ترجمہ اور تفسير سورہ دخان
مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ۔
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے۔
حم ﴿1﴾
حـم۔ (حروف مقطعات میں سے ایک ہے ) ۔
وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ ﴿2﴾
قسم ہے واضح کردینے والی کتاب کی۔
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ ﴿3﴾
بیشک اس کو ہم نے ایک مبارک رات میں اتارا ہے۔ بیشک ہم لوگوں کو آگاہ کردینے والے تھے۔
فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ﴿4﴾
اس رات میں ہر حکمت بھرے معاملہ کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔
أَمْرًا مِنْ عِنْدِنَا ۚ إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ ﴿5﴾
حکم جو ہماری طرف سے ہے اسے ہم ہی بھیجنے والے ہیں۔
رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿6﴾
یہ آپ کے رب کی رحمت ہے بیشک وہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔
رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ إِنْ كُنْتُمْ مُوقِنِينَ ﴿7﴾
آسمانوں اور زمین میں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے وہ سب کا پروردگار ہے۔ اگر تم یقین کرنے والے ہو۔
لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ رَبُّكُمْ وَرَبُّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ ﴿8﴾
اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ وہ تمہارا رب ہے اور تم سے پہلے تمہارے باپ داداکا بھی پروردگار ہے۔
بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ يَلْعَبُونَ ﴿9﴾
بلکہ وہ شک میں پڑے ہوئے کھیل رہے ہیں۔
فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ ﴿10﴾
( اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کے لیے ایک ایسے دن کا انتظار کیجئے جس دن آسمان سے صاف و شفاف دھواں ظاہر ہوگا۔
يَغْشَى النَّاسَ ۖ هَٰذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿11﴾
جو لوگوں کو گھیر لے گا۔ وہ ایک درد ناک عذاب ہو گا۔
رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ ﴿12﴾
اے ہمارے پروردگار ہم سے اس عذاب کو دور کردیجئے ہم ضرور ایمان لے آئیں گے۔
أَنَّىٰ لَهُمُ الذِّكْرَىٰ وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُبِينٌ ﴿13﴾
ان کو کب (اس سے) نصیحت ہوتی ہے حالانکہ ان کے پاس پیغمبر کھلے ہوئے (دلائل کے ساتھ) آچکا ہے۔
ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَقَالُوا مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ ﴿14﴾
پھر بھی یہ لوگ اس سے سرتابی کرتے رہے اور یہی کہتے رہے کہ یہ سکھایا ہوا ہے دیوانہ ہے۔
إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلًا ۚ إِنَّكُمْ عَائِدُونَ ﴿15﴾
بیشک اگر ہم کچھ ( دنوں کے لئے) اس عذاب کو ہٹا لیں تو پھر تم اسی کو طرف لوٹ جاؤ گے۔
يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَىٰ إِنَّا مُنْتَقِمُونَ ﴿16﴾
جس دن ہم ( ان کی ) سخت گرفت کریں گے تو بیشک ہم ( ان ظالموں سے) زبردست انتقام لیں گے۔
وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَاءَهُمْ رَسُولٌ كَرِيمٌ ﴿17﴾
اور یقینا ہم نے ان سے پہلے قوم فرعون کو آزمایا تھا جب ان کے پاس ایک معزز پیغمبر ( حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو) بھیجا گیا تھا
أَنْ أَدُّوا إِلَيَّ عِبَادَ اللَّهِ ۖ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ ﴿18﴾
( اور اس نے کہا تھا کہ) تم اللہ کے بندوں ( بنی اسرائیل) کو میرے حوالے کر دو ۔ میں تمہارے لیے ایک دیانت دار رسول ہوں۔
وَأَنْ لَا تَعْلُوا عَلَى اللَّهِ ۖ إِنِّي آتِيكُمْ بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ ﴿19﴾
اور یہ کہ تم اللہ سے سرکشی نہ کرو میں تمہارے سامنے واضح دلیل پیش کرتا ہوں،
وَإِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُمْ أَنْ تَرْجُمُونِ ﴿20﴾
اور میں پناہ چاہتا ہوں اپنے پروردگار اور تمہارے پروردگار کی اس سے کہ تم مجھے سنگسار کرو۔
وَإِنْ لَمْ تُؤْمِنُوا لِي فَاعْتَزِلُونِ ﴿21﴾
پھر اگر تم میرا یقین نہیں کرتے تو مجھ سے الگ ہو جاؤ۔
فَدَعَا رَبَّهُ أَنَّ هَٰؤُلَاءِ قَوْمٌ مُجْرِمُونَ ﴿22﴾
تب (موسیٰ (علیہ السلام) نے) اپنے پروردگار سے دعا کی کہ یہ (بڑے سخت) مجرم لوگ ہیں۔
فَأَسْرِ بِعِبَادِي لَيْلًا إِنَّكُمْ مُتَّبَعُونَ ﴿23﴾
(اللہ نے فرمایا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) تم میرے بندوں کو راتوں رات لے کر نکل جاؤ اور بلاشبہ تمہارا پیچھا کیا جائے گا۔
وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا ۖ إِنَّهُمْ جُنْدٌ مُغْرَقُونَ ﴿24﴾
اور سمندر کو اسی حالت پر ( تھما ہوا) چھوڑ دینا کیونکہ بیشک (فرعون کا) لشکر غرق ہونے والا ہے۔
كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ﴿25﴾
ان لوگوں نے کتنے ہی باغ اور چشمے چھوڑے۔
وَزُرُوعٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ ﴿26﴾
اور کتنی ہی کھیتیاں اور بہترین مکانات چھوڑے۔
وَنَعْمَةٍ كَانُوا فِيهَا فَاكِهِينَ ﴿27﴾
اور وہ نعمتیں جنہیں وہ مزے لے کر کھاتے تھے ( سب چھوڑنے پر مجبور کردیئے گئے)
كَذَٰلِكَ ۖ وَأَوْرَثْنَاهَا قَوْمًا آخَرِينَ ﴿28﴾
اور اس طرح ہم نے ان سب چیزوں کا مالک دوسری قوم ( بنی اسرائیل) کو بنا دیا۔
فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنْظَرِينَ ﴿29﴾
پس نہ ان پر آسمان نے آنسو بہائے اور نہ زمین ہی نے اور نہ وہ مہلت پانے والے ہی بنے۔
وَلَقَدْ نَجَّيْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُهِينِ ﴿30﴾
اور بیشک ہم نے بنی اسرائیل کو فرعون کے سخت ذلت والے عذاب سے نجات دی۔
مِنْ فِرْعَوْنَ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَالِيًا مِنَ الْمُسْرِفِينَ ﴿31﴾
یعنی فرعون سے۔ بیشک وہ بڑا ہی سرکش، حدود سے نکل جانے والا تھا۔
وَلَقَدِ اخْتَرْنَاهُمْ عَلَىٰ عِلْمٍ عَلَى الْعَالَمِينَ ﴿32﴾
اور بیشک ہم نے جان بوجھ کر بنی اسرائیل کو اہل عالم پر فضلیت دی تھی۔
وَآتَيْنَاهُمْ مِنَ الْآيَاتِ مَا فِيهِ بَلَاءٌ مُبِينٌ ﴿33﴾
اور ہم نے ان کو ایسی نشانیاں دکھائیں جن میں کھلی آزمائش تھی۔
إِنَّ هَٰؤُلَاءِ لَيَقُولُونَ ﴿34﴾
اور ( کفار قریش) یہ کہتے ہیں
إِنْ هِيَ إِلَّا مَوْتَتُنَا الْأُولَىٰ وَمَا نَحْنُ بِمُنْشَرِينَ ﴿35﴾
کہ بس یہی موت ہی (ہمارا آخری انجام) ہے اور ہم دوبارہ زندہ نہ ہوں گے
فَأْتُوا بِآبَائِنَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴿36﴾
اگر تم سچے ہو تو ہمارے گزرے ہوئے باپ داد کو ( زندہ کر کے) لے آؤ۔
أَهُمْ خَيْرٌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ أَهْلَكْنَاهُمْ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ ﴿37﴾
تو کیا یہ لوگ بڑھ چڑھ کر ہیں یا قوم تبع والے اور جو لوگ ان سے بھی پیشتر ہوئے ہیں، ہم نے ان تک کو ہلاک کرڈالا اس لیے کہ وہ نافرمان تھے۔
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ ﴿38﴾
اور آسمان اور زمین اور جو ان کے درمیان ہے، یہ سب ہم نے یونہی خواہ مخواہ نہیں بنا ڈالا،
مَا خَلَقْنَاهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿39﴾
ہم نے ان کو کسی حکمت ہی سے بنایا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔
إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقَاتُهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿40﴾
بیشک فیصلہ کا دن ان سب کا وقت مقرر ہے،
يَوْمَ لَا يُغْنِي مَوْلًى عَنْ مَوْلًى شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ ﴿41﴾
جس دن کوئی تعلق والا کسی تعلق والے کے کام نہ آئے گا اور نہ ان کی حمایت ہی کی جائے گی،
إِلَّا مَنْ رَحِمَ اللَّهُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ ﴿42﴾
ہاں مگر وہ جس پر اللہ رحم فرمائے۔ بیشک وہی عزیز و رحیم ہے۔
إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ ﴿43﴾
بیشک زقوم کا درخت،
طَعَامُ الْأَثِيمِ ﴿44﴾
گناہ گاروں کی غذا ہوگی
كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ ﴿45﴾
تیل کی تلچھٹ کی طرح پیٹ میں کھولے گا،
كَغَلْيِ الْحَمِيمِ ﴿46﴾
تیز گرم پانی کی طرح،
خُذُوهُ فَاعْتِلُوهُ إِلَىٰ سَوَاءِ الْجَحِيمِ ﴿47﴾
اس کو پکڑو، پھر گھسیٹتے ہوئے لے جاؤ دوزخ کے بیچ تک،
ثُمَّ صُبُّوا فَوْقَ رَأْسِهِ مِنْ عَذَابِ الْحَمِيمِ ﴿48﴾
جاؤ پھر اس کے سر پر گرم پانی کا عذاب بہاؤ۔
ذُقْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ ﴿49﴾
( کہا جائے گا کہ) مزا چکھ کیونکہ تو بڑی عزت والا اور بڑی شان والا تھا
إِنَّ هَٰذَا مَا كُنْتُمْ بِهِ تَمْتَرُونَ ﴿50﴾
یہی وہ چیز ہے جس کے باب میں تم شک کیا کرتے تھے۔
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامٍ أَمِينٍ ﴿51﴾
اللہ سے ڈرتے والے بیشک امن کی جگہ میں ہوں گے،
فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ﴿52﴾
وہ باغوں اور چشموں میں ہوں گے
يَلْبَسُونَ مِنْ سُنْدُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُتَقَابِلِينَ ﴿53﴾
وہ باریک اور دبیز ریشم کا لباس پہنے ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔
كَذَٰلِكَ وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ عِينٍ ﴿54﴾
یہ بات اسی طرح ہے، اور ہم ان کی زوجیت میں دے دیں گے گوری گوری بڑی بڑی آنکھوں والیوں کو،
يَدْعُونَ فِيهَا بِكُلِّ فَاكِهَةٍ آمِنِينَ ﴿55﴾
وہ اطمینان و سکون سے ہر طرح کے پھل طلب کررہے ہوں گے
لَا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الْأُولَىٰ ۖ وَوَقَاهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ ﴿56﴾
اور وہاں سوائے اس موت کے جو دنیا میں آ چکی تھی کسی اور موت کا مزہ نہ چکھیں گے۔ اور اللہ ان کو جہنم کے عذاب سے بچا لے گا
فَضْلًا مِنْ رَبِّكَ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿57﴾
آپ کے پروردگار کے فضل سے ہوگا، یہی بڑی کامیابی ہے۔
فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ﴿58﴾
سو ہم نے اس (قرآن) کو آپ کی زبان میں آسان کردیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں ،
فَارْتَقِبْ إِنَّهُمْ مُرْتَقِبُونَ ﴿59﴾
( آپ ( نتیجے کا) انتظار کیجئے۔ بیشک وہ بھی انتظار کرنے والوں میں سے ہیں۔
تعارف سورة الدخان
مستند روایات کے مطابق یہ سورت اس وقت نازل ہوئی تھی جب اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کے کافروں کو متنبہ کرنے کے لیے ایک شدید قحط میں مبتلا فرمایا، اس موقع پر لوگ چمڑے تک کھانے پر مجبور ہوئے، اور ابو سفیان کے ذریعے کافروں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ قحط دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں، اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اگر قحط دور ہوگیا تو ہم ایمان لے آئیں گے، حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے قحط سے نجات عطا فرمادی، لیکن جب قحط دور ہوگیا تو یہ کافر لوگ اپنے وعدے سے پھرگئے اور ایمان نہیں لائے، اس واقعے کا تذکرہ اس سورت کی آیت نمبر ١٠ تا ١٥ میں آیا ہے، اور اسی سلسلے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ایک آسمان پر دھواں ہی دھواں نظر آئے گا (اس کا مطلب انشاء اللہ اس آیت کی تفسیر میں آئے گا) دھویں کو عربی زبان میں دخان کہتے ہیں اور اسی وجہ سے اس سورت کا نام سورة دخان ہے، سورت کے باقی مضامین توحید رسالت اور آخرت کے اثبات پر مشتمل ہیں۔
سورہ دخان کے خصوصی فضائل
یہ سورة ان اہم سورتوں میں سے ہے جن کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کی نماز میں پڑھا کرتے تھے
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے صبح اٹھ کر حٰم ٓ الدخان کی تلاوت کی، اس کے لیے ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٨٢٨، الکامل لابن عدی ج ٥ ص ١٧٢٠ )
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے جمعہ کی شب حٰم ٓ الدخان کی تلاوت کی اس کی مغفرت کردی جائے گی۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٨٨٩، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٦٢٣٢۔ ٦٢٢٤ )
عبداللہ بن عیسیٰ بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ خبر دی گئی ہے کہ جس شخص نے ایمان اور تصدیق کے ساتھ جمعہ کی شب حٰم ٓ الدخان پڑھی وہ صبح کو بخشا ہوا اٹھے گا، ابورافع کی روایت میں ہے : اس کی بڑی آنکھوں والی حور سے شادی کردی جائے گی۔ (سنن دارمی رقم الحدیث : ٣٤٢٢۔ ٣٤٢١، دارالمعرفۃ، بیروت، ١٤٢١ ھ)
حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مغرب کی نماز میں حٰم ٓ الدخان کی تلاوت کی۔ (الدرالمنثور ج ٧ ص ٣٤٥، داراحیاء التراث العربی، بیروت))
اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ
” لیلۃ مبارکۃ “ سے لیلۃ القدر مراد ہونے کے ثبوت میں آثار
اس آیت میں فرمایا ہے: ہم نے اس کتاب کو ”لیلة مبارکة“ میں نازل فرمایا ہے، لیلہ مبارکہ کا مصداق رمضان کی شب قدر ہے یا شعبان کی پندرھویں شب، اس میں مفسرین کا اختلاف ہے، زیادہ تر مفسرین کا رجحان یہ ہے کہ اس سے مراد رمضان کی شب قدر ہے اور بعض کا مختار ہے کہ اس سے مراد شعبان کی پندرھویں شب ہے، ہم دونوں تفسیروں کو تفصیل سے بیان کریں گے۔پہلے ہم یہ بیان کرتے ہیں کہ اس رات سے مراد رمضان کی شب قدر ہے۔
امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ نے اس سلسلہ میں حسب ذیل روایات بیان کی ہیں :
قتادہ اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں : حضرت سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے صحائف رمضان کی پہلی شب میں نازل ہوئے اور توراۃ چھ رمضان کو نازل ہوئی اور زبور سولہ رمضان کو نازل ہوئی اور انجیل اٹھارہ رمضان کو نازل ہوئی اور قرآن مجید چوبیس رمضان کو نازل ہوا۔ نیز قتادہ نے کہا : لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٣٩٩٨) ابن زید نے اس آیت کی تفسیر میں کہا : یہ رات لیلۃ القدر ہے، اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کو لوح محفوظ سے لیلۃ القدر میں نازل فرمایا، پھر لیلۃ القدر کے علاوہ دوسری راتوں اور دنوں میں دوسرے انبیاء (علیہم السلام) پر نازل فرمایا۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٣٩٩٩)
اور دوسروں نے کہا : اس سے مراد شعبان کی پندرھویں شب ہے۔
علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ نے بھی ان دونوں روایتوں کا ذکر کیا ہے۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٢٤٤) علامہ الحسین بن مسعود البغوی الشافعی المتوفی ٥١٦ ھ لکھتے ہیں :
قتادہ اور ابن زید نے کہا : اس رات سے مراد لیلۃ القدر ہے، اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف اس قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا، پھر بیس سال تک حضرت جبرائیل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا کرکے قرآن نازل کرتے رہے اور دوسروں نے کہا : اس سے مراد شعبان کی پندرھویں شب ہے۔ (معالم التنزیل ج ٤ ص ١٧٢، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٠ ھ)
امام عبدالرحمن بن محمد ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : لیلۃ القدر میں لوح محفوظ نقل کرکے لکھ دیا جاتا ہے کہ اس سال میں کتنا رزق دیا جائے گا، کتنے لوگ مریں گے، کتنے لوگ زندہ رہیں گے، کتنی بارشیں ہوگی، حتی کو لکھ دیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں شخص حج کرے گا۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ١٠ ص ٢٢٨٧، رقم الحدیث : ١٨٥٢٧، مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز، مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)
امام ابواسحاق احمد بن ابراہیم الثعلبی متوفی ٤٢٧ ھ لکھتے ہیں :
قتادہ ابن زید نے کہا : یہ لیلۃ القدر ہے، اللہ سبحانہ نے لیلۃ القدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف قرآن مجیدکونازل فرمایا، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر راتوں اور دنوں میں قرآن مجید کو نازل فرماتا رہا اور دوسروں نے کہا : اس سے مراد شعبان کی پندرھویں شب ہے۔ (الکشف والبیان ج ٨ ص ٣٤٨، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٢ ھ)
حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں :
اس رات سے مراد لیلۃ القدر ہے، عکرمہ سے روایت ہے کہ یہ شعبان کی پندرھویں شب ہے، ان کی یہ حدیث مرسل ہے، جب کہ قرآن مجید میں یہ تصریح ہے کہ شب، لیلۃ القدر ہے۔ عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک زندگی کی مدتیں منقطع ہوجاتی ہیں، حتیٰ کہ ایک شخص نکاح کرتا ہے اور اس کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے اور اس کا نام مردوں میں لکھا ہوا ہوتا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ١٤٩، دارالفکر، بیروت، ١٤١٩ ھ)
” لیلۃ مبارکۃ “ سے لیلۃ القدر مراد ہونے پر دلائل
امام فخر الدین محمد عمر رازی شافعی متوفی ٦٠٦ ھ نے بکثرت دلائل سے ثابت کیا ہے کہ لیلہ مبارکہ رمضان کی لیلۃ القدر ہے، وہ لکھتے ہیں :
(١) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : إنا أنزلناه في لیلة القدر (القدر :1) بیشک ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا اور یہاں فرمایا ہے : انا انزلنہ فی لیلۃ مبرکۃ۔ (الدخان :3) بیشک ہم نے قرآن کو لیلہ مبارکہ میں نازل کیا ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ لیلۃ القدر اور لیلہ مبارکہ سے مراد واحد شب ہوتا کہ قرآن مجید میں تضاد اور تناقض لازم نہ آئے۔
(٢) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: شھر رمضان الذي أنزل فیه القراٰن. (البقرہ :185) رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن کو نازل کیا گیا ہے۔
اس آیت میں یہ بیان فرمایا ہے کہ قرآن مجید کو نازل کرنا رمضان کے مہینہ میں واقع ہوا ہے اور یہاں فرمایا ہے: ”إنا أنزلناہ في لیلة مبارکة“ بیشک ہم نے قرآن کو لیلہ مبارکہ میں نازل کیا ہے۔ پس ضروری ہوا کہ یہ رات بھی رمضان کے مہینہ میں واقع ہو اور اسی طرح جس شخص نے بھی کہا کہ لیلہ مبارکہ رمضان کے مہینہ میں واقع ہے، اس نے یہ کہا کہ یہ لیلہ مبارکہ ہی لیلۃ القدر ہے۔
(٣) اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر کی صفت میں فرمایا :
تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ (4) سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (القدر :4-5)
اس رات میں فرشتے اور جبرائیل اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے نازل ہوتے ہیں وہ رات سلامتی ہے، طلوع فجر ہونے تک اور سورة الدخان کی اس آیت میں فرمایا :
فیھا یفرق کل امر حکیم (الدخان :4) اس رات میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
اور یہ اس آیت کے مناسب ہے :
تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ اس رات میں فرشتے اور جبرائیل نازل ہوتے ہیں۔
نیز یہاں الدخان :5 میں فرمایا :
أمرا من عندنا. ہمارے پاس ایک حکم کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
اور سورة القدر میں فرمایا :
بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ . اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے اترتے ہیں۔
اور اس سورت کی آیات میں فرمایا :
أمرا من عندنا. ہمارے پاس سے ایک حکم کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
اس سورت میں فرمایا ہے :
رحمة من ربک. آپ کے رب کی رحمت سے۔
اور سورة القدر میں فرمایا ہے :
سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ. وہ رات طلوع فجر ہونے تک سلامتی ہے۔
(٤) امام محمد بن جریر طبری نے قتادہ سے روایت کیا ہے کہ صحائف ابراہیم رمضان کی پہلی شب میں نازل ہوئے، توراۃ رمضان کی چھٹی شب میں نازل ہوئی، رمضان کی بارھویں شب میں نازل ہوئی اور انجیل رمضان کی اٹھارویں شب میں نازل ہوئی اور قرآن
لیلہ مبارکہ سے نصف شعبان کی شب مراد ہونے کے متعلق روایات
امام ابن جریر متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
عکرمہ اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ یہ نصف شعبان کی شب ہے، اس میں ایک سال کے معاملات پختہ کردیئے جاتے ہیں اور زندوں کا نام مردوں میں لکھ دیا جاتا ہے اور حج کرنے والوں کا نام لکھ دیا جاتا ہے پس اس میں کوئی زیادتی ہوگی نہ کوئی کمی۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤٠٠٨، تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ١٠ ص ٣٢٨٧، رقم الحدیث : ١٨٥٣١، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ، کنزالعمال ج ١٢ ص ٣١٤، رقم الحدیث : ٣٥١٧٧، معالم التنزیل ج ٤ ص ٦٩٤، رقم الحدیث : ٤٢٧٨٠، شعب الایمان رقم الحدیث : ٣٨٣٩)
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی لوگوں کے درمیان چل رہا ہوتا ہے، حالانکہ وہ مردوں میں اٹھایا ہوا ہوتا ہے، پھر حضرت ابن عباس (رض) نے اس آیت کی تلاوت کی : انا انزلہ فی لیلۃ مبرکۃ انا کنا منذرین فیھا یفرق کل امر حکیم “ (الدخان :3-4) پھر حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس رات میں ایک سال سے دوسرے سال تک دنیا کے معاملات کی تقسیم کی جاتی ہے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤٠١٠، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ، الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث : ٣٣٨٨)
ابوالضحیٰ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو معاملات کے فیصلے فرماتا ہے اور لیلۃ القدر میں ان فیصلوں کو ان کے اصحاب کے سپرد کردیتا ہے۔ (معالم النزیل ج ٤ ص ١٧٤، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٠ ھ)
فَارْتَـقِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَاۗءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ
حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر، حضرت ابوہریرہ (رض) اور زید بن علی، حسن اور ابن ابی ملیکہ وغیرھم فرماتے ہیں : دخان (دھواں) قیامت کی علامتوں میں سے ہے، یہ ابھی تک ظاہر نہیں ہوا، یہ قرب قیامت میں چلیس روز تک ظاہر ہوگا اور آسمان اور زمین کی فضاء کو بھر لے گا، مومن پر اس کا اثر زکام کی صورت میں ظاہر ہوگا اور کافر وفاجر کی ناکوں میں داخل ہو کر ان کے کانوں کے سوراخوں سے نکلے گا، ان کا دم گھٹنے لگے گا اور یہ دھواں جہنم کے آثار سے ہے اور حضرت ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ دھواں قیامت کے دن لوگوں میں ہیجان پیدا کرے گا۔ مومن پر اس کا اثر زکام کی صورت میں ظاہر ہوگا اور کافر کے جسم میں داخل ہو کر اس کے کانوں کے سوراخوں سے نکلے گا۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ١٠ ص ٣٢٨٧، رقم الحدیث : ١٨٥٣٣، النکت والعیون ج ٥ ص ٢٤٧ )
حضرت حذیفہ بن اسید الغفاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس آئے، ہم اس وقت مذاکرہ کررہے تھے، آپ نے پوچھا : تم کس چیز میں بحث کررہے ہو ؟ صحابہ نے کہا : ہم قیامت کا ذکر کررہے ہیں، آپ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ تم اس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھ لو، پھر آپ نے ان چیزوں کا ذکر فرمایا : (١) دھواں (٢) دجال (٣) دابۃ الارض (٤) سورج کا مغرب سے طلوع ہونا (٥) حضرت عیسیٰ بن مریم کا نازل ہونا (٦) یاجوج اور ماجوج کا نکلنا (٧) تین بار زمین کا دھنسنا، مشرق میں دھنسنا (٨) مغرب میں (٩) اور جزیرۃ العرب میں (١٠) اور اس کے آخر میں آگ نکلے گی جو لوگوں کو ہانک کر میدان محشر کی طرف لے جائے گی۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩٠١، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)
وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا ۭ اِنَّهُمْ جُنْدٌ مُّغْرَقُوْنَ
اس آیت میں ”رھو“ کا لفظ ہے، رھو کے معنی میں حسب ذیل اقوال ہیں:
کعب اور حسن نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ”رھوا“ کا معنی ہے: راستہ اور حضرت ابن عباس سے ایک روایت یہ ہے کہ اس کا معنی ہے : سمت، اور ضحاک اور ربیع نے کہا : اس کا معنی ہے : سہل اور عکرمہ سے روایت ہے کہ اس کا معنی ہے، خشک کیونکہ قرآن مجید میں ہے :
فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا (طٰہٰ :77) ان کے لیے سمندر میں خشک راستہ بنا لیجئے۔
ایک قول یہ ہے کہ ان کے لیے سمندر میں متفرق راستے بنائیں، مجاہد نے کہا : کشادہ راستے بنائیں اور ان سے ایک روایت ہے : خشک راستے بنائیں اور ان سے ایک روایت ہے : ساکن راستہ بنائیں اور لغت میں ” رھواً “ کا یہی معنی معروف ہے، قتادہ اور ہر وی کا بھی یہی قول ہے اور دوسروں نے کہا : کشادہ راستہ بنائیں اور ان کا تال ایک ہی ہے کیونکہ جب سمندر ساکن ہو تو وہ کشادہ ہوتا ہے اور اسی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے سمندر ساکن اور کشادہ ہوگیا تھا اور اہل عرب کے نزدیک الرھو کا معنی الساکن ہے۔
الرھو کا معنی آہستہ آہستہ اور نرمی سے چلنا بھی ہے نیز الرھو او الرھوۃ کا معنی بلند جگہ بھی ہے اور جس نشیب میں پانی جمع ہوجائے اس کو بھی الرھو کہتے ہیں۔
حضرت عائش (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: لا یمنع نقع ماء ولا رھو بئر. (مسند احمد رقم الحدیث : ٢٤٨٦٥، دارالفکر، بیروت)
لیث نے کہا: کہ رھو کا معنی سکون سے چلنا ھبی ہے، اس صورت کا معنی ہے: آپ بغیر کسی خوف، دہشت اور گھبراہٹ کے سکون کے ساتھ سفر پر روانہ ہوں۔
فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاۗءُ وَالْاَرْضُ وَمَا كَانُوْا مُنْظَرِيْنَ
عرب میں دستور ہے کہ جب کسی قبیلہ کا سردار مرجائے تو کہتے ہیں کہ اس کی موت پر آسمان اور زمین رو رہے ہیں، حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر مومن کے لیے آسمان میں دو دروازے ہوتے ہیں، ایک دروازے سے اس کا رزق نازل ہوتا ہے اور دوسرے دروازے سے اس کا کلام اور اس کا عمل داخل ہوتا ہے پس جب وہ فوت ہوجاتا ہے تو یہ دونوں دروازے اس پر روتے ہیں، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : ” فما بکت علیھم السماء والأرض “ (الدخان ٢٩) (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢٥٥، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدث : ٤١٣٣، حلیۃ الاولیاء ج ٣ ص ٥٣، ج ٨ ص ٣٢٧، تاریخ بغداد ج ١١ ص ٢١٢)
مجاہد نے کہا: مومن کے مرنے پر آسمان اور زمین چالیس روز تک روتے رہتے ہیں، ابویحییٰ نے کہا : مجھ ان کے اس قول پر تعجب ہوا تو انھوں نے کہا : تم اس پر کیوں تعجب کرتے ہو، زمین اس شخص کی موت پر کیوں نہ روئے جب کہ بندہ مومن زمین پر رکوع اور سجود کرکے اس کو آباد رکھتا ہے اور آسمان اس کی موت پر کیوں نہ روئے جب کہ اس کی تسبیح اور تکبیر کی آوازیں زمین پر تک پہنچتی تھیں، حضرت علی اور حضرت عباس (رض) نے کہا : زمین پر مومن جس جگہ نماز پڑھتا تھا وہ جگہ اس کی موت پر روتی ہے اور آسمان کی جس جگہ پر اس کے نیک اعمال پہنچتے تھے وہ جگہ اس کی موت روتی ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ١٣٠، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
شریح بن عبیدالحضری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسلام ابتداء میں اجنبی تھا اور وہ اجنبیت ہی میں لوٹ جائے گا، سنو ! مومن پر کوئی اجنبیت نہیں ہے، مومن بھی کسی سفر میں مرتا ہے جہاں اس پر کوئی رونے والا نہ ہو تو اس پر آسمان اور زمین روتے ہیں، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی : ” فما بکت علیہم السماء والارض (الدخان : 29) پھر فرمایا : زمین اور آسمان کافر پر نہیں روتے۔ (جامع البیان جز ٢٥ ص ١٦٢، رقم الحدیث : ٢٤٠٧٨)
اِنَّ هٰٓؤُلَاۗءِ لَيَقُوْلُوْنَ ، اِنْ هِىَ اِلَّا مَوْتَـتُنَا الْاُوْلٰى وَمَا نَحْنُ بِمُنْشَرِيْنَ
اس قول کا قائل ابوجہل تھا، اس نے کہا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) اگر آپ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو ہمارے مرے ہوئے آباء میں سے دو آدمیوں کو زندہ کرکے دکھائیں، ان میں سے ایک قصی بن کلاب ہے وہ سچا آدمی تھا، ہم اس سے پوچھیں گے کہ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ ابوجہل کا یہ کہنا بہت ضعیف شبہ تھا، کیونکہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا جزاء اور سزا کے لیے ہوتا ہے، مکلف کرنے کے لیے نہیں ہوتا اور اس کے قول کا منشاء یہ تھا کہا گر آپ مردوں کو زندہ کرنے کے دعویٰ میں سچے ہیں تو ان کو مکلف کرنے کے لیے زندہ کریں اور یہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ اگر ہمارے بعد ہمارے بیٹے دنیا میں آئیں گے تو پھر ہمارے مرے ہوئے باپ دادا ہی واپس کیوں نہیں آجاتے اس جواب کو علامہ قرطبی نے بھی نقل کیا ہے۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٢٥٥، دارالکتب العلمیہ، بیروت، الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ١٣٤)
اَهُمْ خَيْرٌ اَمْ قَوْمُ تُبَّــعٍ ۙ وَّالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ اَهْلَكْنٰهُمْ ۡ اِنَّهُمْ كَانُوْا مُجْرِمِيْنَ
تبع اور اس کی قوم کا بیان
امام ابو جعفر محمد بن جبریر طبری متوفی ٣١٠ ھ قتادہ سے روایت کرتے ہیں :
ہم سے بیان کیا گیا ہے کہ تبع قبیلہ حمیر کا ایک شخص تھا، وہ اپنے لشکر کے ساتھ روانہ ہوا حتیٰ کہ اس نے یمن کو عبور کرلیا، پھر شہروں کو فتح کرتا ہوا اور تخت و تاراج کرتا ہوا سمر قند تک پہنچا اور اس کو بھی منہدم کردیا اور ہمیں بتایا گیا ہے کہ جب یہ کوئی چیز لکھتا تو اس کے نام سے لکھتا جو بہت بلند ہے اور بحرو بر کا مالک ہے اور حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ تبع کو برا نہ کہو، وہ نیک آدمی تھا۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤٠٨٩ دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
حافظ ابو القاسم علی بن الحسن ابن عساکر المتوفی ٥٧١ ھ لکھتے ہیں : تبع کا پورا نام اس طرح ہے : تبع بن حسان بن ملکی کرب بن تبع بن الاقرن۔
حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تبع کو برا نہ کہو بیشک وہ مسلمان ہوچکے تھے۔ (تاریخ دمشق رقم الحدیث : ٢٦٥٨۔ ٢٦٥٧۔ ٢٦٥٦ )
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ تبع کعبہ پر حملہ کرنے کا ارادہ سے نکلا حتیٰ کہ جب وہ کراع الغمیم پر پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر ایک زبردست آندھی بھیج دی جس کے زور سے لوگ ایک دوسرے پر گر رہے تھے، پھر تبع نے اپنے دو عالموں کو بلا کر پوچھا کہ یہ میرے خلاف کیا چیز مسلط کی گئی ہے، انھوں نے کہا : اگر تم ہمیں جان کی امان دو تو ہم تمہیں بتاتے ہیں، تبع نے کہا : تم کو امان ہے، انھوں نے کہا : تم اس گھر پر حملہ کرے گا، تبع نے کہا : پھر مجھے اس کے قہر سے کیا چیز بچا سکتی ہے ؟ انھوں نے کہا : تم احرام باندھ کر اس کے گھر میں اللہم لبیک کہتے ہوئے داخل ہو اور اس کے گھر کا طواف کرو، جب تم نے اخلاص سے اس پر عمل کیا تو یہ آندھی کا طوفان فرو ہوجائے گا، تبع نے اسی طرح کیا، پھر آندھی کا طوفان وہاں سے گزر گیا۔ (تاریخ دمشق ج ١١ ص ٧٣۔ ٧٢)
تبع نے کہا : میری نیت تھی کہ میں اس گھر کو ویران کردوں گا، اس شہر کے مردوں کو قتل کروں گا اور عورتوں کو قید کروں گا، اس کے بعد وہ ایسے مرض میں مبتلا ہوگیا کہ تمام دنیا کے حکماء سر توڑ کر کوشش کے باوجود اس کا علاج نہ کرسکے، پھر اس کے پاس ایک عالم نے آکر کہا : تمہاری بیماری کی ساری جڑ تمہاری اس نیت کے فساد میں ہے، اس گھر کا مالک بہت قوی ہے، دلوں کی باتیں جانتا ہے، پس ضروری ہے کہ تم اس گھر کو نقصان پہنچانے کا ارادہ اپنے دل سے نکال دو ، تبع نے کہا : میں نے ایسی تمام باتیں دل سے نکال دیں اور میں نے یہ عزم کرلیا کہ میں ہر قسم کی خیر اور نیکی اس گھر کے ساتھ اور یہاں کے رہنے والوں کے ساتھ کروں گا، ابھی وہ نصیحت کرنے والا عالم اس کے پاس سے اٹھ کر نہیں گیا تھا کہ وہ بالکل تندرست ہوگیا اور اللہ عزوجل نے اس کو شفایاب کردیا، اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کو قبول کرلیا اور صحت و سلامتی کے ساتھ اپنے گھر پہنچ گیا اور تبع وہ پہلا شخص ہے جس نے کعبہ کو غلاف پہنایا اور اہل مکہ کعبہ کی حفاظت کرنے کا حکم دیا۔ (تاریخ دمشق ج ١١ ص ٧٥۔ ٧٤)
پھر تبع مدینہ منورہ گیا اور وہاں سے ہندوستان کے کسی شہر میں چلا گیا اور وہیں فوت ہوگیا اور تبع کی وفات کے ٹھیک ایک ہزار سال بعد ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت ہوئی اور جن اہل مدینہ نے ہجرت کے وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت کی تھی وہ سب ان علماء کی اولاد سے تھے جو مدینہ میں تبع کے بنائے ہوئے گھروں میں رہتے تھے، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ پہنچے تو وہ لوگ آپ کی اونٹنی کے گرد آکر اکٹھے ہوگئے اور آپ کو اپنے گھر لے جانے پر اصرار کرنے لگے، آپ نے فرمایا : اس اونٹنی کو چھوڑ دو ، یہ اللہ سبحانہ ‘ کے حکم کی پابند ہے، حتیٰ کہ وہ اونٹنی حضرت ابوایوب انصاری (رض) کے گھر کے پاس آکر بیٹھ گئی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے گھر میں قیام پذیر ہوئے اور حضرت ابو ایوب انصاری (رض) ، اس عالم کی اولاد سے تھے جس نے خیر خواہی کے جذبہ سے تبع کو نصیحت کی تھی اور اس کو کعبہ کو منہدم کرنے کا ارادہ سے باز رکھا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابو ایوب کے جس گھر میں ٹھہرے تھے یہ تبع ہی کا بنایا ہوا تھا۔ (رقم الحدیث : ٢٦٦١) (تاریخ دمشق الکبیر ج ١١ ص ٧٧۔ ٦٧، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :
تبع سے مراد ایک معین شخص نہیں ہے بلکہ اس سے مراد یمن کے بادشاہ ہیں اور یمن کے لوگ اپنے بادشاہ کو تبع کہتے تھے۔ پس تبع ان کے بادشاہ کالقب ہے، جیسے مسلمانوں کے بادشاہ کو خلیفہ کہتے ہیں اور ایران کے بادشاہ کو کسریٰ کہتے ہیں اور روم کے بادشاہ کو قیصر کہتے ہیں اور قرآن مجید کی آیات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تبع ایک معین شخص کا نام ہے، امام احمد نے حضرت سہل بن سعد سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : تبع کو برا نہ کہو، وہ مومن تھا۔ (مسند احمد رقم الحدیث : ٢٢٩٤٣، دارالفکر) اس نے پہلے مدینہ منورہ کو برباد کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن اس کو معلوم ہوا کہ یہ ایک نبی کی ہجرت ہے جس کا نام احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوگا تو یہ واپس ہوگیا۔ لیکن جب اس کو معلوم ہوا کہ یہ ایک نبی کی ہجرت کی جگہ ہے جس کا نام احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوگا تو یہ واپس ہوگیا۔ زجاج، ابن ابی الدنیا اور زمخشری وغیرھم نے کہا ہے کہ صنعاء میں اس کی قبر ہے، امام ابن اسحاق وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ اس نے اپنے وارثوں کے پاس کے جو کتاب رکھوائی تھی اس میں سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق لکھا تھا : میں آپ پر ایمان لایا اور آپ کی کتاب پر ایمان لایا اور آپ کے دین پر ایمان لایا اور آپ کی سنت پر اور آپ کے رب پر ایمان لایا، جو ہر چیزکارب ہے اور شرائع اسلام میں سے ہر اس چیز پر ایمان لایا جو آپ کے رب کے پاس سے آئی ہے، اگر میں نے آپ کو پالیا تو فبہا اور اگر میں آپ کو نہ پاسکا تو آپ میری شفاعت کریں اور قیامت کے دن مجھ کو نہ بھولیں کیونکہ میں آپ کی پہلی امت سے ہوں اور آپ کی بعثت سے پہلے میں نے آپ کی بیعت کرلی ہے اور میں آپ کی ملت پر ہوں اور آپ کے باپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت پر، ہوں، پھر اس مکتوب کو ختم کرکے اس پر اپنی مہر لگادی اور اس مکتوب کے شروع میں بطور عنوان لکھا تھا ”(سیدنا) محمد بن عبداللہ نبی اللہ و رسول اللہ، خاتم النبیین و رسول رب العٰلمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب تبع الاول کی طرف سے ” اہل یمن الدخان : ٣٧ کی وجہ سے فخر کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل یمن کو قریش سے بہترقرار دیا ہے، اس نے لشکر کے ساتھ مشرق کی جانب سفر کیا اور حیرہ کو عبور کرکے سمر قندتک پہنچا اور بہت سے شہروں کو منہدم کیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے ٹھیک ایک ہزار سال پہلے اس کی وفات ہوئی تھی۔ (یہ احوال تاریخ دمشق میں بھی مذکور ہیں) ۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ١٣٦۔ ١٤٣، دارلفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ، طَعَامُ الْاَثِيْمِ ، ثُمَّ صُبُّوْا فَوْقَ رَاْسِهٖ مِنْ عَذَابِ الْحَمِيْمِ، ذُقْ ڌ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْكَرِيْمُ
زقوم سے مراد: سنیڈیا تھو ور یا ناگ پھنی کا درخت ہے۔ اس کا کانٹا جہاں چبھ جائے تو سارے عضو کو گلا دیتا ہے ، پھر جہنم کا درخت جو جہنم میں ہی پیدا ہوا ہو وہ تو سخت موذی اور اخبث ہوگا۔
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ اگر جہنم کے زقوم کا ایک قطرہ دنیا میں ڈال دیا جائے تو وہ تمام لوگوں کی زندگیوں کو خراب کردے گا۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤٠٩٤، سنن ترمذی صفت جہنم، باب : ٤، سنن ابن ماجہ کتاب الزہد، باب : ٣٨)
حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ فرشتہ کافر کے سر پر لوہے کی سلاخ مار کر اس کا سر پھاڑ دے گا اس کا دماغ پھٹ جائے گا۔ پھر اس کے سر پر کھولتا پانی انڈیلے گا، جو اس کے بدن میں اترے گا اور اس کے پیٹ کی آنتیں بہہ کر اس کی ایڑیوں میں جمع ہوجائیں گی (ابن کثیر جلد 4 صفحہ 57)
یعنی ابو جہل جیسے ہر دشمن دین کو جہنم کا درخت زقوم کھلا کر اور کھولتا پانی اس پر انڈیل کر بعد میں اسے کہا جائے گا کہ اب مزہ چکھو تم بہت عزت و کرامت والے ہو۔ یہ جملہ اسے شرمندہ کرنے کے لیے بطور تعریض کہا جائے گا۔
تعریض سے جھوٹ لازم نہیں آتا
معلوم ہوا تعریض سے جھوٹ لازم نہیں آتا۔ اس کی مثال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ قول ہے جو انھوں نے کہا بل فعلہ کبیرھم ھذا کہ ” یہ بت توڑنے کا عمل اس بڑے بت نے کیا ہے “ (انبیاء۔ 63) آپ نے یہ جملہ بت پرستوں کو شرمندہ کرنے کے لیے بطور تعریض کہا۔ لہذا اس سے عصمت انبیاء پر اعتراض نہیں آتا اور نہ ہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف جھوٹ کی نسبت قائم ہوسکتی ہے کیونکہ تعریض تو یہاں خود رب العالمین کے کلام میں بھی ثابت ہوگئی تو کیا معاذ اللہ اللہ تعالیٰ کو بھی جھوٹا کہا جائے گا ؟
اور وہ جو بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) روز قیامت شفاعت کرنے سے انکار کردیں گے اور کہیں گے کہ میں نے تین جھوٹ بولے تھے اس لئے میں اللہ کی بارگاہ میں نہیں جاسکتا (بخاری کتاب احادیث الانبیاء) تو یہ ان مبنی بر تواضع قول ہے کہ وہ اپنی تعریض کو بھی جھوٹ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ یہاں سے ان اہل تشیع کا بھی رد ہوگیا جو بخاری کی اس حدیث کی وجہ سے کتاب صحیح بخاری اور مذہب اہلسنت کو مطعون کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تمہاری بخاری نے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی جھوٹا بنادیا۔ مگر اب واضح ہوگیا کہ تعریض جھوٹ نہیں ہے۔
كَذٰلِكَ ۣ وَزَوَّجْنٰهُمْ بِحُوْرٍ عِيْنٍ
حور کا معنی ہے : حسین و جمیل، روشن چہرے والی عورت، حضرت ابن مسعود نے فرمایا : حور کی پنڈلی کا مغز ستر حلوں اور گوشت اور ہڈی کے پار سے بھی نظر آتا ہے جیسے سفید شیشے کی جگہ میں سرخ مشروب ہو تو وہ دور سے نظر آتا ہے، مجاہد نے کہا : حور کو حور اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے گورے رنگ، صاف اور شفاف چہرے اور اس کے حسن و جمال کو دیکھ کر آنکھیں حیران ہوجاتی ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کو حور اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی آنکھیں بہت سفید ہوتی ہیں اور پتلی بہت سیاہ ہوتی ہے جیسے ہرن اور گائے کی آنکھیں ہوتی ہے۔ (الجامع لاحکام القرآنجز ١٦ ص ١٤٢، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بڑی آنکھوں والی حور کا مہر چند مٹھی کھجوریں ہیں اور روٹی کے ٹکڑے ہیں۔ (الکشف والبیان للثعلبی رقم الحدیث : ٢١٧، ج ٨ ص ٣٥٦ )
(اس حدیث کی سند میں ابان بن محبر ہے، ابو حاتم بن حبان نے کہا : اس کی حدیث باطل ہے اور دارقطنی نے کہا : ابان متروک ہے، ابن جوزی نے کہا یہ حدیث موضوع ہے، کتاب الموضاعات ج ٣ ص ٢٥٣ )
امام ابن ابی حاتم اور امام طبرانی نے حضرت ابوامامہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بڑی آنکھوں والی حوریں زعفران سے پیدا کی گئیں ہیں۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٨٥٥٩ )
امام ابن ابی شیبہ نے حضرت مجاہد (رض) سے روایت کیا ہے کہ بڑی آنکھوں والی حور کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت سے آتی ہے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٨٥٦٠ )
امام ابن المبارک نے زید بن اسلم سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بڑی آنکھوں والی حوروں کو مٹی سے پیدا نہیں کیا، ان کو مشک، کافور اور زعفران سے پیدا کیا ہے۔
امام ابن مردویہ اور امام دیلمی نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بڑی آنکھوں والی حوروں کو فرشتوں کی تسبیح سے پیدا کیا ہے۔ (الدرالمنثور ج ٧ ص ٣٦٥۔ ٣٦٤، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)
علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :
ایک حدیث میں ہے کہ حوروں کی مشک، کافور اور زعفران سے پیدا کیا ہے اور دوسری حدیث میں ہے : ان کو فرشتوں کی تسبیح سے پیدا کیا ہے، ان میں تعارض نہیں ہے، اس لیے کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی تسبیح کو مشک، کافور اور زعفران سے ڈھال دیا ہو اور پھر اس سے حوروں کو پیدا کردیا ہو۔
ایک قول یہ ہے کہ حوروں سے مراد یہاں دنیا کی بیویاں ہیں اور یہی جنت میں حوریں ہوں گی جو کہ مشک، زعفران اور کافور سے بنی ہوگی، بلکہ یہ دنیاوی بیویاں بڑی آنکھوں وال حوروں سے زیادہ حسین ہوں گی اور انسان کی جو دنیا میں بیویاں ہوں گی وہ اس کو جنت میں مل جائیں گی اور ان کے علاوہ حوریں بھی ملیں گی اور اگر کافر کی بیوی جنت میں گئی تو اللہ تعالیٰ اس کو جس مسلمان کو چاہے گا عطا فرمادے گا اور حدیث میں ہے کہ فرعون کی بیوی آسیہ جنت میں ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیوی ہوگی۔ (روح المعانی جز ٢٥ ص ٢٠٧، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ مسلمان جنتی عورت بڑی آنکھوں والی حوروں سے ستر درجہ افضل ہوگی۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٧ ص ١٤٣، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.