سورہ ضحى ترجمہ اور مختصر تفسير
مرتب: محمد ہاشم بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ يوپى، انڈيا۔
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے
وَالضُّحَى (1)
قسم ہے روزِ روشن کی
وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى (2)
اور رات کی جبکہ وہ سکون کے ساتھ طاری ہو جائے
مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى (3)
(اے نبی ؐ) تمہارے ربّ نے تم کو ہر گز نہیں چھوڑا اور نہ وہ ناراض ہوا
وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الْأُولَى (4)
اور یقیناً تمہارے لیے بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہے،
وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى (5)
اور عنقریب تمہارا ربّ تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہو جاوٴ گے۔
أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى (6)
کیا اُس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھِکانا فراہم کیا؟
وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى (7)
اور تمہیں ناواقفِ راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی۔
وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَى (8)
اور تمہیں نادار پایا اور پھر مالدار کر دیا۔
فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ (9)
لہٰذا یتیم پر سختی نہ کرو،
وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ (10)
اور سائل کو نہ جھِڑکو،
وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ (11)
اور اپنے ربّ کی نعمت کا اظہار کرو۔
شان نزول
شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمای لکھتے ہیں کہ: روایات صحیحہ میں ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) کو دیر تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نہ آئے ( یعنی وحی قرآنی بند رہی) مشرکین کہنے لگے کہ ( لیجئے) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کے رب نے رخصت کردیا ہے اس کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئی میرا گمان یہ ہے کہ یہ زمانہ فترہ الوحی کا ہے جب سورة ” اقرا “ کی ابتدائی آیات کے نازل ہونے کے بعد ایک طویل مدت تک وحی رکی رہی تھی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود اس فترۃ زمانہ میں سخت مغموم اور مضطرب رہتے تھے تاآنکہ فرشتہ نے اللہ تعالیٰ کی طرف ” یایھا المدثر “ کا خطاب سنایا اغلب ہے اس وقت مخالفوں نے اس طرح کی چہ مگوئیاں کی ہوں ۔
چنانچہ ابن کثیر (رح) نے محمد بن اسحاق (رح) وغیرہ سے جو الفاظ نقل کئے ہیں وہ اسی احتمال کی تائید کرتے ہیں ممکن ہے اس دورانیہ میں وہ قصہ بھی پیش آیا ہو جو بعض احادیث صحیحہ میں بیان ہوا ہے کہ ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیماری کی وجہ سے دو تین رات نہ اٹھ سکے تو ایک ( خبیث) عورت کہنے لگی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معلوم ہوتا ہے تیرے شیطان نے تجھے چھوڑ دیا ہے (العیاذ باللہ) غرض ان سب خرافات کا جواب سورة والضحیٰ میں دیا گیا۔ ( تفسیر عثمانی ص ٨٢٠ ج ٢)
اب خبیث عورت کا نام ام جمیل ہے جو ابو لہب کی بیوی تھی۔ ( مظہری ص ٢٨١ ج ١٠)
والضحیٰ قدرت باری تعالیٰ کا نمونہ
الضحیٰ دن کے اس حصہ کو کہتے ہیں جب دن خوب خوب روشن ہوجاتا ہے اور اس کی تپش سے ریت گرم ہوجاتی ہے اس وقت جو نماز پڑھی جاتی ہے اس کو صلوٰۃ الضحیٰ یا چاشت کی نماز کہا جاتا ہے پیغمبر پر وحی کے نزول کی ایسی مثال ہے جیسے دوپہر کے وقت روشنی ہوئی ہے اور یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ انسانیت ہمیشہ علم سے ترقی کرتی ہے تاریکی ایک عارضی چیز ہے کیونکہ تاریکی کے بعد روشنی كوضرور آنا ہے کچھ عرصہ کیلئے وحی کا نہ آنا گویا کہ تاریکی چھا گئی ہے، یہ بالکل عارضی چیز ہے وحی الٰہیہ کا دوبارہ شروع ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ عارضی تاریکی ختم ہوگئی ہے اور دنیا دوبارہ پھر سے ہدایت کی روشنی سے منور ہوگئی ہے، اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ: الضحیٰ آپ کا چہرہ منور اور لیل موئے مبارک ہے، اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ: الضحیٰ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ظاہری حال جو سب پر روشنی ہے اور لیل آپ کے اسرار روحانیہ کہ جنکو بجز علامہ الغیوب کے کوئی اور نہیں جانتا ۔
حضرت قتادہ (رح) اور مقاتل (رح) سے نقل کیا گیا ہے ”ضحی“ سے مراد وہ وقت ہے کہ جس میں موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے کلام کیا تھا اور رات سے لیلۃ المعراج مراد ہے۔ ( روح المعانی ٥٢٠ ج ٣٠ قرطبی ص ٨٢ ج ٢٠)
بعض کہتے ہیں ضحی سے مراد اسلام کی ترقی اور عروج کا زمانہ ہے اور لیل سے اسلام کا وہ زمامانہ مراد ہے جس میں اسلام کمزور اجنبی ہوجائے گا چنانچہ حدی میں ”بدء الإسلام غريبا وسيعود غريباً“ اسلام کی ابتدا اجنبی ہونے کی حالت میں ہوئی تھی عنقریب اسلام پھر اجنبی ہوجائے گا ۔ بعض کہتے ہیں ” ضحی “ سے مرادوہ نور علم ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سبب علم غیب کے سرار آپ پر منکشف ہوئے اور ’ ’ لیل “ سے مراد امت کے عیوب کو چھپالیا۔ ( کبیر ص ١٩٢ ج ٣١ تفسیر عزیزی)
﴿وَلَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى﴾: فضلیت دنیا و آخرت :۔ آپ (علیہ السلام) کا آئندہ دور گزشتہ دور سے بہتر ہوگا ظہور اسلام سے پہلا دور مشکلات کا دو رہے اور اس کے بعد جو دور آنے والا ہے وہ روشن ہے لہٰذا آپ رنجیدہ نہ ہوں تاریکی سے یہ بادل عنقریب چھٹ جائیں گے۔ بعض حضرات اس کو آخرت میں محمول کرتے ہیں دنیا کی زندگی سے آپ کا آخرت کا دور بہتر ہے یہ وہ دور رہو گا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود عطا فرمائیں گے حضرت آدم (علیہ السلام) سے لیکر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک تمام انبیاء کرام آپ جھنڈے کے نیچے جمع ہوں گے اور آپ شفاعت کبریٰ اور شفاعت صغریٰ فرمائیں گے۔ ( تفسیر عزیزی)
﴿وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى﴾: مطلب یہ ہے کہ تیرا رب تجھے دے گا کہ تیری استعداد کا جام لبریز ہوجائے گا پھر تیری کوئی آرزو باقی نہیں رہے گی ۔ حدیث مبارک میں ہے کہ جب یہ آیت مبارک نازل ہوئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اس وقت تک راضی نہ ہوں گا جب تک کہ میری امت میں سے ایک آدمی بھی جہنم میں رہے گا ۔ ( قرطبی ص ٨٦ ج ٢٠)
حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ میری امت کے بارے میں میری شفاعت قبول فرمائیں گے یہاں تک اللہ تعالیٰ فرمائیں گے۔ رضیت یا محمد اے محمد ! اب آپ راضی ہیں تو میں عرض کروں گا ۔ یا رب رضیت اے اللہ ! میں راضی ہوں۔ (قرطبی ص ٨٦ ج ٢٠) اس آیت میں درحقیقت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مقام شفاعت دیئے جانے کا ذکر ہے ، کیونکہ اس عطا کی تفسیر شفاعت سے کی گئی ہے۔ ص اخرجہ ابن ابی حاتم عن الحسن و ابو انعیم فی الحلیۃ)
﴿وَوَجَدَكَ ضَاۗلًّا فَهَدٰى﴾: شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (رح) تفسیر عزیزی میں لکھتے ہیں میں اس کا خلاصہ لکھ دیتا ہوں جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حد بلوغ کو پہنچے تو بتوں کی پوجا پاٹ اور ان کی حقیقت حال سے با خبر ہوگئے تو اصل دین کی جستجو میں لگ گئے بڑی عمر کے لوگوں سے پتہ چلا کہ اصل ہمارا دین دین ابراہیم ہے تو اب آپ کو فکر لا حق ہوئی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں جو اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے اور دین ابراہیم کی مکمل تفصیلات کسی کو یاد نہیں تھی البتہ چند باتیں ملی مثلاً ذکر و تسبیح کے کلمات ، اعتکاف ، غسل جنابت ، حج کے کچھ احکام اور خلوت و گوشہ نشینی وغیرہ آپ نے انھیں پر عمل شروع کردیا مگر بےقراری ختم نہ ہوئی اسی دوران اللہ تعالیٰ نے آپ پر وحی نازل فرمائی فروعی احکامات کی تفصیلات آہستہ آہستہ نازل ہونا شروع ہوئی بس اسی بےقراری کو ” ضالا “ سے تعبیر فرمایا ہے اور بندہ کے نزدیک یہی معنی اور تفسیر زیادہ موزوں ہے۔ واللہ اعلم .
﴿فَاَمَّا الْيَتِيْمَ فَلَا تَقْهَرْ﴾: یتیم کو دبایئے بھی نہیں کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یتیم رہ چکے ہیں اور یتیمی کی بےبسی اور لا چاری سے بخوبی واقف ہیں ” تنھر “ نھر سے مشتق ہے جس کا معنی زجر اور جھڑکنے کے ہیں اور سائل کے معنی سوال کرنے والا اس میں داخل ہے جو کسی مال کا سوال کرے یا علمی تحقیق کا سوال کرے دونوں کو جھڑکنے سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا بہتر یہ ہے کہ سائل کو کچھ دے کر رخصت کرو اور کچھ نہیں دے سکتے تو نرمی سے عذر کر دو اسی طرح علمی مسئلہ کا سوال کرنے والے کے جواب میں بھی سختی اور بدخواہی ممنوع ہے۔ ( معارف القرآن م ش د)
ابن ابی حاتم (رح) نے حضرت قتادہ (رح) سے فاما الیتیم فلا تقھر کی تفسیر کن لہ کا ب رحیم سے نقل کی ہے۔ یعنی یتیم کے لیے مہربان باپ کی طرح ہوجایئے اور واما السائل فلا تنھر (١٠) کی تفسیر ردالمسکین برحمۃ ولین سے منقول ہے یعنی مسکین سائل کو اگر واپس لوٹا نا ہے تو نرمی اور ہمدردی کے ساتھ کیجئے اور سفیان ثوری (رح) نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ اگر کوئی آپ کے پاس دینی مسئلہ معلوم کرنے کیلئے آئے تو اسے مت جھڑکیے۔ نیز واما بنعمۃ ربک فحدث ( سورة الضحیٰ : ١٠) کی تفسیر میں حسن بن علی سے منقول ہے کہ : جب کوئی نعمت آپ کو حاصل ہو تو اپنے مسلمان بھائیوں سے اس کا تذکرہ کیجئے۔ اور حضرت علی بن ابی طالب (رض) سے اس کی تفسیر پہ منقول ہے کہ جو خبر کی بات آپ کو معلوم ہوا سے بیان کیا جائے۔ ( کذا في الإکلیل)
خلاصہ یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یتیم تھے ، اللہ نے آپکو بہترین ٹھکانا عطا فرمایا، لہٰذا اگر آپ کو کوئی یتیم نظر آئے تو اس پر شفقت کریں اور آپ شرائع سے غافل تھے ، اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت و شریعت سے نوازا ۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ آپ دین و شریعت کی ہر بات لوگوں کے سامنے بیان کیجئے ( بقول علامہ شبیر احمد عثمانی (رح) اسی پر حدیث کو حدیث کہا جاتا ہے ( کذا فی مقدمہ فتح المھلم) اور آپ محتاج تھے ، اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غنی کردیا ، لہٰذا اس کا تقاضا یہ ہے کہ سائل اور محتاج سے رحم و کرم کا برتاؤ کریں۔
علوم و معارف کی صورت میں آپ کو جو نعمتیں عطا کی گئی ہیں ان کا شکریہ یہ ہے کہ آپ ان کو بیان کریں تاکہ دوسرے لوگ بھی ان سے مستفید ہو سکیں۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.