ترجمہ اور مختصر تفسير سورہ علق
مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ يوپى انڈيا۔
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿1﴾
پڑھیے اپنے اس رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔
خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿2﴾
جس نے انسان کو ایک خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔
اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ﴿3﴾
آپ پڑھئیے آپ کا رب بہت کریم ہے۔
الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ﴿4﴾
جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی۔
عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ﴿5﴾
جس نے انسان کو وہ چیزیں سکھائین جنہیں وہ جانتا تک نہ تھا۔
كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَىٰ ﴿6﴾
ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بیشک انسان حد سے نکل جانے والا ہے۔
أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَىٰ ﴿7﴾
اس لیے کہ وہ اپنے آپ کو اپنے رب سے) بےنیاز سمجھتا ہے۔
إِنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ الرُّجْعَىٰ ﴿8﴾
بلاشبہ آپ کے رب کی طرف ہی پلٹ کر آنا ہے۔
أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَىٰ ﴿9﴾
بھلا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو منع کرتا ہے؟
عَبْدًا إِذَا صَلَّىٰ ﴿10﴾
ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھتا ہے۔
أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ عَلَى الْهُدَىٰ ﴿11﴾
بھلا آپ ہی بتلائیں کہ اگر وہ بندہ راہ راست پر ہو؟
أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَىٰ ﴿12﴾
یا پرہیزگاری کی تلقین کرتا ہو؟
أَرَأَيْتَ إِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ ﴿13﴾
بھلابتائیے توسہی (اگر یہ منع کرنے والاشخص) دین حق کی تکذیب کرتا ہو اور اس سے روگردانی کرتا ہو؟
أَلَمْ يَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّهَ يَرَىٰ ﴿14﴾
کیا اسے معلوم نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے؟
كَلَّا لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ ﴿15﴾
ہرگز نہیں ! اگر یہ شخص باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر اس کو گھسیٹیں گے۔
نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ ﴿16﴾
وہ پیشانی جو جھوٹی اور خطا کار ہے
فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ ﴿17﴾
وہ اپنے ہم نشینوں (ساتھیوں) کو آواز دے کر بلا لے۔
سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ ﴿18﴾
پھر ہم بھی دوزخ کے فرشتوں کو بلاتے ہیں۔
كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ ۩ ﴿19﴾
ہرگز آپ اس کا کہا نہ مانئے۔ سجدہ کیجئے اور اس (پروردگار) کا قرب حاصل کیجئے۔
تشريح
یہ قرآن مجید کی پہلی وحی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی۔ عائشہ سے مروی ایک لمبی حدیث میں وحی کے آغاز کا ذکر ہے کہ وہ سچے خوابوں سے ہوا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غار حرا میں کئی کئی راتیں خلوت اختیار کرنے لگے۔ وہیں آپ کے پاس فرشتہ آیا اور آپ سے کہا :(اقرأ)” پڑھ “ آپ نے کہا :(ما انا بقاری)” میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ “ جبرائیل امين نے آپ کو زور د سے دبایا اور پھر یہ لفظ ” اقرأ “ کہا۔ آپ وہی جواب ” ما أنا بقاری “ دیتے رہے۔ تیسری دفعہ زور سے دبانے کے بعد فرشتے نے کہا :(اقرا باسم ربک الذی خلق، خلق الانسان من علق ، اقرا و ربک الاکرم ، الذی علم بالقلم ، علم الانسان مالم یعلم (العلق : ١ تا ٥) (دیکھے بخاری، التفسیر، باب : ٣٨٥٣)
﴿خلق الانسان من علق﴾ رحم میں قرار پکڑنے کے بعد نطفہ سب سے پہلے ” علقہ “ کی شکل اختیار کرتا ہے ۔” علق یعلق “ (باب سمع) چمٹنے کو کہتے ہیں۔ ” علقہ “ جما ہوا خون، جو رحم کی دیوار کے کسی حصے سے چپک جاتا ہے۔ ” علقہ “ کا دوسرا معنی جونک ہے، وہ بھی کسی نہ کسی کو چمٹ جاتی ہے۔ خون کی وہ پھٹکی شکل و صورت میں جونک سے ملتی جلتی ہوتی ہے، اس میں نہ جان ہوتی ہے نہ شعور اور نہ عقل و علم۔ پھر اللہ تعالیٰ اس حقیر سی پھٹکی سے انسان جیسی عظیم مخلوق پیدا فرما دیتا ہے۔
﴿اقرا و ربک الاکرم﴾: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دہشت زدہ ہوجانے کی وجہ یس دوبارہ فرمایا، پڑھ ! تجھے وہ پڑھا رہا ہے جس سے زیادہ کرم والا کوئی نہیں۔
یہ اس کے کرم کی انتہا ہے کہ اتنی حقیر چیز سے پیدا ہونے والے انسان کو علم جیسی بلند ترین صفت سے نواز دیا، بلکہ قلم کے ساتھ علم سکھایا، جس سے علم محفوظ ہوتا اور ایک آدمی سے دوسرے آدمی اور ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچتا ہے۔ یہ نہ ہوتا تو علم محدود اور پھر معدوم ہوجاتا۔
﴿کلا ان الانسان لیطغی﴾ یہ آیات پہلی پانچ آیات کے بعد وقفہ سے نازل ہوئیں، جب ابوجہل نے آپ کو نماز پڑھنے سے روکا۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے کہ ابوجہل آیا اور کہنے لگا: ” کیا میں نے تمہیں اس سے منع نہیں کیا؟ “ یہ بات اس نے تین بار کہی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز سے فارغ ہوئے تو اسے ڈانٹا، اس پر ابوجہل کہنے لگا : ” تم جانتے ہو اس شہر میں ميرى مجلس کے ہمنشينوں سے زيادہ تعداد كسى كى نہيں ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اتاریں :(فلیدع نادیہ، سندع الربانیة) (ترمذی : ٣٣٣٩) ۔
سورت کی ابتدائی پانچ آیات کے ساتھ ان آیات کی مناسبت یہ ہے کہ انسان اتنی نعمتیں جو اوپر ذکر ہوئیں، ملنے کے باوجود احسان ماننے اور شکر کرنے کے بجائے سرکشی اختیار کرتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ اسے ضرورت کی ہر چیز دے کر دوسروں سے غنی کردیتا ہے تو وہ بندگی کی حد سے نکل کر مقابلے پر آجاتا ہے۔ فرمایا، بندے ! جتنی چاہے سرکشی کرلے، یقیناً تجھے اپنے رب کے پاس واپس آنا ہے۔
﴿کلا لئن لم ینته ، لنسفعاً ﴾: ”لم ینته“ (وہ باز نہ آیا) ”انتھی ینتھي انتھاء“ (افتعال) سے حجد بلم ہے۔ ” ینته “ اصل میں ”ینتھي“ تھا، حرف جزم ”لم“ کی وجہ سے یاء گرگئی۔ ” لنسفعاً “ اصل میں ”لنسفعن“ ہے، جو ”سفع یسفع“ (باب فتح) (زور سے کھینچ کر گھسیٹنا) سے جمع متکلم مضارع معروف بانون تاکید خفیہ ہے۔ چونکہ وقف کی حالت میں نون تاکید خفیفہ (الف) کے ساتھ بدل جاتا ہے، جیسا کہ نون تنوین (الف) کے ساتھ بدل جاتا ہے، اس لیے نون تنوین ” خبیراً “ اور ” بصیرات “ کی طرح اسے بھی ”لنستفعن“ کے بجائے ”لنسفعاً “ کی صورت میں لکھا گیا ہے اور اس میں مصحف عثمانی کی پیروی کی گئی ہے۔ ”ولیکونا من الصغرین“ بھی ایسے ہی ہے۔
”الناصیة“ سر کے اگلے حصے کے بالوں کو ” ناصیہ “ کہا جاتا ہے۔” الزبانیة “ ” زبنیة “ کی جمع ہے۔ عرب پولیس کے سپاہی کو ”زبنیة“ کہتے ہیں۔ یہ ”زبن یزبن زبنا“ (باب ض) سے مشتق ہے جس کا معنی ” ہٹانا ، دھکا دینا “ ہے۔ چونکہ افسر جس سے ناراض ہو سپاہی اسے دھکے مار کر نکال دیں گے، بلکہ اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔
ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ابوجہل نے کہا : ” کیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے ہوتے ہوئے اپنا چہرہ زمین پر رکھتا ہے؟ “ کہا گیا : ”ہاں!“ ابوجہل نے کہا : ” لات اور عزیٰ کی قسم ! اگر میں نے اسے ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا تو اس کی گردن روند ڈالوں گا، یا اس کے چہرے کو مٹی سے لت پت کر دوں گا۔ “ چنانچہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، آپ اس وقت نمازپڑھ رہے تھے۔ اس کا ارادہ آپ کی گردن کو روندنے کا تھا، اچانک لوگوں نے دیکھا کہ وہ ایڑیوں پر واپس پلٹ رہا ہے اور دونوں ہاتھوں کے ساتھ کسی چیز سے بچ رہا ہے۔ اس سے پوچھا گیا : ” تجھے کیا ہوا ؟ “ اس نے کہا : ” میرے اور اس کے دریمان آگ کی ایک خندق، بڑا ہول ناک منظر اور پر ہیں۔ “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: لو دنا مني لاختطفته الملائکة عضوا عضواً (صحيح مسلم: ٢٨٩٨)” اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اسے ایک ایک عضو کر کے اچک لیتے۔ “
﴿کلا لاتطعه واسجد واقترب﴾: فرمایا : وہ آپ کو نماز سے روکتا ہے تو آپ اس کا کہنا ہرگز نہ مانیں، بلکہ آپ نماز پڑھتے، سجدہ کرتے اور اللہ تعالیٰ کا رقب حاصل کرتے رہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: أقرب ما یکون العبد من ربه وھو ساجد فاکثرو الدعاء. (مسلم ، الصلاۃ ، باب ما یقال فی الرکوع و السجود ؟: ٣٨٢)” بندہ اللہ کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہو تو تم (سجدے میں) دعا زیادہ کيا کرو۔ “ صحیح مسلم ہی میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت پر سجدہ کرتے تھے۔ (دیکھیے مسلم، المساجد، باب سجود التلاوۃ : ١٠٨/٥٨٨)
اگرچہ ان آیات کا اولین مصداق ابوجہل ہے، مگر الفاظ عام ہونے کی وجہ سے ہر وہ شخص ان کا مصداق ہے جس میں یہ سجدہ کرتا رہے اور اس کا قرب تلاش کرتا رہے۔
نکتہ : اس سورة کا ابتدائی حصہ علم کی فضلیت پر دلالت کرتا ہے اور باقی مال کی مذمت کی دلالت کرتا ہے اس سے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ علم پسندیدہ اور مرغوب چیز ہے اور مال نفرت کے قابل چیز ہے ( تفسیر عزیزی)
اس سورت كے بارے ميں مزيد تفصيل كے ليے كلك كريں
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.