ترجمہ اور تفسير سورہ اقرأ
مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ يوپى انڈيا۔
﷽
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿1﴾
پڑھو اپنے پروردگار کا نام لے کر جس نے سب کچھ پیدا کیا۔
خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿2﴾
جس نے انسان کو ایک خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا
اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ﴿3﴾
آپ پڑھئیے آپ کا رب بہت کریم ہے
الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ﴿4﴾
جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی
عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ﴿5﴾
انسان کو اس بات کی تعلیم دی جو وہ نہیں جانتا تھا۔
كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَىٰ ﴿6﴾
ہرگز نہیں، بیشک انسان سرکشی کر رہا ہے
أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَىٰ ﴿7﴾
اس لیے کہ وہ اپنے آپ کو اپنے رب سے) بےنیاز سمجھتا ہے
إِنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ الرُّجْعَىٰ ﴿8﴾
تیری واپسی تیرے پروردگار ہی کی طرف ہوگی۔
أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَىٰ ﴿9﴾
بھلا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جو ایک بندے کو منع کرتا ہے
عَبْدًا إِذَا صَلَّىٰ ﴿10﴾
جب وہ نماز پڑھتا ہے ؟
أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ عَلَى الْهُدَىٰ ﴿11﴾
بھلا بتلاؤ کہ اگر وہ (نماز پڑھنے والا) ہدایت پر ہو۔
أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَىٰ ﴿12﴾
یا تقوی کا حکم دیتا ہو (تو کیا اسے روکنا گمراہی نہیں؟)
أَرَأَيْتَ إِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ ﴿13﴾
بھلا بتلاؤ کہ اگر وہ (روکنے والا) حق کو جھٹلاتا ہو، اور منہ موڑتا ہو۔
أَلَمْ يَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّهَ يَرَىٰ ﴿14﴾
کیا اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے ؟
كَلَّا لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ ﴿15﴾
خبردار ! اگر وہ باز نہ آیا تو ہم (اسے) پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے۔
نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ ﴿16﴾
اس پیشانی کے بال جو جھوٹی ہے، گناہ گار ہے
فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ ﴿17﴾
اب وہ بلالے اپنی مجلس والوں کو۔
سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ ﴿18﴾
ہم دوزخ کے فرشتوں کو بلا لیں گے۔
كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ ۩ ﴿19﴾
ہرگز نہیں ! اس کی بات نہ مانو، اور سجدہ کرو، اور قریب آجاؤ۔
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نزول وحی کی ابتدا
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں : قرآن کریم کی سب سے پہلی آیت جو مکہ میں نازل ہوئی، وہ ”اقرا باسم ربک الذی خلق“ ہے۔ (الدرا المنثور ج ٨ ص ٥١٣)
امام ابن شیبہ، امام طبرانی، امام حاکم اور امام ابو نعیم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت کیا کہ ”اقرا باسم ربک“ پہلی سورت ہے، جو سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی ہے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث :8734، مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث :4234 الدرالمنثورج ٨ ص 513)
حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بیان کرتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کی ابتداء سچے خوابوں سے ہوئى، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو خواب دیکھتے، اس کی تعبیر روشن صبح کی طرح ظاہر ہوجاتی ہے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں تنہائی کی محبت پیدا کی گئی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غار حرا میں جا کر تنہائی میں عادت کرنے لگے، کئی کئی راتیں غار میں رہتے اور خوردو نوش کا سامان ساتھ لے جاتے (جب کھانے پینے کی چیزیں ختم ہوجاتیں) تو حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) سے آ کر اور چیزیں لے جاتے۔
اسی دوران غار حرا میں آپ پر اچانک وحی نازل ہوئی۔ فرشتے نے آ کر آپ سے کہا : پڑھیئے آپ نے فرمایا : میں پڑھنے والا نہیں ہوں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتلایا کہ پھر فرشتہ نے زور سے گلے لگا کر مجھے دبایا حتیٰ کہ اس نے دبانے پر پوری قوت صرف کردی، پھر مجھے چھوڑ کر کہا : پڑھیے : میں نے کہا : میں پڑھنے والا نہیں ہوں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ فرشتہ دوبارہ مجھے پکڑ کر بغل گیر ہوا، حتیٰ کہ مجھے پوری قوت سے دبایا، پھر مجھے چھوڑ کر کہا : پڑھیے، میں نے کہا میں پڑھنے والا نہیں ہوں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : فرشتہ تیسری بار مجھے پکڑ کر بغل گیر ہوا حتیٰ کہ مجھے پوری قوت سے دبایا، پھر مجھے چھوڑ کر کہا : اقرا باسم ربک الذی خلق۔ خلق الانسان من علق۔ اقرا و ربک الاکرم۔ الذی علم بالقلم۔ علم الانسان مالم یعلم “
پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وحی کو لے کر حضرت خدیجہ کے پاس اس حال میں پہنچے کہ آپ پر کپکپی طاری تھی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے کپڑا اڑھاؤ، مجھے کپڑا اڑھاؤ، گھر والوں نے آپ کو کپڑے اڑھائے، حتیٰ کہ آپ کا خوف دور ہوگیا، پھر آپ نے حضرت خدیجہ کو تمام واقعہ سنایا اور فرمایا : اب میرے ساتھ کیا ہوگا ؟ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔ حضرت خدیجہ نے عرض کی : ہرگز نہیں ! آپ کو یہ نوید مبارک ہو، اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز رسوال نہیں کرے گا، خدا گواہ ہے کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، نادار لوگوں کو مال دیتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہ حق میں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
پھر حضرت خدیجہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو زمانہ جاہلیت میں عیسائی مذہب پر تھے، اور انجیل کو عربی زبان میں لکھتے تھے، بہت بوڑھے ہوچکے تھے اور بینائی جاتی رہی تھی، حضرت خدیجہ نے ان سے کہا، اے چچا ! اپنے بھتیجے کی بات سنیئے، ورقہ بن نوفل نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہا : اے بھتیجے ! آپ نے کیا دیکھا ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں وحی ملنے کا تمام واقعہ سنایا، ورقہ نے کہا : یہ وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ کے پاس وحی لے کر آیا تھا، کاش میں جوان ہوتا، کاش ! میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو وطن سے نکال دے گی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا وہ مجھ کو واقعی نکال دیں گے ؟ ورقہ نے کہا : ہاں ! جس شخص پر بھی آپ کی طرح وحی نازل ہوئی، لوگ اس کے دشمن ہوجاتے تھے، اگر وقت نے مجھ کو مہلت دی تو میں اس وقت آپ کی انتہائی قوی مدد کروں گا۔
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کی ابتداء ۔۔اس کے بعد حدیث مثل سابق ہے اور اس روایت میں یہ ہے کہ حضرت خدیجہ نے کہا : اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز شرمندہ نہیں کرے گا اور حضرت خدیجہ نے ورقہ سے کہا : اے میرے چچا زاد ! اپنے بھتیجے کی بات سن لیجیے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٠ مسند احمد ج ٦ ص 232-233)
وحی کا لغوی معنی
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کی ابتداء سچے خوابوں سے ہوئی۔
علامہ زبیدی لکھتے ہیں :
وحی کا معنی ہے : اشارہ، کتابت، مکتوب، رسالتہ، الہام کلام خفی، ہر وہ چیز جس کو تم اپنے غیر کی طرف القاء کرو۔
وحی میں اصل یہ ہے کہ بعض لوگ بعض لوگوں سے آہستہ کلام کریں، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: (الانعام : ١١٢) ( ”شیاطین الانس والجن“ ) ایک دور سے کو خفیہ طریقے سے ملمع کی ہوئی جھوٹی بات (لوگوں کو) فریب دینے کے لیے پہنچاتے ہیں۔
یہ اس لفظ کا اصل معنی ہے، پھر یہ الہام کے معنی میں مقتصر ہوگیا، ابواسحٰق نے کہا : وحی کا لغت میں اصل معنی ہے : خفیہ طریقہ سے خبر دینا، اسی وجہ سے الہام کو وحی کہتے ہیں، اسی طرح اشارہ اور کتابت کو بھی وحی کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: (الشوریٰ : ١٥) اور کسی بشر کے لائق نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے، مگر وحی سے یا پردہ کے پیچھے سے یا کوئی فرشتہ بھیج دے جو اس کے حکم سے وہ وحی کرے جو کچھ اللہ چاہے۔
اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بشر کو الہام یا خواب کی صورت میں خفیہ طریقہ سے خبر دیتا ہے، یا بشر پر کتاب نازل کرتا ہے، جیسے حضرت موسیٰ پر کتاب نازل کی یا قرآن نازل فرماتا ہے، جس کی تلاوت کی جاتی ہے، جیسا کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن نازل فرمایا۔ ان میں سے ہر صورت اعلام (خبر دینے) کی ہے، اگرچہ ان کے اسباب اور کلام کی نوعیت مختلف ہے۔ (تاج العروس ج ١٠ ص 358 المعلبعتہ الخیریہ، مصر 1306 ھ)
وحی کا شرعی معنی
حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں :
وشرعا الإعلام بالشرع، وقد يطلق الوحي وبراد به الموحی وهو کلام الله المنزل علی النبي صلى الله عليه وسلم (فتح الباری ج ١ ص ٩ لاہور) شریعت کی خبر دینا وحی ہے اور کبھی وحی سے اس کلام کو مراد لیا جاتا ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے۔
نزول وحی کی صورتیں اور اقسام
علامہ بدر الدین عینی نے وحی کی حسب ذیل اقسام اور صورتیں بیان کی ہیں:
(١) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا کلام قدیم کو سننا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے، اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام قدیم سننا، جیسا کہ احادیث صحیحہ میں ہے۔
(٢) فرشتے کے واسطہ سے وحی کا نازل ہونا۔
(٣) دل میں کسی معنی کا القاء کیا جانا۔
(٤) ” صلصلۃ الجرس “ (گھنٹی کی آواز) کی صورت میں وحی کا نازل ہونا۔
(٥) حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کسی غیر معروف آدمی کی شکل میں آ کر بات کریں، جیسے ایک اعرابی کی شکل میں آئے۔
(٦) حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اپنی اصل شکل میں آئیں جیسے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) چھ سو پروں کے ساتھ آئے، جن سے یاقوت اور موتی جھڑ رہے تھے۔
(٧) حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کسی معروف آدمی کی شکل میں آئیں، جیسے حضرت وحیہ کلبی کی شکل میں آئے۔
(٨) اللہ تعالیٰ براہ راست بیداری میں آپ سے ہم کلام ہو، جیسے شب معراج میں پردے کی اوٹ سے کلام فرمایا۔
(٩) اللہ تعالیٰ آپ سے نیند میں ہم کلام ہو، جیسے جامع ترمذی میں حدیث مرفوع ہے، آپ نے فرمایا : میں نے اللہ عزوجل کو بہت حسین صورت میں دیکھا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ملا اعلیٰ ! کس چیز میں بحث کر رہے ہیں ؟
(١٠) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب میں کوئی واقعہ دکھایا جائے، جیسے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے خواب میں دیکھا کہ وہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو ذبح کر رہے ہیں۔
(١١) وحی اسرافیل جیسا کہ مسند احمد میں ہے : تین سال حضرت اسرافیل (علیہ السلام) آپ کے ساتھ موکل رہے۔ (عمدۃ القاری ج ١ ص 40 طبع مصر)
خواب کی تعریف اور اقسام
حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
انسان نیند میں جو کچھ دیکھتا ہے، اس کو خواب کہتے ہیں اور قاضی ابوبکر بن العربی نے کہا : خواب ان اور اکات کو کہتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ بندہ کے قلب میں پیدا کرتا ہے، جس طرح بیداری میں اللہ تعالیٰ انسان کے دل میں اور اکات پیدا کرتا ہے خواب میں جو ادراکات ہوتے ہیں وہ دوسرے امور کے لیے علامات بن جاتے ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ بعد میں پیدا فرمائے گا اس کی نظیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بادلوں کی بارش کے لیے علامت بنایا ہے، لیکن کبھی اس کے خلاف بھی ہوتا ہے۔
نیز حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
خواب کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم رؤیا صادقہ، یہ انبیاء (علیہم السلام) اور صالحین کے خواب ہیں، جو کچھ وہ خواب میں دیکھتے ہیں، اس کے موافق بیداری میں واقع ہوجاتا ہے، اور دوسری قسم ہے : اضغاث، اور اس کی تین قسمیں ہیں:
(١) خواب میں دیکھنے اولے کے ساتھ شیطان مذاق کرتا ہے تاکہ خواب دیکھنے والا خوف زدہ اور غم گین ہو، مثلاً وہ دیکھتا ہے کہ اس کا سرکاٹ دیا گیا ہے اور وہ اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے (٢) وہ خواب میں دیکھتا ہے کہ فرشتے اس کو کسی حرام کام کو کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں (٣) انسان دن میں جو باتیں کرتا ہے اور اس کے دل میں جو تمنائیں واقع ہوتی ہیں وہ انہی چیزوں کو خواب میں دیکھتا ہے، یا جن چیزوں کو وہ بیداری میں زیادہ دیکھتا ہے، انہی کو خواب میں دیکھتا ہے یا جو چیزیں اس کے مزاج پر غاب ہوتی ہیں، وہی اس کو خواب میں نظر آتی ہیں۔ (فتح الباری ج ١٢ ص 353-354، طبع لاہور)
ابتداء نبوت میں غار حرا جانے کی حکمتیں
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کی ابتداء سچے خوابوں سے کی گئی، تاکہ فرشتے کا آپ کے پاس آنا جانا کوئی اچانک حادثہ نہ ہو، اس لیے پہلے آپ میں خصال نبوت پیدا کئے گئے، آپ کو سچے خواب دکھائے گئے، حجر اور شجر آپ کو دیکھ کر سلام عرض کرتے اور آپ کو نبی کہہ کر مخاطب کرتے، پھر اللہ تعالیٰ نے بیداری میں آپ کے پاس فرشتہ بھیجا۔
آپ کے دل میں تنہائی کی محبت پیدا کی گئی، تاکہ آپ کا دل دنیا اور اس کے تفکرات سے فارغ ہو، کیونکہ جب تک انسان گھٹن ریاضت نہ کرے، وہ اپنی طبیعت سے منتقل نہیں ہوتا، اس لیے آپ کے دل میں خلوت گزینی پیدا کی گئی تاکہ آپ لوگوں کے ساتھ میل جول سے منقطع ہوں اور آپ کے لیے وحی کا حصول سہل اور آسان ہو، فرشتے کا آپ سے بار بار یہ کہنا، پڑھیے اور اپنے سینہ سے لگا کر بھیجنا بھی اسی لیے تھا، تاکہ آپ کو فرشتے کے ساتھ مناسبت پیدا ہو، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غار حرا کی تنہائیوں میں بیٹھنا اسی طرح تھا، جس طرح ابتداء میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اپنے رب کی عبادت کرنے کے طریقہ پر غور و فکر کر رہے تھے۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غار حرا میں کئی کئی دنوں تک ٹھہرنے کے لیے اپنے ساتھ کئی کئی دنوں کا کھانا لے جاتے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ مستقبل کے لیے کھانے پینے کی چیزوں کا بند و بست کرنا اور اسباب کو اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے۔
نبی اللہ تعالیٰ کے فرشتہ کو پہچاننے کی تحقیق
علامہ بدر الدین عینی لکھتے ہیں:
امام ابن سعد نے اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ فرشتہ آپ کے پاس حرا میں سترہ رمضان کو پیر کے دن آیا تھا اور اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر چالیس سال تھی۔
ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ جب ابتداء میں فرشتہ آپ کے پاس وحی لے کر آیا تو آپ کو یہ کیسے یقین ہوگیا کہ یہ فرشتہ ہے شیطان نہیں ہے، علامہ عینی نے اس کا یہ جواب دیا کہ جس طرح نبی اپنے صدق کے ثبوت میں امت کے سامنے معجزہ پیش کرتا ہے، اسی طرح جب فرشتہ نبی کے پاس وحی لے کر آتا ہے تو وہ بھی اپنے صدق کے ثبوت میں معجزہ پیش کرتا ہے۔ (عمدۃ القاری ج ١ ص 62 طبع مصر)
تحقیق یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک صفت دی ہے جس کی وجہ سے ہم انسان اور حیوان کے درمیان امتیاز کرلیتے ہیں، اسی طرح اللہ نے نبی کو ایک اور صفت دی ہے، جس سے وہ فرشتوں اور شیطان کے درمیان امتیاز کرلیتا ہے۔
امام غزالی فرماتے ہیں :
إن له صفة بها يبصر الملائکة ويشاهدهم، کما أن للبصير صفة بها يفارق الأعمیٰ حتی يدرک بها المبصرات. (احیاء العلوم ج ٤ ص 190 بیروت) نبی کو ایک ایسی صفت حاصل ہوتی ہے، جس سے وہ فرشتوں کو دیکھتا ہے اور ان کا مشاہدہ کرتا ہے، جس طرح بینا آدمی کو ایک ایسی صفت حاصل ہے جس سے وہ اندھوں میں ممتاز ہے اور مبصرات کا ادراک کرتا ہے۔
اس بحث کو زیادہ تفصیل سے جاننے کے لیے شرح صحیح مسلم جلد خامس ص 88-108 کا مطالعہ کریں۔
”ما أنا بقاری“ کی تحقیق
حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
جبرائیل نے آپ سے کہا: ”اقرأ“ پڑھو : آپ نے فرمایا : ”ما أنا بقارئ“ میں اچھی طرح نہیں پڑھ سکتا، اور جب تین بار آپ نے یہی فرمایا تو جبرائیل نے کہا : ” اقرا باسم ربک “ یعنی آپ اپنی قوت اور اپنی معرفت سے نہ پڑھیں بلکہ آپ اپنے رب کی طاقت اور اس کی اعانت سے پڑھیں، اس نے جس طرح آپ کو پیدا کیا ہے وہ آپ کو پڑھنا سکھائے گا، یہ علامہ سہیلی کی تقریر ہے۔
اور دوسرے علماء نے یہ کہا کہ ”ما أنا بقارئ“ کی ترکیب اختصاص کا تقاضا کرتی ہے، کیونکہ جب مسندالیہ سے پہلے حرف نفی ہو، مسند الیہ، مسند پر مقدم ہو اور مسند فعل یا شبہ فعل ہو تو اس ترکیب میں مسند، مسند الیہ کے ساتھ مختص ہوتا ہے، جیسے ” ماانا قلت ھذا ‘ یعنی یہ بات صرف میں نے نہیں کہی، اس کا مطلب ہے: میرے علاوہ دوسروں نے یہ بات کہی ہے، یعنی صرف میں قرأت نہیں کرسکتا، میرے علاوہ دوسرے قرأت کرسکتے ہیں، علامہ طیبی نے اس تقریر کو مسترد کردیا ہے اور کہا : یہ ترکیب تقویت اور تاکید کا تقاضا کرتی ہے اور اس کا معنی ہے: میں یقینا قرأت کرنے والا (پڑھنے والا) نہیں ہوں، اگر یہ سوال کیا جائے کہ آپ نے تین بار ” ما انا بقاری “ کیوں فرمایا، اس کا جواب یہ ہے کہ پہلی بار کا معنی یہ ہے کہ میں پڑھ نہیں سکتا، دوسری بار کا معنی یہ ہے : میں پھڑتا نہیں ہوں اور تیسری بار کا معنی ہے : میں کیا پڑھوں ؟ اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ ابو الاسود نے مغازی میں عروہ سے روایت کیا ہے: ”کیف أقرأ“ میں کیسے، پڑھوں اور سیرت ابن اسحاق میں عبید بن عمیر سے روایت ہے، ” ماذا اقرئ “ میں کیا پڑھوں؟ “ اور دلائل بیہقی میں زہری سے مرسلاً روایت ہے : ”کیف أقرأ“ میں کیسے پڑھوں؟ “ اور ان تمام روایات سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ یہ ”ما“ استفہامیہ ہے۔ (فتح الباری ج ١ ص 23-24 دار نشر الکتب الاسلامیہ، لاہور 1401 ھ)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں:
آپ نے فرمایا : میں پڑھا ہوا نہیں ہوں اس لیے مجھ سے پڑھا نہیں جاسکتا، ہوسکتا ہے کہ اچانک فرشتے کو دیکھنے سے آپ کو سخت دہشت اور خوف لاحق ہوا ہو اور اس خوف اور دہشت کی وجہ سے آپ نے فرمایا ہو : میں پڑھا ہوا نہیں ہوں اور اس کی یہ وجہ نہیں ہے کہ آپ نے امی ہونے کی وجہ سے یہ فرمایا، کیونکہ جو شخص پڑھا ہوا نہ ہو، وہ دوسرے کے پڑھانے سے پڑھ سکتا ہے اور کسی کی تعلیم سے پڑھنا امیت کے منافی نہیں ہے، خصوصاً جب کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غایت درجہ کے فصیح وبلیغ تھے ماں ! کسی لکھی ہوئی چیز کو دیکھ کر پڑھنا امیت کے منافی ہے، قاموس میں لکھا ہے کہ امی اس شخص کو کہتے ہیں : جو لکھنا نہ جانتا ہو اور لکھی ہوئی چیز کو نہ پڑھ سکتا ہو اور بعض روایات میں ہے کہ جبرائیل جواہر سے آراستہ ایک ریشم کا صحیفہ لائے تھے، انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں وہ صحیفہ رکھ کر کہا : پڑھیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں پڑھا ہوا نہیں ہوں تو اس نامہ اور نوشتہ میں لکھی ہوئی چیز کو کیسے پڑھوں ؟ یہ معنی زیادہ مناسب اور زیادہ ظاہر ہے۔ (اشعتہ اللمعات ج ٤ ص 506-507 مطبع تیج کمار، لکھنؤ)
الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ
لکھنے کی فضیلت اور لکھنے کے متعلق احادیث
قلم اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے، اگر قلم نہ ہوتا تو احکام شرعیہ کو لکھ کر محفوظ نہ کیا جاتا اور نہ معاش کے معاملات کو لکھ کر منضبط کیا جاتا، اللہ سبحانہ نے اپنے بندوں پر کرم فرمایا کہ ان کو قلم سے لکھنا سکھایا اور ان کو جہالت کے اندھیروں سے علم کی روشنی میں طرف لایا، اگر قلم نہ ہوتا تو دین اور دنیا کے حصول علم کا دروازہ بند رہتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو چیز بھی سنتا تھا، اس کو یاد رکھنے کے لیے لکھ لیا کرتا تھا، قریش نے مجھے اس سے منع کیا اور کہا : تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سے ہر بات سن کر لکھ لیتے ہو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بشر ہیں، کبھی غصہ میں بات کرتے ہیں اور کبھی خوشی میں بات کرتے ہیں، پھر میں لکھنے سے رک گیا اور میں نے اس واقعہ کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا، آپ نے اپنی انگلی سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : تم لکھتے رہو، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، اس منہ سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث :3646)
حضرت الشفاء بنت عبداللہ بیان کرتی ہیں کہ ان کے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے، اس وقت ان کے پاس حضرت حفصہ (رض) بھی تھیں، آپ نے فرمایا : تم ان کو پھوڑے کا دم کیوں نہیں سکھاتیں، جس طرح تم نے ان کو لکھنا سکھایا ہے۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث :3887، مسند احمد رقم الحدیث :2763 دارالفکر)
حضرت رافع بن خدیج (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر آئے تو آپ نے فرمایا : میری حدیث بیان کرو اور جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا، وہ اپنی جگہ دوزخ میں بنا لے، میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! ہم آپ سے بہت احادیث سنتے ہیں، پھر ان کو لکھ لیتے ہیں، آپ نے فرمایا : لکھتے رہو، کوئی حرج نہیں ہے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث :4410 مسند الشامیین رقم الحدیث :227 مجمع الزوائد ج ۃ ص 151)
حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آپ کے اصحاب بیٹھے ہوئے تھے اور میں ان میں سب سے کم عمر تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے مجھ پر عمداً جھوٹ باندھا وہ دوزخ میں اپنے بیٹھنے کی جگہ بنالے، میں نے صحابہ سے کہا : آپ لوگ کیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث بیان کرتے ہیں، حالانکہ آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد سن چکے ہیں اور آپ لوگ احادیث بیان کرنے میں منہمک رہتے ہیں تو صحابہ ہنسنے لگے اور کہنے لگے : اے ہمارے بھتجیے ! ہم نے جو کچھ آپ سے سنا ہے، وہ سب ہمارے پاس لکھا ہوا ہے۔ (مجمع الزوائد ج ۃ ص 152، حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کی سند میں ایک راوی متروک ہے)
حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : علم کو قید کرو، میں نے پوچھا : علم کی قید کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : لکھنا۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث :852، حافظ الہیثمی نے کہا : اس کی سند میں ایک راوی عبداللہ بن المؤمل ہے، ابن معین اور ابن حبان نے اس کو ثقہ قرار دیا، اور امام احمد نے لکھا : اس کی احادیث منکر ہیں۔ مجمع الزوائد ج ١ ص 152)
ثمامہ بیان کرتے ہیں کہ ہم سے حضرت انس (رض) نے کہا : علم کو لکھ کر قید کرلو۔
حضرت عبادۃ بن ال صامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بیشک اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا : لکھ، اس نے پوچھا : کیا لکھوں ؟ فرمایا : تقدیر کو لکھ، جو کچھ ہوچکا ہے اور جو کچھ ابد تک ہونے والا ہے۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث :2155، مسند احمد ج ٥ ص 317)
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں :
اصل میں اقلام تین ہیں : (١) قلم اول وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اس کو لکھنے کا حکم دیا (٢) قلم ثانی فرشتوں کے اقلام ہیں، وہ قلم اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں رکھ دیئے ہیں، وہ ان قلموں سے تقدیر، مستقبل میں ہونے والے امور اور بندوں کے اعمال لکھتے ہیں (٣) قلم ثالث لوگوں کے قلم ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں میں رکھ دیئے ہیں جن سے وہ اپنی باتیں لکھتے ہیں اور اپنے مقاصد کو تحریر میں لاتے ہیں اور کتابیں اور رسائل لکھتے ہیں۔
عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ
آیت میں انسان کے مصداق
امام ابو منصور محمد بن محمد ماتریدی سمر قندی متوفی ٣٣٣ٌ ھ لکھتے ہیں :
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں ”إنسان“ سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے متعلق فرمایا ہے: (النساء : ١١٣) اور اللہ نے آپ کو وہ تمام چیزیں سکھا دیں جن کو آپ نہیں جانتے تھے اور اللہ کا آپ پر عظیم فضل ہے۔
نیز اللہ تعالیٰ نے آپ کے متعلق فرمایا: (ھود : ٤٩) یہ خبریں غیب کی خبروں میں سے ہیں جن کی ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں، ان چیزوں کو اس سے پہلے نہ آپ جانتے تھے نہ آپ کی قوم۔
اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں ”إنسان“ سے مراد ہر انسان ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (النحل : ٧٨) اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا، اس وقت تم کو کچھ علم نہ تھا اور اسی نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر ادا کرو۔ (تاویلات اہل السنتہ ج ٥ ص ٤٩١، موسستہ الرسالتہ، نشارون، ١٤٢٥ ھ)
علامہ الحسین بن مسعود الفراء البغوی متوفی ٥١٦ ھ لکھتے ہیں :
ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں ”إنسان“ سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں کیونکہ ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: علم آدم الأسمآء کلھا (البقرہ : ٣) آدم کو تمام اسماء کا علم دے دیا۔
دوسرا قول یہ ہے کہ اس آیت میں ” انسان “ سے مراد سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کیونکہ آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وعلمک ما لم تکن تعلم (النساء : ١١٣) اور اللہ نے آپ کو وہ تمام چیزیں سکھا دیں جن کو آپ نہیں جانتے تھے۔ (معالم التنزیل ج ٥ ص ٢٨١ داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٠ ھ)
امام عبدالرحمن بن علی بن محمد الجوزی المتوفی ٥٩٧ ھ نے لکھا ہے:
”إنسان“ سے مراد اس آیت میں سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ (زاد المسیرج ٩ ص 176 المکتب الاسلامی، بیروت)
علامہ ابو عبداللہ محمد بن حمد مالکی قرطبی متوفی 668 ھ نے لکھا ہے : اس آیت میں ” انسان “ کے متعلق تین قول ہیں :
(١) ”إنسان“ سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں (٢) اس سے مراد سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں (٣) اس سے مراد عام انسان ہے اور ہر قول پر وہی دلائل دیئے ہیں جو دوسرے مفسرین نے ذکر کئے ہیں۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٢٠ ص 106 دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)
شیخ محمد بن علی بن محمد شوکانی متوفی 1250 ھ اور نواب صدیق حسن خاں بھوپالی متوفی 1307 ھ نے بھی ” انسان “ کے مصداق میں یہی تین قول نقل کئے ہیں۔ (فتح القدیر ج ٥ ص 628 فتح البیان ج ٧ ص ٥٠٤)
علامہ سید محمود آلوسی متوفی 1270 ھ لکھتے ہیں:
یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو قلم کے ساتھ اور بغیر قلم کے ایسے امور کلیہ اور جزیہ اور ظاہر اور خفی سکھا دیئے، جن کا دل میں خطرہ بھی نہیں گزرتا، یہ اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت اور کمال کرم ہے اور اس میں یہ خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی (علیہ الصلوۃ والسلام) کو ایسے علوم سکھا رہا ہے، جن کا عقلیں احاطہ نہیں کرسکتیں۔ (روح المعانی جز 30 ص 324 دارالفکر، بیروت، 1324 ھ)
كَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰٓى، اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰى
”طغیان“ کا معنی
مفسرین نے کہا ہے كہ : العلق : ٦ سے لے کر آخر سورت تک تمام آیات ابوجہل کے متعلق نازل ہوئی ہیں، اس آیت میں ” لیطغی “ کا لفظ ہے، اس کا مصدر ” طغیان “ ہے، اس کا معنی ہے : اللہ کی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا۔
حضرت ابن عباس (رض) نے کہا : جب یہ آيتيں نازل ہوئیں اور مشرکین نے ان کو سنا تو ابوجہل نے آپ کے پاس آ کر کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کا یہ زعم ہے کہ جو مستغنی ہوتا ہے، وہ سرکشی کرتا ہے تو آپ ہمارے لیے مکہ کے پہاڑوں کو سونا بنادیں، شاید ہم اس سے کچھ سونا لے لیں، پھر ہم اپنا دین چھوڑ کر آپ کے دین کی پیروی کریں گے، تب آپ کے پاس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کو اختیار دیں، اگر یہ چاہیں تو ہم پہاڑ کو سونا بنادیں اس کے باوجود اگر انھوں نے اسلام قبول نہیں کیا تو ہم ان پر وہ عذاب نازل کریں گے، جو اصحاب مائدہ پر نازل کیا تھا، لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم تھا کہ وہ اس کو قبول نہیں کریں گے، اس لیے آپ نے ان کو ان کے اسی حال پر باقی رکھا۔
اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يَنْهٰى، عَبْدًا اِذَا صَلّٰى
امام ابوالحق علی بن احمد واحدی متوفی 468 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں، حضرت حضرت ابوہریرہ (رض) بیان بیان کرتے ہیں کہ ابوجہل نے اپنے ساتھیوں سے کہا : کیا میں تمہارے سامنے (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منہ خاک آلود کروں ؟ لوگوں نے کہا : ہاں اس نے کہا : میں قسم کھاتا ہوں کہ اگر میں نے ان کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو میں ان کے گردن کو اپنے پیروں سے روندوں گا، اسے بتایا گیا کہ دیکھو وہ سامنے نماز پڑھ رہے ہیں، وہ آپ کی گردن کو روندنے کے لیے آگے بڑھا، پھر فوراً الٹے پاؤں لوٹ آیا اور اپنے ہاتھوں سے اپنا بچاؤ کر رہا تھا، لوگوں نے اس سے پوچھا : اے ابوالحکم ! کیا ہوا، کیوں واپس آگ گئے ؟ اس نے کہا : میرے اور ان کے درمیان آگ کی خندق ہے اور اس میں ہول ناک چیزیں ہیں، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر یہ ذرا بھی میرے قریب آتا تو فرشتے اس پر جھپ پڑتے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر یدتے۔
تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کیں : کیا آپ نے اس کو دیکھا جو منع کرتا ہے۔ ہمارے بندہ کو جب وہ نماز پڑھے۔ (الوسیط ج ٤ ص 529 دارالکتب العلمیہ، بیروت، 1415 ھ)
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی 606 ھ فرماتے ہیں : اس آیت میں ہر اس شخص کے لیے وعید ہے جو کسی کو نماز پڑھتے دیکھا تو انھوں نے کہا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا، حضرت علی سے کہا گیا کہ آپ نے ان کو منع کیوں نہیں کیا ؟ حضرت علی (رض) نے کہا : میں ڈرتا تھا کہ میں اس آیت کی وعید میں داخل ہو جاؤں گا، کیا آپ نے اس کو دیکھانجو ہمارے بندے کو منع کرتا ہے جب وہ نماز پڑھے، امام ابوحنیفہ نے اس آیت سے بہت خوب صورت ادب کو مستنبط کیا، امام ابویوسف نے ان سے پوچھا : جب نمازی رکوع سے سر اٹھائے تو یہ کہہ سکتا ہے : ” اللھم اغفر لي ؟ “ ابوحینفہ نے کہا : وہ ”ربنا لک الحمد“ کہے اور سجدہ میں چلا جائے اور ”اللھم اغفر لي“ کہنے سے منع کیا۔ (تفسیر کبیرج ١١ ص ٢٢٢ داراحیاء التراث العربی، بیروت ١٤١٥ ھ)
كَلَّا لَىِٕنْ لَّمْ يَنْتَهِ ڏ لَنَسْفَعًۢا بِالنَّاصِيَةِ، نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ ، فَلْيَدْعُ نَادِيَهٗ، سَـنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابو جہل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے گزرا، اس وقت آپ مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھ رہے تھے، ابوجہل کہنے لگا : یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا میں نے آپ کو نماز پڑھنے سے منع نہیں کیا ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا تو ابوجہل کہنے لگا : اے محمد ! آپ مجھے کس چیز سے ڈرا رہے ہیں ؟ اللہ کی قسم ! اس وادی کے اکثر لوگ میری مجلس میں بیٹھنے والے ہیں، تب اللہ سبحانہ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں کہ تم اپنی مجلس کے مددگاروں کو بلاؤ، ہم دوزخ کے فرشتوں کو بلائیں گے۔
كَلَّا ۭ لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ
سجدہ سے اللہ سبحانہ کے قرب کا حصول
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، بندہ کا اپنے رب کے ساتھ سب سے زیادہ قرب اور سب سے زیادہ محبت اس وقت ہوتی ہے، جب اس کی پیشانی زمین پر اللہ کے لیے سجدہ ریز ہوتی ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٨٢)
عبارت کا خلاصہ ہے : اللہ سبحانہ کے سامنے ذلت اختیار کرنا اور غایت تذلل سجدہ میں ہے کیونکہ انسان سجدہ میں اپنے مشرف ترین عضو کو اللہ کے سامنے خاک پر رکھ دیتا ہے۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : رکوع میں رب کی تعظیم کرو اور رہا سجود تو اس میں دعا کی خوب کوشش کرو کیونکہ اس میں متہاری دعا کا قبول ہونا متوقع ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :479 سنن ابو داؤد رقم الحدیث :867)
زید بن اسلم نے اس آیت کی تفسیر میں کہا : اے محمد ! آپ نماز سے اللہ کا قرب حاصل کرتے رہیں اور اے ابوجہل ! تو دوزخ کے قریب ہوتا رہ۔
علامہ ابن العربی نے کہا ہے کہ اس سجدہ سے نماز کا سجدہ مراد ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے، صحیح یہ ہے کہ اس سے سجدہ تلاوت مراد ہے کیونکہ حدیث میں ہے:
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان نے کہا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ”إذا السمآء انشقت“ (الانشاق : ١) میں سجدہ کیا اور ”اقرأ باسم ربک الذی خلق“ (العق : ١) میں سجدہ کیا۔ (صحیح رقم الحدیث :578 سنن ترمذی رقم الحدیث :573) اور یہ حدیث نص صریح ہے کہ اس آیت میں سجدہ سے مراد سجدہ تلاوت ہے۔
ہم دنیا کے مقتدر لوگ مثلاً صدر اور گورنر وغیرہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اللہ کا قرب حاصل کرنے کی ہمیں کتنی کوشش کرنی چاہیے اور اس کا قرب حاصل کرنا کتنا آسان ہے، سجدہ کرو اور اس کے قریب ہو جاؤ۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.