موجودہ حالات میں قرآنی ہدایات
بقلم: مفتى محمد اجمل صاحب قاسمی استاد تفسیر وادب مدرسہ شاہی مرادآباد
انسان كے پیش كردہ نظریات وقت كے گذرنے سے ساتھ فرسودہ ہوجاتے ہیں، مفكرین كے پیش كئے ہوئے حل اگلے زمانے میں ازكار رفتہ قرار پاتے ہیں، من كو موہ لینے والا اسلوب اور دل كو چھولینے والا طرز بیان ایک عرصے كے بعد اپنی كشكش كھودیتا ہے، مگر قربان جائیں قرآن مجید كے، یہ ایسی كتاب ہے جو اپنی ساری آب وتاب كے ساتھ ہمیشہ ترو تازہ اورسدا زندہ ہے، صدیاں بیت گئیں، زمانے گذر گئے، نہ اس كے اسلوب كی شوكت جاتی ہے، نہ اس كے نظم كی حلاوت كم ہوتی ہے، اورنہ ہی اس كی تعلیمات انسانیت كی رہنمائی سے عاجز وقاصر ہوتی ہیں، اور كیوں نہ ہو جب كہ علیم وخبیر رب نے ہر پہلو سے اسے پختہ اور ٹھوس بنایا ہے، اور اسے سارے زمانوں اورسارے انسانوں كے لیے ابدی ہدایت بناكر بھیجا ہے، قرآن كریم میں پچھلی قوموں كے واقعات كا انتخاب اور اس كو پیش كرنے كا انداز اتناشاندار ہے كہ پڑھنے والوں كو ماضی كی ان داستانوں میں حال تصویر صاف نظر آتی ہے، اوران واقعات كے ضمن میں قدم قدم پر جو ہدایات ہیں ان سے اپنے زمانے كے حالات میں بہترین رہنمائی ملتی ہے، اس طرح قرآن كریم میں گذری قوموں كے واقعات میں آنے والی قوموں كے لیے نصیحت كا بڑا سامان آگیاہے، اللہ كا یہ ارشاد بالكل برحق ہے:
﴿لَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴾ (الأنبیاء: 10)
‘‘ ہم نے تمہارے پاس ایک ایسی كتاب اتاری ہےجس میں تمہارے لیے نصیحت ہے کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے’’
آج امت مسلمہ عالمی اور ملكی دونوں سطح پر نہایت بے كسی اور بے بسی كے دورسے گذر رہی ہے، لڑی ٹوٹنے پر جیسے تسبیح كے دانے تیزی سے ایک كے اوپر ایک گرتے چلے جاتے ہیں ، اسی طرح آج مسائل وچیلنجز یكے بعد دیگرے تیزی اورتسلسل كے ساتھ سامنے آرہے ہیں،آئے دن كوئی نہ كوئی نئی مصیبت درپیش ہوتی ہے جو آزمائش وامتحان كی زنجیر میں نئے حلقوں كا اضافہ كرجاتی ہے، مسلمان خوف و دہشت اور مایوسی كا شكار ہوتے ہیں، اور ان كے ذہن میں طرح طرح كے سوال گردش كرنے لگتے ہیں۔ قرآن كریم نے ہمیں واضح طور پر بتایا ہے كہ دنیا میں صرف برے اور غلط كار لوگ ہی پریشانیوں سے دوچار نہیں ہوتے، بلكہ اچھے لوگوں، اللہ كے نیک بندوں اورحق كے پرستاروں كو بھی زندگی مختلف موڑوں پر سخت حالات اور پریشانیوں سے گذرنا پڑتاہے، اوراس میں اللہ كی بڑی حكمتیں ہوتی ہیں۔ قرآن كریم نے اہل حق كی آزمائشوں كا ذكر كرتے ہوئے ہمیں یہ بھی بتایا كہ امت جب بھی كسی ایسے سخت آزمائشی دورسے گذرے تو اسے ان حالات میں كیا كرنا چاہیے ، ذیل میں ہم اسی سلسلے میں قرآن پاک سے ملنے والی كچھ ہدایات پیش كرتے ہیں، اور دعا كرتے ہیں كہ اللہ تعالی اس كو مفید ونافع بنائے، توآئیے ان ہدایات پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
1- تقوی
تقوی كیا ہے؟ تقوی اللہ تعالی سے ایسے تعلق كا نام ہے جس میں وہ شوق ومحبت بھی ہو جس كی وجہ سے آدمی كے لیے اللہ كے پسندیدہ احكام كی پیروی آسان اور محبوب بن جائے، اور وہ ڈر اور خوف بھی ہو جس كی وجہ سے نافرمانیوں كا ارتكاب آدمی كے لیے مشكل ہوجائے، آزمائشیں بہت سی دفعہ انسان كی بداعمالیوں كے نتیجے میں بطور تنبیہ اللہ رب العزت كی طرف سے بھیجی جاتی ہیں، تاكہ غفلت میں ڈوبے ہوئے لوگ ہوش میں آكر اللہ سے رجوع كریں، اس كے دین كے احكام بجالائیں، اور اس كی نافرمانیوں سے پرہیز كریں، یوں تو تقوی كی صفت ہرحال میں مطلوب ہے، مگر آزمائشوں كے دور میں اس كی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے، تقوی ہی سے اللہ كی نصرت ومدد ملتی ہے، مشكل آسان ہوتی ہے، اور مصیبتوں سے نكلنے كی راہیں ہموار ہوتی ہیں، قرآن میں جابجا تقوی كی تاكید كی گئی ہے، ایک جگہ ارشاد ہے:
﴿وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا ﴿2﴾ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا﴾ (الطلاق: 2-3)
‘‘اورجوكوئی اللہ سے ڈرے گا اللہ اس كے لیے مشكل سے نكلنے كا كوئی راستہ پیدا كردے گا، اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوگا، اورجواللہ پر بھروسہ كرے تواللہ اس ( كی مدد)كے لیے كافی ہے’’۔
2- صبر
آدمی یہ ذہن بنالے كہ ہمیں اللہ كو راضی ركھنا ہے، اور ہرحال میں اس كے دین پر مضبوطی سے جمنا ہے، پھر اس كے لیے خواہشات كی قربانی دینی پڑے، مفاد كی قربانی دینی پڑے، جان ومال ، كھیتی وكاروبار كا نقصان برداشت كرنا پڑے، دشمنوں كی طرف سے دلخراش طعنے سننے پڑیں، اورمخالفتوں كا سامنے كرنا پڑے، اللہ كی رضا كے لیے سب كچھ برداشت كرے، اور دین پر مضبوطی كے ساتھ ثابت قدم رہے۔ محكومیت اور مظلومیت كے دور سےصبر كی صفت سے آراستہ ہوئے بغیر كامیابی كے ساتھ نكلا نہیں جاسكتا، اہل حق كا قافلہ جب بھی آزمائشوں سے دوچار ہواہےانہیں صبر واستقامت اورپامردی كی تلقین كی گئی ہے، فرعون نے بنی اسرائیل پر ظلم كے پہاڑ توڑنے كا اعلان كیا تو حضرت موسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل كو اللہ سے مدد طلب كرنے اور صبر اختیار كرنے كی تلقین كی :
﴿قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ ﴿127﴾ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا ۖ إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ﴾ ( الأعراف: 127-128)
( فرعون ) ‘‘بولا : ہم ان كے بیٹوں كو قتل كریں گے،اور ان كی عورتوں كوزندہ ركھیں گے اور ہمیں ان پر پورا پورا قابو حاصل ہے، موسی نے اپنی قوم سے كہا: اللہ سے مدد مانگو اور صبر سے كام لو، یقین ركھو كہ زمین اللہ كی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتاہے اس كا وارث بنادیتا ہے، اور آخری انجام پرہیز گاروں كے ہی حق میں ہوتاہے’’۔
3- نماز
نماز كی اہمیت یوں تو ہر حال میں بہت زیادہ ہے، مگر خصوصیت كے ساتھ آزمائشی حالات میں نماز كی تاكید كئی مقامات پر آئی ہے، مشكل حالات میں دین پر استقامت کے لیے جس صبر اور ایمانی استقلال كی ضرورت ہوتی ہے ، وہ اللہ سے مضبوط تعلق كے بغیر حاصل نہیں ہوتا، اور نماز اللہ رب العزت سے تعلق قائم كرنے كا سب سے آسان اور مؤثر طریقہ ہے، نماز میں جب عاجز و درماندہ اور پریشاں حال بندہ اللہ سے اپنے دكھ درد كا اظہار كرتا ہے، اس كے سامنے تڑپتاہے، روتا اور بلكتا ہے، تو اللہ كی رحمت فوراً اس بندے كی مسیحائی كرتی ہے، چنانچہ اسے ایک روحانی سكون ملتا ہے، تسلی حاصل ہوتی،ایمان