علم کی اہمیت اور اس کے فائدے
بقلم: محمد ہاشم بستوی
آج ہر شخص جانتا ہے کہ تعلیم بہت ضروری چیز ہے ، کیونکہ تعلیم ہی کی وجہ سے ہمارے اندر ادب وشائستگی آتی ہے ، ہمیں رہنے سہنے کا ڈھنگ ، بات چیت کا طریقہ معلوم ہوتا ہے ، اچھے برے کی شناخت اور تمیز ہوتی ہے ،تعلیم ہی کی بدولت ہمارے اندر زندگی میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ اور حوصلہ پیدا ہوتا ہے ، تعلیم کے بغیرآدمی بسااوقات بے کار وبے بس ہوجاتا ہے، کبھی کبھی تو اسے اپنا پیٹ پالنے میں بھی دشواری ہوتی ہے ،ان پڑھ اور جاہل کی مثال اس دور میں ایک اندھے اور نا بینا سے کچھ کم نہیں،ایک اندھا آدمی ہر کام میں دوسرے کا محتاج ہوتاہے ، سہارے کے بغیر اس کی زندگی کی گاڑی نہیں چل سکتی ، اسی طرح جاہل آدمی کو بھی ہر جگہ سہارے کی ضرورت پڑتی ہے ، زندگی کے ہر شعبہ میں وہ دوسرے کا محتاج ہوتاہے، سفر اور انجانی جگہوں میں تو خاص طور پر دوسرے کی رہنمائی کے بغیر وہ ایک قدم بھی نہیں چل سکتا، اسٹیشن پر فلاں گاڑی کتنے بجے آتی ہے؟ فلاں گاڑی کون سے پلیٹ فارم پر آئے گی؟یہ بس کہاں جارہی ہے؟یہ کون سا محلہ ہے؟یہ سب تو ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات خود ہی وہاں موجود ہوتے ہیں ، اسٹیشنوں پر آپ نے خود ہی دیکھا ہوگا جگہ جگہ اسکرین لگی ہوتی ہے جس سے یہ پتا چلتا رہتا ہے کہ کون گاڑی کب آرہی ہے ، کس پلیٹ فارم پر آرہی ہے، کون گاڑی ٹائم سے ہے کون لیٹ ہے ، اسی طرح بس وغیرہ پر تختیاں لگی رہتی ہیں جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ بس دہلی جارہی ہے ، یہ بس آگرہ جا رہی ہے وغیرہ وغیرہ، لیکن اسے تو ایک پڑھا لکھا آدمی ہی سمجھے گا ایک جاہل بے چارہ کیا سمجھے گا، اسے تو دوسرے سے معلوم کرنے کے بعد ہی پتا چلے گا،غرض کہ ایک جاہل آدمی زندگی کے ہر میدان میں سہارے کا محتاج ہوتاہے ،اسے ہر کام میں دوسروں سے مدد لینی ہی پڑتی ہے ، اسے اپنے کسی کام پر اطمئنان نہیں ہوتا، لیکن ایک پڑھا لکھا آدمی بغیر دوسرے کی مدد کے اپنا کام کاج آسانی کے ساتھ خود بھی کرسکتاہے۔
تعلیمی ماحول کی ضرورت
اب تو آپ سمجھ ہی گئے ہونگے کہ پڑھائی لکھائی بہر حال ضروری ہے ، تاکہ ہم جہالت کے اند ھیر ے سے نکل کر علم کی روشنی میں آجائیں، ہمیں کسی کام میں اندھے کی طرح دوسرے کے سہارے کی ضرورت نہ ہو، تو پڑھائی لکھائی کے لیے جہاں اور چیزیں اہم ہیں مثلا: کتاب کاپی ، قلم دوات روشنی وغیرہ وہیں پر تعلیمی ماحول بھی بہت ضروری ہے ،تعلیمی ماحول کے بغیر ہمارے لیے پڑھنا لکھنا مشکل ہو سکتا ہے ، بہت سے اسکولوں اور مدرسوں کو دیکھا گیا ہے جہاں پڑھنے لکھنے کے لیے ہر طرح کی سہولیات موجود ہیں ، اساتذہ باصلاحیت ہیں ، روشنی کا معقول انتظام ہے ، طالب علموں کے رہنے سہنے کھانے پینے کی تمام تر سہولیات فراہم ہیں، لیکن بچوں کے اندر پڑھائی سے دلچسپی اور تعلیمی ماحول نہ ہونے کی وجہ سے اکثربچے پڑھائی میں پیچھے رہ جاتے ہیں ،بجائے پڑھنے لکھنے کے وہ اپنے قیمتی اوقات کو غیر ضروری کاموں اور کھیل کود میں برباد کردیتے ہیں،ایسے ماحول میں پڑھنے لکھنے والے بچے بھی بیکار ہو جاتے ہیں ، وہ لوگ بھی خود کواسی ماحول میں رنگ لیتے ہیں، انہیں اس بات کا بالکل احساس نہیں ہوتا کہ ہم اپنے قیمتی وقت کوضائع کر رہے ہیں، اپنے والدین کی امنگوں اور تمناؤں کا گلا گھونٹ رہے ہیں، ان کی صلاحیت برباد ہو جاتی ہے، ایسے ماحول میں جو بچے پروان چڑھتے ہیں ، ایسی فضا میں جو بچے پلتے بڑھتے ہیں وہ تعلیم میں بالکل پیچھے رہتے ہیں۔
اچھے برے ماحول کا اثر لازمی ہے
میرے ساتھیو! ماحول کا بہت اثر پڑتا ہے ،آپ نے دیکھا ہوگا کہ رمضان کے مہینہ میں تمام مسلمان روزہ رکھتے ہیں،ہمارا پورا معاشرہ رمضان کی بابرکت فصا میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے ،روزہ رکھنے کا ایک ماحول سا بن جاتا ہے ،بوڑھوں اور جوانوں کا کیا کہنا چھوٹے بچے بھی ذوق وشوق سے روزہ رکھتے ہیں،وہ ننھے منے بچے جو دو چار گھنٹہ بھی بھوکے نہیں رہ سکتے وہ بھی روزہ رکھنے کی ضد کرتے ہیں،سحری کے وقت والدہ کے نہ جگانے پر بہت ناراض ہوتے ہیں،بعض بچے تو اپنی ضد بر اڑ کر یہ کہنے لگتے ہیں کہ: آپ مجھے جگائیں یانہ جگائیں میں بھوکا رہ کر ہی روزہ رکھوںگا ، غرض کہ پورے مہینے میں روزہ رکھنے کا ماحول سا بن جاتا ہے ،ایسے ماحول میں سبھی لوگ روزہ رکھتے ہیں ، جن کا دل نہیں چاہتا وہ وہ بھی ماحول کی وجہ سے رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں،لیکن رمضان کے گزرتے ہی یہ رُت یہ موسم ختم ہوجاتاہے ، دوسرے مہینوں میں رمضان جیسا اثر باقی نہیں رہتا ، اگر کسی سے کہا جائے کہ تم رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مہینہ کاپورا روزہ رکھو تو یہ کا م اس کے لیے شاید بہت بھاری پڑے، کیونکہ دوسرے مہینوں میں رمضان جیسا ماحول نہیں رہتا۔
تعلیمی فضا مکدر کرنے والی چیزوں سے پرہیز
ہماری پڑھائی لکھائی کے لیے بھی اسی طرح کے ایک ماحول کی ضرورت ہے جہاں بس تعلیم ہی تعلیم ہو ، تعلیم کے علاوہ وہاں کسی اور چیز کا گزر نہ ہو،دنیا کے جھمیلوں ، شور وغل ، اور ہماری تعلیمی فضا کو مکدر کرنے والی دوسری چیزوں سے یہ ماحول کوسوں دور ہو، ایسا ماحول صرف ایک دو طالبعلموں سے نہیں بن سکتا ،اس کے لیے سب کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا پڑے گا ، ہم گھر میں ہوں یا اسکول میں ہر جگہ اپنی طالبعلمانہ روش کو برقرار رکھیں، پڑھائی لکھائی کے سلسلہ میں اسکول کے جملہ قوانین وضوابط پر پوری پابندی سے عمل کریں ، کہتے ہیں کہ :’’ ایک مچھلی پورے تالاب کا پانی گندا کر دیتی ہے‘‘ ، لہذا ہم ان تمام مشاغل سے پرہیز کریں جو ہماری تعلیمی فضا کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں، اسکول کے ساتھ ساتھ گھر میں بھی اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ پڑھائی لکھائی کے لیے کچھ اوقات متعین کر لیں جس میں سب لوگ مل کر پڑھیں ، اس وقت پڑھائی لکھائی کے علاوہ کوئی اور مشغلہ نہ ہو ، اس وقت اگر ایک دوسرے سے بات چیت بھی ہو تو بس پڑھائی ہی کے بارے میں ہو، اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کو بھی اپنے ساتھ بیٹھائیں تاکہ وہ بھی اس ماحول سے دلچسپی لیں، غرض ایسا ماحول بنائیں جس سے پورے گھر میں لکھنے پڑھنے کا رواج ہو جائے، مثل مشہور ہے کہ:’’ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے‘‘ ، ایسے ماحول میں وہ بچے بھی لکھنے پڑھنے لگتے ہیں جن کو تعلیم سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ، وہ بھی ماحول کی وجہ سے کچھ نہ کچھ ضرور لکھ پڑھ لیتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ پڑھنے لکھنے کے لیے کسی کا کوئی ٹائم ٹیبل نہ ہو ، کوئی پڑھ رہا ہے تو کو ئی ٹی وی آ ن کئے بیٹھا ہے ، کوئی لکھ رہا تو کوئی کھیل کود میں مشغول ہو، کوئی اپنا ہوم ورک پورا کررہا ہو تو کوئی شور غل کررہا ہو پورا گھر بالکل بازار کی طرح معلوم ہو رہا ہو، ایسے میں جو پڑھ رہا ہے اس کا پڑھائی میں جی نہیں لگے گا وہ بھی اکتا کر انہیں کی مجلس میں شامل ہو جائے گا ،پھر دھیرے دھیرے اس کا بھی دل پڑھائی سے اچاٹ ہو جائے گا ، پھر اس کے بعد ناکامی کی منزلیں خود بخود آسان ہوتی جائیں گی۔
تعلیمی ماحول کی تشکیل میں والدین کا کردار
بچوں کے والدین کو بھی چاہئے کہ وہ تعلیمی ماحول کی تشکیل میں بچوں کا تعاون کریں، خالی اوقات میں اپنے بچوں کے پاس بیٹھیں ، ان کی پڑھائی لکھائی کا جائزہ لیں ، تعلیم سے متعلق انکی دلچسپی کا سامان فراہم کریں ، ان کے لیے رسائل اور اچھی اچھی کتابیں خرید کر لائیںجس سے ان کی تعلیمی دلچسپی بڑھتی رہے، اپنے مہمانوں اور ملنے جلنے والوں کی مجلس کو بچوں کی تعلیمی مجلس سے دور رکھیں،تاکہ بچوں کی پڑھائی متاثر نہ ہو،اکثر گھروں میں دیکھا گیا ہے کہ بچے شام کواپنا سبق دہرا رہے ہیں وہیں پر آنے جانے والوں کا سلسلہ بھی جاری ہے ، چائے نوشی اور ہنسی مذاق کا دور بھی چل رہا ہے،ایسے میں بچوں کا پڑھائی لکھائی میں جی نہیں لگتا ، گھر کے ذمہ داروں کو اس پرتوجہ دینی چاہئے ، اگر بچوں کا ریڈنگ روم الگ تھلک ہو تو زیادہ بہتر ہے ،تاکہ ملنے جلنے والوں کو تکلف نہ ہو اور بچوں کی پڑھائی لکھائی میں بھی خلل نہ پڑے،یہ سب اس لیے ضروری ہے تاکہ ہم تعلیمی میدان میں آگے بڑھ سکیں ، علمی دنیا میں اپنا نام پیدا کرسکیں،اور یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب ہم کو پڑھائی لکھائی سے شوق ہو، کھانے پینے کی طرح لکھنے پڑھنے کی بھی ایک عادت سی بن جائے، اس سلسلہ میں ماحول کا بہت بڑا دخل ہے ، اس لیے ہمیں اپنے اسکولوں اور گھروں میں بھی تعلیمی ماحول بنانے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.