ترجمہ اور تفسير سورہ اعلى
ترتيب: محمد ہاشم قاسمى بستوى
بسم الله الرحمن الرحيم
سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى (1)
﴿اے نبی ؐ ﴾ اپنے ربِّ برتر کے نام کی تسبیح کرو
الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّى (2)
جس نے پیدا کیا اور تناسُب قائم کیا،
وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَى (3)
جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی،
وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعَى (4)
جس نے نباتات اُگائیں
فَجَعَلَهُ غُثَاءً أَحْوَى (5)
پھر اُن کو سیاہ کُوڑا کرکٹ بنا دیا۔
سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى (6)
ہم تمہیں پڑھوا دیں گے، پھر تم نہیں بھولو گے
إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ إِنَّهُ يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَمَا يَخْفَى (7)
سوائے اُس کے جو اللہ چاہے ، وہ ظاہر کو بھی جانتا ہے اور جوکچھ پوشیدہ ہے اُس کو بھی۔
وَنُيَسِّرُكَ لِلْيُسْرَى (8)
اور ہم تمہیں آسان طریقے کی سہولت دیتے ہیں،
فَذَكِّرْ إِنْ نَفَعَتِ الذِّكْرَى (9)
لہٰذا تم نصیحت کرو اگر نصیحت نافع ہو۔
سَيَذَّكَّرُ مَنْ يَخْشَى (10)
جو شخص ڈرتا ہے وہ نصیحت قبول کر لے گا،
وَيَتَجَنَّبُهَا الْأَشْقَى (11) الَّذِي يَصْلَى النَّارَ الْكُبْرَى (12)
اور اس سے گریز کرے گا وہ انتہائی بد بخت جو بڑی آگ میں جائے گا،
ثُمَّ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَى (13)
پھر نہ اس میں مرے گا اور نہ جیے گا۔
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى (14)
فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی
وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى (15)
اور اپنے ربّ کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی۔
بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (16)
مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو،
وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى (17)
حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔
إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُولَى (18)
یہی بات پہلے آئے ہوئے صحیفوں میں بھی کہی گئی تھی،
صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى (19)
ابراہیم ؑ اور موسیٰ ؑ کے صحیفوں میں۔
تعارف سورة الاعلیٰ
یہ ترتیب کے لحاظ سے 87 ویں نمبر پر آتی ہے یہ بھی قیام مکہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی اس میں 9 آیات اور ایک رکوع ہے۔
یہ چھوٹی سی سورت مختلف علوم کا سر چشمہ ہے۔ یعنی مذہبی روحانی، اخلاقی، اور طبیعاتی علوم کو بڑے ہی جامع اور مختصر الفاظ میں بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ اور ان عقائد کی روشنی میں جنت و دوزخ کی راہوں کو بڑا نمایاں کیا گیا ہے۔ توحید و رسالت اور آخرت پر یقین ہماری زندگی کو پاک و صاف روشن اور پر سکون بنا دیتا ہے اور یہی عقائد ہمیں غیر مسلموں سے علیحدہ ایک بلندو کامیاب درجہ عطا کرتے ہیں۔ اور یہی سبق ہمیشہ تمام رسولوں نے دیا۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے یہ سبق سیکھا عمل کیا اور دوسروں کو سکھایا اور بد نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس سبق سے دوری اختیار کی اور شیطان کے بھائی بند بن گئے۔
تشریح
ان آیات ہی میں شروع سے لے کر آخر تک نبی کریم خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کرے ہوئے چند بنیادی اصولوں کی تعلیم دی گئی ہے۔ فرمایا:
اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اپنے اس پروردگار کی پاکیزگی یعنی حمدو ثنا بیان کرتے رہییے جو سب سے بلندو برتر اور اعلیٰ ہے۔
اسی نے انسان کو بالکل ٹھیک اور درت بنا کر اس کی ایک انداز پر رہنمائی کی ہے۔ یعنی وہی پیدا کرنے والا ہے لیکن وہ پیدا کرکے بھول نہیں گیا بلکہ اس کی تقدیر لکھ کر اس کو راستہ دکھایا اور اس کی اصلاح کے اصول نازل فرمائے تاکہ وہ اپنے کاموں کو اسی طرح انجام دے جس طرح اس کو ہدایت دی گئی ہے۔
اسی نے انسانوں کی رہمنائی کے لیے اپنا کلام اور ان کے جسم کی بقا کے لیے اگر اسباب رزق پیدا کئے ہیں تو اس نے جانوروں کے لیے ایسا چارہ پیدا کیا ہے کہ اگر وہ تروتازہ رہتا ہے تو اس کا اپنا لطف ہے اور اگر وہ خشک ہو کر سیاہ کوڑا بن جائے تب بھی وہ جانوروں کے لیے وہی لطف دیتا ہے جس طرح ہرا چارہ۔
اسی نے انسانوں کی ہدایت کے لیے اپنا کلام نازل کیا جس کی حفاظت کی ذمہ داری اس نے خود اپنے اوپر لے رکھی ہے۔ وہی اس کی حفاظت کرتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اللہ کی طرف سے نازل کی گئی وحی کو یاد کرنے کی کوشش کرتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اندیشہ رہتا کہ کہیں میں اس کو بھول نہ جاؤں فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اس کی پروا نہ کریں ہم آپ کی طرف جو وحی بھیجیں گے اس کو ہم اس طرح آپ کو سکھائیں گے اور پڑھائیں گے کہ آپ اس کو بھول نہ سکیں گے۔ ہاں خود ہم ہی چاہیں گے تو اس کلام کو واپس بھی لے سکتے ہیں یا اس کو منسوخ کرکے دوسرا کلام بھی بھیج سکتے ہیں۔ اس بات کو اللہ بہتر جانتا ہے جو ہر چیز کے پوشیدہ اور کھلے ہوئے ہر راز سے واقف ہے۔ لہٰذا اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اس کی فکر نہ کریں کہ قرآن یعنی وحی الٰہی کی حفاظت کیسے ہوگی؟
وہی اللہ آپ کو دی کے فروگ اور ترقی کے لیے ہر طرح کی آسانیاں عطا فرمائے گا۔ آپ تو اس کلام کے ذریعہ لوگوں کو نصیحت کرتے رہیے۔ جس کے مقدر میں یہ سعادت ہے کہ وہ سن کر اس پر عمل کرے گا۔ سوچ سمجھ کر اور غوروفکر کرکے جو اس کا اثر قبول کرے گا وہی خوش نصیب ہے۔ آپ تو نصیحت کرتے رہیے اگر نصیحت کرنا مفید ہو۔ اور یقینا نصیحت تو انسان کو فائدہ ہی دیتی ہے جو بھی تقویٰ اور پرہیزگاری کی زندگی کو اختیار کرتا ہے وہ آپ کی نصیحت سے پورا پورا فائدہ حاصل کرے گا لیکن بد نصیب انسان آپ کی نصیحت کو قبول کرنے کے بجائے اس سے بھاگے گا۔ فرمایا کہ ایسے بدنصیب لوگوں کا انجام یہ ہے کہ ان کو اس بڑی آگ میں جھونکا جائے گا جس میں نہ وہ مریں گے نہ جبیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کامیاب تو صرف وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو عقیدہ، عمل اور اخلاق کی گندگی سے دور رکھ کر اپنے رب کو یاد کیا اور نمازوں کو قائم کیا۔ لیکن وہ سخت بدنصیب اور ناکام لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی زیب وزینت، خوبصورتی ترجیح دی حالانکہ آخرت کی زندگی تو وہ ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ دنیا کی زندگی تو وقتی اور عارضی ہے اس میں کسی چیز کو بھی بقا نہیں ہے بقا تو صرف آخرت کی زندگی کو ہے۔
فرمایا کہ یہ سچائیاں جو قرآن کریم میں ہیں تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) ان ہی سچائیوں کو لے کر آتے رہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے صحیفوں یعنی کتابوں میں ان ہی سچائیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ روایت کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دس (١٠) صحیفے دئیے گئے تھے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو توراۃ کے علاوہ دس (١٠) صحیفے اور عطاکئے گئے تھے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) پر نازل کی گئی سچائیوں کا اختیار کرکے اپنی عاقبت درست کرنے کی تو فقی عطا فرمائے۔ آمین۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.