hamare masayel

مسبوق کو امام بنانا

(سلسلہ نمبر: 579)

مسبوق کو امام بنانا

سوال: اگر دوران نماز امام کا وضو ٹوٹ جائے تو کیا مسبوق کو آگے بڑھا سکتا ہے؟ اگر بڑھا دے تو مسبوق کیسے نماز پوری کرے اور  مقتدی کیسے؟.

المستفتی: سفیان مکی، گورکھپور۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: مسبوق  شخص کو امامت کے لئے آگے بڑھنے سے گریز کرنا چاہئے، اور خود امام کو بھی چاہئے کہ ایسے شخص کو تکمیل نماز کے لئے اپنا نائب نہ بنائے۔

لیکن اگر مسبوق پہلی صف میں ہو اور اس کو امام آگے بڑھا ہی دے اور مسبوق کو معلوم ہو کہ امام کتنی رکعتیں پڑھا چکا تھا، تو وہ مقتدیوں کے سلام تک نماز پڑھائے ،اور سلام سے پہلے کسی ایسے شخص کو اپنا نائب بنادے جو شروع سے نماز میں شریک ہو ، وہ سلام پھیرے ، اور اس کے ساتھ دوسرے مقتدی بھی سلام پھیردیں اور مسبوق اپنی نماز کو پوری کرلیں۔

اگر مسبوق کو علم نہ ہو کہ امام کی کتنی رکعتیں ہوئی تھیں؟ تو یہ مسبوق ایک رکعت نماز پوری کرکے تشہد کی مقدار بیٹھا رہے، پھر کھڑا ہو، اور اپنی نماز اس طرح پوری کرے کہ ہر رکعت میں احتیاطا قعدہ کرلے، یہ امام جب مقدار تشہد بیٹھ کر اٹھے، تو مقتدی اس کی اقتداء نہ کریں ، بلکہ اس کے فارغ ہونے کا انتظار کریں ، امام کے فارغ ہونے کے بعد یہ تنہا تنہا اپنی بقیہ نماز پوری کرلیں۔

اگر امام نے کسی ایسے شخص کو خلیفہ بنایا جو پچھلی صف میں تھا اور اس نے فوراً امامت کی نیت کرلی تو اس سے آگے کے لوگوں کی نماز فاسد ہوجائے گی اور اگر اس نے محراب میں جاکر نیت کی تو نماز کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ امام اس وقت تک مسجد سے نہ نکلا ہو اگر امام مسجد سے نکل گیا ہو تو سب کی نماز فاسد ہوجائے گی۔

نوٹ: بنا کے جواز کے لیے علماء نے تیرہ شرطیں لکھی ہیں جن کی رعایت ہر شخص سے دشوار ہے ؛اس لیے استیناف (ازسرِ نو نمازپڑھنا) بہرحال بہتر ہے۔

الدلائل

والأولى للإمام أن يقدم مدركا لأنه أقدر على إتمام صلاته وينبغي لهذا المسبوق أن لا يتقدم لعجزه عن التسليم ” فلو تقدم يبتدئ من حيث انتهى إليه الإمام “لقيامه مقامه” وإذا إنتهى إلى السلام يقدم مدركا يسلم بهم. (الهداية: 1/ 61).

قالوا لو استخلف في الرباعية مسبوقا بركعتين فصلى الخليفة ركعتين ولم يقعد فسدت صلاته، كما لو استخلف مسافر مقيما وصلى ركعتين ولم يقعد فسدت صلاته وصلاة القوم، كذا هذا، ثم هذا فروع على ما المسبوق بكمية صلاة الأول فلو لم يعلم يتم ركعة، ويقعد قدر التشهد، ثم يقوم ويتم صلاة نفسه ولا يتابعه القوم بل يصيرون إلى أن يفرغ فيصلون ما عليهم وحدانا ويقعد هذا الخليفة على كل ركعة احتياطا. (فتح القدير: 1/ 389).

ولو استخلف من آخر الصفوف ثم خرج من المسجد إن نوی الخلیفة الإمامة من ساعته صار إماما فتفسد صلاة من کان یتقدمه دون صلاة الإمام الأول ومن عن یمینه وشماله في صفه ومن خلفه وإن نوی أن یکون إماما إذا قام مقام الأول وخرج الأول قبل أن یصل الخلیفة إلی مکانه وقبل أن ینوی الإمامة فسدت صلاتهم. وشرط جواز صلاة الخلیفة والقوم أن یصل الخلیفة إلی المحراب قبل أن یخرج الإمام من المسجد. کذا فی البحر الرائق. (الفتاوی الهندیة:  1/ 96).

والله أعلم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.

25- 5- 1442ھ 10- 1- 2021م الأحد.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply