surah hashr urdu translation

Surah Hashr Urdu Translation, Surah Hashr With Urdu Translation PDF

Surah Hashr With Urdu Translation PDF Download

سورہ حشر ترجمہ اور تفسير

مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿1﴾

آسمانوں اور زمین میں جو بھی (مخلوق ) ہے وہ سب اسی کی پاکیزگی بیان کرتی ہے۔ وہ زبردست اور بڑی حکمت والا ہے۔

 هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ ۚ مَا ظَنَنْتُمْ أَنْ يَخْرُجُوا ۖ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ مَانِعَتُهُمْ حُصُونُهُمْ مِنَ اللَّهِ فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا ۖ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ ۚ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ ﴿2﴾

وہی ہے جس نے اہل کتاب ( میں سے بنو نضیر) کو ان کے گھروں سے پہلی مرتبہ اکٹھا کرکے نکال دیا۔ تمہیں تو اس کا گمان بھی نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے اور وہ خود بھی یہ خیال کئے بیٹھے تھے کہ ان کے قلعے (نما گھر) انھیں اللہ کے ہاتھ سے بچا لیں گے۔ پھر اللہ کا عذاب ان پر ایسی جگہ سے آیا جس کا انھیں گمان تک نہ تھا۔

اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا تھا کہ وہ اپنے ہاتھوں او اہل ایمان کے ہاتھوں سے اپنے گھروں کو برباد کر رہے تھے۔ اے آنکھوں والو ! اس (واقعہ) سے عبرت و نصیحت حاصل کرو۔

 وَلَوْلَا أَنْ كَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ الْجَلَاءَ لَعَذَّبَهُمْ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابُ النَّارِ ﴿3﴾

اور اگر اللہ نے ان کے حق میں جلاوطنی نہ لکھ دی ہوتی تو وہ دنیا ہی میں انھیں (قتل کا) عذاب دیتا، اور آخرت میں تو ان کے لیے عذاب دوزخ ہی ہے۔

 ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ شَاقُّوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۖ وَمَنْ يُشَاقِّ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿4﴾

یہ (سزا) اس لیے دی گئی کہ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی تھی اور جو بھی اللہ کی مخالفت کرتا ہے تو بیشک اس کے لیے اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔

 مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ ﴿5﴾

(اے مومنو ! ) تم نے کھجوروں کے جن درختوں کو کاٹ ڈالا۔ یا جنہیں تم نے اسی حالت پر چھوڑ دیا کہ وہ اپنی جڑوں پر کھڑے رہیں تو یہ سب اللہ کے حکم سے ہوا تاکہ (اس کے ذریعہ) وہ فاسقین کو ذلیل و رسوا کردے۔

 وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَىٰ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿6﴾

اور جو مال غنیمت اللہ نے اپنے رسول کو ان (بنو نضیر) سے دلوایا تھا اس میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ اس پر تم نے نہ تو گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ بلکہ اللہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔

 مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿7﴾

اور اسی طرح جو مال اللہ اپنے رسول کو ” فے “ کے طور پردے اس میں بھی تمہارا کوئی حق نہیں ہے بلکہ وہ اللہ، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، اس کے رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے تاکہ وہ مال تمہارے مال داروں کے ہاتھوں میں نہ گھومتا رہے۔ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں جو کچھ دیدیں وہ لے لو اور جس چیز سے منع کردیں اس سے رک جاؤ۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

 لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ﴿8﴾

اس مال (فے) میں مہاجر فقرا کا خاص حق ہے جو اپنے گھروں اور مالوں سے (زبردستی) نکالے گئے۔ جب کہ ان کی یہ حالت ہے کہ وہ اللہ کا فضل و کرم اور اس کی رضا و خوشنودی کے طلب گار ہیں۔

اور وہ لوگ اللہ (کے دین) اور اس کے رسول کی مدد (دین کی سربلندی کیلئے) کیا کرتے ہیں یہی سچے لوگ ہیں۔

 وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿9﴾

اس مال (فے) کے وہ بھی حق دار ہیں جو ان مہاجرین سے پہلے (مدینہ منورہ میں) ٹھکانا رکھتے تھے اور انھوں نے ایمان میں ایک ایسی جگہ پیدا کرلی ہے کہ وہ مہاجرین کے لیے اپنے دلوں میں کوئی خلش محسوس نہیں کرتے۔ اور وہ (اپنے مہاجر بھائیوں کو) اپنے سے مقدم سمجھتے ہیں اگرچہ وہ فقر و فاقہ ہی میں کیوں نہ ہوں۔ اور (درحقیقت ) جو لوگ بھی بخل اور کنجوسی سے بچ گئے وہی فلاح و کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔

 وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ ﴿10﴾

اور وہ لوگ بھی مال (فے) کے مستحق ہیں جو ان (مہاجرین و انصار) کے بعد ا ائے جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار، ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دیجئے جو ایمان لانے میں ہم سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے بعض و عداوت کو جگہ نہ دیجئے۔ اے ہمارے پروردگار بیشک آپ ہی تو شفقت کرنے والے مہربان ہیں۔

 أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نَافَقُوا يَقُولُونَ لِإِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَئِنْ أُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَلَا نُطِيعُ فِيكُمْ أَحَدًا أَبَدًا وَإِنْ قُوتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّكُمْ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ﴿11﴾

اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے ان (منافقین) کو دیکھا جو اپنے اہل کتاب بھائیوں (بنو نضیر) سے یہ کہتے ہیں کہ اگر تم نکالے گئے تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی نکلیں گے اور ہم تمہارے معاملہ میں کسی کی بات نہ سنیں گے۔ اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ (منافق) جھوٹے ہیں۔

 لَئِنْ أُخْرِجُوا لَا يَخْرُجُونَ مَعَهُمْ وَلَئِنْ قُوتِلُوا لَا يَنْصُرُونَهُمْ وَلَئِنْ نَصَرُوهُمْ لَيُوَلُّنَّ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنْصَرُونَ ﴿12﴾

البتہ اگر وہ (گھروں سے) نکالے گئے تو یہ ان کے ساتھ نہ نکلیں گے اور اگر جنگ چھڑ گئی تو یہ ان کی مدد نہ کرسکیں گے۔ اور اگر وہ ان کی مدد کریں گے تو پیٹھ دکھا کر بھاگیں گے اور پھر ان کی کوئی مدد نہ کی جائے گی۔

 لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً فِي صُدُورِهِمْ مِنَ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَفْقَهُونَ ﴿13﴾

بیشک تم لوگوں کا خوف ان کے دلوں میں اللہ سے بھی زیادہ ہے یہ اس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ سے کام نہیں لیتے۔

 لَا يُقَاتِلُونَكُمْ جَمِيعًا إِلَّا فِي قُرًى مُحَصَّنَةٍ أَوْ مِنْ وَرَاءِ جُدُرٍ ۚ بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ ۚ تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْقِلُونَ ﴿14﴾

یہ لوگ تو سب مل کر بھی تم سے نہ لڑیں گے مگر ہاں حفاظت والی بستیوں یا دیواروں کی آڑ میں۔ ان کی لڑائی آپس میں (ہی) بڑی تیز ہے تو انھیں متفق خیال کرتا ہے حالانکہ ان کے قلب غیر متفق ہیں یہ اس لیے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو عقل کو کام میں نہیں لاتے۔

 كَمَثَلِ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَرِيبًا ۖ ذَاقُوا وَبَالَ أَمْرِهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿15﴾

ان (بنو نضیر کی) مثال ان (قوموں) جیسی ہے جو ذرا ہی دیر پہلے گزری ہیں جو اپنی سزا کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ اور ان کے لیے سخت سزا ہے۔

 كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنْسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِنْكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ ﴿16﴾

ان کی مثال اس شیطان جیسی ہے جو آدمی سے کہتا ہے کہ کافر ہوجا۔ پھر جب وہ کفر کرتا ہے تو کہتا ہے کہ میں تجھ سے بےتعلق ہوں۔ بیشک میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔

 فَكَانَ عَاقِبَتَهُمَا أَنَّهُمَا فِي النَّارِ خَالِدَيْنِ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الظَّالِمِينَ ﴿17﴾

سو آخری انجام دونوں کا یہ ہوا کہ دونوں دوزخ میں گئے جہاں ہمیشہ رہیں گے اور یہی سزا ہے ظالموں کی۔

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴿18﴾

اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو۔ اور ہر ایک کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس نے کل (قیامت) کیلئے کیا آگے بھیجا ہے۔ اور اللہ سے ڈرو۔ بیشک تم جو کچھ کرتے ہو اس کی اللہ کو خبر ہے۔

 وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْسَاهُمْ أَنْفُسَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿19﴾

اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیو جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا، سو اللہ نے خود ان کی جانوں کو ان سے بھلادیا، یہی لوگ تو نافرمان ہیں۔

 لَا يَسْتَوِي أَصْحَابُ النَّارِ وَأَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۚ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَائِزُونَ ﴿20﴾

اہل دوزخ اور اہل جنت برابر نہیں اہل جنت توکامیاب لوگ ہیں۔

 لَوْ أَنْزَلْنَا هَٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۚ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴿21﴾

اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو اے مخاطب تو اسے دیکھتا کہ اللہ کے خوف سے دب جاتا اور پھٹ جاتا اور یہ مضامین عجیبہ ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ فکر کریں۔

 هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۖ هُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِيمُ ﴿22﴾

وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، وہ ہر غیب اور شہادت (باطن و ظاہر) کا جاننے والا ہے، وہ نہایت رحم فرمانے والا بہت مہربان ہے

هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿23﴾

اللہ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہ بادشاہ ہے۔ ہر عیب سے پاک ذات ہے، امن دینے والا، نگہبانی کرنے والا، تمام قوتوں کا مالک، نہایت زبردست ، بڑی عظمت والا، اور اس کی ذات ان تمام چیزوں سے پاک ہے جنہیں یہ لوگ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔

 هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿24﴾

اللہ وہ ہے جو پیدا کرنے والا، ایجاد کرنے والا، صورت بنانے والا سارے اچھے نام اسی کے ہیں۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ اس کی تسبیح کرتا ہے۔ وہ زبردست حکمت والا ہے۔

تشريح

سورت کا نام

اس سورت کا نام الحشر ہے اور یہ نام اس سورت کی اس آیت سے ماخوذ ہے اس سورت کا نام سورة بنی النضیر بھی ہے، کیونکہ اس سورت میں یہود بنی النضیر کو مدینہ سے جلا وطن کرنے کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ ، حدیث میں ہے :

سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے سورة الحشر کے متعلق دریافت کیا، انھوں نے فرمایا : اس کو سورة بنو نضیر کہو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٨٣)

سعید بن جبیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے سورة الحشر کے متعلق پوچھا، انھوں نے کہا، یہ بنو نضیر کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٨٢ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٠٣١)

﴿هُوَ الَّذِيْٓ اَخْرَجَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ ﴾ الخ

غزوہ بنو نضیر

حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیرو مشقی متوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں:

امام ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ بیر معونہ کے بعد چار ہجری میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو نضیر کی طرف روانہ ہوئے، اس کا سبب یہ تھا کہ حضرت عمرو بن امیہ نے غلطی سے بنو عامر کے دو آدمی قتل کر دئے تھے، جن کی دیت (خون بہا) اب تک واجب الادا تھی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر سے جو معاہدہ یا ہوا تھا، اس کے مطابق اس دیت کا ایک حصہ بنو نضیر پر واجب تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے مطالبہ کے لیے بنو نضیر کے پاس گئے تھے، بنو نضیر نے کہا، ہاں ! ہم اپنا حصہ ادا کریں گے اور خفیہ طور پر یہ سازش کی، ایک شخص چپکے سے چھت پر چڑھ گیا تاکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک بھاری پتھر گرا کر معاذ اللہ آپ کو ہلاک کر دے۔ آپ اس وقت اس چھت کی دیوار کے سائے میں کھڑے تھے۔ عمرو بن حجاش یہودی اس ارادہ سے چھت پر چڑھا، اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ آپ کے صحابہ کی ایک جماعت تھی، ان میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت علی (رض) بھی تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرما کر آپ کو بنو نضیر کی اس سازش سے مطلع کردیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس مدینہ چلے گئے ادھر جب آپ کو دیر ہوگئی تو آپ کے اصحاب آپ کو ڈھونڈنے نکلے، پھر آپ کے اصحاب آپ سے ملے اور آپ نے ان کو اس واقعہ کی خبر دی۔

علامہ واقدی نے کہا کہ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت محمد بن مسلمہ کو بنو نضیر کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ وہ آپ کے قرب اور شہر مدینہ سے نکل جائیں اور منافقین نے ان کو وہیں ٹھہرنے پر ابھارا اور کہا کہ ہم تمہاری مدد کریں گے، یہ چیز ان کے دل میں گھر کرگئی اور انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف یہ پیغام بھیجا کہ وہ وہاں سے نہیں نکلیں گے اور انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کیا ہوا معاہدہ توڑ دیا، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا۔ علامہ واقدی نے کہا ہے کہ آپ نے پندرہ روز تک ان کا محاصرہ کیا، ابن ہشام نے کہا، یہ ماہ ربیع الاول تھا، امام ابن اسحاق نے کہا : آپ ان کی طرف روانہ ہوئے اور چھ روز تک ان کا محاصرہ كيا، ان ہی ایام میں حرمت خمر نازل ہوئی، بنو نضیر قلعہ بند ہوگئے، آپ نے حکم دیا کہ ان کی کھجوروں کے باغ کاٹ کر جلا دیئے جائیں، پھر انھوں نے پکار کر کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ فساد کرنے سے منع کرتے تھے اور فساد کرنے والوں کی مذمت کرتے تھے اور اب آپ خود فساد کر رہے ہیں، پس ان درختوں کو کاٹنے اور جلانے کا کیا جواز ہے ؟ منافقین کی ایک جماعت نے ان کی طرف پیغام بھیجا کہ تم اپنے موقف پر ڈٹے رہو اور یہاں سے نہ نکلو اگر جنگ کی نوبت آئی تو ہم تمہارے ساتھ مل کر جنگ کریں گے اور اگر تم کو نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل جائیں گے، بنو نضیر ان کی مدد کے انتظار میں کچھ دن اور ٹھہرے، لیکن ان کی مدد نہیں آئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا، پھر انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ آپ ان کو قتل نہ کریں اور ان کو جلا وطن کریں، بشرطیکہ وہ ہتھیاروں کے علاوہ اپنے باقی اموال اور اسباب کو اپنے ساتھ اونٹوں پر لاد کرلے جائیں۔

 امام بیہقی نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حکم دیا کہ وہ تین دن کے اندر اس بستی کو خالی کردیں۔

امام ابن اسحاق نے کہا ہے کہ انھوں نے اپنا تمام مال اور اسباب ان اونٹوں پر لاد لیا، حتیٰ کہ اپنے گھروں کے دروازے بھی اکھاڑ کر اپنے ساتھ لے گئے، انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اپنے باغات اور کھیت چھوڑ دیئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان باغات اور کھیتوں کو مہاجرین اولین میں تقسیم کردیا اور انصار نے ان اموال میں سے کچھ نہیں لیا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کے متعلق سورة الحشر کی آیات نازل فرمائیں۔ (البدایہ والنہایہ ٣ ص 218-219 ملحضاً و موضحاً دارلافکر، بیروت، ١٤١٨ ھ)

غزوہ بنو نضیر کی مزید تفصیل

علامہ ابو اسحاق احمد بن ابراہیم الثعلبی المتوفی ٤٢٤٧ ھ لکھتے ہیں :

مفسرین نے کہا ہے کہ یہ تمام آیات بنو النضیر کے متعلق نازل ہوئی ہیں، کیونکہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں داخل ہوئے تو آپ سے بنو نضیر نے اس شرط پر صلح کی کہ آپ ان سے جنگ نہ کریں اور وہ بھی آپ سے جنگ نہیں کریں گے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی یہ شرط قبول کرلی، پھر جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر میں مشرکوں کے خلاف جنگ کی اور ان پر غلبہ حاصل کیا تو بنو نضیر نے کہا : اللہ کی قسم ! یہ وہی نبی ہیں جن کا ذکر ہم نے ” توراۃ “ میں پڑھا ہے، پھر جب غزوہ احد میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تو یہ شک اور نفاق میں پڑگئے اور انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنوں سے عداوت ظاہر کرنی شروع کردی اور ان کے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان جو معاہدہ تھا، اس کو توڑ دیا، پھر کعب بن اشرف چالیس یہودیوں کے ساتھ مکہ گیا اور قریش کے پاس جا کر انھوں نے حلف اٹھایا اور یہ معاہدہ کیا کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں ہم متحد ہیں، پھر ابوسفیان چالیس مشرکوں کے ساتھ آ کر ان سے حرم کعبہ میں ملا اور انھوں نے غلاف کعبہ کو پکڑ کر ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا معاہدہ کیا۔ پھر کعب بن اشرف اور اس سکے اصحاب مدینہ چلے گئے، پھر حضرت جبرائیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئے اور آپ کو کعب بن اشرف اور ابوسفیان کے درمیان ہونے والے معاہدہ کی خبر دی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کعب بن اشرف کو قتل کرنے کا حکم دیا تو اس کو محمد بن مسلمہ انصاری نے قتل کردیا جو اس کا رضاعی بھائی تھا۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو نضیر کی خیانت اور عہد شکنی پر مطلع ہوچکے تھے، آپ حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت علی (رض) کے ساتھ ان کے پاس گئے اور ان سے ان دو مسلمانوں کی دیت میں سے ان کا حصہ طلب کیا، جن کو حضرت عمرو بن امیہ الضمری نے بئر معونہ سے واپسی کے وقت غلط فہمی سے قتل کردیا تھا، جب وہ دونوں بنو عامر کی طرف جا رہے تھے، بنو نضیر نے دیت ادا کرنے کو قبول کیا اور آپ کو بٹھایا اور قلعہ کی چھت کے اوپر سے آپ پر بھاری پتھر پھینکنے کی سازش کی، اللہ سبحانہ، نے آپ کو اس سازش سے مطلع کر کے آپ کو بچا لیا، جس بستی میں بنو نضیر رہتے تھے اس کا نام زھرۃ تھا، جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی طرف روانہ ہوئے اس وقت وہ کعب بن اشرف پر ماتم کر رہے تھے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا۔

عبداللہ بن ابی نے ان کو پیغام بھیجا کہ وہ اپنے قلعوں سے نہ نکلیں، اگر انھوں نے تم سے قتال کیا تو ہم تمہارے ساتھ مل کر ان سے قتال کریں گے اور اگر تم کو نکال دیا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل جائیں گے۔ تاہم منافقین ان کی مدد کو نہ پہنچے۔

دوسرے دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لشکر لے کر روانہ ہوئے اور ان کا اکیس روز تک محاصرہ کیا، پھر اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور منافقین کی مدد سے مایوس ہوگئے، پھر انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صلح کا سوال کیا، آپ نے انکار فرمایا اور کہا اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں کہ تم مدینہ سے نکل جاؤ، پھر انھوں نے اس شرط پر جلا وطنی کو قبول کرلیا کہ وہ اسلحہ کے علاوہ باقی ساز و سامان اپنے اونٹوں پر لاد کرلے جائیں گے، ان کو وہ سامان لے جانے کی اجازت دی جائے، پھر دو گھرانوں کے سوا سب شام چلے گئے، یہ دو گھرانے آل ابی الحقیق اور آل حی بن اخطب تھے، یہ لوگ خیبر چلے گئی اور ان کی ایک جماعت حیرہ چلی گی۔

اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید کی اس آیت میں ہے : ھو الذی أخرج الذین کفروا من أھل الکتب من دیارھم“ (الحشر : ٢) جس ذات نے اہل کتاب میں سے کافروں کو یعنی نبو نضیر کو ان کے ان گھروں سے نکال دیا جو مدینہ میں تھے۔

امام ابن اسحاق نے کہا، جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے واپس ہوچکے تھے، اس وقت بنو نضیر کو جلا وطن کیا تھا اور بنو قریظہ کو غزوہ احزاب سے واپسی میں فتح کیا تھا اور ان دونوں کے درمیان دو سال کا وقفہ تھا۔

نیز اس آیت میں فرمایا : لأول الحشر“ زہری نے کہا : بنو نضیر دنیا میں وہ پہلے لوگ تھے جن کا شام میں حشر کیا گیا۔

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : جس شخص کو اس میں شک ہو کہ میدان حشر شام میں قائم ہوگا وہ اس آیت کو پڑھے، کیونکہ اس دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا تھا : نکل جاؤ، انھوں نے پوچھا : کہاں جائیں ؟ آپ نے فرمایا : ارض محشر میں پ، پھر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (الکشف و البیان ج ٩ ص 266-270 ملحضاً داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٢ ھ)

علامہ محمد بن عمر واقدی متوفی ٢٠٧ ھ علامہ عبدالملک بن ہشام متوفی ٢١٣ ھ علامہ محمد بن احمد ذہبی متوفی ٧٤٨ ھ نے بھی غزوہ بنو نضیر کا واقعہ کم و بیش اسی طرح لکھا ہے۔ (کتاب المغازی ج ١ ص 308 دارالکتب العلمیہ، ١٤٢٤ ھ سیرۃ ابن ہشام مع الروض الانف ج ٣ ص 387 دارالکتب العلمیہ، ١٤١٨ ھ تاریخ الاسلام، المغازی ص ٢٤٣ دارلاکتب العربی، ١٤١٩ ھ)

” اول حشر “ کا معنی

الحشر : ٢ میں ” اول الحشر “ فرمایا ہے : ” الحشر “ سے مراد ہے : ایک جماعت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ نکالنا اور اس کو ” اول حشر “ حسب ذیل وجوہ سے فرمایا ہے :

(١) حضرت ابن عباس (رض) اور اکثر مفسرین کا قول ہے کہ ان اہل کتاب کو پہلی مرتبہ جزیرہ عرب سے نکالا گیا اور دوسری بار حضرت عمر نے یہودیوں کو مدینہ طے جلا وطن کر کے شام کی طرف نکالا۔

(٢) میدان محشر شام کی سر زمین میں قائم ہوگا جب تمام مردوں کو زندہ کر کے شام کے علاقہ میں جمع کیا جائے گا اور دنیا میں اس سر زمین میں پہلی بار بنو نضیر کو نکالا گیا تھا۔

(٣) یہودیوں کو قتال کے لیے پہلی بار ان کی بستی سے نکال کر جمع کیا گیا اور پھر ان کو جلا وطن کیا گیا۔

(٤) قتادہ نے کہا : یہ پہلا حشر ہے اور دوسرا حشر اس وقت ہوگا جب قرب قیامت میں ایک آگ تمام لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف لے جائے گی۔ (النکت و العیون ج ٥ ص 498-499 معالم التنزیل ج ٥ ص 52-53) نیز اس آیت میں فرمایا : وہ اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں سے منہدم کر رہے تھے اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے بھی۔ اس انہدام کی تفسیر میں حسب ذیل وجوہ بیان کی گئی ہیں :

(١) جب بنو نضیر کو یہ یقین ہوگیا کہ ان کو جلا وطن کردیا جائے گا تو اب ان کو اس سے جلن ہوئی کہ ان کے گھروں میں مسلمان رہیں گے تو وہ اپنے گھروں کو اندر سے توڑ رہے تھے اور مسلمان ان کے گھروں کو باہر سے توڑ رہے تھے۔

(٢) قتادہ نے کہا : جب منافقوں نے ان کو یقین دلایا کہ وہ ان کی مدد کریں گے تو انھوں نے اپنے گھروں کو منہدم کر کے قلعوں کی طرح بنایا اور مسلمانوں نے ان کے گھروں کو ہر طرف سے توڑ دیا۔

(٣) جب مسلمان ان پر غالب آگئی تو انھوں نے ان کے گھروں کو منہدم کردیا اور بنو نضیر نے اپنے گھر کی پچھلی دیواروں کو منہدم کیا تھا تاکہ وہ گھروں سے نکلنے کا راستہ بنالیں۔

(٤) مسلمان ان کی بستی کو باہر سے منہدم کر رہے تھے اور بنو نضیر گھروں کو اندر سے منہدم کر رہے تھے تاکہ اپنے گھروں کے دروازوں، کھڑکیوں اور دیگر اشیاء کو نکال کرلے جائیں۔

(زاد المسیرج ٨ ص 204 النکت والعیون ج ٥ ص 499، الکشف والبیان ج ٩ ص 269 معالم التنزیل ج ٥ ص ٥٣)

فَاعْتَبِرُوْا يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ

بنو نضیر کے عذاب سے عبرت حاصل کرنے کی تفصیل

نیز اس آیت میں فرمایا : سو اے آنکھوں والو ! عبرت حاصل کرو۔

اس آیت کی تفسیر حسب ذیل وجوہ سے کی گئی ہے :

بنو نضیر نے اپنے قلعوں پر اور اپنی شوکت اور قوت پر گھمنڈ کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کے قلعوں کو منہدم کردیا اور ان کی شوکت اور قوت کو توڑ ڈالا، انھوں نے یہودیوں کی امداد پر بھروسا کیا تھا، وہ ان کی امداد کو نہ پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے آنکھوں والو ! عبرت حاصل کرو، اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اعتماد نہ کرو، لہٰذا عابد اور زاہد کو چاہے کہ وہ اپنے زہد اور عبادت پر بھروسا نہ کرے اور عالم فاضل کو چاہیے کہ وہ اپنے علم و فضل پر اعتماد نہ کرے، بلکہ ہر شخص اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت پر توکل کرے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، تم میں سے کسی شخص کو اس کا عمل نجات نہیں دے گا۔ صحابہ نے پوچھا، یا رسول اللہ ! آپ کو بھی نہیں ؟ فرمایا : مجھ کو بھی نہیں، سوا اس کے کہ اللہ مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے، تم ٹھیک ٹھیک اور صحت کے قریب عمل کرو، اور صبح اور شام کے کچھ وقت میں نیک کام کرو اور درمیانہ روش رکھو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٤٦٣ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨١٦ سنن نسائی رقم الحدیث : ٥٠٤٩ )

اس جگہ یہ اعتراض ہوتا ہے کہ بنو نضیر پر ان کے کفر اور ان کی عہد شکنی کی وجہ سے دنیا میں عذاب آیا کہ ان کو جلا وطن کردیا گیا اور انھوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے گھر منہدم کئے اور وہ آخرت میں عذاب کے مستحق ہوئے، حلاان کہ اور بہت لوگوں نے بھی کفر کیا اور عہد شکنی کی، مگر ان پر دنیا میں عذاب نہیں آیا۔ امام رازی نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ اس آیت میں عذاب سے مراد عام ہے، خواہ وہ دنیا کا عذاب ہو یا آخرت کا، لیکن میرے نزدیک یہ اعتراض سرے سے وارد ہی نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایک مخصوص واقعہ بیان فرمایا ہے کہ بنو نضیر پر ان کے کفر اور ان کی عہد شکنی کی وجہ سے دنیا میں عذاب آیا اور اس آیت میں کوئی قاعدہ کلیہ نہیں بیان فرمایا کہ جو لوگ بھی کفر اور عہد شکنی کریں گے ان پر لازماً دنیا میں عذاب آئے گا۔

اعتبار کا لغوی اور اصطلاحی معنی

اس آیت میں فاعتبروا کا لفظ ہے، اس کا مصدر ” اعتبار “ ہے، علامہ محمد بن عبالقادر رازی حنفی متوفی ٦٦٠ ھ اس کے مادہ عبر کے متعلق لکھتے ہیں :

عبرت کا معنی ہے : نصیحت حاصل کرنا، دوسرے کے حال پر اپنے آپ کو قیاس کرنا ” عبر “ کا معنی ہے : آنسو بہنا ” غبر “ کا معنی ہے : راستہ سے گزرنا ” عبر “ کا معنی ہے : کسی شخص کے مافی الضمیر کو بیان کرنا، زبان سے دل کی ترجمانی کرنا۔ (مختار الصحاح ص 246 داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی 502 ھ لکھتے ہیں :

” عبر “ کا اصل معنی ہے : ایک حال سے دوسرے حال کی طرف تجاوز کرنا، اس وجہ سے کہتے ہیں، دریا عبور کرتا ہے اور آنکھ سے آنسو گرتا ہے اور فلاں راستے سے گزرتا ہے اور اعتبار اور عبرت اس کو کہتے ہیں کہ انسان حاضر چیز کا مشاہدہ کر کے اس چیز کی معرفت حاصل کرے جو حاضر نہیں ہے اور تعبیر، خواب کی تاویل کے ساتھ خاص ہے، جس میں ظاہر سے باطن کی طرف انتقال ہوتا ہے۔ (المفردات ج ٢ ص 416 مکتبہ نزارمصطفی مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)

علامہ خلیل بن احمد فراہیدی متوفی 175 ھ نے کہا : مضای کے واقعات سے سب سیکھنا عبرت ہے۔ (کتاب العین ج ٢ ص 1125 مطبع باقری، قم، ١٤١٤ ھ)

امام فخر الدین حمد بن عمر رازیم توفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

اعتبار کا لفظ عبور سے ماخوذ ہے، اس کا معنی ہے : ایک چیز کا دوسری چیز کی طرف تجاوز کرنا، اس لیے آنسو کو عبرت کہتے ہیں کیونکہ وہ آنکھ سے تجاوز کرتا ہے اور خواب کی تاویل کو تعبیر کہتے ہیں کیونکہ تعبیر بیان کرنے والا متخیل سے معقول کی طرف منتقل ہوتا ہے اور الفاظ کو عبارات کہتے ہیں، کیونکہ بولنے والے کی زبان سننے والے کی طرف معانی منتقلک رتی ہے، کہا جاتا ہے کہ سعید وہ شخص ہے جو دوسرے عبرت حاصل کرے، کیونکہ اس کی عقل دور سے کے حال سے اپنے حال کی طرف منتقل ہوتی ہے، اسی لیے مفسرین نے اعتبار کی تفسیر میں کہا ہے کہ حقائق اشیاء اور ان کی دلالت کی وجوہ میں غور و فکر کرنا، تاکہ اس سے اس کی جنس کی دوسری چیز حاصل ہو، اس کو اعتبار کہتے ہیں اور ” یا اولی الابصار “ کا معنی ہے : اے عقل والو اور بصیرت والو ! ، یا اے وہ لوگو جنہوں نے اس واقعہ کا مشاہدہ کیا ہے۔ (تفسیر کبیرج ١٠ ص ٥٠٤ داراحیاء التراث العربی، بیروت ١٤١٥ ھ)

علامہ عبداللہ بن عمر بیضاوی متوفی ٦٨٥ ھ لکھتے ہیں:

اس آیت سے اس پر استدلال کیا گیا ہے کہ قیاس حجت ہے، کیونکہ اس آیت میں ایک حال سے دور سے حال کی طرف تجاوز کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

علامہ اسماعیل بن محمد الحنفی المتوفی 1195 ھ اس عبارت کی شرح میں لکھتے ہیں :

قیاس شرعی جو اپنی شروط کا جامع ہو حجت شرعیہ ہے، اس کی وجہ سے مقیس (فرع) میں حکم ظاہر ہوتا ہے اور وہ دلائل شرعیہ میں سے ہے، وجہ استدلال یہ ہے کہ ہم کو اعتبار کرنے کا حکم دیا اور اعتبار کا معنی ہے : کسی چیز کو اس کی نظری کی طرف لوٹا دینا، بایں طور کہ اس نظیر پر بھی اس چیز کا حکم لگایا جائے کیونکہ اس چیز اور اس کی نظیر میں علت مشترک ہوتی ہے۔ (حاشیۃ القونوی علی الیضاوی ج ١٩ ص ٩ دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢٢ ھ)

مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَاۗىِٕمَةً عَلٰٓي اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَلِيُخْزِيَ الْفٰسِقِيْنَ

اس آیت میں لینةکا لفظ ہے لینة کا معنی ہے : کھجور کا تروتازہ اور شاداب درخت خواہ وہ کسی قسم کی کھجور ہو۔

ابو عبیدہ نے کہا : لینةاس درخت کو کہتے ہیں : جس کی کھجوریں نہ عجوہ ہوں، نہ برنی ہوں۔

علامہ ابو اسحاق احمد بن ابراہیم ثعلبی متویف ٤٢٧ ھ لکھتے ہیں :

جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بن وضنیر کی بستی میں پہنچے تو بنو نضیر اپنے قلعوں میں بند ہوگئے، آپ نے حکم دیا کہ ان کی کھجور کے درختوں کو کاٹ دیا جائے اور جلا دیا جائے، اس وقت اللہ کے ان دشمنوں نے فرمایا کی : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ نیک کام کرتے ہیں، کیا یہی نیکی ہے کہ درختوں کو کاٹ دیا جائے، کیا آپ کی کتاب میں یہ حکم نازل کیا گیا ہے کہ زمین میں فساد کیا جائے ؟ مسلمان ان کی یہ بات سن کر ڈرے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ کام فساد ہو، پھر مسلمانوں میں اختلاف ہوگیا، بعض نے کہا، ان درختوں کو نہ کاٹو ان درختوں کو اللہ تعالیٰ نے ہماری ملک میں لوٹا دیا ہے اور بعض نے کہا، نہیں ! ہم ان درختوں کو کاٹ کر بنو نضیر کو غیظ اور غم و غصہ میں مبتلا کریں گے، تب اللہ تعالیٰ نے ان دونوں فریقوں کی تصدیق میں یہ آیت نازل کی کہ جن مسلمانوں نے ان درختوں کو کاٹا ہے، وہ بھی اللہ کے حکم سے ہے اور جن مسلمانوں نے ان درختوں کو بغیر کاٹے چھوڑ دیا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے۔ (الکشف و البیان ج ٩ ص ٢٧٠ داراحیاء التراث العربی، بیروت ١٤٢٢ ھ)

بنو نضیر کے درختوں کو کاٹنا اور چھوڑ دینا، آیا صحابہ کے اجتہاد سے تھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد سے؟

علامہ ابو الحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ لکھتے ہیں :

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو نضیر کے قلعوں کے پاس مقام البویرہ میں پہنچے تو آپ نے ان کی بستی کا محاصرہ کرلیا، کیونکہ غزوہ احد میں انھوں نے مشرکین کی مدد کر کے آپ سے کئے ہوئے معاہدہ کی خلاف ورزی کی، تو مسلمانوں نے ان کے کھجور کے درختوں کو کاٹ ڈالا اور چھ درختوں کو جلا دیا اور امام محمد بن اسحاق نے کہا ہے کہ انھوں نے ایک درخت کو کاٹ دیا تھا اور ایک درخت کو جلا دیا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اس کارروائی پر برقرار رکھا تھا۔ (النکت والیعون ج ٥ ص ٥٠١)

اور امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ نے اپنی سند سے روایت کیا ہے :

یزید بن رومان نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو نضیر کی بستی میں پہنچے تو وہ قلعہ بند ہوگئے، تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ ان کے کھجور کے درختوں کو کاٹ دیا جائے اور جلا دیا جائے، اس پر انھوں نے اعتراض کیا کہ آپ تو فساد کرنے سے منع کرتے تھے اور اس کی مذمت کرتے تھے اور اب خود درختوں کو کاٹ رہے ہیں اور جلا رہے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ما قطعتم من لینۃ اوترکتموھا قآئمۃ علی اصولھا فباذن اللہ (الحشر : ٥)

قتادہ نے کہا، بعض مسلمانوں نے درخت کاٹ دیئے اور بعض نے اس خیال سے نہیں کاٹے کہ کہیں یہ فساد نہ ہو۔ (جامع البیان جز 28 ص 44 رقم الحدیث :26219-26220 دار الفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

علامہ ابوالحسن الماوردی لکھتے ہیں کہ درختوں کو کاٹنے اور جلانے کے بعد مسلمانوں کے دل میں خدشہ ہوا، بعض نے کہا، یہ زمین میں فساد کرنا ہے اور بعض نے کہا ان میں حضرت عمر (رض) بھی تھے، کہ یہ اللہ کا اپنے دشمنوں کو ذلیل کرنا ہے اور مسلمانوں کی مدد کرنا ہے، پھر مسلمانوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : یا رسول اللہ ! ہم نے جو کارروائی کی ہے اس پر ہم کو اجر ملے گا یا گناہ ہو گا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : تم نے کھجوروں کے جو درخت کاٹ دیئے یا جن کو ان کی جڑوں پر کھڑا چھوڑ دیا، سو وہ اللہ کے اذن سے ہوا اور تاکہ وہ فاسقوں کو ذلیل کرے۔ (الحشر : ٥) اس سے معلوم ہوا کہ جن مسلمانوں نے اپنے اجتہاد سے درختوں کو کاٹ دیا تھا وہ بھی صحیح تھا اور جنہوں نے اپنے اجتہاد سے درختوں کو نہیں کاٹا ان کا اجتہاد بھی صحیح تھا۔ (النکتت و العیون ج ٥ ص 502 دارالکتب العلمیہ، بیروت)

علامہ ابوبکر محمد بن عبداللہ ابن العربی المالکی المتوفی ٥٤٣ ھ لکھتے ہیں :

بعض علماء نے کہا، اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر مجتہد کا اجتہاد صحیح ہوتا ہے، لیکن یہ قول باطل ہے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے مسلمانوں کا اجتہاد کرنا جائز نہ تھا، البتہ یہ آیت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد پر دلیل ہے کیونکہ اس خاص معاملہ میں آپ پر کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا اور چونکہ عمومی طور پر کفار کو ذلیل کرنے کا حکم ہے، اس لیے آپ نے کافروں کے درختوں کو کاٹنے کا حکم دیا یا مسلمانوں کو کاٹنے سے منع نہیں فرمایا اور جب اس پر بنو نضیر نے اعتراض کیا تو آپ کی تائید اور تصویب میں الحشر : ٥ نازل ہوگئی۔ (احکام القرآن ج ٤ ص ٤١١، دارلاکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٠٨ ھ)

وَمَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ الخ

فئے کا لغوی اور شرعی معنی

اس آیت میں أفاء کا لفظ ہے، اس کا مصدر فیی ہے، علامہ راغب اصفہاین اس کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

فئے کا معنی ہے : حالت محمودہ کی طرف رجوع کرنا اور اس مال غنیمت کو فئے کہتے ہیں جس میں مسلمانوں کو کوئی مشقت نہ ہو۔ (المفردات ج ٢ ص 502-503 مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ : ١٤١٨ ھ)

علامہ ابوبکر احمد بن علی رازی جصاص حنفی متوفی ٣٧٠ ھ لکھتے ہیں :

مشرکین کے جو اموال مسلمانوں کے قبضہ میں آجائیں، وہ اموال فئے ہیں، لہٰذا غنیمت، جزیہ اور خراج یہ سب فئے ہیں، کیونکہ یہ تمام وہ چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے کفار کی ملکیت سے نکال کر مسلمانوں کی ملکیت میں داخل کردیں، ہرچند کہ غنیمت بھی فئے ہے لیکن وہ بعض خصوصیات کی وجہ سے فئے سے الگ ہوگئی کہ جو اموال کفار سے بذریعہ جنگ حاصل ہوں ان کو غنیمت کہتے ہیں، اور ان اموال میں خمس (٥/١) نکالنے کے بعد ان کو مجاہدین پر تقسیم کردیا جاتا ہے اور جو مال فئے ہوں وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زیر انتظام رہتے ہیں، ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ضروریات، اپنے اقرباء، فقراء، مساکین، مسافروں اور عام مسلمانوں کی فلاح اور بہبود پر خرچ کرتے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد ان کا مصرف فقرا، مساکین، مسافر اور عام مسلمانوں کی ضروریات ہیں، کیونکہ حضرت مالک بن اوس بن حدثان (رض) کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا : بنو نضیر کے اموال فئے تھے ان اموال کو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پلٹا دیا، ان کے حصول کے لیے مسلمانوں نے اپنے اونٹ اور گھوڑے نہیں دوڑائے تھے، یہ اموال خاص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تصرف میں ھتے، آپ ان اموال میں سے اپنے اہل وعيال کے لیے ایک سال کا خرچ نکالتے تھے اور باقی اموال کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے سواریوں اور ہتھیاروں میں خرچ کرتے تھے۔

 علامہ ابوبکر جصاص فرماتے ہیں : یہ وہ اموال فئے ہیں جن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تصرف کرتے تھے، ان اموال میں کسی کا حق نہیں ہے، الا یہ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان اموال میں سے کسی کو کچھ عطا فرما دیں، ان اموال میں سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اہل پر خرچ کرتے تھے اور باقی اموال کو سواریوں اور ہتھیاروں پر خرچ کرتے تھے، کیونکہ ان اموال کو مسلمانوں نے جنگ کے ذریعہ حاصل نہیں کیا تھا بلکہ صلح کے ذریعہ حاصل کیا تھا، ارض فدک اور عرینہ کے اموال کا بھی یہ یہ حکم ہے۔ قرآن مجید میں فئے کے متعلق سورة حشر کی جو آیات ہیں ان میں یہ دلیل ہے کہ کفار کے جو اموال بغیر جنگ کے مسلمانوں کو حاصل ہوئے ہوں ان کو مسلمان کے بیت المال میں نہیں رکھا جائے گا بلکہ ان کو ان مصارف میں خرچ کیا جائے گا جن مصارف میں خراج اور جزیہ کے اموال کو خرچ کیا جاتا ہے، کیونکہ وہ اموال بنو نضیر کے اموال کے حکم میں ہیں کیونکہ ان کے حصول کے لیے مسلمانوں نے کوئی جنگ کی ہے نہ کوئی مشقت اٹھائی ہے۔ (احکام القرآن ج ٣ ص 429-430 سہیل اکیڈمی، لاہور، ١٤٠٠ ھ)

مال غنیمت اور مال فئے کو کفار کی ملکیت سے نکال کر مسلمانوں کو دینے کی وجہ

کفار سے جس نوع کے بھی اموال حاصل ہوتے ہیں، ان سب کی حقیقت یہ ہے کہ کفار کے باغی ہوجانے کی وجہ سے بحق سرکار ضبط ہونے کے بعد وہ اموال ان کی ملیکت سے نکل جاتے ہیں اور مالک حقیقی (یعنی اللہ تعالیٰ ) کی طرف لوٹ جاتے ہیں، اس لیے اموال کے اللہ کی طرف پلٹ آنے کو افاء اور فیئی سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن جن اموال کے حصول میں مسلمانوں کی جنگ اور جہاد کا دخل ہوتا ہے، اس مال کو اللہ تعالیٰ نے لفظ غنیمت سے تعبیر فرمایا، ارشاد ہوا : واعلموا أنما غنمتم من شيء الایۃ (الأنفال : ٤) جان لو کہ مال تم نے بطور غنیمت حاصل کیا ہے اور کفار کے جس مال کے حصول میں جنگ اور جہاد کی ضرورت نہیں پڑتی، اللہ تعالیٰ نے اس کو فئے سے تعبیر فرمایا ہے اور ارشاد فرمایا : ما أفآء الله علی رسوله من أھل القریٰ (الحشر : ٧) یعنی بنو نضیر اور بنو قریظہ کے جو مال اللہ تعالیٰ نے بغیر جنگ کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پلٹا دیئے۔

 سورة حشر کی ابتدائی آیات میں بنو نضیر کی ان جائیداوں اور املاک کا ذکر ہو رہا ہے جو پہلے بنو نضیر کی ملک تھیں اور ان کی جلا وطنی کے بعد وہ اسلامی حکومت کے قبضہ میں آگئیں، ان آیات میں ان متروکہ جائیدادوں کے انتظام اور ان کے اموال میں تصرف کرنے کا طریقہ بیان فرمایا ہے، کیونکہ یہ ایک علاقہ کے فتح ہونے کے بعد اس کے اسلامی مقبوضات میں شامل ہونے کے بعد تصرف کرنے کا طریقہ بیان فرمایا ہے، کیونکہ یہ  علاقہ فتح ہونے کے بعد اس کے اسلامی مقبوضات میں شامل ہونے کا پہلا موقع تھا اور اس کے بعد بھی اس قسم کے بہت سے علاقے فتح ہونے والے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ابتداء ہی میں اراضی مفتوحہ کا قانون بیان فرما دیا۔ اس آیت میں یہ بات قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان سے اپنے مفتوحہ کا قانون بیان فرما دیا۔

 اس آیت میں یہ بات قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان سے اپنے رسول کی طرف پلٹا دیا۔ ان الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ زمین اور یہاں کی ساری چیزیں اللہ کے باغیوں کا حق نہیں ہیں، اگر وہ ان چیزوں پر متصرف ہیں تو اس کی مثال اییس ہے جیسے ڈاکو اور باغی حکومت کے اموال پر قبضہ کر کے اس میں تصرف کرنے لگیں درحقیقت تمام اموال میں اصل یہ ہے کہ ان اموال کو ان کے حقیقی مالک اللہ رب العالمین کے احکام اور اس کی اطاعت اور عبادت میں خرچ کیا جائے اور ان اموال میں اس طرح کا خرچ صرف صالحین مومنین ہی کرسکتے ہیں۔ اس لیے جو اموال بھی ایک جائز اور صحیح جنگ کے نتیجہ میں کافر کے قبضہ سے نکل کر اہل ایمان کے قبضہ میں آجائیں ان کی حقیقی حیثیت یہ ہے کہ ان کا مالک انھیں اپنے خائن ملازموں کیقبضہ سے نکال کر اپنے فرمان بردار ملازموں کی طرف پلٹاتا ہے، اس لیے ان املاک کو اسلامی قانون کی اصلاح میں فئے (پلٹا کر لائے ہوئے اموال) کہا جاتا ہے۔

مال غنیمت اور مال فئے کا فرق

مال غنیمت وہ مال ہے جس کو مسلمان فوج دشمن سے جنگ کر کے اور مقابلہ میں فتح یاب ہو کر دشمن سے حاصل کرتی ہے، لیکن فوج میں اس مال کو تقسیم کرنے کی صرف یہ وجہ نہیں ہے کہ چونکہ اس فوج نے لڑ کر یہ مال جیتا ہے، اس وجہ سے یہ مال اس کا حق ہے، بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مسلمانوں کو اس جنگ میں فتح عطا کی ہے اور درحقیقت یہ اس اسلامی نظام کی فتح ہے، جس کو قائم کرنے کے لیے مسلمانوں نے جنگ کی تھی، اس لیے مسلمانوں پر لازم ہے کہ خمس نکالنے کے بعد مال غنیتم کے عنوان سے ان کو جو مال دیا جائے اس مال کو وہ اللہ کے احکام اور اس کی اطاعت اور عبادت میں صرف کریں تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ جب کفار کے ہاتھ میں پیسہ ہو تو وہ اس کو کس طرح خرچ کرتے ہیں اور جب مسلمانوں کے ہاتھ میں پیسہ آئے تو وہ اس کو کس طرح صرف کرتے ہیں۔

مال غنیمت کے برخلاف مال فئے کی یہ نوعیت نہیں ہے کہ اس مال کو اسلامی فوج نے میدان جنگ میں لڑ کر جیتا ہے اور اس بناء پر اس مال کو اسلامی فوج میں تقسیم کردیا جائے، بلکہ مال فئے کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اپنے رسول اور مسلمانوں کو کفار پر غالب کردیا اور اسلام کے رعب اور ہیب سے کفار اپنے اموال کو چھوڑ کر بھاگے اور بغیر کسی جنگ کے مسلمانوں کے ہاتھوں میں کفار کے اموال آگئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ظاہر ہوتا ہے : ” فما اوجفتم علیہ من خیل ولا رکاب “ (الحشر : ٦) یہ ایسے اموال نہیں ہیں جن پر تم نے اپنے گھوڑے یا اونٹ دوڑائے ہوں۔ اس وجہ یس اموال فئی میں فوج کا حق نہیں ہے کہ مال غنیمت کی طرح مال فئی کو بھی ان میں تقسیم کردیا جائے۔

اسلام میں غنیتم اور فئے کا حکم الگ الگ مقرر کیا ہے، غنیمت کا حکم سورة انفال کی آیت : ٤١ میں بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ مال غنیمت کے پانچ حصے کئے جائیں، چار حصے لڑنے والی فوج میں تقسیم کر دئیے جائیں اور ایک حصہ بیت المال میں داخل کر کے اس کو یتامی مساکین مسافروں اور مسلمانوں کے عام رفاہی امور میں خرچ کیا جائے اور فئے کا حکم سورة حشر کی آیت : ٧ تا ١٠ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اموال فئے کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے قرابت داروں، یتای، مساکین اور مسافروں پر خرچ کیا جائے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد آپ کا حصہ ساقط ہوگیا، امام شافعی کے نزدیک یہ حصہ اب امام اور خلیفہ پر خرچ کیا جائے گا اور آپ کے قرابت داروں کا حصہ فقراء اور مساکین میں آگیا اور یہ تقسیم کی وہی صورت ہے جو خمس میں بیان کی گئی ہے۔ غنیمت اور فئے کا یہ ایک اجمالی فرق ہے، اس کی تفصیل آئندہ سطور میں ہم فقہاء اسلام کے مذاہب کے ذکر میں بیان کریں گے، اس سے پہلے کہ فئے اور غنیمت کی مزید وضاحت کریں، پہلے سورة حشر کی ان آیات کو بیان کرتے ہیں جو فئے کے احکام کا اصل ماخذ ہیں۔

قرآن مجید سے اموال فئے کے وقف ہونے پر دلائل

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

(الحشر : ٧۔٦) اور اللہ نے جو اموال ان سے نکال کر اپنے رسول پر لوٹا دیئے، حالانکہ تم نے ان کے حصول کے لیے نہ اپنے گھوڑے دوڑائے تھے نہ اونٹ، لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جن پر چاہے مسلط فرما دیتا ہے، اور اللہ ہر چیز قادر ہے۔ اللہ نے ان بستیوں والوں سے جو اموال نکال کر اپنے رسول پر لوٹا دیئے، سو وہ اللہ کے ہیں اور رسول کے، اور (رسول کے) قربات داروں کے اور یتیموں کے اور مسکینوں کے اور مسافروں کے تاکہ وہ (اموال) تم میں سے صرف مال داروں کے درمیان گردش نہ کرتے رہیں۔ اس کے بعد فرمایا :

والذین جآء ومن بعدھم (الحشر : ١٠) اور (یہ مال ان لوگوں کے لیے بھی ہے) جو پہلوں کے بعد آئے ہیں۔

ان آیات سے واضح ہوگیا کہ مال خمس اور مال فئے کے مصارف ایک جیسے ہیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ اموال کسی شخص کی شخصی ملکیت میں نہیں دیئے، حتیٰ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اللہ تعالیٰ نے ان اموال کا شخصی مالک نہیں بنایا بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ اموال آپ کی تولیت اور انتظام میں کردیئے اور ان کے مصارف متعین کردیئے، تاکہ آپ ان اموال کو اپنی ضروریات میں خرچ کریں، اپنے قرابت داروں میں صرف کریں اور یتیموں، مکسینوں اور مسافروں پرخ رچ کریں، چنانچہ اس باب کی احادیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان اموال کو اسی طرح خرچ کرتے تھے، نیز اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے کہ ان اموال کے یہ مصارف اس لیے مقرر کئے ہیں تاکہ یہ مال تمہارے مال داروں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے، اس سے واضح ہوگیا کہ مال فئی کا کوئی شخص شخصی مالک نہیں ہے اور نہ اس میں وراثت جاری ہوسکتی ہے، نیز ان آیات کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” والذین جآء و من بعدھم “ (الحشر : ١٠) اور (یہ مال ان لوگوں کے لیے بھی ہے) جو پہلوں کے بعد آئے ہیں۔ اس آیت سے بھی یہ واضح ہوگیا کہ اموال فئے کسی شخص کی نجی اور شخصی ملکیت نہیں ہوتے بلکہ یہ مسلمانوں کے مفاد عامہ اور یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے قیامت تک وقف ہوتے ہیں اور اموال فئے کے قوف ہونے پر سورة حشر کی یہ نصوص قطعیہ ناطق اور شاہد ہیں۔

احادیث سے مال فئے کے وقف ہونے پر دلائل اور باغ فدک کا وقف ہونا

حضرت اوس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے مجھے بلوایا، میں دن چڑھنے کے بعد ان کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ وہ گھر میں خالی تخت پر چمڑے کے ایک تکیہ سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں، فرمانے لگے: اے مالک ! تمہاری قوم کے کچھ لوگ جلدی جلدی آئے تھے، میں نے انھیں تھوڑی سی چیزیں دینے کا حکم دے دیا ہے، تم وہ چیزیں لے کر ان کے درمیان تقسیم کردو، میں نے کہا : آپ میرے علاوہ کسی اور کے ذمہ یہ کام لگا دیتے تو اچھا تھا، حضرت عمر نے فرمایا : اے مالک ! تم یہ چیزیں لے لو، اتنے میں (ان کا غلام) یرفا اندر آیا اور کہنے لگا : حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، حضرت زبیر اور حضرت سعد کے متعلق کیا حکم ہے ؟ (یعنی وہ اندر آنے کی جازت چاہتے ہیں) حضرت عمر نے کہا : اچھا اور انھیں اندر آنے کی اجازت دے دی اور وہ اندر آگئے پھر یرفاء آئے اور کہا : حضرت علی اور حضرت عباس کے بارے میں کیا حکم ہے حضرت عمر نے کہا : اچھا اور ان کو بھی اجازت دے دی، حضرت عباس نے کہا، اے امیر المومنین ! میرے اور اس جھوٹے، خطا کار، عہد شکن اور خائن کے درمیان فیصلہ کردیجیے، باقی صحابہ نے بھی کہا : ہاں ! اے امیر المومنین ! ان کے درمیان فیصلہ کردیجیے اور ان کی راحت دلایئے۔ حضرت مالک بن اوس نے کہا : میرا خیال تھا کہ ان دونوں نے ان صحابہ کو اسی لیے پہلے بھیجا تھا، حضرت عمر نے کہا، ٹھہرو ! میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ جس کے اذن سے آسمان اور زمین قائم ہیں، کیا تمہیں علم ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا : ہمارا وارث نہیں بنایا جائے گا، ہم نے جو کچھ بھی چھوڑا ہے وہ صدقہ ہے ؟ انھوں نے کہا : ہاں ،حضرت عمر نے کہا : ٹھہرو ! میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ جس کے اذن سے آسمان اور زمین قائم ہیں، کیا تمہیں علم ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا : ہمارے وارث نہیں بنایا جائے گا، ہم نے جو کچھ بھی چھوڑا ہے وہ صدقہ ہے ؟ انھوں نے کہا : ہاں ! پھر حضرت عمر، حضرت عباس اور حضرت علی کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : میں تم دونوں کو اس ذات کی قسم دیتا ہوں جس کے اذن سے آسمان اور زمین قائم ہیں، کیا تم دونوں یہ جانتے ہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا تھا کہ ہمارا وارث نہیں بنایا جائے گا ہم نے جو کچھ چھوڑا ہے وہ صدقہ ہے، ان دونوں نے کہا : ہاں ! حضرت عمر نے کہا، بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک چیز کے ساتھ خاص کیا تھا جس کے ساتھ کسی اور کو خاص نہیں کیا تھا، یہ وہ اموال ہیں جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لوٹا دیئے تھے، یہ اموال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں (یعنی اموال فئے) راوی کہتے ہیں مجھے علم نہیں کہ انھوں نے اس سے پہلے والی آیت پڑھی تھی یا نہیں۔

 پھر حضرت عمر نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہارے درمیان بنو نضیر کے اموال تقسیم کردیئے، بخدا ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان اموال کو اپنے ساتھ خاص نہیں کیا اور نہ تمہیں چھوڑ کر ان اموال کو خود رکھا، حتیٰ کہ یہ مال باقی رہ گیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس مال سے ایک سال کا خرچ لے لیتے تھے، باقی جو بچتا وہ بیت المال میں رکھ لیتے، حضرت عمر نے کہا : ہاں ! پھر حضرت عمر نے حضرت عباس اور حضرت علی کو بھی وہی قسم دی جو باقی صحابہ کو دی تھی اور کہا، کیا تم کو اس کا علم ہے؟ انھوں نے کہا، ہاں ! حضرت عمر نے کہا: جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وصال ہوگیا تو حضرت ابوبکر نے کہا : میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلیفہ ہوں، پھر تم دونوں آئے، تم اپنے بھتجیے کی میراث سے طلب کرتے تھے اور یہ اپنی زوجہ کے لیے ان کے والد کی میراث سے طلب کرتے تھے تو حضرت ابوبکر نے کہا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : ہم کسی کو وارث نہیں بناتے، ہم نے جو کچھ بھی چھوڑا ہے وہ صدقہ ہے، سو تم دونوں نے حضرت ابوبکر کو جھوٹا، گناہ گار، عہد شکن اور خائن گمان کیا اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ حضرت ابوبکر سچے، نیک، ہدایت یافتہ، اور حق کی پیروی کرنے والے ہیں، پھر حضرت ابوبکر فوت ہوگئے اور میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر کا خلیفہ بنایا گیا، پس تم دونوں مجھے بھی جھوٹا، گناہ گار، عہد شکن اور خائن گمان کیا (یعنی میرے ساتھ وہ سلوک کیا جو جھوٹے اور خائن کے ساتھ کرتے ہیں) اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں سچا، نیک، ہدایت یافتہ اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں، پھر میں ان اموال کا ولی بنایا گیا پھر تم اور یہ میرے پاس آئے درآں حالیکہ تم دونوں کی رائے متفق تھی، تم دونوں نے کہا : ان اموال کی نگہدشات ہمارے سپرد کردیجیے، میں نے کہا، اگر تم چاہو تو میں یہ اموال اس شرط کے ساتھ تمہارے سپرد کردیتا ہوں کہ تم ان اموال میں اسی طرح تصرف کرو گے جس طرح ان اموال میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تصرف کرتے تھے، تم دونوں نے اس کا اقرار کیا، حضرت عمر نے کہا، کیا اسی طرح معاہدہ ہوا تھا ؟ انھوں نے کہا، ہاں ! حضرت عمر نے کہا، اب پھر تم دونوں میرے پاس آئے ہو کہ میں تم دونوں کے درمیان فیصلہ کروں، نہیں ! خدا کی قسم ! قیامت تک میں تمہارے درمیان اس کے سوا کوئی اور فیصلہ نہیں کروں گا، اگر تم ان اموال کا انتظام کرنے سے عاجز ہوگئے ہو تو پھر یہ مجھے واپس کردو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٣٥٨ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٩، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٢٩٦٣ سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٦١٠ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٤٤٥٠ )

کیا حضرت علی نے نبی کا وارث نہ بنانے کی روایت میں حضرت ابوبکر اور عمر کو جھوٹا، عہد شکن خائن اور گناہ گار گمان کیا تھا ؟

ملا باقر مجلسی نے کہا ہے کہ اس حدیث کے باطل اور موضوع ہونے پر یہ دلیل ہے کہ ” صحیح مسلم “ میں مالک بن اوس سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے حضرت علی اور حضرت عباس سے کہا : حضرت ابوبکر نے تم دونوں سے یہ کہا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : ہم کسی کو وارث نہیں بناتے، ہم نے جو کچھ ترک کیا ہے وہ صدقہ ہے، پس تم دونوں نے ابوبکر کو جھوٹا، عہد شکن، خائن اور گناہ گار گمان کیا اور اللہ خوب جانتا ہے کہ ابوبکر سچے، نیک اور حق کی پیروی کرنے والے تھے، پھر ابوبکر فوت ہوگئے اور میں رسول اللہ کا خلیفہ ہوا، پھر تم دونوں نے مجھ کو جھوٹا، عہد شکن، خائن اور گناہ گار گمان کیا اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں سچا، نیک اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں۔ ملا باقر مجلسی کہتے ہیں کہ ” صحیح مسلم “ کی اس روایت سے یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت علی، حضرت ابوبکر کو اس روایت میں جھوٹا گردانتے تھے اور حضرت علی کا اس روایت کو جھوٹا قرار دینا اس روایت کی باطل اور موضوع ہونے پر واضح دلیل ہے، کیونکہ حضرت علی حق کے سوا کچھ نہیں کہتے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت علی (رض) بھی اس حدیث کی صداقت کے معترف تھے جیسا کہ مالک بن اوس کی اسی روایت میں ہے، حضرت عمر نے حضرت علی اور حضرت عباس سے فرمایا :

میں تم کو اس ذات کی قسم دیتا ہوں جس کی اجازت سے زمین اور آسمان قائم ہیں، کیا تم دونوں کو یہ عمل ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا : ہمارا وارث نہیں بنایا جائے گا، ہم نے جو کچھ چھوڑا ہے وہ صدقہ ہے ؟ حضرت عباس اور حضرت علی دونوں نے کہا : ہاں (ہمیں علم ہے) (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٩ )

نبی کا وارث نہ بنانے کی حدیث پر اشکالات کے جوابات

اس جگہ پر اشکال ہوتا ہے کہ حضرت عباس اور حضرت علی کو اس حديث کا علم تھا اور جب انھیں علم تھا تو حضرت فاطمہ کو بھی یقینا علم ہوگا تو پھر ان حضرات نے حضرت ابوبکر سے میراث کا مطالبہ کیوں کیا؟  اور پھر دوبارہ حضرت عمر سے میراث کا مطالبہ کیوں کیا ؟

حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرت عباس اس حدیث کے تو معترف تھے لیکن اس حدیث کو عام نہیں سمجھتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ترکہ میں سے کسی چیز کا بھی کوئی وارث نہیں ہوگا، ان کے نزدیک اس حدیث کا مفہوم یہ تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ترکہ میں سے بعض چیزوں کا کوئی وارث نہیں ہوگا اور باقی متروکات میں وراثت جاری ہوگی اور خیبر کی بعض اراضی اور فدک کے متعلق ان کا گمان تھا کہ اس میں وراثت جاری ہوگی، اس وجہ سے وہ ان میں وراثت کو طلب کرتے تھے اس کے برعکس حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور دیگر صحابہ اس حدیث کو عموم پر محمول کرتے تھے اور اس حدیث کی تعمیم اور تخصیص میں ان کی آراء اور اجتہاد میں اختلاف ہوگیا، حضرت علی اور حضرت عباس کو اپنے موقف پر اصرار تھا اس وجہ سے پہلے انھوں نے حضرت ابوبکر سے اور پھر حضرت عمر سے میراث کی تقسیم کا مطالبہ کیا۔ (فتح الباری ج ٦ ص ٢٠٧ محصلاً لاہور، ١٤٠١ ھ)

دوسرا اشکال یہ ہے کہ حضرت عمر نے جو حضرت عباس اور حضرت علی سے فرمایا کہ تم دونوں نے پہلے ابوبکر کو اور پھر مجھے جھوٹا، عہد شکن اور خائن گمان کیا اس کا کیا محمل ہے ؟

علامہ ابی مالکی لکھتے ہیں کہ علامہ مازری مالکی نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ یہ باب تنزیل سے ہے یعنی تم دونوں نے حضرت ابوبکر کے استدلا اور حجت کو تسلیم نہیں کیا اور برابر میرثا کی تقسیم کا مطالبہ کرتے رہے، خلاصہ یہ ہے کہ تم نے سچے شخص کے ساتھ جھوٹے شخص کا معاملہ کیا نہ یہ کہ تم نے ان کو فی الواقع جھوٹا سمجھا۔ عالمہ ابی مالکی لکھتے ہیں کہ یہاں ہمزہ استفہام محذوف ہے یعنی ” افرایتماہ کاذبا غادراً خائناً آئماً “ کیا تم نے ابوبکر کو جھوٹا، عہد شکن، خائن اور گناہ گار سمجھا تھا ؟ اور یہ استفہام انکاری ہے، یعنی جب تم حضرت ابوبکر کو جھوٹا اور عہد شکن نہیں سمجھتے تھے تو پھر کیوں بار بار میراث کی تقسیم کا مطالبہ کرتے تھے؟ (اکمال اکمال العلم ج ٥ ص 77-78 دارلاکتب العلمیہ بیروت)

نبی کا وارث نہ بنانے کی تائید میں دیگر احادیث

ام المومنین حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحبزادی حضرت فاطمہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر سے یہ سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو فئی عطا کیا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں جو کچھ چھوڑا ہے اس میں ان کی میراث کو تقسیم کریں، حضرت ابوبکر نے ان سے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہمارا وارث نہیں بنایا جائے گا، ہم نے جو کچھ چھوڑا ہے وہ صدقہ ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٢٤٠ )

امام بخاری اپنی سند کے ساتھ حضرت عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں:

حضرت مالک بن اوس بن حدثان (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) (حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمٰن، حضرت زبیر اور حضرت سعد سے) کہا : ٹھہرو ! میں تم کو اللہ کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں، جس کے اذن سے آسمان اور زمین قائم ہیں کیا تم کو علم ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا : ہمارا وارث نہیں بنایا جائے گا، ہم نے جو کچھ چھوڑا وہ صدقہ ہے ؟ انھوں نے کہا، بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :5358)

باغ فدک کو وقف قرار دینے پر مفصل بحث اور علماء شیعہ کے اہم اعترضاتا کے جوابات پڑھنے کے لیے ” شرح صحیح مسلم “ ج ٥ ص 361-460 کا مطالعہ فرمائیں۔

” دولة “ کا معنی

نیز الحشر : ٧ میں فرمایا : تاکہ وہ (اموال) تم میں سے (صرف) مال داروں کے درمیان گردش کرتے نہ رہیں۔

اس آیت میں دولة “ کا لفظ ہے، علامہ حسین محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ اس کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

الدولة “ اور الدولة واحد ہیں، ایک قول یہ ہے کہ ” الدولۃ “ کا اطلاق مال میں ہوتا ہے ” الدولۃ “ کا اطلاق حرب میں ہوتا ہے، اور دولت اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو بعینہ گردش کرتی رہتی ہے، کبھی ایک کے پاس، کبھی دوسرے کے پاس، قرآن مجید میں ہے :

وتلک الأیام نداولھا بین الناس (آل عمران : ١٤٠) ہم ان ایام کو لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ (المفردات ج ١ ص 232، مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہر حکم واجب الاطاعت ہے

اس کے بعد اس آیت میں فرمایا : اور رسول تم کو جو دیں اس کو لے لو، اور جس سے تم کو روکیں اس سے رک جاؤ۔

یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کو مال غنیمت سے جو کچھ عطا کریں، اس کو قبول کرلو، اور تم کو مال غنیمت میں خیانت

کرنے سے روکیں تو اس سے رک جاؤ۔ اس آیت کا شان نزول اگرچہ مال غنیمت کے ساتھ خاص ہے، لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام اور مر اور نواہی اور آپ کے تمام احکام اس میں داخل ہیں۔

حصن بصری نے کہا، اس آیت کا معنی ہے : میں تم کو مال فئے سے جو کچھ دوں اس کو قبول کرلو، اور جس چیز سے تم کو منع کر دوں اس کو طلب نہ کرو۔

علاہم الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ نے کہا : یہ آیت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام اوامر اور نواہی پر محمول ہے کیونکہ آپ کا ہر حکم صرف نیک کام کے لیے ہوتا ہے اور انہی اور ممانعت برائی کے لیے ہوتی ہے۔ (النکت والعیون ج ٥ ص 504 دارالکتب العلمیہ، بیروت)

وَلَا يَجِدُوْنَ فِيْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ الخ

علاہ ابو اسحاق احمد بن ابراہیم الثعلبی المتوفی ٤٢٧ ھ لکھتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر کے دن انصار سے فرمایا : اگر تم چاہو تو تم اپنے اموال اور اپنے گھروں کو مہاجرین کے لیے تقسیم کردو اور تم بنو نضیر کے مال غنیمت میں شریک ہو جاؤ اور اگر تم چاہو تو تمہارے اموال اور تمہارے گھر تمہارے ہی لیے رہیں اور اس مال غنیمت کو مت میں تقسیم نہیں کیا جائے گا، انصار نے کہا : بلکہ ہم اپنے مالوں کو اور اپنے گھروں کو مہاجرین کے لیے تقسیم کریں گے اور ہم اس مال غنیمت میں ان کے شریک نہیں ہوں گے ، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (الکشف وا لبیان ج ٩ ص 280 داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٢ ھ)

علامہ ابو الحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی 450 ھ لکھتے ہیں :

مجاہد اور مقاتل بن حیان نے کہا کہ بنو نضیر سے جو مال فئے حاصل ہوا تھا وہ انصار نے مہاجرین کے لیے چھوڑ دیا اور خود اس میں سے کچھ نہیں لیا۔

روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر سے حاصل شدہ مال فئے اور بنو قریظہ سے حاصل شدہ مال غنیمت مہاجرین کو دے دیا اور فرمایا : اس کے عوض مہاجرین انصار سے لیے ہوئے اموال انھیں واپس کردیں، پس انصار نے کہا : نہیں ہم اپنے اموال واپس نہیں لیں گے اور ہم خوشی سے ان کو یہ اموال فئے اور اموال غنیمت دیتے ہیں۔ (النکت و العیون ج ٥ ص 506 دارالکتب العلمیہ، بیروت)

علامہ ابوالفرج عبدالرحمٰن بن علی بن محمد جوزی متوفی ٥٩٧ ھ لکھتے ہیں :

مفسرین نے کہا ہے کہ مسلمانوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کیا کہ بنو نضیر کے اموال کے پانچ حصے کئے جائیں (چار حصے مسلمانوں میں تقسیم کئے جائیں اور ایک حصہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا جائے، جیسا کہ مال غنیمت میں ہوتا ہے) تب یہ آیت نازل ہوئی جس میں یہ بیان فرمایا کہ بنو نضیر کے اموال فئے ہیں وہ مسلمانوں کی جنگ کے نتیجہ میں حاصل نہیں ہوئے اور ان اموال پر خصوصیت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملکیت ہے، سو آپ ان اموال میں جو چاہیں ریں، تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اموال بنو نضیر کو مہاجرین میں تقسیم کردیا اور انصار میں سے کسی کو کچھ نہیں دیا، سوائے تین شخصوں کے جن کو مال کی بہت ضرور تھی، حضرت ابودجانہ، حضرت سہل بن حنیف اور حضرت حارث بن الصمۃ (رض) ۔ (زاد المسیرج ٨ ص 210 مکتب اسلامی بیروت، ١٤٠٧ ھ)

ایثار کا لغوی اور اصطلاحی معنی

نیز اس آیت میں فرمایا : اور وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں، واہ انھیں شدید ضرورت ہو۔

اس آیت میں : ”ویوثرون“ اس کا مصدر ایثار ہے، علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں :

اثر کے لفظ اور ایثار کے لیے استعارہ کیا جاتا ہے، صحیح حدیث میں ہے: ”سَتَكُونُ أَثَرَةٌ“ (صحیح البخاری رقم الحدیث :3603) یعنی تم میں سے بعض کو بعض پر ترجیح دیں گے۔ اور ”استئثار“ کا معنی ہے : کسی شخص کا کسی چیز کے ساتھ منفرد ہونا۔ (المفردات ج ١ ص 10-11، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، 1418 ھ)

علامہ ابوعبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں :

ایثار کا معنی ہے : کسی دوسرے شخص کو دنیاوی چیزوں میں اپنے اوپر ترجیح دینا، یہ وصف یقین کی قوت، محبت کی شدت اور مشقت پر صبر کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز 18 ص 25 دارالفکر، بیروت، 1415 ھ)

ایثار کے متعلق احادیث اور آثار

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری کے پاس رات کو ایک مہمان آیا، اس کے پاس صرف اتنا طعام تھا کہ وہ اور اس کی بیوی بچے کھا لیں، اس نے اپنی بیوی سے کہا، بچوں کو سلا دو اور چراغ بجھا دو اور گھر میں جو کچھ کھانا ہے وہ مہمان کے آگے لا کر رکھ دو ، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی : ” ویوء ثرون علی انفسہم “ (الحشر : ٩) (صحیح البخاری رقم الحدیث :4889-3798 صحیح مسلم رقم الحدیث :2054، سنن ترمذی رقم الحدیث :3304 صحیح ابن حبان رقم الحدیث :5286 سنن بیہقی ج ٤ ص 185)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری کے پاس رات کو ایک مہمان آیا، اس کے پاس صرف اتنا طعام تھا کہ وہ اور اس کی بیوی بچے کھا لیں، اس نے اپنی بیوی سے کہا : بچوں کو سلا دو اور چراغ بجھا دو اور گھر میں جو کچھ کھانا ہے وہ مہمان کے آگے لا کر رکھ دو ، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی : ” ویوثرون علی انفسم “ (الحشر : ٩) (صحیح البخاری رقم الحدیث :4889-3798 صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٠٥٤، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٣٠٤ صحیح ابن حبان رقم الحدیث :5286 سنن بیہقی ج ٤ ص 185)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک شخص نے آ کر کہا : میں بھوکا ہوں، آپ نے اپنی کسی زوجہ کے پاس پیغام بھیجا، انھوں نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے میرے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں، پھر آپنے دوسری زوجہ کے پاس پیغام بھیجا، انھوں نے بھی اسی طرح کہا حتیٰ کہ سب نے اسی طرح کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے میرے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں، پھر آپ نے فرمایا : آج رات کون اس شخص کو مہمان بنائے گا ؟ انصار میں سے ایک شخص نے کہا : یا رسول اللہ ! میں اس کی ضیافت کروں گا، پھر وہ اس کو اپنے گھر لے گیا، پھر اس نے اپنی بیوی سے پوچھا : تمہارے پاس کھلانے کے لیے کچھ ہے ؟ اس نے کہا : صرف میرے بچوں کا کھانا ہے، اس نے کہا : ان کو بہلا کر سلا دو اور جب مہمان آئے تو چراغ بجھا دینا اور اس پر یہ ظاہر کرنا کہ ہم بھی کھا رہے ہیں، پھر سب بیٹھ گئے اور مہمان نے کھانا کھالیا، جب صبح ہوئی تو وہ شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے جس طرح رات کو اپنے مہمان کی ضیافت کی ہے اس سے اللہ بہت خوش ہوا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :2054) امام بیہقی نے لکھا ہے : یہ حضرت ابو طلحہ اور اس کی بیوی کا واقعہ ہے۔ (الجامع لشعب الایمان ج ٥ ص 140)

علامہ ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن محمد جوزی حنبلی متوفی 597 ھ لکھتے ہیں :

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے ایک شخص کے پاس بکری کی سری ہدیے میں آئی، اس نے سوچا کہ میرا فلاں (دینی) بھائی عیال دار ہے اور وہ مجھ سے زیادہ اس سری کا محتاج ہے، اس نے وہ سری اس کے پاس بھیج دی، اس نے وہ سری کسی اور ضرورت مند صحابی کے پاس بھیج دی اور اس نے کسی اور ضرورتمند کے پاس، یوں وہ سات گھر والوں میں سے گھومتی ہوئی پھر پہلے صحابی کے پاس پہنچ گئی۔ (زاد المسیرج ٨ ص 214 متکب اسلامی بیروت، ١٤٠٧ ھ)

امام حاکم نیشا پوری متوفی ٤٠٥ ھ امام بیہقی متوفی ٤٥٨ ھ اور امام ابو الحسن واحدی متوفی ٤٦٩ ھ نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ (المستدرک ج ٢ ص 484، الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث : ٣٢٠٤، اسباب النزول رقم الحدیث :810)

نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیمار ہوگئے، ان کو یہ خواہش ہوئی کہ جب انار کا پہلی بار پھل آئے تو وہ انار کھائیں، ان کی بیوی صفیہ نے ایک درہم کا انار منگایا، جب انار آگیا تو ایک سائل نے اس کا سوال کیا، حضرت ابن عمر نے فرمایا : یہ انار اس کو دے دو ، پھر ان کی بیوی نے ایک اور درہم کا انگار منگوایا، پھر وہی سائل آگیا اور اس نے اسی کا سوال کیا، حضرت ابن عمر نے فرمایا : یہ انار بھی اس کو دے دو ، پھر ان کی بیوی نے تیسرا انار منگوایا۔

(الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث :3206، کتاب الزہد لابن المبارک رقم الحدیث : ٧٨٢ حلیۃ الاولیائ، ج ١ ص 297 کتاب الزہد لاحمد بن حنبل رقم الحدیث :190 سنن بیہقی ج ٤ ص 185 اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں)

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ نَافَقُوْا يَقُوْلُوْنَ لِاِخْوَانِهِمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَىِٕنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَلَا نُطِيْعُ فِيْكُمْ اَحَدًا اَبَدًا    الخ

بنو نضیر کو منفاقین کا ورغلانا اور دونوں کی ناکامی اور عذاب

مقاتل بن سلیمان متوفی 150 ھ نے کہا ہے کہ یہ آیتیں اس سلسلہ میں نازل ہوئی ہیں کہ منافقین بنی نضیر سے یہ کہتے تھے کہ تمہاری مدد کے لیے ہم تمہارے ساتھ ہیں اور اگر تم کو نکلنا پڑا تو ہم پھر بھی تمہارے ساتھ ہیں، یہ منافقین عبداللہ بن ابی، عبداللہ بن نبتل اور رفاعتہ بن زید تھے اور بظاہر ان کا تعلق انصار سے تھا، اس آیت میں فرمایا ہے : انھوں نے اپنے بھائیوں سے کہا کیونکہ منافقین اور یہودی دینی رشتہ سے آپس میں بھائی تھے، کیونکہ دونوں فریق سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے منکر تھے اور اس میں فرمایا ہے : منافقین نے اہل کتاب کے کافروں سے کہا، اس سیم راد جی ابن خطب، جدی، ابویاسر اور مالک بن الضیف اور بنو قریظہ ہیں، انھوں نے ان سے کہا، اگر (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم کو مدینہ سے نکال دیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ مدینہ سے نکل جائیں گے اور اس معاملہ میں ہم کسی کی بات نہیں مانیں گے، اللہ شہادت دیتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں، اگر بنو نضیر کو مدینہ سے نکال دیا تو منافقین ان کے ساتھ نہیں نکلیں گے، اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے، اس کا علم تھا کہ منافقین نے بنو نضیر کو جھوٹی تسلیاں دی ہیں، وہ ان کے موافق عمل نہیں کریں گے اور ایسا ہی ہوا اور یہ قرآن مجید کی اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت پر قوی دلیل ہے کہ آپ نے جو پیش گوئی فرمائی تھی وہ حرف بہ حرف پوری ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اگر مسلمانوں نے ان سے جنگ کی تو منافقین ان کا ساتھ نہیں دیں گے اور بالفرض انھوں نے بنو نضیر کے ساتھ جنگ کی تو یہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے اور پھر ان کی کہیں سیم دد نہیں کی جائے گی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ان منافقوں کے دلوں میں اللہ یس زیادہ مسلمانوں کا خوف ہے، یعنی ان واللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا علم نہیں ہے اور اس کے علم اور قدرت پر ان کا ایمان نہیں ہے، اس لیے وہ بنو نضیر کو ایسی جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں۔ (تفسیر مقاتل بن سلیمان ج ٣ ص 341-342 دارالکتب العلمیہ، بیروت ١٤٢٤ ھ)

Surah Hashr With Urdu Translation PDF Download

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply

Share this
Live Chat
Online Islam
Online Islam

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.