مال تجارت کی زکوة میں کس قیمت کا اعتبار ہوگا؟
سوال: دکان میں موجود وہ مال تجارت جن کا شمار اولڈ فیشن میں ہو جاۓ ایسے اموال کا بعض مرتبہ فروخت ہونا متعذر ہوجاتا ہے اور اگر فروخت ہوتے بھی ہیں تو قیمتِ خرید سے کم قیمت پر، زکوة کا حساب لگانے میں اس طرح کے اموال کی قیمت کس طرح نکالی جاۓ، نیز اموال تجارت کی زکوٰة نکالتے وقت قیمت کا اندازہ قیمتِ خرید سے ہوگا یا قیمت فروخت سے؟ بینوا وتوجروا!
المستفتی .ڈاکٹر محمد یعقوب أعظمی ملیشیا
الجواب باسم الملهم للصدق والصواب:
مال تجارت کی زکوٰة ادا کرتے وقت جو قیمت بازار میں ہو اسی کا لحاظ کرکے زکوٰة ادا کی جائے گی، خواہ وہ قیمت خرید سے زائد ہو یاکم؛ اس ليے جن سامانوں كي قيمت اولڈ فیشن كي وجہ سے كم ہوگئي ہے اب ان كي موجودہ ماليت كے حساب سے ہي زكوة نكالي جائے گی۔ (مستفاد: ایضاح المسائل /105، ایضاح النوادر2/41، فتاویٰ دارالعلوم 6/141)۔
الدلائل
عن الحسن في رجل اشتریٰ متاعاً فحلت فیه الزکاة؟ فقال: یزکیه بقیمته یوم حلت. (المصنف لابن أبي شیبة، الزکاة/ ما قالوا فی المتاع یکون عندالرجل یحول علیه الحول، 6/526، رقم: 10559) مؤسسه علوم القرآن.
عن ابن جریج قال: سمعت أنا أنها قیمة العروض یوم تخرج زکاته. (مصنف عبد الرزاق، الزکاة/ الزکاة من العروض، 4/97، رقم: 7105). المجلس العلمي.
وفی المحیط: یعتبر یوم الأداء بالإجماع وهو الأصح. (رد المحتار: الزکاة / زکاة الغنم، کراچی ۲/۲۸6، زکریا: 3/211، وهکذا فی الهندیة، الزکاة / الباب الثالث الفصل الثاني فی العروض، زکریا 1/180، جدید 1/241، بدائع ، کتاب الزکاة، صفة الواجب فی أموال التجارة زکریادیوبند2/211).
والله أعلم
تاريخ الرقم: 14/9/1439ه 30/5/2018م الأربعاء
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.