وه پو پھٹى وه نئى زندگى نظر آئى
بقلم: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفرپور اعظم گڑھ
آج راقم الحروف كى دونوں بڑى بچيوں كے اسكول كا پہلا دن تھا، بڑى بچى دس سال كى ہے، اور اس سے چھوٹى آٹھ سال كى ہے، اپنى زندگى ميں با ضابطہ طور پر پہلى بار اسكول جارہى تھيں،مدرسةالبنات ميں درجہ ششم ميں ان دونوں كا داخلہ ہوا ہے، اس سے پہلے ان كى سارى پڑھائى ناچيز كے ذريعہ ہوئى تھى، ابھى تك كسى سے ايك لفظ بھى نہيں پڑھا تھا، اسكول ميں رہ كر بھى وہ دونوں اسكول كے ماحول سے بالكل نا آشنا ہيں، اسى ليےصبح ہى سے ان كى خوشى ديدنى تھى، ليكن ہمارے چہرے پر بارہ بج رہےتھے، سر پر ايك انجانے خوف كى بدلى چھائى ہوئى تھيں،ان كے گھر سے نكلتے وقت چھوٹى بہن اور چھوٹے بھائى بہت رو رہے تھے، پورا گھر اداس تھا، پونے نوبجے ان كى بس اسكول كے گيٹ پر آنے والى تھى، ميرى پہلى كلاس 8:40 پر ختم ہوتى ہے، برداشت نہيں ہوا ميں بھى كلاس كے بعد اسكول كے گيٹ پر پہونچ گيا، نم آنكھوں سے ان كو الوداع كہا، ايسا محسوس ہو رہا تھا كہ ہميشہ كے ليے ان كو جدا كر رہا ہوں، بڑي عجيب كيفيت تھى:
دمِ فرقت عجب عالم تھا دل كى بيقرارى كا
كہ جيسے فصلِ گل ماتم كرے بادِ بہارى كا
بارہ بجے گھر پہونچا،پورا گھر بھائيں بھائيں كر رہا تھا، ميرے آنے سے بھى كسى كے چہرے پر مسكان نہيں تھى، بچوں كے چہرے پر عجيب سى اداسى چھائى ہوئى تھى،يہى بچے جو ميرے آنے سے ہمك كر گود ميں آتے تھے ، وہ مجھ سے دور بھاگ رہے تھے،بہنوں كى جدائى ميں رو رو كر ان كے آنسوں خشك ہوگئے تھے، چھوٹى بچى نے تو بھوك ہڑتال كر ركھا تھا، بڑى مشكل سے دوپہر ميں دودھ پى تھى، كہہ رہى تھى كہ كل سے لاك ڈاؤن لگا دوں گى، تاكہ وہ دونوں جانے نہ پائيں، ہر ہر منٹ پر اس كى نگاہ دروازے پرپڑتى تھى، ہر آہٹ پر كہتى تھى: امى اپى آگئى ، اپى آگئى ، پھر ان دونوں كو نہ ديكھ كر مايوس ہو جاتى تھى:
آہٹ پہ كان در پہ نظر دل ميں اشتياق
كچھ ايسى بيكلى تھى ہميں انتظار ميں
ہمارى بھى كيفيت يہى تھى، دوپہر ميں ان دونوں كے بغير كهانازہر معلوم ہو رہاتھا، دوپہر ميں قيلولہ كا معمول ہےليكن ہزار كوشش كے باوجود نيند آنكھوں سے اوجھل تھى، خدا خدا كر كے ساڑھے چار بجے وہ دونوں گھر ميں داخل ہوئيں، ان كے سلام كى آواز سے مردہ تنوں ميں جان پڑ گئى، دونوں بچوں كےمرجھائے چہرے يكايك كھل اٹھے، اب پورا گھر پھر سے ہرا بھرا ہو گيا، ان كى شوخياں، شرارتيں اور اٹكھيلياں عود كر آئيں جو صبح سے غائب ہو گئى تھيں:
ذرا وصال كے بعد آئينہ تو ديكھ اے دوست
ترے جمال كى دوشيزگى نكھر آئى
ان كےتازہ دم ہونے كے بعد ميں نے ان دونوں سے اسكول اور كلاس كى روداد سنى، جس كے ليے ميں صبح سے بے چين تھا، دونوں كا بڑا اچھا تاثر تھا، كہنے لگيں : ابو !اسكول بہت پسند آيا، وہاں بہت اچھا لگا، كافى دنوں كے بعد اتنى سارى بچيوں كو ہم نے ايك ساتھ ديكھا، بڑا پركيف سماں تھا، پورى كلاس ميں ہم دونوں بہنيں سب سے چھوٹى ہيں، باقى سارى بچياں عمر ميں ہم سے كافى بڑى ہيں،كلاس كى سارى لڑكياں كہہ رہى تھيں كہ تم لوگ كلاس تين يا چار ميں جاؤ، يہاں كيوں آ گئى ہو، تم تو ابھى بہت چھوٹى ہو،چھوٹى بچى كہہ رہى تھى كہ: ايك بڑى لڑكى مجھ سے كہا : تم كو الف ب آتا ہے كہ نہيں، جب ميں نےپلٹ كر اس سے پوچھنا شروع كيا تو بھاگ كھڑى ہوئى۔ ان سب كى باتيں سننے كے بعد ميں نے الله كا شكر ادا كيا كہ ميرى محنت ضائع نہيں ہوئى، ان كے جوابات سے دل خوش ہوگيا۔
ہزاروں سال نر گس اپنى بے نورى پہ روتى ہے
بڑى مشكل سے ہوتا ہے چمن ميں ديدہ ور پيدا
يہ ان كى مختصر روداد تھى، جس ميں پڑھنے والوں كے ليے شايد كچھ خاص دلچسپى كا سامان نہ ہو، ليكن ايك باپ كے ليے جس نے اپنى بچيوں كى تعليم كے ليے دن رات ايك كر ديا ہو بہت خوشى اور مسرت كا مقام ہے، يہ اس كے ليے فخر ومسرت كى بات ہے كہ اس كى كم سن بچياں بالغ اور بڑى بچيوں كى صف ميں كھڑى ہيں، اور تعليم ميں ان سے كہيں آگے ہيں۔
اس موقع پر ميں تمام والدين سے درخواست كرتا ہوں كہ وہ اپنے بچوں كى تعليم پر از خود توجہ ديں ، ان كے ہر مضمون كا گہرائى كے ساتھ جائزہ ليں، ان كے ہوم ورك پر بھى پورى توجہ ديں ، اسكول كے ساتھ ساتھ بچوں كى گھر پر پڑھائى بہت ضرورى ہے،آج كے دور ميں صرف اسكول كى تعليم كافى نہيں ہے، تمام قارئين سے بچيوں كے روشن مستقبل كے ليے دعا كى درخواست ہے۔
ابھى حرف ولفظ ميں تو نئى سوچ وبانكپن ہے
يہ چراغ جلتے جلتے كبھى كہكشاں بنيں گے
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.