میں تازگی آتی ہے اور قربانی كا نیا عزم وحوصلہ پیدا ہوتاہے، یہی وجہ ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كو جب بھی كوئی مشكل پیش آتی تو آپ نماز كی طرف متوجہ ہوتے، نمازسے آپ كے شوق كا یہ حال تھا كہ سفر ہو حضر ہو، امن ہو جنگ ہو، رزم ہو بزم ہو، غمی ہو خوشی ہو، نیند وآرام كا وقت ہو، یا مصروفیات وبیداری كا ایک چیز جس كے اہتمام میں كبھی فرق نہیں آتا تھا وہ نماز ہے، آزمائشوں میں گھرے لوگوں كواللہ تعالی نے ایک سے زائد مقام پر خصوصیت سے تاكید فرمائی ہے ، ارشاد ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ﴾ ( البقرة: 153)
‘‘اے ایمان والو! صبر اورنماز سے مدد حاصل كرو،بیشک اللہ صبر كرنے والوں كے ساتھ ہے’’۔
4 – احتساب
دین پرعمل كرنے كی راہ میں جو پریشانیاں پیش آئیں، شریعت پر چلنے میں جن مشكلات كا سامنا ہو، مسلمان اور كلمہ گو ہونے كی وجہ سے جو جو ناگواریاں اور نقصان گوارا كرنا پڑے اس پر ہمت ہارنے اور ناامید وپریشان ہوكر شكستہ خاطر ہونے كے بجائے اللہ سے ان مصیبتوں پراجر وثواب كی امید ركھے، آزمائشوں كو گناہوں كے لیے كفارہ اورنیكیوں میں اضافہ كا ذریعہ سمجھے ، یہی چیز احتساب كہلاتی ہے، یہ صفت كسی بندہٴ مومن میں اگر پیدا ہوجائے تو وہ بآسانی بڑے بڑے غم سہار جاتا ہے، بڑے سے بڑے نقصان پر صبر كرلیتاہے، اورآئندہ بڑی سے بڑی قربانی دینے كے لیے پرعزم رہتاہے، قرآن كریم میں جگہ جگہ آخرت كے ثواب كا شوق دلاكر صحابہ كو دین كے لیے قربانیوں پر ابھارا گیاہے، ایک جگہ ارشاد ہے:
﴿فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ﴾ (آل عمران: 195)
‘‘پس جن لوگوں نے ہجرت كی، اورانہیں ان كے گھروں سے نكالا گیا ،اورمیرے راستے میں تكلیفیں دی گئیں ، اورجنہوں نے (دین كی خاطر) لڑائی لڑی اورقتل ہوئے ، میں ان سب كی برائیوں كا كفارہ كردوں گا ، اورانہیں ضرور بالضرورایسے باغات میں داخل كروں گاجن كے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، یہ سب كچھ اللہ كی طرف سے انعام ہوگا،اوراللہ ہی ہے جس كے پاس بہترین انعام ہے’’۔
5- توكل
پریشانیوں میں اللہ كی نصرت اور مدد پر بھروسہ كیاجائے، اس كی ذات عالی سے حسن ظن ركھا جائے، حالات كی سختی اور وسائل كے فقدان كی وجہ سے مایوسی اورنا امیدی کے بجائےاللہ كی طاقت وقدرت پر اعتماد كیا جائے ،اس کی قدرت كے سامنے دنیا كی ساری فرعونیت ہیچ ہے، وہ ایسا سہارا ہے جس سے مضبوط كوئی سہارا نہیں ہے:
كیا غم ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
كافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے
اللہ نے فكر و عمل اور مال واسباب كے جو بھی جائز وسائل مہیا كئے ہیں ان كو بھی اچھی طرح بروئے كار لائے ، اور ممكنہ جد وجہد كرے، مگر نظر اسباب كے بجائے رب الاسباب پر ہو، بھروسہ اپنی تدبیروں كے بجائے اللہ كی توفیق اور اس كی نصرت پر ہو، یقین ہوكہ اس كی مدد شامل ہوگی توذرہٴ بے مقدار سےبھی بڑے بڑے كام بن جائیں گے، اوراگر توفیق شامل حال نہ ہوئی تو پہاڑوں جیسے منصوبے اور تدبیریں مكڑی جالے سے زیادہ بے وقعت ثابت ہوں گے، اللہ پر اعتماد وبھروسہ ایک عجیب و غریب صفت ہے، قرآن شاہد ہے اور تاریخ گواہ ہے كہ بہت سی دفعہ اسباب و وسائل سے تہی مایہ مٹھی بھر لوگوں نے محض اللہ كے اعتماد و بھروسے پر بڑے بڑے معركے سر كرلیے، اور بڑی بڑی كامیابیوں سے سرفراز كئے گئے، توكل كی ضرورت یوں توہرحال میں ہے، مگر نازک گھڑی اور مخالف ماحول میں دینی اور ملی جدوجہد كرنے والوں كو اس صفت آراستہ ہونا از حد ضروری ہے، قرآن میں جا بجا توكل كی تاكید آئی ہے ، اس سلسلے كی ایک آیت اوپر بھی گذرچكی ہے، ایک اور نقل كی جاتی ہے جس میں صحابہ كی قربانی واطاعت اوران كے جذبہٴ توكل كو خوب سراہا گیاہے:
﴿الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴿172﴾ الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ﴾ (آل عمران: 172-173)
‘‘وہ لوگ جنہوں نے زخم كھانے كے بعد بھی اللہ اوررسول كی پكار كا فرماں برداری سے جواب دیا، ایسے نیک اور متقی لوگوں كے لیے زبردست اجر ہے، وہ لوگ جن سے كہنے والوں نے كہا تھا: یہ (تمھارےدشمن) لوگ تمہارے مقابلے كے لیے جمع ہوگئے ہیں، لہذا ان سے ڈرتے رہنا، تو اس خبر نے ان كے ایمان میں اور اضافہ كردیا اور وہ بول اٹھےكہ: ہمارے لیے اللہ كافی ہے اور وہ بہترین كارساز ہے’’۔
6- انفاق یعنی راہ خدا میں مال خرچ كرنا
مال آدمی كو فطری طور پر بہت محبوب ہے، بڑے جتن اور محنت كے بعد ہاتھ لگتا ہے اس لیے دل میں اس كی قدر بھی بہت زیادہ ہوتی ہے، اب یہ محبوب اور عزیز تر چیز اگر كسی چیز پر قربان كی جائے تو لامحالہ وہ چیز بھی قیمتی اور قابل قدر ہوجائے گی، اس لیے دل میں دین كی قدر وقیمت پیدا كرنے كے لیے دین اور اہل دین پر مال خرچ كرنا ضروری ہے۔ مزید برآں یہ كہ مال كی محبت اگر اعتدال سے بڑھ جائے، تو وہ آدمی كو خود غرض اور مفاد پرست بناتی ہے، اور دین وایمان كے لیے ایک حجاب بن جاتی ہے، ایسا شخص دین كے لیے مالی مفاد كی قربانی دینے كا حوصلہ نہیں جٹا پاتا، قارون موسی علیہ السلام كی دعوت كو اس لیے قبول نہ كرسكا كہ اس كے مالی مفاد پر زد پڑتی تھی، قوم شعیب علیہ السلام كے ایمان نہ لانے كے جو اسباب تھے، ان میں ایک بڑا سبب یہ تھا كہ ایمان قبول كرنے كی صورت میں انہیں كاروباری نقصان نظر آتا تھا۔ جو آدمی خیر كے كاموں میں مال كوخرچ كرتا رہتاہے اس كے دل میں دنیا كی محبت اعتدال سے آگے نہیں بڑھتی، جس كی وجہ سے وہ مال سے دنیوی فوائد حاصل كرنے كے ساتھ اخروی ثواب بھی حاصل كرتاہے، پس راہ خدا میں مال خرچ كرنا اس حب مال اورحب دنیا كا بہترین علاج ہےجسے ہر برائی كی جڑ قرار دیا گیاہے۔
راہ خدا میں مال خرچ كرنا ہر مومن كی ایمانی ضرورت اور اس كا روحانی علاج ہے ، اسی لیے تنگی اور فراخی ہر حال میں خرچ كرنے كی تاكید آئی ہے، مگر امت جب كمزوری اور مغلوبیت كے دور سے گذر رہی ہو تومال خرچ كرنا محض اپنے روحانی علاج كے لیے ہی نہیں بلكہ دین اور اس كے ماننے والوں كی بقا كے لیے بھی نہایت ضروری ہوجاتا ہے، مساجد و مدارس اوردینی مراكز كی بقا، اسلامی تحریكوں كا احیاء، غریب ومفلس مسلمانوں كی خبر گیری، لٹے پٹے اور اجڑے ہوئے ایمانی بھائیوں كی باز آبادكاری، فرضی مقدموں میں ماخوذ مظلوموں كی داد رسی، غرضے كہ سیكڑوں تقاضے پیدا ہوجاتے ہیں، جن كے لیے وسیع پیمانے پر مال كی سخت ضرورت ہوتی ہے، وقت كے یہ تقاضے اتنی اہمیت اختیار كرلیتے ہیں كہ ان کے پورا كرنے میں كوتاہی برتی جائے تو خطرہ پیدا ہو جاتاہے كہ كہیں دین ضائع نہ ہوجائے، اور دین كے ماننے والے ایمان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں، اسی لیے صحابہ جب مشكل دور سے گذر رہے تھے، اوران كے اوپر ہرطرف سے مسائل كے انبار تھے، تو قرآن كریم نے ان كو مختلف انداز میں راہ خدا میں مال خرچ كرنے كی تاكید كی اورترغیب دلائی ،ایک جگہ ارشاد ہے:
﴿وَأَنفِقُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوَاْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ﴾ (البقرة: 195)
‘‘اوراللہ كے راستے میں مال خرچ كرو، اوراپنے آپ كو خود اپنے ہاتھوں ہلاكت میں ڈالو، اورنیكی اختیار كرو، بیشک اللہ تعالی نیكی كرنے والوں سے محبت كرتاہے’’ (اُس وقت اسلام اور مسلمانوں كو جو اہم مالی تقاضے درپیش تھے صحابہ كو اس كے لیے مال خرچ كرنے كی تاكید كی گئی، اوركہا گیا كہ اس وقت ان تقاضوں پر مال خرچ كرنے میں كوتاہی اپنے پاؤں پر كلہاڑی مارنے كے مترادف ہوسكتی ہے)
7- ذكر واستغفار اور دعا
انابت، رجوع الی اللہ، دعا اورذكر واستغفار درحقیقت جوہر عبادت اور روح بندگی ہے، یہ وہ پاكیزہ صفات ہیں جوسفلی اورحیوانی جذبات سے بوجھل انسان كو ملكوتی انوار میں رنگ دیتی ہیں، اور بندے كو اللہ كے بہت قریب كر دیتی ہیں، یہ بندے جب كسی كام كے لیے كھڑے ہوتے ہیں تو ان كواللہ كی تائید ونصرت حاصل ہوتی ہے،وہ جب اپنے رب كوپكارتے ہیں توان كی پكار سنی جاتی ہے،اللہ انہیں وہ بصیرت عطا كرتا جس سے مشكل گھڑی میں نجات كی راہیں واضح ہوتی ہیں، اللہ تبارک وتعالی كی نصرت ومدد اوراس كی نظر رحمت كو اپنی طرف موڑ میں دعا واستغفار، ذكر اللہ كی كثرت ، انابت اور الحاح وعاجزی اوراس كے حضور جبین نیاز رگڑنے كا بڑا اثر ہے، اللہ تعالی نے پریشان كن حالات میں قرآن كریم میں جگہ جگہ اہل ایمان كوذكر كی كثرت ، توبہ واستغفار، اوردعاكی تلقین كی ہے،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی عملی زندگی میں بھی ہمیں یہ بات بہت نمایاں طورپر ملتی ہے، لہذا آج کے حالات میں ہر صاحب ایمان كو اس طرف بھر پور توجہ دینے کی كی ضرورت ہے، قرآن كریم نے دشمنوں كے مقابلہ میں انبیاء كرام كاساتھ دینے والے اللہ والوں كا حال ہماری تعلیم كی غرض سے بڑی شان سے بیان كیا ہے، مشكل كی حالات وہ كس طرح جمے اوركٹھن گھڑیوں كس عاجزی سے اپنے رب كوپكارا اوراپنے گناہوں پر معافی كے خواستگار ہوئے قرآن كے الفاظ میں پڑھئے:
﴿وَكَأَيِّنْ مِنْ نَبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ ﴿146﴾ وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ﴿147﴾ فَآتَاهُمُ اللَّهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْآخِرَةِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ﴾ ﴿148﴾ (آل عمران: 146-148)
‘‘اوركتنے سارے پیغمبر ہیں جن كے ساتھ مل كر بہت سے اللہ والوں نے جنگ كی،نتیجتا انہیں اللہ كے راستے میں جوتكلیفیں پہنچیں ان كی وجہ سے نہ انہوں نے ہمت ہاری ، نہ وہ كمزورپڑے اورنہ انہوں نے اپنے آپ كوجھكایا،اللہ ایسے ثابت قدم لوگوں سے محبت كرتا ہے،ان كے منہ سے جوبات نكلی وہ اس كے سوا نہیں تھی كہ وہ كہہ رہے تھے: ہمارے پروردگار ہمارے گناہوں كوبھی اورہم سے اپنے كاموں میں جوزیادتی ہوئی ہواس كوبھی معاف فرمادے ، ہمیں ثابت قدمی بخش دے، اوركافرلوگوں كے مقابلے میں ہمیں فتح عطا فرمادے،چنانچہ اللہ نے انہیں دنیا كا انعام بھی دیا اورآخرت كا بہترین ثواب بھی ، اوراللہ ایسے نیك لوگوں سے محبت كرتاہے’’۔
ایک دوسرے مقام پر دشمن سے مقابلہ كے وقت كثرت سے اللہ كویاد كرنے كی تاكید كی فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُواْ وَاذْكُرُواْ اللّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلَحُونَ﴾ ( الأنفال: 45)
‘‘اے ایمان والو! جب تمہارا كسی گروہ سے مقابلہ ہوجائے توثابت قدم رہو، اوراللہ كا كثرت سے ذكر كرو، تاكہ تمہیں كامیابی حاصل ہو۔’’
حالات اور آزمائش كا مقابلہ كیسے كیا جائے؟
اس سلسلے میں ہم نے جو یہ چند معروضات پیش كی ہیں ان كو روحانی، باطنی یا دینی تدابیر كا نام دیا جاسكتاہے، یہ دینی تدبیریں ہی دراصل حقیقی تدبیریں ہوتی ہیں، مسلمان اگر ان پر صحیح طورپر عمل پیرا ہوجائیں تواللہ ظاہر ی اورمادی تدبیروں كی بھی شكلیں پیدا فرماتاہے، پھر یہ چیزیں ایسی ہیں كہ ہر صاحب ایمان اس ان تدبیروں كی ضرورت کا قائل ہے، كسی كے لیے اس میں اختلاف كی گنجائش نہیں ، اور یہ ایسی چیزیں ہیں جن پر عمل كے لیے كسی سرمائے ،كسی نظم وانتظام ، اورپروگرام كی ضرورت نہیں، ہر كوئی بآسانی اپنی ذاتی توجہ سے ان پر عمل كرسكتاہے، اور اپنی بساط بھر دوسروں كوبھی متوجہ كرسكتاہے، ان باتوں میں ہرحال میں خیر ہی خیر ہے:
یہ نغمہ فصل گل ولالہ كا نہیں پابند
بہار ہوكہ خزاں لاالہ الا اللہ
بلاشبہ اسلام نے اعمال كے ساتھ اسباب كا بھی پابند كیا ہے ، قرآن كریم میں جگہ جگہ روحانی تدبیروں كے ساتھ ساتھ مادی اسباب اورظاہری تدبیر یں اختیار كرنے پر بھی زور دیا ہے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی پوری سیرت طیبہ میں باطنی اورمادی و ظاہری تدبیریں پہلو بہ پہلو نظر آتی ہیں، مگر قرآن كریم نے ظاہر ی تدبیروں کی كوئی متعین صورت نہیں ركھی ہے، بلكہ حالات وزمانہ كے لیے لحاظ جو شكل موزوں اورمفید نظر آئے وہ اختیار كی جائے گی، اور اس باب میں كوئی مشورہ یا لائحہ عمل وہی پیش كرسكتاہےجسے كتاب وسنت كے گہرے علم كے ساتھ ملک وقوم اور زمانہ كے حالات سے بھی گہری واقفیت اوربصیرت بھی ہو۔
دعا ہے كہ امت کے جو رجال کار امت كی قیادت كا فریضہ انجام دے رہیں اللہ تعالی ان پر صحیح راہ عمل كھول دے، اور قوم و ملت كی صحیح قیادت ورہنمائی کی توفیق عطا فرمائے ، رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا ، اور توفیق الہی و تائید ربانی سے مالا مال غیر معمولی صلاحیت وبصیرت كے حامل ایسے بندوں كو كھڑا كرے جنھیں اللہ نازک اورمشكل گھڑیوں میں امت كی گلو خلاصی اورنجات كے لیے منتخب كرتا ہے اور ان كے ذریعہ دین وملت كی قیادت كا فریضہ انجام دلواتاہے، امت سخت انتشار اور بے اطمینانی كے دورسے گذر رہی ہے اورزمانے كو پھرسے نئی شیرازہ بندی كا انتظار ہے، رَبَّنَا اجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا، آمین یارب العالمین!
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.