ترجمہ اور تفسير سورہ احقاف
مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ۔
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے
حم ﴿1﴾
حا ۔ میم حروف مقطات (معنی اور مراد کا علم اللہ کو ہے)
تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ ﴿2﴾
اس کتاب کا نازل ہونا اس اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست اور حکمت والا ہے۔
مَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُسَمًّى ۚ وَالَّذِينَ كَفَرُوا عَمَّا أُنْذِرُوا مُعْرِضُونَ ﴿3﴾
ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے حکمت ہی کے ساتھ، اور ایک میعاد مقرر کے ساتھ پیدا کیا ہے اور جو کافر ہیں وہ اس چیز سے جس سے انھیں ڈرایا جاتا ہے، بےرخی کئے ہوئے ہیں۔
قُلْ أَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ ۖ ائْتُونِي بِكِتَابٍ مِنْ قَبْلِ هَٰذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴿4﴾
آپ کہہ دیجئے کہ یہ تو بتلاؤ کہ جن چیزوں کو تم پکارتے ہو، اللہ کے سوا مجھے دکھاؤ کہ انھوں نے کون سے زمین پیدا کی ہے یا یہ کہ ان کا ساجھا آسمان میں ہے میرے پاس کوئی کتاب لاؤ جو اس سے پہلے کی ہو یا کوئی مضمون منقول (معتبر) لاؤ اگر تم سچے ہو۔
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ ﴿5﴾
اور ان سے بڑھ کر گمراہ کون ہوسکتا ہے جو اللہ کے سوا ان کی دہائی دیتے ہیں جو تاقیامت ان کو جواب دینے والے نہیں ہیں اور وہ ان کی دعاؤں سے بےخبر بھی ہیں۔
وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ ﴿6﴾
اور جب (قیامت کے دن) سب لوگ جمع کئے جائیں گے تو یہ (جھوٹے معبود) نہ صرف ان کے دشمن بن جائیں گے بلکہ وہ ان کی اس عبادت ہی کا انکار کردیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔
وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ هَٰذَا سِحْرٌ مُبِينٌ ﴿7﴾
اور جب ان لوگوں کے روبرو ہماری کھلی ہوئی آیتیں پڑھی جاتی ہیں، تو جو لوگ کافر ہیں وہ اس سچائی کی بابت جب وہ ان تک پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تو صریح جادو ہے۔
أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَلَا تَمْلِكُونَ لِي مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَا تُفِيضُونَ فِيهِ ۖ كَفَىٰ بِهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۖ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴿8﴾
کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس نے اس کو گھڑ لیا ہے ؟ کہہ دو کہ اگر میں نے اس کو گھڑا ہے تو تم لوگ مجھے خدا سے ذرا بھی نہ بچا سکو گے اور تم جو سخن سازیاں کر رہے ہو وہ ان سے خوب واقف ہے، وہ میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے کافی ہے اور وہ بڑا ہی غفور رحیم ہے۔
قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ ﴿9﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ میں کوئی نیا اور انوکھا رسول تو نہیں ۔ نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے ۔ میں تو صرف اس چیز کی پیروی کرتا ہوں ( عمل کرتا ہوں) جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ اور میں تو ایک صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔
قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَكَفَرْتُمْ بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿10﴾
ان سے پوچھو کہ اس وقت کیا ہوگا اگر یہ قرآن اللہ کی جانب سے ہوا اور تم نے اس کا انکار کیا اور بنی اسرائیل میں سے ایک شاہد نے اس کے مانند کتاب کی گواہی بھی دی ہے سو وہ تو اس پر ایمان لایا اور تم نے تکبر کیا ! بیشک اللہ ظالموں کو راہ یاب نہیں کرتا !
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا لَوْ كَانَ خَيْرًا مَا سَبَقُونَا إِلَيْهِ ۚ وَإِذْ لَمْ يَهْتَدُوا بِهِ فَسَيَقُولُونَ هَٰذَا إِفْكٌ قَدِيمٌ ﴿11﴾
اور یہ کافر ایمان والوں کی نسبت یہ کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) اگر کوئی اچھی چیز ہوتا تو یہ لوگ اس کی طرف ہم سے سبقت نہ کرجاتے، اور جب ان لوگوں کو ہدایت نصیب نہ ہوئی تو کہنے لگتے ہیں کہ یہ وہی پرانا جھوٹ ہے۔
وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً ۚ وَهَٰذَا كِتَابٌ مُصَدِّقٌ لِسَانًا عَرَبِيًّا لِيُنْذِرَ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَبُشْرَىٰ لِلْمُحْسِنِينَ ﴿12﴾
حالانکہ اس کے قبل موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب بھی رہنما اور رحمت تھی اور یہ کتاب اس کی تصدیق کرنے والی ہے عربی زبان میں ہے تاکہ ظالموں کو ڈرائے، ف ١٢۔ اور نیک لوگوں کے حق میں بشارت ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿13﴾
بیشک جن لوگوں نے اقرار کیا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ اس پر جمے رہے تو ان کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غم گین ہوں گے۔
أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿14﴾
یہی لوگ اہل جنت ہیں، اس میں ہمیشہ رہنے والے یہ صلہ ہوگا ان کاموں کا جو وہ کرتے رہے۔
وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۚ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ۖ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿15﴾
اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ اس کی ماں نے اسے بڑی مشقت سے اپنے پیٹ میں رکھا اور بری دشواری سے اسے جنا۔ اور اس کو پیٹ میں رکھنے اور دودھ چھوڑنے کی (اکثریت ) تیس (30) مہینے ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنی بھرپور جوانی کو پہنچا اور چالیس سال کی عمر کا ہوگیا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار مجھے اپنی نعمت کا شکر ادا کرنے کی ہمیشہ توفیق دیئے رکھئے گا۔ وہ نعمت جو آپ نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کی ہے۔ اور مجھے ایسے نیک عمل کی توفیق دیجئے گا کہ جس سے آپ راضی ہوجائیں ۔ اور میرے لیے میری اولاد کو بھی نیک اعمال کی صلاحیت عطا کیجئے گا۔ میں آپ کی طرف رجوع کرتا ہوں اور (میں اقرار کرتا ہوں کہ) میں آپ کے فرمان برداروں میں سے ہوں۔
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَيِّئَاتِهِمْ فِي أَصْحَابِ الْجَنَّةِ ۖ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ ﴿16﴾
یہی وہ لوگ ہیں جن کے نیک اعمال کو جو انھوں نے کئے ہیں ہم قبول کرلیں گے۔ اور ان گناہوں سے درگذر کریں گے اور وہ اہل جنت میں سے ہوں گے ۔ یہ معاملہ ان سے اللہ کے اس سچے وعدے کی وہ سے ہوگا جو ان سے کیا گیا تھا۔
وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي أَنْ أُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُونُ مِنْ قَبْلِي وَهُمَا يَسْتَغِيثَانِ اللَّهَ وَيْلَكَ آمِنْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَيَقُولُ مَا هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ﴿17﴾
اور وہ شخص جس نے اپنے ماں باپ سے یہ کہا کہ تم دونوں پر افسوس ہے کہ تم مجھے اس بات کی اطلاع دے رہے ہو کہ میں قبر سے نکالا جاؤں گا ۔ حالانکہ مجھ سے پہلے بہت سی قومیں گذر چکی ہیں۔ اولاد کی بات سن کر ماں باپ اللہ سے فریاد کرتے ہوئے کہیں گے کہ ارے تیرا ستیا ناس جائے تو ایمان لے آ۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے ۔ اس پر وہ کہتا ہے کہ یہ تو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں ۔
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ ﴿18﴾
یہی وہ لوگ ہیں کہ ان کے حق میں ان لوگوں کے ساتھ (اللہ کا) قول پورا ہو کر رہا جو ان سے قبل جنات اور انسانوں میں گزر چکے ہیں، بیشک یہ لوگ خسارہ میں رہے۔
وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِمَّا عَمِلُوا ۖ وَلِيُوَفِّيَهُمْ أَعْمَالَهُمْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴿19﴾
اور ان میں سے ہر ایک کے لیے ان کے اعمال کے اعتبار سے درجے ہوں گے ۔ (تاکہ اللہ کا وعدہ پورا ہو) اور تاکہ وہ ان کے اعمال ان کو پورے کر دے اور ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔
وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَفْسُقُونَ ﴿20﴾
اور وہ دن (کتنا ہیبت ناک ہوگا ) جب کفار آگ کے سامنے حاضر کئے جائیں گے (اور ان سے کہا جائے گا کہ) تم اپنی دنیاوی زندگی میں اپنے حصے کی نعمتیں حاصل کرچکے تھے اور ان سے خوب فائدے اٹھا چکے تھے تو آج تم اس ناحق تکبر اور نافرمانیوں کی وجہ سے جو تم دنیا کیا کرتے تھے تمہیں ذلت والا عذاب دیا جائے گا۔
وَاذْكُرْ أَخَا عَادٍ إِذْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴿21﴾
( اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ قوم عاد کے بھائی (حضرت ہود (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے جب انھوں نے اپنی قوم کو (جو ایک ریگستانی علاقہ میں رہتی تھی اللہ کے خوف سے ) ڈرایا تھا ۔ اور یقینا سے پہلے اور ان کے بعد بہت سے ڈرانے والے گذر چکے تھے جنہوں نے یہی کہا تھا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت و بندگی نہ کرنا۔ حضرت ہود نے کہا میں تم پر ایک سخت دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
قَالُوا أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ ﴿22﴾
وہ لوگ بولے تو کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں ہمارے معبودوں سے برگشتہ کردو، تو ہم پر لاواقع کرو (وہ عذاب) جس کا تم ہم سے وعدہ کررہے ہو، اگر تم سچے ہو۔
قَالَ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللَّهِ وَأُبَلِّغُكُمْ مَا أُرْسِلْتُ بِهِ وَلَٰكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ ﴿23﴾
انھوں نے فرمایا کہ (پورا) علم تو بس اللہ ہی کو ہے میں تو تمہیں وہی پہنچاتا ہوں جس کا پیام دے کر مجھے بھیجا گیا ہے البتہ تمہیں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ نری جہالت کی باتیں کررہے ہو۔
فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَٰذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا ۚ بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِهِ ۖ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿24﴾
پھر جب انھوں نے اس عذاب کو ایک بادل کی شکل میں دیکھا جو ان کی وادی کی طرف آرہا تھا تو کہنے لگے کہ یہ بادل تو وہ ہے جو ہم پر برسے گا۔ (اللہ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ) یہ تو وہ عذاب ہے جس کی تم جلدی کیا کرتے تھے۔ یہ ایک سخت آندھی تھی (ہوا کا طوفان تھا) جس میں دردناک عذاب تھا۔
تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍ بِأَمْرِ رَبِّهَا فَأَصْبَحُوا لَا يُرَىٰ إِلَّا مَسَاكِنُهُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ ﴿25﴾
یہ تہس نہس کر دے گی ہر چیز کو اپنے رب کے حکم سے، پس وہ ایسے ہوگئے کہ ان کے گھروں کے سوا کسی چیز کا بھی نشان باقی نہیں رہا۔ ہم مجرموں کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔
وَلَقَدْ مَكَّنَّاهُمْ فِيمَا إِنْ مَكَّنَّاكُمْ فِيهِ وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَأَبْصَارًا وَأَفْئِدَةً فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَا أَبْصَارُهُمْ وَلَا أَفْئِدَتُهُمْ مِنْ شَيْءٍ إِذْ كَانُوا يَجْحَدُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ﴿26﴾
بیشک ہم نے انھیں (دنیاوی مال و دولت کی) وہ قوت و طاقت دی تھی جو تمہیں بھی نہیں دی گئی۔ ہم نے ان کو کان ، آنکھ اور دل دیئے تھے۔ پھر جب انھوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا تو ان کے کان ، آنکھ اور دل کچھ بھی کام نہ آئے۔ اور جس (عذاب کا ) وہ مذاق اڑایا کرتے تھے اس نے انھیں گھیر لیا۔
وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِنَ الْقُرَىٰ وَصَرَّفْنَا الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴿27﴾
اور بیشک ہم نے تمہارے آس پاس کی اور بہت سی بستیوں کو ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے تہس نہس کردیا تھا اور ہم نے ان کو طرح طرح کی نشانیاں دکھائیں تاکہ وہ لوٹ آئیں (توبہ کرلیں)
فَلَوْلَا نَصَرَهُمُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ قُرْبَانًا آلِهَةً ۖ بَلْ ضَلُّوا عَنْهُمْ ۚ وَذَٰلِكَ إِفْكُهُمْ وَمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ ﴿28﴾
پھر اللہ کو چھوڑ کر انھوں نے جن چیزوں کو اپنا معبود بنا رکھا تھا تاکہ وہ ان کے ذریعہ قرب حاصل کریں انھوں نے ان کیوں کوئی مدد نہ کہ ۔ بلکہ وہ سب کے سب غائب ہوگئے ۔ اور انھوں نے غیر اللہ کو اپنا معبود بنایا یہ ان کا (اللہ پر) محض ایک الزام تھا اور جھوٹی اور غلط باتیں تھیں۔
وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنْصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ ﴿29﴾
اور (اس وقت کا ذکر کیجئے) جب ہم جنات کی ایک جماعت کو آپ کی طرف لے آئے جو قرآن سننے لگے تھے غرض جب وہ لوگ آپ کے پاس آپہنچے تو کہنے لگے کہ خاموش رہو۔ پھر جب وہ ختم ہوچکا تو وہ لوگ اپنی قوم کے پاس ڈرانے کیلئے گئے۔
قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَىٰ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَىٰ طَرِيقٍ مُسْتَقِيمٍ ﴿30﴾
انھوں نے کہا اے ہماری قوم کے لوگو ! ہم نے ایک ایسی کتاب (کی تلاوت) سنی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل کی گئی ہے۔ جو اپنے سے پہلے تمام کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور وہ حق و صداقت اور سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّهِ وَآمِنُوا بِهِ يَغْفِرْ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿31﴾
اے ہماری قوم کے لوگو ! اللہ کے داعی کی دعوت پر لبیک کہو اور اس پر ایمان لاؤ، اللہ تمہارے گناہوں کو بخشے گا اور تم کو ایک درد ناک عذاب سے پناہ دے گا۔
وَمَنْ لَا يُجِبْ دَاعِيَ اللَّهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْأَرْضِ وَلَيْسَ لَهُ مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءُ ۚ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ﴿32﴾
اور جو کوئی اللہ کی طرف بلانے والے کا کہنا نہ مانے گا، تو وہ زمین میں کہیں بھی (اللہ کو) نہیں ہراسکتا، اور نہ اللہ کے سوا کوئی حامی ہوگا یہی لوگ صریح گمراہی میں (پڑے) ہیں۔
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَىٰ ۚ بَلَىٰ إِنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿33﴾
کیا ان لوگوں نے یہ نہ جانا کہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے سے (ذرا بھی) نہ تھکا، وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ مردوں کو زندہ کردے کیوں نہیں بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَلَيْسَ هَٰذَا بِالْحَقِّ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَرَبِّنَا ۚ قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ ﴿34﴾
اور جس روز کافر لوگ دوزخ کے سامنے لائے جائیں گے (اور ان سے پوچھا جائے گا کہ) یہ حقیقت ہے یا نہیں، تو وہ کہیں گے کہ بیشک ہے ہم کو قسم ہے ہمارے پروردگار کی (تب) ارشاد ہوگا کہ اچھا تو چکھو عذاب اپنے کفر کے بدلہ میں۔
فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَهُمْ ۚ كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ ۚ بَلَاغٌ ۚ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ ﴿35﴾
اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ صبر کیجئے جس طرح اور عزم و ہمت والے انبیاء کرام (علیہ السلام) نے صبر کیا تھا۔ اور ان کفار کے لیے عذاب کی جلدی نہ کیجئے۔ یہ لوگ اس کو دیکھیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔ (اس دن) انھیں ایسا لگے گا کہ جیسے وہ دنیا میں ایک دن میں سے ایک گھڑی ہی ٹھہرے تھے۔ (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کا کام یہ ہے کہ ) آپ ( اللہ کا پیغام ) پہنچا دیجئے ۔ بس وہی لوگ تباہ برباد ہوں گے جو نافرمان ہوں گے۔
تعارف سورة الاحقاف
اس سورت کی آیت نمبر ٢٩ اور ٣٠ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس وقت نازل ہوئی تھی جب جنات کی ایک جماعت نے حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن کریم سنا تھا، معتبر روایات کے مطابق یہ واقعہ ہجرت سے پہلے اس وقت پیش آیا تھا جب حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف سے واپس تشریف لارہے تھے اور نخلہ کے مقام پر فجر کی نماز میں قرآن کریم کی تلاوت فرما رہے تھے، دوسری مکی سورتوں کی طرح اس سورت میں بھی اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کو دلائل کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے، اسی زمانہ میں اس قسم کے واقعات پیش آرہے تھے کہ ایک ہی گھرانے میں والدین مسلمان ہوگئے اور اولاد مسلمان نہیں ہوئی، اور اس نے اپنے والدین کو ملامت شروع کردی کہ وہ کیوں اسلام لائے، اس کے برعکس بعض گھرانوں میں اولاد مسلمان ہوگئی اور والدین مسلمان نہیں ہوئے، اور انھوں نے اولاد پر تشدد شروع کردیا، اس سورت کی آیات ١٦ و ١٧ میں اسی قسم کی صورت حال کا تذکرہ کیا گیا ہے، اور اسی پس منظر میں اولاد پر ماں باپ کے حقوق بیان فرمائے گئے ہیں، اس کے علاوہ ماضی میں جن قوموں نے کفر اور نافرمانی کی روش اختیار کی ان کے برے انجام کا حوالہ دیا گیا ہے، اور قوم عاد کا خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے، جس جگہ یہ قوم آباد تھی وہاں بہت سے ریت کے ٹیلے تھے جنہیں عربی زبان میں احقاف کہا جاتا ہے، اسی مناسبت سے اس سورت کا نام احقاف ہے۔
سورة الاحقاف كا تعارف احادیث كى روشنى میں
امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اٰل حٰمٓ سے ایک سورت پڑھائی اور وہ ثلاثین میں سے الاحقاف ہے (جس سورت کی تیس سے زیادہ آیتیں ہوں اس کو ثلاثین کہتے ہیں) ۔ حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں گیا، وہاں ایک شخص اس سورت کو کسی اور طریقہ سے پڑھ رہا تھا، میں نے اس سے پوچھا : تم کو یہ سورت کس نے پڑھائی ہے ؟ اس نے کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے، میں نے ایک اور شخص سے کہا : تم اس سورت کو پڑھو، اس نے ہم دونوں کے علاوہ کسی اور طریقہ سے اس سورت کو پڑھا، میں ان دونوں کو لے کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچا، اور میں نے کہا : یا رسول اللہ ! یہ دونوں اس سورت کی قرأت میں میری مخالفت کر رہے ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غضبناک ہوئے اور آپ کا چہرہ متغیر ہوگیا، آپ نے فرمایا : تم سے پہلی امتیں اس لیے ہلاک ہوگئیں تھیں کہ وہ اپنی کتاب میں اختلاف کرتی تھیں۔ اس وقت آپ کے اس حضرت علی (رض) تھے، انھوں نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کو یہ حکم دیتے ہیں کہ ہر شخص اس طرح پڑھے جس طرح اس کو پڑھایا گیا ہے۔ الحدیث (مسند احمد ج ١ ص ٤١٩ طبع قدیم، مسند احمد رقم الحدیث : ٣٩٧١، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
الاحقاف کا معنی
علامہ ابوالفضل محمد بن مکرم ابن منظور افریقی مصری متوفی ٧١١ ھ لکھتے ہیں :
الاحقاف کا واحد ”الحقف“ ہے، ”الحقف“ طویل اور بلند ٹیلہ کو کہتے ہیں جو قدرے ٹیڑھا ہو، الاحقاف : ٢١ میں جو الاحقاف کا ذکر ہے اس سے مراد بلند اور طویل ٹیلے ہیں۔ جوہری نے کہا : اس سے مراد قوم عاد کے گھر ہیں، یہ ٹیلے یمن میں ہیں جہاں قوم عاد رہتی تھی۔ (لسان العرب ج ٤ ص ١٧٥، دارصادر، بیروت، ٢٠٠٣ ء)
الاحقاف کا محل وقوع
قوم عاد کا مرکزی مقام سرزمین احقاف ہے، یہ حضرموت کے شمال میں اس طرح واقع ہے کہ اس کے مشرق میں عمان ہے اور شمال میں ربع خالی ہے جسے صحرائے اعظم الدہنا بھی کہا جاتا ہے، ہرچند کہ ربع خالی آبادی کے لائق نہیں ہے تاہم اس کے اطراف میں کچھ حصہ آبادی کے لائق ہے، خصوصاً وہ حصہ جو حضرموت سے نجران تک پھیلا ہوا ہے، اگرچہ وہ بھی اس وقت مکمل آباد نہیں ہے اور اس میں ریت کے ٹیلوں کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا۔ تاہم قدیم زمانہ میں اسی حضرموت اور جران کے درمیانی حصہ میں عاد ارم کا مشہور قبیلہ آباد تھا۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کی نافرمانی کی پاداش میں آندھی کا عذاب بھیج کر نیست و نابود کردیا تھا۔ شیخ عبد الوہاب نجار نے ” قصص الانبیاء “ میں تصریح کی ہے کہ مجھ سے حضرموت کے باشندے احمد بن عمیر یحییٰ نے بیان کیا کہ وہ ایک جماعت کے ساتھ ان ہلاک شدہ قوموں کے قدیم مساکن کے کھوج میں حضرموت کے شمالی میدان میں قیام پذیر رہے، بسیار کوشش کے بعد ٹیلوں کی کھدائی سے سنگ مر مر کے کچھ برتن ملے جن پر کسی نامعلوم زبان میں کوئی تحریر کندہ تھی۔ (لغات القرآن ج ١ ص ٣٨۔ ٣٧، ملخصا، دارالاشاعت، کراچی)
مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ اِلَّا بِالْحَـقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا عَمَّآ اُنْذِرُوْا مُعْرِضُوْنَ
یہ آيت توحید پر عقلی دلیل ہے۔ زمین و آسمان اور ان کے درمیان ساری مخلوق کو ہم نے یونہی بیکار پیدا نہیں کیا ہر چیز کو اظہار حق (توحید) کیلئے پیدا کیا ہے، کیونکہ کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اس کی قدرت کاملہ، حکمت بالغہ اور اس کی صفت کارسازی پر دلالت کرتا ہے۔ وفیہ من الدلالۃ علی وجود الصانع وصفات کمالہ وابتناء افعالہ علی حکم بالغۃ (روح ج 26 ص 4) ۔ اس کائنات کی ہر چیز کی ایک انتہاء ہے۔ یہ کائنات اظہار حق کے لیے سمجھانے اور عبرت دلانے کے لیے پیدا کی گئی ہے اور اس کے لیے آخر فنا ہے اسے ہمیش قائم رکھنے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا۔ اس میں یہود کے قول: لولا عزیر لما خلقت السموات والأرض اور نصاری کے قول: لولا عیسیٰ لما خلقت السموات والأرض کا بھی رد ہے۔ نیز شیعوں کی کود ساختہ حدیث: لولا علي لما خلقت السموات، اور موضوع حدیث: لولاک لما خلقت الأفلاک، بھی اس آیت کے خلاف ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو اظہار حق کی خاطر پیدا فرمایا ہے۔ لولاک لما خلقت الافلاک کی اگر یہ توجیہہ کی جائے کہ اگر آپ کو خاتم النبیین بنا کر آپ پر آخری کتاب نازل کر کے آپ کے ذریعے توحید کی تکمیل اور تمام ادیان باطلہ پر دین حق کا اظہار مقصود نہ ہوتا تو میں کچھ بھی پیدا نہ کرتا۔ تو معنی درست ہوتا، لیکن یہ الفاظ بہرحال موضوع ہیں۔ قالہ الشیخ (رح) عن العارف الرومی قدس سرہ۔ ” والذین کفروا لخ “ یہ زجر ہے، لیکن کفار اس کائنات میں غور نہیں کرتے اور اس عالم کے فنا کے بعد آنے والی قیامت جس سے ان کو ڈرایا جاتا ہے اس سے اعراض کرتے ہیں۔
قُلْ اَرَءَيْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَرُوْنِيْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَــهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمٰوٰتِ
اس آیت میں مشرکین سے دو قسم کی دلیلوں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مشرکین! تم اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہو کیا ان کی الوہیت اور پکار کے لائق ہونے پر تمہارے پاس کوئی عقلی یا نقلی دلیل ہے تو پیش کرو۔ عقلی دلیل کا مطالبہ ”أروني ماذا خلقوا الخ“ مجھے دکھاؤ تو سہی انھوں نے زمین کا کوئی حصہ پیدا کیا ہے یا آسمانوں کے پیدا کرنے میں ان کا کوئی عملی دخل ہے ؟ اگر وہ کسی ایک چیز کے بھی خالق نہیں تو پکارے جانے کے لائق بھی نہیں۔ نقلی دلیل از کتب سابقہ وانبیاء سابقین (علیہم السلام) کا مطالبہ : ”ایتوني بکتاب الخ“ اگر دلیل عقلی نہیں تو کتب سابقہ میں سے کوئی ایک حوالہ ہی پیش کر دو یا اولین کے علوم میں سے کوئی عملی ثبوت ہی مہیا کردو جس سے غیر اللہ کو پکارنے کا جواز نکلتا ہو۔ والمراد نفي استحقاق الهتهم للعبودیة علی أتم وجه (روح ج 26 ص 5) أي لا دلیل لکم لا نقل یا ولا عقل یا علی ذلک (ابن کثیر ج 4 ص 154) ۔
اس آيت ميں ”أثارۃ“ کا لفظ ہے جس کا ایک معنی خط اور لکیریں ہے، اس کا دوسرا معنی کسی چیز کا بقیہ حصہ ہے۔ قتادہ نے کہا: اس کا معنی ہے: مخصوص علم۔ مجاہد نے کہا کہ اس کا معنی ہے: تمہارے پاس کوئی ایسی روایت ہے جو تم سے پہلے لوگوں سے منقول ہو۔ عکرمہ اور مقاتل نے کہا : کیا انبیاء سابقین سے اس سلسلہ میں کوئی روایت ہے؟ حسن نے کہا : کیا تم نے کسی چیز سے اس کو مستنبط کیا ہے کہ زمین اور آسمان کے بنانے میں کسی اور کا بھی حصہ ہے ؟ زجاج نے کہا : ” اثارۃ “ ” شجاعۃ “ اور ” سماحۃ “ کی طرح مصدر ہے اور اس کا معنی علامت ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ١٧١، جامع البیان جز ٢٦ ص ٥۔ ٤، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَآ اَدْرِيْ مَا يُفْعَلُ بِيْ وَلَا بِكُمْ ۭ اِنْ اَتَّبِــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ وَمَآ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ
”إبداع“ کا معنی ہے: کسی چیز کو ابتداء بنانا، بغیر اس کے کہ اس سے پہلے کسی اور نے اس چیز کو بنایا ہو، جو کنواں نیا نیا کھودا گیا ہو عرب اس کو ”رکیته بدیع“ کہتے ہیں اور جب اس لفظ کو اللہ سبحانہٗ کے لیے استعمال کیا جائے تو اس کا معنی ہے : کسی چیز کو آلہ، مادہ اور زمان و مکان کے بغیر پیدا کرنا اور یہ کام تو صرف اللہ عزوجل ہی کرسکتا ہے اور بدیع ابداع کرنے والے کو کہتے ہیں جیسے قرآن مجید میں ہے: ”بديع السموت والارض“ (البقرہ : ١١٧، الانعام : ١٠١) اور قرآن مجید میں ہے: ”قل ما کنت بدعا من الرسل“ (الاحقاف : ٩) اس آیت میں ”بدعا“ کا معنی ہے : ” مبدعا “ یعنی یہ بات نہیں ہے کہ میں سب سے پہلا رسول ہوں اور مجھ سے پہلے کوئی رسول نہ آیا ہو اور اس وجہ سے تم میری رسالت کو رد کردو اور ایک قول یہ ہے کہ میں تم سے کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا۔
مذہب میں بدعت کا معنی یہ ہے کہ کوئی ایسا قول پیش کرنا جس کی بنیاد شریعت پر نہ ہو اور شریعت میں اس سے پہلے ایسی مثال نہ ہو۔ حدیث میں ہے : دین میں ہر نیا کام نکالنا بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گم راہی دوزخ میں ہے۔ (المفردات ج ١ ص ٤٩، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)
ما أدري ما یفعل بي ولا بکم کا ارشاد مبنی برتواضع ہے
یاد رہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بطور تواضع ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے روز قیامت اللہ تعالیٰ جب انبیاء کرام (علیہم السلام) سے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا، یعنی کفار نے تمہاری تبلیغ دین کے جواب میں تمہیں کیا کہا ؟ تو انبیاء کرام (علیہم السلام) کہیں گے: لَا عِلْمَ لَنَا اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ ہمیں کچھ علم نہیں ہے اے اللہ ! تو ہی غیبوں کا جاننے والا ہے “ (مائدہ۔ 109) ۔ اب انبیاء کا یہ کہنا تواضعاً ہی ہوسکتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم کے آگے اپنے علم کی تواضعاً مکمل نفی کردیں گے۔ اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ انبیاء جانتے نہ ہوں گے۔ اسی طرح ما أدري ما یفعل بي ولا بکم کا یہ معنی نہیں ہے کہ واقعی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے انجام کے بارہ میں معاذ اللہ کچھ علم نہ تھا کہ کیا اچھا ہے یا برا ؟ بلکہ آپ تواضعاً اپنے علم کی نفی کر رہے ۔ اس کے چند دلائل ہیں :
اول: رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اخروی مقام (جس پر آپ کو ورز قیامت فائز کیا جائے گا) آپ پر ابتداء دور اسلام ہی میں واضح کردیا گیا تھا۔ چنانچہ سورة الضحی اس وقت نازل ہوئی جب ابتداء اسلام میں کچھ دیر کے لیے وحی منقطع ہوئی تھی۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ولسوف یعطیک ربک فترضی. ” آپ کا رب آپ کو اس قدر عطا کرے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے “ (سورة الضحی، 5) اور اس آیت کے تحت صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرو ابن العاص (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امتی امت کہہ کر آنسو بہاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو بھیج کر فرمایا : إنا سنرضیک في أمتک. ” اے پیارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم آپ کی امت کے بارے میں آپ کو راضی کردیں گے “ (صحیح مسلم کتاب الایمان حدیث 346)
پھر مکی دور ہی میں آپ سے فرمایا گیا : عسی أن یبعثک ربک مقاما محمودا ” قریب ہے وہ وقت کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا۔ (بنی اسرائیل۔ 79) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ومن یطع الله والرسول فأولئک مع الذین أنعم الله علیهم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین. ” جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں وہ روز قیامت ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے جیسے انبیاء صدیقین شہداء اور صالحین۔ (سورة نساء ۔ 69)
کیا ان آیات بینات کی موجودگی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی عاقبت کے بارے میں کچھ علم نہ تھا :
دوم: حضور سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان تو بہت عظیم ہے آپ کے صحابہ کے لیے قرآن مجید میں اعلان جنت کردیا گیا ہے فرمایا گیا : وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ. ” سبقت لے جانے والے پہلے لوگ یعنی مہاجرین و انصار صحابہ اور جنہوں نے اخلاص کے ساتھ ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہے وہ اللہ سے راضی ہیں اللہ نے ان کے لئے جنتی باغات تیار کیے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہ عظیم کامیابی ہے “ (سورة توبہ۔ 100)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى. یعنی ” اللہ نے سب صحابہ سے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ “ (سورة حدید۔ 10)
جب آپ کے صحابہ کا اخروی مقام اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرما دیا ہے تو یہ کہنا کہ آپ کو اپنے اخروی مقام کا پتہ نہ تھا، کیسی جاہلانہ بات ہے۔
سوم: حضور سید کائنات (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کئی احادیث میں اپنے اخروی درجات کو واضح فرمایا ہے جیسے حدیث مبارکہ میں ہے کہ قیامت کے دن حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا اور آدم (علیہ السلام) ہوں یا کوئی اور، سب میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے ۔ (ترمذی تکاب المناقب باب 1)
اور حضور سید کائنات (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ سب انبیاء کو ایک مقبول دعا دی گئی جو انھوں نے دنیا میں مانگ لی اور میں نے اسے آخرت کے لئے رکھ لیا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الدعوات باب 1) ۔
ابن جریر قرطبی اور دیگر بعض اجلہ مفسرین نے ما أدري ما یفعل بي ولا بکم کی ایک تفسیر یہ بھی کی ہے جو مشہور تابعی حضرت حسن بصری (رح) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ میرا اور تمہارا معاملہ کیا ہوگا، یعنی ممکن ہے میری تکذیب کی وجہ سے تم پر ویسا عذاب آجائے جیسا پہلے انبیاء کرام (علیہم السلام) کے مکذبین پر آتا تھا اور وہ ہلاک کردیے جاتے تھے، آیا تمہارے ساتھ بھی ایسا ہوگا یا نہیں، مجھے معلوم نہیں۔ مگر بعد میں اللہ تعالیٰ نے آپ پہ منکشف کردیا کہ آپ کا دین غالب آئے گا اور یہ کہ آپ کی موجودگی میں آپ کے مکذبین پر عذاب نہیں آئے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ھُوَ الّذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ (توبہ۔ 33) اور فرمایا : و ماکان اللہ لیعذبھم و انت فیہم۔ (انفال۔ 33) (ابن جریر طبری۔ جلد 11 صفحۃ 276 ۔ قرطبی جلد 16 صفحۃ 186)
قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَكَفَرْتُمْ بِهٖ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ عَلٰي مِثْلِهٖ فَاٰمَنَ وَاسْـتَكْبَرْتُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْــقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ
”شھد شاھد من بنی اسرائیل“ کے مصداق کی تحقیق
اس آیت میں بنی اسرائیل کے ایک شخص سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام (رض) ہیں۔
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سلام (رض) نے سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں تشریف لے آئے ہیں تو انھوں نے کہا : میں آپ سے تین ایسی چیزوں کے متعلق سوال کروں گا جن کو نبی کے سوا کوئی نہیں جانتا، (١) قیامت کی پہلی علامت کیا ہے ؟ (٢) اہل جنت کا پہلا طعام کونسا ہوگا ؟ (٣) بچہ اپنے باپ یا ماں کے کیسے مشابہ ہوتا ہے ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کی پہلی نشانی ایک آگ ہے جو لوگوں کو مشرق سے مغرب تک جمع کرے گی اور اہل جنت کا پہلا کھانا مچھلی کی کلیجی کا ٹکڑا ہوگا اور جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر غالب آجائے تو وہ بچہ کی شبیہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر غالب آجائے تو وہ بچہ کی شبیہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام نے کہا: ”أشھد أن لا إله إلا الله وأشھد أنک رسول الله“ یا رسول اللہ ! بیشک یہود بہت بہتان تراش قوم ہے، اگر ان کو میرے اسلام کا اس سے پہلے علم ہوگیا کہ آپ ان سے میرے متعلق سوال کریں تو وہ مجھ پر بہتان لگائیں گے، پھر یہود آئے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے سوال کیا کہ تم میں عبداللہ کیسے ہیں؟ انھوں نے کہا : وہ ہم میں سب سے بہتر ہیں ان کے والد بھی ہم میں سب سے بہتر ہیں، وہ ہمارے سردار ہیں اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں، آپ نے فرمایا : یہ بتاؤ کہ اگر عبداللہ بن سلام مسلمان ہوجائیں ؟ انھوں نے کہا : اللہ تعالیٰ ان کو اس سے اپنی پناہ میں رکھے، پھر حضرت عبداللہ باہر نکلے اور کہا : ” اشھد ان لا الہ اللہ وان محمدا رسول اللہ “ تو یہود نے کہا : وہ ہم میں سب سے برے ہیں، سب سے برے شخص کے بیٹے ہیں اور ان کی برائیاں کیں۔ حضرت عبداللہ نے کہا : یا رسول اللہ ! مجھے اسی چیز کا خدشہ تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤٨٠)
حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن سلام اس وقت اسلام لائے جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں تشریف لائے، وہ اسی وقت مسلمان ہوگئے تھے اور قیس بن الربیع از عاصم از شعبی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال سے دو سال پہلے اسلام لائے تھے۔ یہ حدیث مرسل ہے اور قیس ضعیف ہے۔ (الاصابہ ج ٤ ص ١٠٣، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)
حافظ ابن عبدالبر مالکی متوفی ٤٦٣ ھ، حافظ ابن الاثیر متوفی ٦٣٠ ھ اور حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ” شھد شاھد من بنی اسرائیل “ حضرت عبداللہ بن سلام (رض) کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ (الاستیعاب ج ٣ ص ٥٤، اسد الغابہ ج ٣ ص ٢٦٥، الاصابہ ج ٤ ص ١٠٤)
وَمِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰٓى اِمَامًا وَّرَحْمَةً ۭ وَھٰذَا كِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِيًّا لِّيُنْذِرَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَبُشْرٰى لِلْمُحْسِـنِيْنَ
یعنی قرآن مصدق ہے توراۃ اور انجیل کا ‘ اور قرآن کی یہ تصدیق دو پہلو سے ہے۔ ایک طرف تو قرآن ان کتابوں کی اس لحاظ سے تصدیق کرتا ہے کہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہیں۔ یہ تصدیق ہمیں قرآن میں جابجا ملتی ہے۔ مثلاً سورة المائدۃ (آیت ٤٤) میں فرمایا : {اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰۃَ فِیْهَا هدًی وَّنُوْرٌ} کہ ہم نے توراۃ نازل کی تھی اس میں ہدایت بھی تھی اور نور بھی تھا۔ اور پھر سورة المائدۃ میں ہی آگے آیت ٤٦ میں انجیل کی تصدیق ہے : {وَاٰتَیْنٰه الْاِنْجِیْلَ فِیْه هدًی وَّنُوْرٌ} کہ ہم نے عیسیٰ ( علیہ السلام) ابن مریم کو انجیل عطا کی ‘ یہ بھی ہدایت اور نور کا منبع ہے۔ چنانچہ قرآن ایک تو ان دونوں کتابوں کے منزل ّمن اللہ ہونے کی تصدیق کرتا ہے ( اگرچہ ان دونوں میں تحریف کردی گئی) جبکہ اس تصدیق کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ توراۃ اور انجیل میں جو پیشین گوئیاں تھیں قرآن ان کا مصداق بن کر آیا ہے۔
{لِّیُنْذِرَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا} ” تاکہ خبردار کر دے ان لوگوں کو جنہوں نے ظلم کی روش اختیار کی “
خبردار اور متنبہ کردینے کی ذمہ داری ہی کی وجہ سے قرآن کو سادہ اور سلیس زبان میں نازل کیا گیا اور سمجھنے کے لیے آسان بنا دیا گیا تاکہ ہر شخص تک اس کا پیغام پہنچ جائے۔
{وَبُشْرٰی لِلْمُحْسِنِیْنَ} ” اور بشارت بن جائے احسان کی روش اختیار کرنے والوں کے لیے ۔ “
”محسنین“ وہ لوگ ہیں جو اسلام کے درجے سے بتدریج آگے بڑھتے ہوئے ایمان اور پھر احسان کے درجے تک پہنچ جائیں ۔
وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اِحْسٰـنًا، حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۭ وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا
اولاد پر ماں باپ کے حقوق خصوصاً ماں کے حقوق کے متعلق احادیث
سورة بنی اسرائیل میں فرمایا ”وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً“ (بنی اسرائیل : ٢٣) احسان کا معنی ہے : کسی کے ساتھ نیک سلوک اور اچھا برتاؤ کرنا، اور العنکبوت : ٨ میں فرمایا: ”ووصینا الإنسان بوالدیه حسنا“ اور حسن کا معنی اچھائی اور نیکی ہے اس سے بھی یہی مراد ہے کہ ماں باپ کے ساتھ اچھائی اور نیکی کی جائے۔ اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ماں کے ساتھ زیادہ نیکی کرنے کی طرف متوجہ فرمایا ہے کہ اس کی ماں نے اس کو مشقت کے ساتھ اٹھایا اور مشقت کے ساتھ اس کو جنا۔
حضرت عائشہ ام المؤمنین (رض) بیان کرتے ہیں کہ میرے پاس ایک عورت آئی اور اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں تھیں، اس نے مجھ سے سوال کیا اور میرے پاس ایک کھجور کے سوا اور کوئی چیز نہیں تھی، میں نے اس کو وہی ایک کھجور دے دی، اس نے اس کھجور کو اپنی دو بیٹیوں کے درمیان تقسیم کردیا اور اس میں سے خود کچھ نہیں کھایا، پھر وہ چلی گئی۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو میں نے آپ کو اس واقعہ کی خبر دی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص ان بیٹیوں کی پرورش میں مبتلا ہوا اور اس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا وہ اس کے لیے دوزخ کی آگ سے حجاب ہوجائیں گی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٩٥ ھ، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٢٩، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٩١٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٦٦٨، مسند احمد ج ٦ ص ٨٧۔ ج ٦ ص ٩٢)
اس آیت میں ماں کا ذکر تین بار ہے اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین بار ماں کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید کی ہے اور چوتھی بار باپ کا ذکر فرمایا ہے۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر سوال کیا : یا رسول اللہ میرے نیک سلوک کا سب سے زیادہ کون مستحق ہے ؟ آپ نے فرمایا : تمہاری ماں، اس نے کہا : پھر کون ہے ؟ فرمایا : تمہاری ماں اس نے کہا : پھر کون ہے ؟ فرمایا : تمہاری ماں، اس نے کہا : پھر کون ہے ؟ فرمایا : تمہارا باپ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٧١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٤٨، مسند الحمیدی رقم الحدیث : ١١١٨، مسند احمد ج ٢ ص ٣٢٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٧٠٦)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پوچھا گیا : یا رسول اللہ ! کس کی ؟ فرمایا : جس نے اپنے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کے بڑھاپے کو پایا اور جنت میں داخل نہیں ہوا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٥١، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٥٤٥، مسند احمد ج ٢ ص ٢٥٤ )
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور جہاد میں جانے کی اجازت طلب کی، آپ نے پوچھا : تمہارے ماں باپ زندہ ہیں ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا : ان کی خدمت میں جہاد کرو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٧٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٤٩، سنن ابو داؤد و رقم الحدیث : ٢٥٢٩، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٦٧١، سنن نسائی رقم الحدیث : ٣١٠٣، مصنف عبد الزاق رقم الحدیث : ٣٢٨٤، مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٢ ص ٤٧٣، مسند احمد ج ٢ ص ١٦٥، مسند الحمیدی رقم الحدیث : ٥٨٥، الادب المفرد رقم الحدیث : ٢٠ )
دودھ پلانے کی انتہائی مدت میں فقہاء احناف کا مذہب
علامہ محمد بن محمد حصکفی حنفی متوقی ١٠٨٧ ھ لکھتے ہیں :
امام ابوحنیفہ کے نزدیک دودھ پلانے کی انتہائی مدت اڑھائی سال ہے اور امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک یہ مدت فقط دو سال ہے اور یہی قول زیادہ صحیح ہے اور اسی پر فتویٰ ہے (علامہ شامی نے علامہ طحطاوی کے حوالے سے لکھا ہے : ان دونوں قولوں میں سے ہر ایک پر فتویٰ دیا گیا ہے) ۔ امام ابوحنیفہ کی دلیل یہ آیت ہے: ”حَمْلُهُ وَفِصٰلُهُ ثَلٰـثُوْنَ شَہْرًا“ (الاحقاف : ١٥) یعنی حمل اور دودھ چھڑانے، ان میں سے ہر ایک کی مدت تیس ماہ ہے۔ البتہ حضرت عائشہ کی حدیث کی بناء پر حمل کی مدت سے چھ ماہ کم کئے گئے ہیں، وہ حدیث یہ ہے :
حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حمل کی مدت دو سال سے صرف اتنی زیادہ ہے جتنی مدت میں چرخے کا سایہ پھرتا ہے یعنی بہت کم۔
ایک روایت میں ہے جتنی دیر چرخے کی لکڑی کا سایہ پھرتا ہے۔
(سنن دارقطنی رقم الحدیث : ٣٨١٤۔ ٣٨١٣، سنن بیہقی ج ٧ ص ٤٤٣ )
اور حضرت عائشہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سماع کے بغیر اس مدت کو نہیں بیان کرسکتیں اور امام ابو یوسف اور امام محمد نے اس آیت کی تفسیر میں یہ کہا ہے کہ اس آیت میں حمل کی کم از کم مدت کا بیان ہے اور وہ چھ ماہ ہے اور دودھ چھڑانے کی زیادہ سے زیادہ مدت کا بیان ہے اور وہ دو سال ہے اور آیت میں دونوں کی مجموعی مدت کا بیان ہے اور وہ تیس ماہ ہے، اور مقلد پر واجب ہے کہ وہ مجتہد کے قول پر عمل کرے خواہ اس کی دلیل ظاہر نہ ہو خواہ مفتی امام ابوحنیفہ کے قول پر فتویٰ دے، خواہ صاحبین کے قول پر فتویٰ دے اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ اعتبار قوت دلیل کا ہے۔ (الدرالمختار و رد المحتار ج ٤ ص ٢٩٤۔ ٢٩٢، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)
دودھ پلانے کی انتہائی مدت میں ائمہ ثلاثہ کے مذاہب
قاضی ضیاء الدین ابو عمرو مارانی شافعی الموتفی ٦٠٢ ھ لکھتے ہیں :
ہمارے امام شافعی (رض) ، امام ابو یوسف، امام محمد اور ایک روایت میں امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ بچہ کو دودھ پلانے کی انتہائی مدت سے دو سال ہے اور صحابہ میں سے حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس اور حضرت ابوہریرہ (رض) کا بھی یہی مذہب ہے اور حضرت عائشہ کے علاوہ دیگر امہات المؤمنین کا بھی یہی مذہب ہے اور امام مالک سے ایک روایت یہ ہے کہ اس کی مدت پچیس ماہ ہے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس کی مدت تیس ماہ ہے اور امام زفر کے نزدیک اس کی مدت تین سال یعنی چھتیس ماہ ہے۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید میں ہے :
”وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلاَدَہُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ“ (البقرہ ٢٣٣)
اور مائیں اپنے بچوں کو مکمل دو سال تک دودھ پلائیں، یہ (مدت) ان کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت کو مکمل کرنے کا ارادہ کریں۔
اور امام بیہقی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے کہ دودھ پلانے کی مدت صرف دو سال ہے۔ (سنن بیہقی ج ٧ ص ٤٦٢ )
اور اسی طرح قرآن مجید میں ہے :
” وَّفِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ “ (لقمان : ١٤)
دودھ چھڑانا دو سال میں ہے۔
اور قرآن مجید میں ہے :
” َحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰـثُوْنَ شَہْرًا“ (الاحقاف : ١٥)
اور حمل کی مدت اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے۔
اور بعض صحابہ کا یہ مذہب ہے کہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے تو پھر واجب ہے کہ دودھ چھڑانے کی مدت دو سال ہو اور ابن کثیر نے کہا ہے کہ اس آیت سے یہ استنباط کرنا کہ کم از کم مدت حمل چھ ماہ ہے بہت قوی استنباط ہے۔
امام محمد بن اسحٰق نے بعجۃ بن عبداللہ الجہنی سے روایت کیا ہے کہ ہم میں سے ایک شخص نے جہینہ کی عورت سے نکاح کیا، نکاح کے پورے چھ ماہ بعد اس نے بچہ کو جنم دیا، اس کے شوہر نے حضرت عثمان کے پاس جا کر یہ واقعہ بیان کیا، حضرت عثمان نے اس عورت کو رجم کرنے کا حکم دیا، جب حضرت علی کو یہ خبر پہنچی تو انھوں نے حضرت عثمان سے فرمایا : یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ حضرت عثمان نے کہا : اس نے نکاح کے پورے چھ ماہ بعد بچہ کو جنم دیا ہے کیا ایسا ہوسکتا ہے ؟ حضرت علی نے فرمایا : کیا آپ قرآن نہیں پڑھتے ! کہا : کیوں نہیں ! حضرت علی نے فرمایا : قرآن میں ہے : ”حَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰـثُوْنَ شَہْرًا“ (الاحقاف : ١٥) حمل کی مدت اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے اور دوسری آیت میں فرمایا : ”وَّفِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ“ (لقمان : ١٤) دودھ چھڑانا دو سال میں ہے، اور جب تیس ماہ میں سے دودھ چھڑانے کے دو سال نکال لیے تو حمل کی مدت کے لیے چھ ماہ بچے تب حضرت عثمان نے فرمایا : میں اس نکتہ کو پہلے نہیں سمجھا تھا۔
(حافظ سیوطی نے اس واقعہ کو امام ابن المنذر اور امام ابن ابی حاتم سے روایت کیا ہے۔ (الدرالمنثور ج ٧ ص ٣٨٢) اور امام عبدالرزاق نے اس واقعہ کو حضرت ابن عباس کی طرف منسوب کر کے روایت کیا ہے۔ (مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث : ١٣٥١٧۔ ١٣٥١٦، طبع جدید، ١٤٢١ ھ) اور امام عبد الرزاق نے روایت کیا ہے کہ ایک عورت نے نکاح کے چھ ماہ بعد بچہ کو جنم دیا تو حضرت عمر (رض) نے اس عورت کو رجم کرنے کا حکم دیا تو حضرت ابن عباس (رض) نے اسی طرح الاحقاف : ١٥ اور لقمان : ١٤ سے استدلال کر کے ثابت کیا کہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے تو حضرت عمر (رض) نے اپنے حکم سے رجوع کرلیا اور اس عورت پر حد جاری نہیں کی۔ (مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث : ١٣٥١٤۔ ١٣٥١٣۔ ج ٧ ص ٢٨٠۔ ٢٧٩، طبع جدید)
اور امام ابوحنیفہ نے یہ کہا ہے کہ الاحقاف : ١٥ میں حمل سے مراد بچے کو پیٹ میں اٹھانا نہیں ہے، کیونکہ اس کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے۔ (سنن دارقطنی رقم الحدیث : ٣٨١٣، سنن بیہقی ج ٧ ص ٤٤٣) بلکہ حمل سے مراد بچہ کو ہاتھ میں یا گود میں اٹھانا ہے یعنی بچہ کو ہاتھ میں اٹھانے اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے۔ اس استدلال پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ حمل کی یہ تفسیر خلاف ظاہر ہے اور اس کے معارض حضرت علی اور حضرت ابن عباس (رض) کی احادیث ہیں جنہوں نے تصریح کی ہے کہ حمل سے مراد بچہ کو پیٹ میں اٹھانا ہے اور اس کے خلاف کوئی حدیث نہیں ہے۔ (تکملۃ المجوع من شرح المہذب ج ٢٢ ص ١٥٠۔ ١٤٨، ملخصا و موضحا، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢٣ ھ)
علامہ موفق الدین عبداللہ بن احمد بن قدامہ حنبلی متوفی ٦٢٠ ھ لکھتے ہیں :
جس دودھ پلانے سے تحریم ثابت ہوتی ہے اس کی مدت دو سال ہے یہ اکثر اہل علم کا قول ہے۔ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن عمر، حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس اور حضرت ابوہریرہ (رض) کا یہی مذہب ہے اور حضرت عائشہ (رض) کے علاوہ باقی امہات المؤمنین کا بھی یہی مذہب ہے، ائمہ میں شے شعبی، ابن شبرمہ، اوزاعی، شافعی، اسحاق، ابو یوسف، محمد اور ابو یوسف کا بھی یہی مذہب ہے اور امام مالک سے بھی ایک روایت یہی ہے۔ (المغنی ج ٨ ص ١٤٢، دارالفکر، بیروت، ١٤٠٥ ھ)
اِذَا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَبَلَـغَ اَرْبَعِيْنَ سَـنَةً ۙ قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِيْٓ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِيْٓ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ
چالیس سال کی عمر میں انسان کا اپنی قوت کے کمال کو پہنچ جانا
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :
اس آیت میں اشد (پوری قوت کو پہنچا) کی تفسیر میں اختلاف ہے، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اس سے مراد اٹھارہ سال ہے اور اکثر مفسرین نے کہا : اس سے مراد تینتیس (٣٣) سال ہے۔ فراء نے اس پر یہ دلیل قائم کی ہے کہ اٹھارہ کی بہ نسبت تینتیس سال چالیس سال کے زیادہ قریب ہے۔ زجاج نے کہا : تینتیس سال اس لیے راجح ہے کہ اس عمر میں انسان کے بدن کی قوت اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو معمر شخص اسلام میں چالیس سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ اس کو جنون، جذام اور برص سے محفوظ کردیتا ہے اور جب وہ پچاس سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اس سے حساب آسان کردیتا ہے، اور جب وہ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرما دیتا ہے اور جب اس کی عمر ستر سال کی ہوجائے تو اللہ اس سے محبت کرتا ہے اور آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں اور جب اس کی عمر اسی سال کی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیوں کو برقرار رکھتا ہے اور اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور جب اس کی عمر نوے سال کی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے اور پچھلے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور اس کو اس کے گھر والوں کے حق میں شفاعت کرنے والا بنا دیتا ہے اور آسمان میں لکھ دیا جاتا ہے کہ وہ زمین میں اللہ کا قیدی ہے۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٢١٨ طبع قدیم، مسند احمد ج ٢١ ص ١٢۔ رقم الحدیث : ١٣٢٧٩، مؤسسۃ السالۃ، بیروت، ١٤١٩ ھ)
اس حدیث کی سند بہت ضعیف ہے، حافظ ابن کثیر نے اس حدیث کو حضرت عثمان بن عفان (رض) سے روایت کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس کی متعدد اسانید ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ١٧١، دارالفکر، بیروت، ١٤١٩ ھ، مسند احمد ج ٢ ص ٨٩، کنز العمال رقم الحدیث : ٤٢٦٦٢، القول المسدد ص ٨۔ ٧)
چالیس سال کی عمر پوری ہونے کے بعد نبی کا مبعوث ہونا
علامہ علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ لکھتے ہیں :
زید بن اسلم نے کہا : اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کو مبعوث نہیں کیا حتیٰ کہ وہ چالیس سال کی عمر کو پہنچ گیا۔ (النکت و العیون ج ٥ ص ٢٧٧، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
امام علی بن احمد واحدی متوفی ٤٦٨ ھ نے کہا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر چالیس سال کی ہوگئی تو آپ کو نبی بنایا گیا۔ (الوسیط ج ٤ ص ١٠٧)
امام الحسین بن مسعود البغوی الشافعی المتوفی ٥١٦ ھ لکھتے ہیں :
جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چالیس سال کو پہنچ گئے تو آپ کو نبی بنایا گیا۔ (معالم التنزیل ج ٤ ص ١٩٥، دارالحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٠ ھ)
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :
مفسرین نے کہا ہے کہ جس نبی کو بھی مبعوث کیا گیا ہے تو اس کو چالیس سال کے بعد مبعوث کیا گیا ہے، میں کہتا ہوں کہ اس پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے اشکال ہوگا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی عمر کے اول میں ہی نبی بنادیا تھا، مگر اس کا جواب یہ ہے کہ اغلب یہ ہے کہ ان پر وحی آنے کا سلسلہ چالیس سال کے بعد شروع ہوا ہو اور ہمارے رسول سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں بھی معاملہ اسی طرح ہوا تھا۔ (تفسیر کبیر ج ١٠ ص ١٨، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :
جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی بنایا گیا تو آپ کی عمر چالیس سال تھی۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ١٨١، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
قاضی عبداللہ بن عمر البیضاوی المتوفی ٦٨٥ ھ لکھتے ہیں :
ایک قول یہ ہے کہ جس کو بھی نبی بنایا گیا ہے چالیس سال کے بعد نبی بنایا گیا ہے۔ (تفسیر البیضاوی مع الخفا جی ج ٨ ص ٤٧٠، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٧ ھ)
علامہ علی بن محمد خازن متوفی ٧٢٥ ھ لکھتے ہیں :
جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر چالیس سال کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر نبوت کا اکرام کیا اور آپ کو رسالت کے ساتھ خاص کرلیا۔ (تفسیر خازن ج ٤ ص ١٢٥، مطبوعہ دارالکتب العربیہ، پشاور)
علامہ ابراہیم بن عمر البقاعی المتوفی ٨٨٥ ھ لکھتے ہیں :
اسی وجہ سے چالیس سال کی عمر انبیاء (علیہم السلام) کی بعثت کا وقت ہے۔ (نظم الدررج ٧ ص ١٢٨، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ محمد بن مصلح الدین القوجوی الحنفی المتوفی ٩٥١ ھ لکھتے ہیں :
علامہ بیضاوی نے کہا ہے کہ ہر نبی کو چالیس سال کے بد مبعوث کیا جاتا ہے اس پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے اشکال ہوتا ہے کہ ان کو بچپن کی ابتداء ہی میں نبی بنادیا گیا تھا، اس کا جواب یہ ہے کہ اغلب یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) پر وحی چالیس سال کے بعد کی جاتی ہے، ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بھی اسی طرح ہوا تھا۔ (حاشیہ شیخ زادہ علی البیضاوی ج ٧ ص ٥٩٩، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٩ ھ)
قاضی ابو السعود محمد بن محمد الحنفی المتوفی ٩٨٢ ھ لکھتے ہیں :
کہا گیا ہے کہ کسی نبی کو چالیس سال سے پہلے مبعوث نہیں کیا جاتا۔ (تفسیر ابو السعود ج ٦ ص ٧٢، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٩ ھ)
علامہ اسماعیل حقی حنفی متوفی ١١٣٧ ھ لکھتے ہیں :
کہا گیا ہے کہ کسی نبی کو چالیس سال سے پہلے مبعوث نہیں کیا گیا اس پر حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ سے اعتراض ہوتا ہے کیونکہ ان کو چالیس سال سے پہلے مبعوث کیا گیا، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ غالب اور اکثری قاعدہ ہے، کلیہ نہیں ہے۔ (روح البیان ج ٨ ص ٦٣٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)
علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :
ایک جماعت نے یہ تصریح کی ہے کہ اعم اور اغلب یہ ہے کہ نبی کو چالیس سال کے بعد مبعوث کیا جاتا ہے جیسا کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے واقع ہوا۔ (روح المعانی جز ٢٦ ص ٣٠، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
بعثت سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی نبوت اور رسالت کا علم تھا اس پر دلائل
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے کہا : یا رسول اللہ ! آپ کے لیے نبوت کب واجب ہوئی ؟ آپ نے فرمایا : اس وقت جب آدم روح اور جسم کے درمیان تھے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٦٠٩)
حافظ ابوبکر محمد بن عبداللہ ابن العربی مالکی متوفی ٥٤٣ ھ لکھتے ہیں :
اللہ سبحانہ ٗ نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے کئی وجوہ سے نبوت کو واجب فرمایا : (١) آپ کی نبوت اس لیے واجب ہے کہ اللہ کے علم میں تھا کہ آپ نبی ہیں جیسا کہ ہر چیز کا وجود اللہ تعالیٰ کے علم سے واجب ہے اور آپ کی نبوت اس وقت واجب ہوئی جب اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا : لکھ، تو اس نے قیامت تک ہونے والی ہر چیز کو لکھا، سو اس میں سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آپ کی صفات کریمہ اور آپ کے حلیہ شریفہ کے ساتھ ذکر تھا اور آپ کے لیے نبوت اس وقت واجب ہوئی جب حضرت آدم (علیہ السلام) کا پتلا بنا کر زمین پر رکھا گیا اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے وقت آپ کی نبوت کے وجوب کے ذکر میں یہ حکمت ہے کہ حضرت آدم کی تخلیق سے پہلے آپ کی نبوت قول میں تھی، فعل میں نہیں تھی اور جب حضرت آدم کی تخلیق ہوئی تو آپ کی نبوت بالفعل ہوگئی کیونکہ اصل کی تخلیق فرع کی تخلیق ہے، خصوصاً جب حضرت آدم (علیہ السلام) کی تمام اولاد کو ان کی پشت سے نکالا گیا تو وہ سب زندہ موجود تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان سب کو اپنی ربوبیت پر شاہد بنایا (اور ان میں آپ بھی اپنے وصف نبوت کے ساتھ موجود تھے) ۔ (عارضۃ الاحوذی ج ٧ جز ١٣ ص ٨٧، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ)
حضرت عرباض بن ساریہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں اس وقت بھی اللہ کے نزدیک خاتم النبیین لکھا ہوا تھا جب حضرت آدم (علیہ السلام) اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔ (شرح السنۃ رقم الحدیث : ٣٦٢٦، مسند احمد ج ٤ ص ١٢٧، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٢٠٩٣، المستدرک ج ٢ ص ٦٠٠)
عالم ارواح میں آپ کی نبوت کا معنی
شیخ عبد الحق محدث دہلوی متوفی ١٠٥٢ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
اس جگہ یہ سوال وارد ہوتا ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت جو تخلیق آدم سے پہلے تھی اس سے کیا مراد ہے ؟ اگر اس سے یہ مراد ہے کہ آپ اللہ سبحانہٗ کے علم میں اس وقت نبی تھے تو اس پر یہ اشکال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تو اس وقت تمام انبیاء (علیہم السلام) نبی تھے اور اگر اس سے مراد یہ ہے کہ آپ اس وقت بالفعل نبی تھے تو آپ کا بالفعل نبی ہونا تو دنیا میں تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کے وجود عنصری سے پہلے آپ کی نبوت کا فرشتوں اور روحوں میں اظہار ہے، جیسا کہ احادیث میں وارد ہے کہ آپ کا اسم شریف عرش پر، آسمان پر، جنت کے محلات اور بالا خانوں پر، حوران بہشت کے سینوں پر، درختوں کے پتوں پر، جنت کے درختوں پر اور فرشتوں کی بھوؤں اور آنکھوں پر لکھا ہوا تھا اور بعض عارفین نے کہا ہے کہ اس وقت آپ کی روح شریف نبی تھی اور عالم ارواح میں روحوں کی تربیت کر رہی تھی جیسا کہ اس عالم عنصری میں آپ کا جسم شریف اجسام کی تربیت کر رہا ہے اور یہ چیز ثابت ہے کہ ارواح کو اجسام سے پہلے پیدا کیا گیا ہے۔ (اشعۃ اللمعات ج ٤ ص ٤٧٥۔ ٤٧٤، مطبع تیج کمار، لکھنؤ )
بعث سے پہلے آپ کو اپنی نبوت کا علم ہونے کی تحقیق
اب ایک یہ بحث رہتی ہے کہ چالیس سال کی عمر میں آپ کو مبعوث کیا گیا یعنی اعلان نبوت کا حکم دیا گیا تو اس سے پہلے بھی آپ نبی تھے یا نہیں اور آپ کو اپنی نبوت کا علم تھا یا نہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ آپ اس سے پہلے بھی نبی تھے اور آپ کو اپنی نبوت کا علم تھا۔ امام مسلم اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت جابر بن سمرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسولوں اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں مکہ کے ایک پتھر کو پہچانتا ہوں جو بعثت (اعلان نبوت) سے پہلے مجھ پر سلام عرض کیا کرتا تھا میں اس پتھر کو اب بھی پہچانتا ہوں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٧٧، دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٢ ص ١٥٣ )
اس صحیح حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بعثت سے پہلے اپنے نبی بنائے جانے کا علم تھا اور آپ نے بعثت سے پہلے ابو طالب کے ساتھ شام کا جو سفر کیا تھا، اس میں بھی یہ تصریح ہے کہ راہب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ پکڑ کر کہا : یہ سیدالعلمین ہیں، یہ رسول رب العلمین ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ رحمۃ للعلمین بنا کر مبعوث فرمائے گا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٦٢٠)
حضرت جابر بن سمرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مکہ میں ایک پتھر تھا جو ان راتوں میں مجھ پر سلام پیش کیا کرتا تھا جن میں مجھ کو مبعوث کیا گیا میں اس پتھر کو اب بھی پہچانتا ہوں۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٦٢٤، مسند ابوداؤد الطیالسی رقم الحدیث : ١٩٠٧، مصنف ابن ابی شیبہ ج ١١ ص ٤٦٤، مسند احمد ج ٥ ص ١٠٥۔ ٨٩، سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٠، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٧٤٦٩، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٤٨٢، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٩٠٧، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٢٠٣٣، المعجم الصغیر رقم الحدیث : ١٦٧، دلائل النبوۃ لابی نعیم رقم الحدیث : ٣٠٠، دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٢ ص ١٥٣، شرح السنۃ رقم الحدیث : ٣٧٠٩)
وَالَّذِيْ قَالَ لِوَالِدَيْهِ اُفٍّ لَّكُمَآ اَتَعِدٰنِنِيْٓ اَنْ اُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُوْنُ مِنْ قَبْلِيْ
مذكورہ بالا آيت کے شان نزول میں مختلف روایات
(١) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ اس سے مراد حضرت عبد الرحمن بن ابوبکر ہیں، جب حضرت ابوبکر (رض) نے ان سے کہا کہ تم ایمان لے آؤ ! تو انھوں نے کہا : کیا آپ مجھے اس بات سے ڈراتے ہیں کہ میں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جاؤں گا اور مجھے میدان حشر میں لایا جائے گا ؟ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤١٩١)
(٢) حسن بصری نے کہا : یہ آیت ایک کافر اور فاجر کے متعلق نازل ہوئی ہے جو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور میدان محشر میں جمع کئے جانے کا منکر تھا، وہ اپنے مسلمان ماں باپ سے کہتا تھا کہ تم مجھے حشر سے ڈراتے ہو، حالانکہ مجھ سے پہلے کتنی صدیاں گزر چکی ہیں اور کتنے لوگ مرچکے ہیں اور ان میں سے کسی کو بھی نہیں اٹھایا جائے گا اور اس کے ماں باپ اللہ سے فریاد کرتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ تیرے لیے ہلاکت اور بربادی ہو تو ایمان لے آ، تو اللہ کی وعید کی تصدیق کر اور یہ مان لے کہ تو مرنے کے بعد اٹھایا جائے گا، اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو ان کی قبروں سے نکالے گا، ان کو میدان محشر میں جمع کرے گا تاکہ ان کو ان کے اعمال کے مطابق جزا دی جائے۔ پھر وہ اللہ کا دشمن اپنے ماں باپ کی نصیحت کو رد کرتے ہوئے کہے گا کہ تم جو یہ کہہ رہے ہو کہ مجھے مرنے کے بعد اٹھایا جائے گا، یہ محض پہلے لوگوں کی کہی ہوئی جھوٹی اور من گھڑت باتیں ہیں، انھوں نے ان باتوں کو لکھ لیا تھا اور تم تک یہ لکھی ہوئی باتیں پہنچ گئیں اور تم نے ان کی تصدیق کردی۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤١٩٢۔ جز ٢٦ ص ٢٦، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
امام رازی نے فرمایا کہ یہ قول صحیح نہیں ہے کہ یہ آیت حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر کے متعلق نازل ہوئی ہے، کیونکہ حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر سچے مسلمان تھے اور یہ آیت کافر کے متعلق نازل ہوئی
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر (رض) ایمان لائے اور انھوں نے اسلام میں بہت نیک کام کئے، لہٰذا یہ آیت جو ایک کافر اور منکر حشر کے متعلق نازل ہوئی ہے ان کو ان پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے۔
حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر کی سوانح
حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ حضرت عبد الرحمن بن ابوبکر (رض) کے متعلق لکھتے ہیں :
زمانہ جاہلیت میں ان کا نام عبدالکعبۃ تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا نام بدل کر عبدالرحمن رکھ دیا، انھوں نے اسلام لانے کو مؤخر کیا اور صلح حدیبیہ کے بعد اسلام لائے اور اسلام میں بہت نیک کام کئے۔ ابوالفرج نے ” اغانی “ میں لکھا ہے کہ انھوں نے اپنے والد کے ساتھ ہجرت نہیں کی تھی کیونکہ یہ اس وقت کم عمر تھے اور فتح مکہ سے پہلے قریش کے چند جوانوں کے ساتھ ہجرت کی ان میں حضرت معاویہ بھی تھے اور ان سب نے اسلام قبول کرلیا۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ فتح مکہ کے دن اسلام لائے۔ جنگ بدر میں یہ کافروں کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑے تھے، یہ حضرت ابوبکر (رض) کے سب سے بڑے بیٹے تھے، انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعدد احادیث روایت کی ہیں۔
امام ابن عبدالبر نے کہا ہے کہ یہ بہت بہادر تھے اور بہت ماہر تیر انداز تھے، جنگ یمامہ میں شریک ہوئے اور سات بڑے کافروں کو قتل کیا، جنگ جمل میں یہ حضرت عائشہ (رض) کے ساتھ تھے اور ان کے بھائی محمد بن ابی بکر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ساتھ تھے۔ حضرت معاویہ نے یزید کی بیعت لینے کے متعلق ان سے مشورہ کیا اور کہا : یہ حضرت ابوبکر اور عمر کی سنت ہے، حضرت عبدالرحمن نے کہا : نہیں یہ ہرقل اور قیصر کی سنت ہے۔ جب ایک قیصر مرجاتا تو دوسرا قیصر اس کی جگہ تخت نشین ہوتا، اللہ کی قسم ! ہم ایسا نہیں کریں گے۔
مروان نے ان کے متعلق کہا تھا : یہ وہی ہے جس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی: ”وَالَّذِیْ قَالَ لِوَالِدَیْهِ اُفٍّ لَّکُمَآ“ (الاحقاف : ١٧) تو حضرت عائشہ نے پردے کی اوٹ سے اس کا سخت انکار کیا اور کہا : اگر میں چاہوں میں نام لے کر بتاسکتی ہوں کہ یہ آیت کس کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ اس کے بعد حضرت معاویہ (رض) نے حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر (رض) کی طرف ایک لاکھ (دینار یا درہم) بھیجے مگر حضرت عبد الرحمن نے ان کو واپس کردیا اور کہا : میں اپنے دین کو دنیا کے بدلے میں فروخت نہیں کروں گا۔
پھر حضرت عبدالرحمن مکہ چلے گئے اور یزید کی بیعت مکمل ہونے سے پہلے ان کی وفات ہوگئی، مکہ سے دس میل دور ایک مقام پر ان کی وفات ہوگئی، یہ سوئے ہوئے تھے اور نیند میں ہی ان کو موت آگئی، پھر ان کو مکہ لایا گیا اور وہاں ان کو دفن کیا گیا جب حضرت عائشہ (رض) کو یہ خبر پہچی تو جب وہ حج کرنے کے لیے گئیں تو ان کی قبر پر کھڑے ہو کر روئیں، پھر کہا : اگر میں تمہاری وفات کے وقت حاضر ہوتی تو میں تم کو وہیں دفن کردیتی جہاں تم کو موت آئی تھی اور تم پر نہ روتی۔ امام ابن سعد اور متعدد محدثین نے لکھا ہے کہ حضرت عبد الرحمن ٥٣ ھ میں فوت ہوئے تھے۔ یحییٰ بن بکیر نے کہا : ٥٤ ھ میں فوت ہوئے۔ اور بھی کئی اقوال ہیں، ابو زرعہ دمشقی نے کہا : جس سال حضرت معاویہ یزید کی بیعت لینے کے لیے مدینہ میں آئے تھے اس سال فوت ہوئے تھے اور حضرت عائشہ اس کے ایک سال بعد ٥٩ ھ میں فوت ہوئیں تھیں۔ امام ابن حبان نے کہا : حضرت عبد الرحمن ٥٨ ھ میں فوت ہوئے۔ (الاصابۃ ج ٤ ص ٢٧٦، رقم الحدیث : ٥١٦٧، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)
امام ابن الاثیر علی بن محمد الجزری المتوفی ٦٣٠ ھ نے بھی اسی طرح لکھا ہے۔ (اسد الغابہ ج ٣ ص ٤٦٢، رقم الحدیث : ٣٣٤٤، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
وَلِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا ۚ وَلِيُوَفِّيَهُمْ اَعْمَالَهُمْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ
نیکوکار اور بدکار کی پوری پوری جزاء
ابن زید نے اس آیت کی تفسیر میں کہا : اہل دوزخ کے درجات نیچے کی جانب ہیں اور اہل جنت کے درجات اوپر کی جانب ہیں، اللہ تعالیٰ ہر فریق کو اس کے دنیا میں کئے ہوئے کاموں کا پورا پورا صلہ دے گا، نیک کام کرنے والے کو اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق عزت اور کرامت عطا فرمائے گا اور برے کام کرنے والے کو اللہ تعالیٰ اپنی وعید کے مطابق سزا دے گا اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا، برے کام کرنے والے کو اسی کی برائی کے مطابق ہی سزا دے گا اور جو کام اس نے نہیں کئے اس کو ان کی سزا نہیں ملے گی اور نہ دوسروں کے گناہ اس پر لادے جائیں گے اور نہ نیکی کرنے والے کی نیکیوں کے اجر وثواب میں کوئی کمی کی جائے گی۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤١٩٥)
اَذْهَبْتُمْ طَيِّبٰتِكُمْ فِيْ حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا ۚ فَالْيَوْمَ تُجْـزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ
امام رازی نے کہا ہے کہ نیک لوگ دنیا میں تقشف اور زہد کو اختیار کرتے ہیں تاکہ ان کا آخرت میں ثواب زیادہ کامل ہو، لیکن اس آیت میں مؤمنوں کے لیے دنیا کی لذتوں سے فائدہ اٹھانے کی ممانعت نہیں ہے، کیونکہ یہ آیت کافروں کے حق میں نازل ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس بات پر کافروں کی مذمت کی ہے کہ وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے تھے اور وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے تھے اور نہ اس کی طاعت اور عبادت کر کے اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے تھے، رہا مومن تو وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کر اور اس کی اطاعت اور عبادت کر کے اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے لہٰذا وہ اس زجر و توبیخ اور مذمت میں داخل نہیں ہے اور اس پر دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
”قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللهِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ “ (الاعراف : ٣٢) آپ کہیے کہ جس زینت کو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا ہے اور پاکیزہ رزق کو، اس کو کس نے حرام کیا ہے ؟
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے زیب وزینت کی چیزوں اور پاکیزہ رزق اور لذیذ چیزوں کو استعمال کرنے اور انھیں کھانے اور پینے کی ترغیب دی ہے، البتہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آرام اور آسائش اور مرغوبات نفس سے احتراز کرنا افضل اور اولیٰ ہے کیونکہ انسان جب عیش و عشرت کا عادی ہوجاتا ہے تو اس پر ان چیزوں کا چھوڑنا دشوار ہوجاتا ہے اور اگر اس پر سختی اور تنگ دستی کے ایام آجائیں تو وہ ناشکری کے کلمات کہنے کے خطرہ میں ہوتا ہے اور عیش و عشرت میں مشغول ہونے کی وجہ سے وہ اس خطرہ میں بھی ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی اطاعت اور عبادت سے غافل ہوجائے۔
آخرت کے ثواب میں اضافہ کی خاطر پسندیدہ اور لذیذ چیزوں کا ترک کرنا اور زہد کو اختیار کرنا
امام ابو الحسن علی بن احمد الواحدی النیشاپوری المتوفی ٤٦٨ ھ لکھتے ہیں :
چونکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں لذات اور عیش و عشرت کے حصول کی مذمت کی ہے اور اس بات پر کافروں کو ملامت کی ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے تھے، اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، آپ اور دیگر صالحین امت دنیا کے عیش و عشرت اور لذتوں سے کنارہ کش رہتے تھے اور تقشف اور زہد کو اختیار کرتے تھے تاکہ آخرت میں ان کا ثواب زیادہ کامل ہو۔ (الوسیط ج ٤ ص ١١٠، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)
وَاذْكُرْ اَخَا عَادٍ ۭ اِذْ اَنْذَرَ قَوْمَهٗ بِالْاَحْقَافِ
اخا عاد سے مراد: قوم عاد کے نسبی بھائی، اس سے دینی بھائی مراد نہیں ہے اور وہ حضرت ہود (علیہ السلام) ہیں، ان کا پورا نام ہے ہود بن عبداللہ بن رباح بن الخلود بن عاد۔ اور قوم عاد، عاد بن عوض بن ارم بن سام بن نوح کی اولاد ہیں۔
الاحقاف قوم عاد کی ریگستانی بستیوں کا نام ہے۔ الاحقاف، حقف کی جمع ہے، ریت کا بلند اور ٹیڑھا ٹیلہ جو بلندی میں پہاڑ کی مثل معلوم ہوتا ہو، یہ جگہ عمان اور عدن کے درمیان سمندر کا ساحل ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ یمن میں حضرموت کے پاس ایک وادی ہے۔
حضرت ھود (علیہ السلام) سے پہلے بھی کئی رسول گزر چکے تھے جنہوں نے یہ کہا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور حضرت ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا : بیشک مجھے تم پر بڑے دن کے عذاب کا خطرہ ہے۔
فَلَمَّا رَاَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِيَــتِهِمْ ۙ قَالُوْا ھٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا
قوم عاد کی جہالت کی وجوہ
جب حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم کے کافروں نے کہا : آپ جس عذاب سے ہم کو ڈرا رہے ہیں وہ عذاب لے آئیں تو حضرت ہود (علیہ السلام) نے اس کے جواب میں فرمایا : مجھے یہ معلوم نہیں کہ یہ عذاب کس وقت آئے گا، اس کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے، میں تم کو صرف وہی بات بتاتا ہوں جس کی میری طرف وحی کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ وحی نہیں کی کہ تم پر یہ عذاب کس وقت آئے گا۔
نیز فرمایا : میں یہ گمان رکھتا ہوں کہ تم جاہل لوگ ہو، حضرت ہود (علیہ السلام) کے اس قول کے حسب ذیل محامل ہیں :
(١) تم اس لیے جاہل ہو کہ تم کو یہ معلوم نہیں کہ رسول، اللہ سبحانہٗ سے صرف اسی چیز کا سوال کرتے ہیں جس چیز کے سوال کی انھیں اجازت ہوتی ہے، ان کو صرف اللہ تعالیٰ کا پیغام سنانے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔
(٢) تم اس لیے جاہل ہو کہ تم اپنے کفر اور جہل پر اصرار کر رہے ہو اور میرا ظن غالب یہ ہے کہ تمہاری جہالت اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے تم پر عذاب آنے کا وقت آپہنچا ہے۔
(٣) اور یہ بھی تمہاری جہالت ہے کہ تم عذاب کے مطالبہ پر اصرار کر رہے ہو، ہرچند کہ تم پر میری رسالت کا صدق ظاہر نہیں ہوا، لیکن تم پر میرے دعویٰ رسالت کا کذب بھی تو ظاہر نہیں ہے، تو تمہارے نزدیک بھی یہ ممکن تو ہے کہ میں صادق ہوں اور میری پیشین گوئی کا پورا ہونا بھی ممکن ہے اور میری خبر کے مطابق تم پر عذاب کا آنا بھی ممکن ہے تو پھر تم اپنے آپ کو نزول عذاب کے خطرے میں ڈال رہے ہو یہ تمہاری جہالت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے ؟
قوم عاد پر آندھی کے عذاب کی کیفیت
مفسرین نے بیان کیا ہے کہ بہت دنوں سے قوم عاد پر بارش نہیں ہوئی تھی، اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف سیاہ بادل بھیجا، وہ ان کی وادی کی طرف سے آنے لگا وہ اس بادل کو دیکھ کر خوش ہوئے اور کہنے لگے : یہ بادل ہم پر برسنے کے لیے آیا ہے، ایک قول یہ ہے کہ حضرت ہود (علیہ السلام) اپنی قوم میں بیٹھے ہوئے تھے، جب ایک گہرا بادل آیا تو انھوں نے کہا : یہ بادل ہم پر برسنے کے لیے آیا ہے، حضرت ہود (علیہ السلام) نے فرمایا : نہیں، بلکہ یہ وہ عذاب ہے جس کو تم نے جلدی طلب کیا تھا، پھر انھوں نے اس عذاب کی حقیقت بیان کی، یہ زبردست آندھی ہے جس میں دردناک عذاب ہے۔ اس بادل کے عذاب ہونے کا انھیں اس وقت پتا چلا جب زور سے آندھی چلنی شروع ہوئی اور حضرت ہود (علیہ السلام) ان کے درمیان سے اٹھ کر چلے گئے اور آندھی کی شدت سے ان کے خیمے اکھڑ گئے اور ان کے اونٹوں کے اوپر سے ان کے پالان گرگئے اور آندھی کے زور سے ان کے خیمے اور پالان ہوا میں ٹڈیوں کی طرح اڑنے لگے اور اڑ اڑ کر ان پر برسنے لگے اور آندھی کی شدت سے وہ خود اور ان کے مویشی زمین اور آسمان کے درمیان پرندوں کے پروں کی طرح اڑنے، پھر گرنے لگے، پھر وہ گھبرا کر اپنے گھروں میں داخل ہوگئے اور اپنے گھروں کے دروازے بند کر لئے، آندھی کے زور نے ان کے دروازوں کو توڑ دیا اور ان کو اوندھا کردیا، اللہ تعالیٰ نے ہوا کو حکم دیا تو اس نے ریت سے ان کو ڈھانپ دیا، وہ سات راتیں اور آٹھ دن اسی طرح آندھی کے زور تلے دفن رہے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہوا کو حکم دیا تو اس نے ان کے اوپر سے ریت کو ہٹا دیا اور ان کے مردہ اجسام کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا اور اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت میں ان کے عذاب کی کیفیت کو بیان فرمایا ہے۔
قوم عاد پر عذاب کی تفصیل
یعنی قوم عاد کے ہر فرد کو اور ان کی تمام سواریوں، مویشیوں اور ان کے تمام مال و متاع کو اس آندھی نے تباہ و برباد کردیا، حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آسمان پر کسی بادل کو دیکھتے تو آپ گھبرا کر کبھی باہر جاتے اور کبھی اندر آتے اور جب وہ بادل برس جاتا تو آپ سے گھبراہٹ دور ہوجاتی اور فرماتے : مجھے از خود پتا نہیں ہے، شاید کہ یہ بادل وہی ہو جیسا کہ قوم عاد کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
”فَلَمَّا رَاَوْہُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِیَتِھِمْ قَالُوْا ھٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا“ (الاحقاف : ٢٤ ) پھر جب انھوں نے اس عذاب کو بادل کی طرح اپنی وادیوں میں آتے دیکھا تو انھوں نے کہا : یہ ہم پر برسنے والا بادل ہے۔ امام ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢٥٨، صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٢٠٦، مسند احمد ج ٦ ص ٢٤٠ )
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری باد صبا (مشرق سے چلنے والی ہوا) سے مدد کی گئی ہے اور قوم عاد کو باددبور (مغرب سے چلنے والی ہوا) نے ہلاک کردیا تھا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٠٠، جامع المسانید و السنن مسند ابن عباس رقم الحدیث : ٣١٧٥)
امام ابن اسحاق نے کہا : حضرت ہود (علیہ السلام) اور مؤمنین میں سے جو ان کے اصحاب تھے وہ آندھی کے اس عذاب سے محفوظ رہے اور آندھی اپنے غیظ و غضب سے قوم عاد کو اٹھا اٹھا کر پٹک رہی تھی اور پتھروں سے ان کو کچل رہی تھی اور وہ ریت کے نیچے اس طرح دفن ہوگئے تھے کہ ان کے اجسام نہیں دکھائی دے رہے تھے صرف ان کے گھر دکھائی دے رہے تھے۔
وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِيْنَ
قرآن سن کر جنات کے ایمان لانے سے اہل مکہ کو ملامت کرنا کہ وہ قرآن سن کر کیوں ایمان نہیں لاتے ؟
اس سے پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے فرمایا تھا : آپ اپنی قوم کو قوم عاد کا تذکرہ سنائیے تاکہ وہ اس سے عبرت حاصل کریں کہ جب قوم عاد نے نافرمانی اور سرکشی کی اور اللہ کے رسول کو جھٹلایا اور اللہ کی توحید پر ایمان نہیں لائی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر آندھیوں کا عذاب مسلط کر کے ان کو ہلاک کردیا اور ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ آپ اپنی قوم کو وہ قصہ سنائیے جب ہم نے جنات کے ایک نفر (وفد یا جماعت) کو آپ کی طرف متوجہ کیا تاکہ وہ آپ سے قرآن مجید کی تلاوت سنیں اور وہ اپنے جہل پر متنبہ ہوں اور قرآن کریم سن کر اپنے کفر سے تائب ہوں، وہ پہلے اس چیز سے ناواقف تھے کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، اللہ سبحانہٗ کے رسول ہیں، اہل مکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہم زبان اور آپ کی جنس سے انسان اور بشر تھے، اس کے برخلاف جنات نہ آپ کے ہم زبان تھے اور نہ آپ کی جنس سے انسان اور بشر تھے تو جب وہ قرآن کریم سن کر آپ کی نبوت اور رسالت پر ایمان لے آئے تو اہل مکہ اس بات کے زیادہ لائق ہیں کہ وہ آپ سے قرآن مجید سن کر اس پر ایمان لائیں اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور آپ کی رسالت کا اقرار کریں۔
اس آیت میں ”نفر“ کا لفظ ہے، مشہوریہ ہے کہ اس کا اطلاق تین مردوں سے لے کر دس مردوں تک پر کیا جاتا ہے اور تحقیق یہ ہے کہ اس کا اطلاق دس سے زیادہ افراد پر بھی کیا جاتا ہے اور ”رهط“ اور ”نفر“ کا اطلاق چالیس افرادتک پر کیا جاتا ہے اور ” نفر “ کا لفظ انسانوں اور مردوں کے ساتھ خاص نہیں ہے کیونکہ اس آیت میں اس کا اطلاق جنات پر کیا گیا ہے۔
نیز اس آیت میں فرمایا ہے: ”فلما حضروہ“ اس کا معنی ہے : وہ قرآن مجید کی تلاوت پر حاضر ہوئے اگرچہ یہ اطلاق مجازی ہے، اور اس کا دوسرا محمل یہ ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلاوت کے موقع پر حاضر ہوئے۔
اور انھوں نے ایک دوسرے سے کہا : ” خاموش رہو “ اس میں یہ تعلیم ہے کہ علم حاصل کرتے وقت خاموشی سے استاذ کی تقریر سننی چاہیے اور استاذ کی تقریر کے درمیان ایک دوسرے سے باتیں نہیں کرنی چاہیے اور آپ سے قرآن مجید کی تلاوت سننے کے بعد وہ مختلف شہروں میں چلے گئے اور راستے میں ان کو جنات میں سے جو بھی ملتا اس کو وہ اللہ عزوجل کے غضب اور اس کے عذاب سے ڈراتے تھے۔
جنات کا یہ نفر یا وفد کون سے جنات پر مشتمل تھا ؟ اس سلسلے میں زیادہ روایات یہ ہیں کہ یہ نصیبین کے جنات تھے اور یہ علاقہ شام کے قریب دیار بکر کا ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ نینوی کا علاقہ ہے اور یہ بھی دیاربکر ہے لیکن یہ علاقہ موصل کے قریب ہے اور یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ یہ جنات شیصان سے تھے اور جنات کی زیادہ تعداد ان ہی سے ہے اور ابلیس کا عام لشکر بھی یہی ہیں اور جس مقام پر یہ گئے تھے وہ مکہ مکرمہ سے ایک رات کی مسافت پر وادی نخلہ ہے (یعنی وہاں کھجوروں کا باغ ہے) ۔ (روح المعانی جز ٢٦ ص ٤٧۔ ٤٦، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
جنات کا نماز فجر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن سننا
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کے ساتھ عکاظ کے بازار کا قصد کر کے گئے، اس اثناء میں شیاطین (جنات) اور آسمان کی خبروں کے درمیان کوئی چیز حائل ہوگئی تھی اور ان کے اوپر آگ کے گولے پھینکے جاتے تھے، پھر شیاطین واپس آجاتے تھے، وہ ایک دوسرے سے پوچھتے : اب کیا ہوگیا ہے ؟ تو انھوں نے کہا ہمارے اور آسمانوں کی خبروں کے درمیان کوئی چیز حائل ہوگئی ہے اور ہم پر آگ کے گولے پھینکے جاتے ہیں، انھوں نے کہا تمہارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان وہی چیز حائل ہوئی ہے جو تازہ ظہور میں آئی ہے، تم زمین کے مشارق اور مغارب میں سفر کرو اور دیکھو کہ کون سی نئی چیز ظہور میں آئی ہے، پھر وہ روانہ ہوئے اور انھوں نے زمین کے مشارق اور مغارب میں سفر کیا اور وہ اس پر غور کرتے ر تھے کہ ان کے اور آسمان کی خبروں کے درمیان کیا چیز حائل ہوئی ہے، پھر وہ جنات تہامہ میں پہنچے جہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک کھجور کے درخت کے پاس تھے اس وقت آپ عکاظ کے بازار کا قصد کرنے والے تھے اور آپ اپنے اصحاب کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے، جب جنات نے قرآن مجید سنا تو انھوں نے کہا : غور سے سنو یہی وہ چیز ہے جو تمہارے اور آسمان کی خبر کے درمیان حائل ہوئی ہے پھر وہ وہیں سے اپنی قوم کی طرف لوٹ گئے اور انھوں نے کہا : اے ہماری قوم !
”اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا یَّہْدِیْٓ اِلَی الرُّشْدِ فَاٰ مَنَّا بِہٖط وَلَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَآ اَحَدًا“ (الجن : ٢۔ ١) ہم نے عجیب قرآن (کلام) سنا ہے جو سیدھا راستہ دکھاتا ہے، ہم اس کے ساتھ ایمان لائے اور ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں کریں گے
اور اللہ عزوجل نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل فرمائی: ”قُلْ اُوْحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ“ (الجن : ١)
(اے رسول مکرم ! آپ کہیے کہ میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جنات کی ایک جماعت نے قرآن مجید سنا اور کہا۔
اور آپ کی طرف جنات کے قول کی وحی کی گئی تھی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٩٢١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٤٩، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢٢٣، مسند احمد ج ١ ص ٢٥٢ طبع قدیم، مسند احمد ج ٤ ص ١٢٩ طبع جدید۔ رقم الحدیث : ٢٢٧١، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢٠ ھ، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١١٦٢٥۔ ١١٦٢٤، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٢٣٦٩، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٥٢٦، المستدرک ج ٢ ص ٥٠٣، سنن کبری للبیہقی ج ٢ ص ٢٢٦۔ ٢٢٥ )
قَالُوْا يٰقَوْمَنَآ اِنَّا سَمِعْنَا كِتٰبًا اُنْزِلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِيْٓ اِلَى الْحَـقِّ وَاِلٰى طَرِيْقٍ مُّسْـتَقِيْمٍ
جنات کے قول میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر نہ ہونے کی وجوہ
جنات نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن مجید سن کر اپنی قوم کی طرف واپس جاتے ہوئے کہا : اے ہماری قوم ! ہم نے عظیم اور جلیل کتاب سے سنا ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل کی گئی ہے، انھوں نے یہ نہیں کہا : جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل کی گئی ہے، اس کی حسب ذیل وجوہ ہیں :
(١) وہ جنات یہودی تھے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والے تھے اس لیے انھوں نے صرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کیا۔
(٢) توراۃ یہود و نصاریٰ دونوں کے نزدیک متفق علیہ ہے، جب کہ یہودی ” انجیل “ کو نہیں مانتے تھے اور عیسائی ” انجیل “ کے علاوہ ” توراۃ “ کو بھی مانتے تھے۔
(٣) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ ” توراۃ “ کے احکام پر عمل کریں۔
(٤) حضرت ابن عباس (رض) سے یہ روایت ہے کہ جنات نے حضرت عیسیٰ علیہ السلم کی رسالت کے متعلق نہیں سنا تھا، اس لیے انھوں نے صرف ” توراۃ “ کا ذکر کیا، مگر اس پر یہ اشکال ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت بہت مشہور تھی اور ان کی رسالت کا جنات سے مخفی ہونا بہت مستبعد ہے۔ اس لیے علامہ ابو حیان اندلسی نے کہا : حضرت ابن عباس سے اس روایت کی نقل صحیح نہیں ہے۔
اس آیت میں قرآن مجید کے متعلق فرمایا ہے : یہ کتاب حق کی طرف ہدایت دیتی ہے، اس سے مراد اصول اور عقائد ہیں اور فرمایا : اور سیدھے راستے کی طرف اس سے مراد فروع اور احکام شرعیہ عملیہ ہیں۔
يٰقَوْمَنَآ اَجِيْبُوْا دَاعِيَ اللّٰهِ وَاٰمِنُوْا بِهٖ يَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَيُجِرْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ
کافر جب ایمان لے آئے تو آیا اس کے تمام گناہوں کی مغفرت ہوگی یا بعض گناہوں کی ؟
اللہ کی طرف دعوت دینے والے سے ان کی مراد اللہ کا پیغام ہے یعنی اللہ کا پیغام مان لو اور اللہ تعالیٰ کی توحید کو مان لو اور یہ کہ صرف وہی اکیلا عبادت کا مستحق ہے، یا اس سے مراد ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آؤ۔
نیز اس آیت میں فرمایا ہے: ”یغفر لکم من ذنوبکم“ اس پر یہ اشکال ہے کہ بظاہر ”من“ تبعیضیہ ہے اور اس کا معنی ہے : اللہ تمہارے بعض گناہوں کو بخش دے گا، حالانکہ ایمان لانے کے بعد زمانہ کفر کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اس اشکال کے حسب ذیل جوابات ہیں :
(١) اس آیت میں ”من“ زائدہ ہے لیکن یہ جواب صحیح نہیں ہے کیونکہ فصیح وبلیغ کلام میں کوئی لفظ زائد نہیں ہوتا۔
(٢) اللہ ان بعض گناہوں کو بخش دے گا جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے اور جن گناہوں کا تعلق حقوق العباد سے ہے ان کو نہیں بخشے گا، لیکن ابن المنیر نے اس جواب پر یہ اعتراض کیا ہے کہ کافر جب لوگوں کا مال لوٹے یا خون ریزی کرے اور حقوق العباد کو ضائع کرے تو اس کے اسلام لانے سے یہ گناہ بھی بخش دیئے جاتے ہیں، کیا تم نہیں دیکھتے کہ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سیدنا حمزہ (رض) کے قاتل وحشی کو بلایا اور اس کو اسلام کی دعوت دی، اس نے کہا : یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ مجھے اپنے دین کی کس طرح دعوت دے رہے ہیں، حالانکہ آپ نے یہ کہا ہے کہ جس نے شرک کیا یا قتل ناحق کیا یا زنا کیا وہ اپنے گناہوں کی سزا پائے گا، قیامت کے دن اس کے عذاب کو دگنا کردیا جائے گا اور وہ اس عذاب میں ذلت کے ساتھ ہمیشہ رہے گا۔ (الفرقان : ٦٨۔ ٦٩) اور میں یہ تمام کام کرچکا ہوں، کیا آپ میرے لیے کوئی رخصت پاتے ہیں ؟ تو آپ نے یہ آیت پڑھی : سوا اس کے جس نے توبہ کرلی اور ایمان لایا اور اس نے نیک کام کئے تو یہ وہ لوگ ہیں جن کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور بےحد رقم فرمانے والا ہے۔ (الفرقان : ٧٠) الحدیث (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٠١٣٩، تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٥٤١٧)
خلاصہ یہ ہے کہ کافر کے اسلام لانے کے بعد اس کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں خواہ ان کا تعلق حقوق اللہ سے ہو خواہ حقوق العباد سے ہو، تو پھر اصل اعتراض باقی رہا کہ ان جنات نے دوسرے جنات سے یہ کہا کہ تم اسلام لے آؤ تمہارے بعض گناہ بخش دیئے جائیں گے جب کہ کافر کے اسلام لانے سے اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔
آیا اطاعت گزار جنات کو ثواب ہوگا یا نہیں ؟
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جنات بھی مکلف ہیں اور کفر کی وجہ سے وہ بھی دائمی عذاب کے مستحق ہوتے ہیں، اس آیت میں صرف یہ بتایا کہ وہ کفر کی وجہ سے دائمی عذاب کے مستحق ہیں اور یہ بتایا ہے کہ ایمان لانے سے ان کو دائمی عذاب سے نجات مل جائے گی۔ لیکن آیا ایمان لانے اور اطاعت کرنے کی وجہ سے ان کو ثواب بھی ہوگا یا نہیں ؟ یہ نہیں بتایا لیکن جن آیات میں عمومی طور پر نیک اعمال کی جزا جنت بتائی ہے ان کا تقاضایہ ہے کہ ان کو بھی نیک اعمال کی نیک جزا دی جائے، جیسے یہ آیت ہے :
” اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَانَتْ لَهمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا “ (الکهف : ١٠٧) بےشک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے ان کے لیے جنات الفردوس کی مہمانی ہے
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : ان کو نیک کاموں پر ثواب ہوگا اور برے کاموں پر عذاب ہوگا اور اس آیت میں صرف دوزخ کے عذاب سے نجات کا ذکر فرمایا ہے اور ثواب کا ذکر نہیں فرمایا کیونکہ یہ مقام ان کو عذاب سے ڈرانے کا ہے۔
اور ایک قول یہ ہے کہ جنات میں سے اطاعت گزاروں کو صرف دوزخ سے نجات ہوگی اور ان کو ثواب نہیں ہوگا اور ان سے صرف یہ کہا جائے گا : کہ تم مٹی ہو جاؤ سو وہ مٹی ہوجائیں گے اور یہ لیث بن ابی سلیم اور ایک جماعت کا مذہب ہے اور امام ابوحنیفہ (رض) کی طرف بھی یہی مذہب منسوب ہے اور علامہ نسفی نے ” تیسیر “ میں کہا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے جنات کے ثواب کے متعلق توقف کیا ہے کیونکہ بندہ کا اللہ تعالیٰ پر کوئی حق نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان سے صرف مغفرت کا اور عذاب سے پناہ میں رکھنے کا وعدہ کیا ہے اور جنت کی نعمتوں کا عطا فرمانا ایک الگ دلیل پر موقوف ہے۔
عمر بن عبد العزیز نے یہ کہا ہے کہ مؤمنین جن، جنت کے گرد ہوں گے جنت میں نہیں ہوں گے اور ایک قول یہ ہے کہ وہ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کو تسبیح اور ذکر کا الہام کیا جائے گا اور وہ اس سے لذت پائیں گے اور علامہ نووی نے ” صحیح مسلم “ کی شرح میں یہ لکھا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ جنات جنت میں داخل ہوں گے اور جنت کی نعمتوں سے لذت پائیں گے اور کھائیں گے اور پئیں گے اور حسن بصری، مالک بن انس، ضحاک اور ابن ابی لیلیٰ وغیرہم کا یہی مذہب ہے۔(روح المعانی جز ٢٦ ص ٥٠، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
علامہ آلوسی نے یہ تمام مذاہب علامہ قرطبی کی ” الجامع الاحکام القرآن “ جز ١٦ ص ٢٠١ سے نقل کئے ہیں،
فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّهُمْ ۭ كَاَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوْعَدُوْنَ ۙ لَمْ يَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَةً مِّنْ نَّهَارٍ ۭ بَلٰــغٌ ۚ فَهَلْ يُهْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَ
اولو العزم کا معنی
اس میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ اولی العزم رسول کتنے ہیں اور کون کون ہیں ؟ سب سے پہلے ہم اولی العزم کا معنی بیان کریں گے، پھر یہ بیان کریں گے کہ مفسرین نے اولی العزم رسولوں میں کن کن رسولوں کو شمار کیا ہے ؟
امام حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :
عزم اور عزیمت کا معنی ہے، کسی کام کو کر گزرنے کے لیے دل کا پختہ ارادہ کرلینا، اس سے مراد وہ عمل ہے جس کے حسن، خوبی اور نیکی کی وجہ سے ہر شخص کو اسے کر گزرنے کا پختہ ارادہ کرلینا چاہیے یا اس کام کی عظمت کی وجہ سے اس کام کو انجام دینا اللہ کی طرف سے بندوں پر پختہ اور لازم کردیا گیا ہو، قرآن مجید میں ہے: ”وَلَقَدْ عَهدْنَـآ اِلٰٓی اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَه عَزْمًا“ (طہ : ١١٥) اور ہم نے اس سے پہلے ہی آدم کو پختہ حکم دے دیا تھا پس وہ بھول گئے اور ہم نے ان کا کوئی عزم نہیں پایا (المفردات ج ٢ ص ٤٣٤، مکتبہ نزار مصطفی، الباز، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)
امام رازی متوفی ٦٠٦ ھ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے : ہم نے معصیت کے ارتکاب پر ان کا کوئی عزم نہیں پایا، اور یہ معنی مدح کے قریب ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس کا معنی ہو : ہم نے ترک معصیت پر آپ کا عزم نہیں پایا، یا ہم نے غفلت سے احتراز اور حفاظت پر آپ کا عزم نہیں پایا، یا کیفیت اجتہاد میں احتیاط کرنے پر آپ کا عزم نہیں پایا، یہ تمام محامل اس صورت میں ہیں جب یہ کہیں کہ آپ سے اجتہادی خطاء واقع ہوئی۔ (تفسیر کبیر ج ٨ ص ١٠٦، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ مجد الدین محمد بن یعقوب فیروز آبادی متوفی ٨١٧ ھ لکھتے ہیں :
کسی کام پر عزم کرنے کا یہ معنی ہے کہ اس کام کو کرنے کا قطعی ارادہ کرلیا یا اس کام میں پوری کوشش اور جدوجہد کی، اولی العزم رسولوں کا معنی ہے : اللہ نے ان سے جس کام کو کرنے کا عہد لیا تھا اس کو کرنے کا انھوں نے عزم کیا اور یہ رسول حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت سیدنا محمد علیہ و (علیہ السلام) ہیں۔ زمخشری نے کہا : یہ رسول اصحاب جدوجہد، ثابت قدم رہنے والے اور صبر کرنے والے ہیں اور یہ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت ایوب، حضرت موسیٰ ، حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ (القاموس المحیط ص ١١٣٧، مؤـسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢٤ ھ)
علامہ جمال الدین محمد بن مکرم ابن منظور افریقی متوفی ٧١١ ھ لکھتے ہیں :
عزم کا معنی ہے : جس کام کو کرنے کا تمہارے دل نے پختہ ارادہ کرلیا اور تم نے اس کام کو کرنے کی اپنے دل میں گرہ باندھ لی۔ حدیث میں ہے : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر سے پوچھا : تم کس وقت وتر پڑھتے ہو ؟ انھوں نے کہا : رات کے ابتدائی حصہ میں، حضرت عمر سے پوچھا : تم کس وقت وتر پڑھتے ہو ؟ انھوں نے کہا : رات کے آخری حصہ میں، آپ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا : تم نے حزم (احتیاط) پر عمل کیا ہے اور حضرت عمر سے فرمایا : تم نے عزم پر عمل کیا ہے۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ١٤٣٤، مسند احمد ج ٣ ص ٣٠٩، سنن بیہقی ج ٣ ص ٣٦۔ ٣٥) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منشاء یہ تھا کہ حضرت ابوبکر نے یہ احتیاط کی کہ کہیں ان کی آنکھ نہ کھلے اس لیے انھوں نے وتر پہلے پڑھے اور حضرت عمر کو تہجد پڑھنے کی اپنی قوت پر اعتماد تھا، اس لیے انھوں نے وتر کو مؤخر کیا اور بغیر احتیاط کے کسی عزم میں خیر نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ہے : ” فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُ (محمد : ٢١) زجاج نے کہا : اس کا معنی ہے : جب امر مؤکد ہوجائے اور قتال لازم ہوجائے، حدیث میں ہے: ”خیر الامور عوازمھا“ (الدارالمنثور ج ٢ ص ٢٢٥، قدیم) یعنی جس چیز پر تمہاری رائے پختہ اور مؤکد ہوجائے اور تم اللہ سے کئے ہوئے عہد کو پورا کرو اور عزم کا معنی صبر کی طاقت ہے اور اولی العزم رسولوں کا معنی ہے : جن رسولوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہد کو پورا کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا اور یہ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور سیدنا محمد (علیہ السلام) ہیں۔ (لسان العرب ج ١٠ ص ١٤٠۔ ١٣٩، مؤسسۃ الرسالۃ، العنایۃ ج ٣ ص ٢٠٩، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
اولو العزم رسولوں کے مصادیق
اولو العزم رسولوں کا معنی بیان کرنے کے بعد اب ہم یہ بیان کرتے ہیں اولی العزم رسول کتنے ہیں اور کون کون ہیں ؟
امام عبد الرزاق بن ہمام صنعانی متوفی ٢١١ ھ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :
قتادہ نے الاحقاف : ٣٥ کی تفسیر میں کہا : یہ رسول حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ ہیں صلوات اللہ علیہم۔ (تفسیر امام عبد الرزاق ج ٢ ص ١٧٨، دارالمعرفۃ، بیروت، ١٤١١ ھ)
امام ابن جریر متوفی ٣١٠ ھ نے عطاء خراسانی سے روایت کیا ہے اولی العزم رسول یہ ہیں : حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ اور سیدنا محمد صلوٰت اللہ علیہم و التسلیمات۔ (رقم الحدیث : ٢٤٢٤٠، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
امام ابو اسحاق احمد بن اباہیم الثعلبی المتوفی ٤٢٧ ھ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ اولی العزم رسول وہ ہیں جو بہت احتیاط کرنے والے ہوں، بہت جدوجہد اور صبر کرنے والے ہوں، ان کی رائے درست ہو، ان کی تعداد میں اختلاف ہے، ابن زید نے کہا : تمام رسول اولی العزم ہیں، اللہ تعالیٰ نے صرف اولی العزم ہی کو رسول بنایا ہے، علی بن مہدی الطبری کا بھی یہی مختار ہے اور آیت ” اولو العزم من الرسل “ (الاحقاف : ٣٥) میں ” من “ تجنیس کے لیے ہے تبعیض کے لیے نہیں ہے اور بعض مفسرین نے کہا : حضرت یونس (علیہ السلام) کے علاوہ تمام انبیاء (علیہم السلام) اولوالعزم ہیں، کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ : ترجمہ : سو آپ اپنے رب کے حکم سے صبرکیجئے اور مچھلی والے (یونس) کی طرح نہ ہوجائیں جنہوں نے غم کی حالت میں اللہ تعالیٰ کو پکارا تھا۔
اور ابومنصور جمشاذی نے ابوبکر رازی سے اور انھوں نے ابوالقاسم الحکیم سے نقل کیا ہے کہ اولوالعزم رسول اٹھارہ ہیں جن کا ذکر انعام 82-86 میں ہے وہ یہ ہیں (١) حضرت ابراہیم (٢) حضرت اسحاق (٣) حضرت یعقوب (٤) حضرت نوح (٥) حضرت داؤد (٦) حضرت سلیمان (٧) حضرت ایوب (٨) حضرت یوسف (٩) حضرت موسیٰ (١٠) حضرت ہارون (١١) حضرت زکریا (١٢) حضرت یحییٰ (13) حضرت عیسیٰ (١٤) حضرت الیاس (١٥) حضرت اسماعیل (١٦) حضرت الیسع (١٧) حضرت یونس اور (18) حضرت لوط علیہم السلام، ان انبیاء کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کذالک نجزی المحسنین انعام 84) ہم اسی طرح محسنین کو جزا دیتے ہیں کل من الصلحین یہ سب صالح رسول ہیں۔ انعام 85) کلا فضلنا علی العلمین (انعام 86) ہم نے ان سب رسولوں کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی ہے۔
اولئک الذی ھدی اللہ فبھدیھم اقتدہ (انعام 90) ان تمام نبیوں کو اللہ نے ہدایت دی ہے سو آپ ان کی ہدایت کی پیروی کیجئے (یعنی ان کے تمام انفرادی مح اس اور کمالات کو اپنی سیرت میں جمع کرلیجئے۔
ابو علی حبش مقری نے کہا : اولو العزم بارہ نبی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے شام میں بنی اسرائیل کی طرف بھیجا تھا اور ان کی طرف یہ وحی فرمائی کہ میں تمہیں نافرمان بنی اسرائیل کی طرف بھیج رہا ہوں، ان پر یہ حکم دشوار ہوا تو ان کی طرف اللہ سبحانہ نے یہ وحی فرمائی کہ تم جس چیز کو چاہو اختیار کرلو اگر تم چاہو تو میں تم پر عذاب (مصائب) نازل کروں اور بنی اسرائیل کو نجات دے دوں اور اگر تم چاہو تو میں بنی اسرائیل پر اپنا عذاب بھیجوں، انھوں نے باہم مشورہ کر کے یہ فیصلہ کیا کہ ان پر مصائب کو نازل کیا کردئیے، سو بعض نے ان کو آرے سے چیز ڈالا اور بعض کے چہرے اور باقی جسم کی کھال اتارلی اور بعض کو سولی پر چڑھا دیا اور بعض کو آگ میں جلا دیا۔
ایک قول یہ ہے کہ اولوالعزم رسول سات ہیں : حضرت نوح، حضرت ھود، حضرت صالح، حضرت لوط، حضرت شعیب، حضرت موسیٰ (علیہم السلام) اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کا ذکر ” الشعراء “ میں ہے۔
ایک قول یہ ہے کہ اولی العزم رسول پانچ ہیں جن پر شریعت (جدیدہ) نازل ہوئی : حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ (علیہم السلام) اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔
مقاتل نے کہا : اولوالعزم چھ رسول ہیں : حضرت نوح (علیہ السلام) جن کو ان کی قوم نے اذیت پہنچائی حتیٰ کہ ان کی قوم ان کو اس قدر مارتی کہ وہ بےہوش ہوجاتے اور انھوں نے اس اذیت رسانی پر صبر کیا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جنہوں نے آگ میں جلائے جانے پر صبر کیا اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) جنہوں نے ذبح کیے جانے پر صبر کیا (صحیح یہ ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہیں جیسا کہ ہم نے الصفت میں بیان کیا) اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) جنہوں نے اپنے بیٹے کے گم ہونے پر صبر کیا اور بینائی کے جانے پر صبر کیا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) جنہوں نے کنویں میں ڈالے جانے پر صبر کیا اور قید میں ڈالے جانے پر صبر کیا اور حضرت ایوب (علیہ السلام) جنہوں نے اپنی بیماری پر صبر کیا۔
حسن بصری نے کہا : اولوالعزم چار سول ہیں :ـ حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ ، حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا عزم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا : ”أسلم“ اسلام لاؤ، تو انھوں نے کہا: ”أسلمت لرب العلمین“ (البقرہ : ١٣١) میں نے رب العلمین کے سامنے سر تسلیم خم کردیا، پھر ان کو ان کے مال، ان کی اولاد، ان کے وطن اور ان کی جان کی آزمائش میں مبتلا کیا گیا تو وہ ہر آزمائش میں سچے اور پورے اترے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عزم یہ ہے کہ جب ان سے ان کی قوم نے کہا : ” إنا المدرکون “ (الشعراء : ١٢) ہم کو پکڑ لیا جائے گا، تو انھوں نے فرمایا: ”کلا إن معي ربي سیھدین (الشعراء : ٦٢ ) “ ہرگز نہیں میرے ساتھ ہے میرا رب وہ عنقریب مجھے ہدایت دے گا، اور رہے حضرت داؤد (علیہ السلام) تو ان کا عزم یہ ہے کہ ان سے ایک خطا ہوگئی پھر ان کو اس پر تنبیہ کی گئی اور چالیس سال تک وہ اپنی خطا پر نادم رہے حتیٰ کہ ان کے آنسوؤں سے ایک درخت اگ گیا اور وہ اس کے سائے میں بیٹھ گئے اور رہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تو ان کا عزم یہ ہے کہ انھوں نے دنیا میں ایک اینٹ پر دوسری اینٹ نہیں رکھی اور کہا : یہ دنیا عبرت کی جگہ ہے تم یہاں پر تعمیر نہ کرو، تو گویا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ فرمایا : آپ اس طرح صبر کیجئے جس طرح ہمت والے رسولوں نے صبر کیا تھا۔ (الاحقاف : ٣٥) یعنی حضرت ابراہیم کی طرح آزمائش میں پورے اتریں اور حضرت موسیٰ کی طرح اللہ کی نصرت پر اعتماد رکھیں اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کی طرح کثرت سے استغفار کریں اور حضرت عیسیٰ کی طرح دنیا سے بےرغبت رہیں۔
ابو العالیہ نے کہا : اولوالعزم رسول تین ہیں : حضرت نوح، حضرت ہود اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے چوتھے ہیں، آپ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپ بھی ان کی طرح صبر کریں۔ (الکشف والبیان ٩ ص ٢٦۔ ٦٤، ملخصا، دار احیاء التراث العربی، بیروت ١٤٢٢ ھ)
اولوالعزم رسولوں پر سب سے زیادہ تفصیل سے ان ہی (علامہ ثعلبی) نے لکھا ہے اور بعد والوں نے ان کی خوشی چینی کی ہے۔ علامہ ابو عبداللہ قرطبی مالکی متوفی ٦٦٨ ھ نے ان کی پوری تفسیر کو اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن جز ١٦ ص ٢٠٤۔ ٢٠٣) اور علامہ سید محمود آلوسی نے ان کی تفسیر کا اکثر حصہ اپنی تفسیر میں نقل کردیا ہے۔ ٠ روح المعانی جز ٢٦ ص ٥٤۔ ٥٣) امام فخر الدین رازی متوفی ٦٠٦ ھ نے ان کی تفسیر میں سے مقاتل، ھسن بصری اور ابن زید کے اقوال نقل کیے، لیکن قائلین کی طرف نسبت نہیں کی۔ (تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٣١۔ ٣٠) علامہ عبداللہ بن عمر بیضاوی متوفی ٦٨٥ ھ نے مقاتل اور ابن زید کا نام لیے بغیر ان کے اقوال کا ذکر کیا ہے۔ (تفسیر بیضاوی مع الخفا جی ج ٨ ص ٤٨٥۔ ٤٨٣)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.