hamare masayel

ماں کی جان بچانے کے لیے روزہ توڑنا

(سلسلہ نمبر: 655)

ماں کی جان بچانے کے لیے روزہ توڑنا

سوال: زید کی والدہ سرکاری معلمہ ہیں اور حالیہ الیکشن میں انکی ڈیوٹی بیس کلومیٹر دور ایک دیہات میں لگی، جہاں بیٹھنے تک کا بھی بندو بست نہیں تھا اور یہ بیمار بھی تھیں۔

بہر حال یہ ڈیوٹی انجام دینے کے لیے زید کے ساتھ وہاں گئیں اور دوپہر تک وہیں رہیں، دوپہر میں انھوں نے واپسی کا ارادہ کیا تو دھوپ کی شدت سے تھوڑے ہی فاصلے پر جاکر انکو احساس ہوا کہ اگر اس شدت کی دھوپ اور گرمی میں سفر جاری رکھا تو ناگہانی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے لہذا چاروناچار واپس پولنگ سینٹر پر گئے، مگر یہ جو تھوڑی دور کا سفر ہوگیا تھا اس سے انکو شدت کی پیاس لگی اور ابھی افطار میں تقریباً پانچ گھنٹے باقی تھے، تو زید نے اپنی والدہ سے کہا کہ آپ روزہ افطار کردیں تو اسکی والدہ نے یہ شرط لگادی کہ اگر تم افطار کروگے تو میں افطار کروں گی، اب زید جو کہ عالم ہے سوچ میں پڑ گیا کہ کیا کرے کیونکہ قیام کا کوئی بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی نڈھال ہو چکا تھا، بالآخر اس نے افطار کے وقت میں ابھی زیادہ دیر باقی ہونے کیوجہ سے روزہ افطار کرلیا، اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید کے اس افطار سے صرف قضا لازم ہوگی یا قضا اور کفارہ دونوں؟

المستفتی: منظر کمال، مئو۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: اضطراری حالت میں روزہ توڑنے سے صرف قضا واجب ہوتی ہے کفارہ نہیں، لیکن اضطرار کا تعلق کیا صرف روزہ دار کی اپنی ذات سے ہے یا دوسرے کی وجہ سے بھی اضطرار پایا جاسکتا ہے، تو مسائل شرعیہ میں غور کرنے سےمعلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے کئی جگہوں پر دوسرے کی جان بچانے کے لئے اپنا روزہ توڑنے کی اجازت دی ہے، مثلا حاملہ اور مرضعہ عورت اگر بچے کی جان کا خطرہ محسوس کرے تو روزہ توڑنے کی اجازت ہے اور بعد میں صرف قضا کرنی ہوگی، کفارہ نہیں۔

اسی سے استدلال کرتے ہوئے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر زید کے پاس اپنی ماں کا جان بچانے کے لئے روزہ توڑنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا تو روزہ توڑنے کی صورت میں صرف قضا ہی لازم ہوگی کفارہ نہیں۔

نوٹ: چونکہ زید عالم ہے اس لئے اس کی ذمہ داری تھی کہ ماں کو سمجھاتا کہ صرف آپ روزہ توڑیں، مجھے روزہ توڑنا جائز نہیں ہے، اس لئے زید کو توبہ واستغفار بھی کرنا چاہئے۔

الدلائل

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحُبْلَى الَّتِي تَخَافُ عَلَى نَفْسِهَا أَنْ تُفْطِرَ،  وَلِلْمُرْضِعِ الَّتِي تَخَافُ عَلَى وَلَدِهَا. (سنن ابن ماجه، رقم الحديث: 1668).

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ -رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ- قَالَ: أَغَارَتْ عَلَيْنَا خَيْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَجَدْتُهُ يَتَغَدَّى، فَقَالَ: “ادْنُ فَكُلْ”. فَقُلْتُ: إِنِّي صَائِمٌ. فَقَالَ: “ادْنُ أُحَدِّثْكَ عَنِ الصَّوْمِ أَوِ الصِّيَامِ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ الصَّوْمَ وَشَطْرَ الصَّلَاةِ، وَعَنِ الْحَامِلِ، أَوِ الْمُرْضِعِ الصَّوْمَ أَوِ الصِّيَامَ”. وَاللَّهِ، لَقَدْ قَالَهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِلَيْهِمَا، أَوْ إِحْدَاهُمَا، فَيَا لَهْفَ نَفْسِي أَنْ لَا أَكُونَ طَعِمْتُ مِنْ طَعَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (سنن الترمذي، رقم الحديث: 715).

وقال في الأصل: إذا خافت الحامل أو المرضع على أنفسهما أو على ولدهما جاز الفطر وعليهما القضاء، وفي الوقاية: بلا فدية. (الفتاوى التاتارخانیة: 3/ 404، الرقم: 6499).

مريض رضيع لا يقدر على شرب الدواء، وزعم الطبيب أن أمه تشرب ذلك، لها الفطر. والظئر المستأجرة كالأم في إباحة الفطر. (الفتاوى البزازية: 1/ 69، ديوبند).

والله أعلم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.

26- 9- 1442ھ 9- 5- 2021م الأحد.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply