضي وقتها بالتصدق بعینها أو بقیمتها. (فتح القدیر اشرفی ۹/۵۲۰، کوئٹه ۸/٤۲٦).

اشتریٰ شاة لیضحی بها فلم یفعل حتی مضت أیام النحر تصدق بها حیة فإن باعها تصدق بثمنها. (الفتاوى الهندیه، الباب الرابع فیما یتعلق بالمکان والزمان، زکریا قدیم ۵/۲۹۷، جدید ۵/۳٤۲).

  هذا ما ظهر لي والله أعلم وعلمه أتم وأحكم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله

أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.

  20/12/1439ه 1/9/2018م السبت.

 ۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞۞

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply