surah jinn with urdu translation

Surah Jinn With Urdu Translation, Surah Al Jinn With Urdu Translation

سورہ جن ترجمہ اور تفسير

مرتب: محمد ہاشم قاسمى  بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ

سورة الجن

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا ﴿1﴾

(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ میرے پاس یہ وحی بھیجی گئی ہے کہ جنات میں سے ایک جماعت نے قرآن کو سنا پھر انھوں نے (اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ) ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے

 يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ ۖ وَلَنْ نُشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا ﴿2﴾

جو سیدھا راستہ بتاتا ہے اس لیے ہم اس پر ایمان لے آئے۔ اور ہم اپنے رب کے ساتھ ہرگز کسی کو شریک نہ کریں گے۔

 وَأَنَّهُ تَعَالَىٰ جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَلَا وَلَدًا ﴿3﴾

بلاشک و شبہ ہمارے رب کی بڑی شان ہے۔ نہ اس نے کسی کو بیوی بنایا اور نہ کسی کو بیٹا بنایا

 وَأَنَّهُ كَانَ يَقُولُ سَفِيهُنَا عَلَى اللَّهِ شَطَطًا ﴿4﴾

اور یہ کہ : ہم میں سے بیوقوف لوگ اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہتے تھے جو حقیقت سے بہت دور ہیں۔

 وَأَنَّا ظَنَنَّا أَنْ لَنْ تَقُولَ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا ﴿5﴾

اور ہمارا تو خیال یہ تھا، کہ انسان اور جنات کبھی اللہ کی شان میں جھوٹ بات نہ کہیں گے۔

 وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِنَ الْإِنْسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا ﴿6﴾

اور انسانوں میں بہت سے لوگ ایسے ہوئے ہیں کہ وہ جنات میں سے بعض لوگوں کی پناہ لیا کرتے تھے، سو انھوں نے ان (جنات) کی نخوت اور بڑھا دی۔

 وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَمَا ظَنَنْتُمْ أَنْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ أَحَدًا ﴿7﴾

اور انھوں نے بھی بھی گمان کر رکھا تھا جیسا کہ تم نے گمان کر رکھا ہے کہ اللہ کسی کو دوبارہ نہ اٹھائے گا ،

 وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَشُهُبًا ﴿8﴾

اور (یہ بھی عجیب تبدیلی محسوس کی کہ) ہم نے آسمان کو چھان مارا تو ہم نے آسمان کو سخت پہرے داروں اور شعلوں سے بھرا ہوا پایا

 وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ ۖ فَمَنْ يَسْتَمِعِ الْآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَصَدًا ﴿9﴾

کیونکہ ہم باتیں سننے کے لیے آسمان کے ٹھکانوں میں جا بیٹھتے تھے۔ (لیکن اب یہ حال ہے کہ ) جو بھی سننے کی کوشش کرتا ہے وہ ایک شعلہ (شہاب ثاقب) کو اپنا منتظر پاتا ہے۔

 وَأَنَّا لَا نَدْرِي أَشَرٌّ أُرِيدَ بِمَنْ فِي الْأَرْضِ أَمْ أَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًا ﴿10﴾

اور ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کو کوئی تکلیف پہنچانا مقصود ہے یا ان کے پروردگار نے انھیں ہدایت دینے کا قصد کیا ہے۔

 وَأَنَّا مِنَّا الصَّالِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَٰلِكَ ۖ كُنَّا طَرَائِقَ قِدَدًا ﴿11﴾

اور یہ کہ ہم میں سے کچھ لوگ صالح ہیں اور کچھ اس سے فرو تر ہیں، ہم مختلف طریقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔

 وَأَنَّا ظَنَنَّا أَنْ لَنْ نُعْجِزَ اللَّهَ فِي الْأَرْضِ وَلَنْ نُعْجِزَهُ هَرَبًا ﴿12﴾

اور ہم نے تو یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم زمین میں اللہ کو کہیں بھی بےبس نہ کرسکیں گے اور نہ کہیں بھاگ کر اسے تھکا سکیں گے۔

 وَأَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْهُدَىٰ آمَنَّا بِهِ ۖ فَمَنْ يُؤْمِنْ بِرَبِّهِ فَلَا يَخَافُ بَخْسًا وَلَا رَهَقًا ﴿13﴾

ہم نے جب ہدایت کی بات سنی تو ہم اس پر ایمان لے آئے۔ اور جو شخص بھی اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے تو اس کو نہ تو کسی کمی کا خوف ہوگا اور نہ زیادتی کا۔

وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقَاسِطُونَ ۖ فَمَنْ أَسْلَمَ فَأُولَٰئِكَ تَحَرَّوْا رَشَدًا ﴿14﴾

اور ہم میں بعض مسلم ہیں اور بعض ہم میں سے بےراہ ہیں تو جس نے اسلام قبول کرلیا، اس نے تو بھلائی کا راستہ ڈھونڈ نکالا ،

 وَأَمَّا الْقَاسِطُونَ فَكَانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا ﴿15﴾

اب رہے وہ جو بےراہ ہیں تو وہ دوزخ کے ایندھن ہیں۔

 وَأَنْ لَوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَاهُمْ مَاءً غَدَقًا ﴿16﴾

(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ انھیں بتا دیجئے کہ میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ اگر وہ سیدھے راستے پر ثابت قدم رہے تو اہم انھیں خوب سیراب کریں گے

 لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَمَنْ يُعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِ يَسْلُكْهُ عَذَابًا صَعَدًا ﴿17﴾

تاکہ ہم (اس نعمت کے ذریعہ) ان کو آزمائیں اور جو شخص بھی اپنے رب سے منہ پھیرے گا تو وہ اللہ اس کو ناقابل برداشت عذاب میں مبتلا کرے گا۔

 وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا ﴿18﴾

(اور کہہ دیجئے یہ وحی بھی بھیجی گئی ہے کہ) بیشک مسجدیں اللہ کے لیے (مخصوص) ہیں ان میں اللہ کے سوا کسی اور کو نہ پکارو۔

 وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا ﴿19﴾

اور جب اللہ کا بندہ (خاص) کھڑا ہوتا ہے اس کی عبادت کرنے کو تو یہ لوگ اس پر بھیڑ لگانے کو ہوجاتے ہیں۔

 قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا ﴿20﴾

(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ میں تو صرف اپنے رب ہی کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔

 قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا ﴿21﴾

آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہارے لیے کسی برائی کا یا بھلائی کا اختیار نہیں رکھتا۔

 قُلْ إِنِّي لَنْ يُجِيرَنِي مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ وَلَنْ أَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَدًا ﴿22﴾

آپ کہہ دیجئے کہ جسے اللہ کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا اور نہ اس کے سوا میں کسی کے دامن میں پناہ پاسکتا ہوں۔

 إِلَّا بَلَاغًا مِنَ اللَّهِ وَرِسَالَاتِهِ ۚ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ﴿23﴾

میرا کام اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ میں اللہ کا پیغام پہنچا دوں۔ جس نے اللہ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کی اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہوگا۔

 حَتَّىٰ إِذَا رَأَوْا مَا يُوعَدُونَ فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ أَضْعَفُ نَاصِرًا وَأَقَلُّ عَدَدًا ﴿24﴾

یہاں تک کہ جب وہ لوگ اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے تو اس وقت انھیں معلوم ہوجائے گا کہ کون مددگاروں کے اعتبار سے کمزور ہے اور کون شمار کے اعتبار سے کم ہے۔

 قُلْ إِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ مَا تُوعَدُونَ أَمْ يَجْعَلُ لَهُ رَبِّي أَمَدًا ﴿25﴾

آپ (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ میں نہیں جانتا کہ وہ عذاب جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے قریب ہے یا میرے رب نے اس کے لیے کوئی دور کی مدت مقرر کی ہوئی ہے۔

 عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ﴿26﴾

وہی غیب کا جاننے والا ہے، سو وہ (ایسے) غیب پر کسی کو بھی مطلع نہیں کرتا

 إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا ﴿27﴾

سوائے اس رسول کے جسے اس نے (غیب کا علم دینے کے لئے) پسند کرلیا ہو وہ بھی اس طرح کہ اس کے آگے اور پیچھے (فرشتوں کو) محافظ بنا دیتا ہے

 لِيَعْلَمَ أَنْ قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَىٰ كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا ﴿28﴾

تاکہ وہ یہ دیکھ لیں کہ انھوں نے اپنے رب کے پیغامات کو پہنچا دیا ہے ؟ اس نے ان تمام کو گھیر رکھا ہے اور اس نے ایک ایک چیز کو شمار کررکھا ہے۔

تشريح

شان نزول:

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کی جماعت کے ساتھ عکاظ کے بازار میں گئے، اس وقت شیاطین اور آسمان کی خبروں کے درمیان ایک چیز حائل ہوچکی تھی اور ان پر آگ کے گولے پھینکے جاتے تھے، جنات نے آپس میں کہا : تمہارے اور آسمان کے درمیان جو چیز حائل ہوئی و ہے وہ کوئی نئی چیز ہے، پس تم زمین کے مشارق اور مغارب میں جاؤ اور ڈھونڈو وہ کیا چیز ہے، پھر وہ زمین کے مشارق اور مغارب میں تلاش کرتے رہے کہ ان کے اور آسمان کی خبروں کے درمیان کیا چیز حائل ہوئی ہے۔ پس جو لوگ تہامہ ( مہ معظمہ) کی طرف گئے تھے، وہ ایک کھجور کے درخت کے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس وقت آپ عکاظ کے بازار میں اپنے اصحاب کو نماز فجر پڑھا رہے تھے، پس جب انھوں نے قرآن مجید کی تلاوت سنی تو کہنے لگے : یہی وہ چیز ہے جو تمہارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان حائل ہوگئی ہے، پھر وہ اپنی قوم کی طرف واپس گئے اور کہا : اے ہماری قوم ! ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے، جو نیکی کی طرف ہدایت دیتا ہے، ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم اپنے رب کے ساتھ کبھی کسی کو شریک نہیں کریں گے اور اللہ عزوجل نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل فرمائی اور دراصل آپ کی طرف جنات کا قول نازل کیا گیا تھا۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٩٢١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٤٩، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٣٢٣، السنن الکبریٰ رقم الحدیث : ٦٢٤ )

امام ابن اسحاق نے ذکر کیا ہے کہ سورة الجن اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف کی طرف گئے تھے اور آپ نے بنو ثقیف سے تبلیغ اسلام پر مدد طلب کی تھی، اور یہ واقعہ بھی بہرحال بعثت کے ابتدائی دس سال کا ہے۔

ترتیب مصحف کے اعتبار سے سورت الجن کا نمبر ٧٢ ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے اس سورت کا نمبر ٤٠ ہے، یہ سورت الاعراف کے بعد اور یٰسین سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ ( التحریر والنتویر جز ٢٩ ص ٢١٧، تیونس)

﴿قُلْ اُوْحِيَ اِلَيَّ اَنَّهُ اسْتَـمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْٓا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا﴾

جنات کے متعلق فلاسفہ اور مفکرین کی آراء

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

جناب کے ثبوت میں علماء کا شروع سے اختلاف رہا ہے، اکثر فلاسفہ سے یہ منقول ہے کہ وہ جناب کے ثبوت کا انکار کرتے ہیں کیونکہ ابوعلی بن سینانے اپنے رسالہ ” حدود الاشیاء “ میں لکھا ہے : الجن حیوان ھوائی ہے، جو مختلف اشکال میں مشکل ہوجاتا ہے اور اس اسم کی شرح ہے، اس کا یہ کہنا کہ یہ اسم کی شرح ہے اس پر دلالت کرتا ہے کہ واقع میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، لیکن جمہور ارباب ملل اور انبیاء (علیہم السلام) کے مصدقین جنات کے ثبوت کو مانتے ہیں اور قد ماء فلاسفہ بھی جنات کے ثبوت کو مانتے ہیں اور جنات کو ارواح سفلیہ کہتے ہیں، ان کا قول ہے کہ جناب کی ماہیات مختلف ہوتی ہیں، بعض شریر ہوتے ہیں اور بعض شریف ہوتے ہیں جو نیکیوں سے محبت کرتے ہیں، اور بعض خبیث ہوتے ہیں وہ برائیوں اور آفتوں سے محبت رکھتے ہیں، اور ان کی انواع کا اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی علم کو نہیں، یہ موجودات مجردہ ہیں (غیر مادی ہیں) اور خبروں کے عالم ہوتے ہیں اور افعال شاقہ پر قادر ہوتے ہیں، ان کا سننا اور دیکھنا ممکن ہے۔

 جنات کے متعلق دوسرا قول یہ ہے کہ وہ اجسام ہیں : قرآن مجید میں جناب اور ملائکہ کا ثبوت ہے، اور اس کا ثبوت ہے کہ ملائکہ کو افعال شاقہ پر عظیم قوت حاصل ہوتی ہے اور جنات بھی اسی طرح ہیں، پھر یہ ملائکہ ہمارے پاس ہمیشہ حاضر ہوتے ہیں اور وہ کراماً کاتبین ہیں اور وہ محافظ فرشتے ہیں اور یہ فرشتے قبض روح کے وقت بھی حاضر ہوتے ہیں اور یہ فرشتے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھی حاضر ہوتے تھے اور مسلمانوں اور حاضرین مجلس میں سے کوئی بھی ان کو نہیں دیکھتا تھا اور قبض روح کے وقت بھی ان کا کوئی نہیں دیکھتا تھا، بہرحال یہ بعید نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جو ہر فرد میں علوم کثیرہ پیدا کرے اور اس کو مشکل اور شدید دشوار افعال پر قدرت عطاء کر دے اور اس تقدیر پر جنات کا وجود ممکن ہے، خواہ ان کے اجسام لطیف ہوں یا کثیف ہوں اور ان کے اجرام کبیر ہوں یا صغیر ہوں، اور وہ ہم کو دکھائی نہ دیتے ہوں۔ (تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٦٦٤۔ ٦٦١ ملخصا، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

سر سید احمد خان لکھتے ہیں :

قرآن میں جن کا جو لفظ آیا ہے، اس سے بدوی اور دیگر غیر متمدن اور غیر تربیت یافتہ لوگ مراد ہیں۔ قرآن مجید میں چودہ جگہ ” الجن و الانس “ کا لفظ آیا ہے اور ہر موقع پر ان غیر متمدن لوگوں کو کسی نئی صفت اور خاصیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (تفسیر القرآن ج ٣ ص ٨٩۔ ٧٩ ملخصا، علی گڑھ، ١٨٨٥ ء، بہ حوالہ دائرہ معارف اسلامیہ ج ٧ ص ٤٦٦، دانش گاہ پنجاب، لاہور)

غلام احمد پرویز لکھتے ہیں :

قرآن کریم میں ” جن “ اور ” انس “ کے الفاظ متعدد مقامات پر اکٹھے آئے ہیں۔ انس کے عنوان میں بتا چکے ہیں کہ عربوں میں ” الانس “ ان قبیلوں کو کہتے تھے جو ایک مقام پر مستقل طور پر سکونت پذیر ہوجائیں گے، لیکن جن وہ قائل تھے جو جنگلوں اور صحراؤں میں جگہ بہ جگہ پھرتے رہتے تھے اور اس طرح شہر والوں کی نگاہوں سے اوجھل رہتے تھے۔ انھیں خانہ بدوش قبائل ( Nomadic Tribes) کہا جاتا ہے۔ اب بھی دنیا میں جہاں جہاں اس قسم کے قائل پائے جاتے ہیں وہ شہر والوں سے دور دور، جنگلوں اور بیابانوں میں رہتے ہیں۔ آج کل وسائل، رسائل و رسائل کے عام ہوجانے سے، ان قبائل اور شہر والوں کی زندگی میں بہت سے امور مشترک ہوچکے ہیں، اس لیے ان میں کوئی بنیادی بعد محسوس نہیں ہوتا، لیکن جس زمانے میں ملنے جلنے کے وسائل اور نشر و اشاعت کے طریق عام نہیں تھے، شہر والوں اور ان خانہ بدوش صحرا نشینوں کے تمدن و معاشرت، عادات واطوار، خصائص و خصائل اور ذہنی اور نفسیاتی کیفیات وغیرہ میں اس قدر فرق تھا کہ یہ دونوں ایک نوع کے افراد نظر نہیں آتے تھے۔ عربوں میں یہ صحرا نشین قبائل بہت زیادہ تھے ( انھیں بدیا اعراب کہا جاتا تھا) چونکہ قرآن کا پیغام شہریوں اور صحرا نشینوں سب کی طرف تھا، اس لیے اس نے جن و انس دونوں گروہوں کو مخاطب کیا ہے۔ ان مقامات پر غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ وہاں جن سے مراد انسان ہی ہیں، یعنی وہ وحشی قبائل (Gypsis) جو جنگلوں اور صحراؤں میں رہا کرتے تھے، مثلاً سورة انعام میں ہے : ” یٰـمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ “ (الانعام : ١٣٠) اے گروہ جن و انس ! کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول آئے تھے ؟ قرآن نے کسی رسول کا ذکر نہیں کیا جو جن تھا اور سورة اعراف میں اس کی تصریح کردی کہ رسول، بنی آدم میں سے، انہی کی طرف بھیجے گئے تھے۔ ( الاعراف : ٣٥) سورة جن اور سورة احقاف میں مذکور ہے کہ جنوں کی ایک جماعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس قرآن سننے کے لیے آئی۔ اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ’ ’ جنوں ‘ کی طرف رسول انسانوں میں سے ہی ہوتے تھے۔ انہی سورتوں ( سورة جن اور سورة احقاف) سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ جو جن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس قرآن سننے کے لیے آئے تھے وہ انسان ہی تھے۔ (لغات القرآن ص ٤٤٦، ادارہ طلوع اسلام، لاہور، ١٩٨٤ ء)

جنات کے متعلق مفسرین کی آراء

علامہ ابو الحسن علی بن محمد الماوردی البصری المتوفی ٤٥٠ ھ لکھتے ہیں :

ایک قول یہ ہے کہ جنات تمام انسانوں کو پہچانتے ہیں، اسی لیے وہ تمام انسانوں کی طرف اپنے کلام کا وسوسہ ڈدالتے ہیں، جنات کی اصل میں اختلاف ہے، حسن بصری سے منقول ہے کہ جن ابلیس کی اولاد ہیں، جیسے انس حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں اور ان دونوں میں سے مومن بھی ہیں اور کافر بھی ہیں، اور یہ ثواب اور عقاب میں شریک ہیں، ان دونوں فریقوں میں سے جو مومن ہو وہ اللہ کا ولی ہے اور ان دونوں فریقوں میں سے جو کافر ہو وہ شیطان ہیں۔

ضحاک نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جن الجان کی اولاد ہیں اور شیاطین نہیں ہیں اور ان پر موت آتی ہے اور ان میں سے مومن بھی ہیں اور کافر بھی، اور شیاطین ابلیس کی اولاد ہیں، ان پر ابلیس کے ساتھ ہی موت آئے گی۔ اس میں اختلاف ہے کہ جنات میں سے مؤمنین جنت میں داخل ہوں گے یا نہیں، جیسا کہ ان کی اصل میں اختلاف ہے جن لوگوں کا یہ زعم ہے کہ جنات الجان کی اولاد ہیں، ابلیس کی ذریت نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے ایمان کی وجہ سے جنت میں داخل ہوں گے اور جو یہ کہتے ہیں کہ جنات ابلیس کی ذریت ہیں، ان کے دو قول ہیں : حسن بصری نے کہا : وہ جنت میں داخل ہوں گے ، اور مجاہد نے کہا : وہ جنت میں داخل ہوں گے ، اگرچہ ان کو دوزخ سے دور کردیا جائے گا۔ ( النکت و العیون ج ٦ ص ١٠٩، دارالکتب العربیہ، بیروت)

علامہ بو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :

امام بیہقی کی روایت میں ہے کہ جناب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زاد ( خوراک) کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا تمہارے لیے ہر ہڈی میں خوراک ہے، اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ جنات کھاتے ہیں، اطباء اور فلاسفہ کی ایک جمات نے جنات کے کھانے کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ بسیط ہیں اور ان کا کھانا صحیح نہیں ہے اور ان کا یہ قول قرآن اور سنت سے مردود ہے اور مخلوقات میں بسیط اور مرکب نہیں ہیں، واحد محض صرف اللہ سبحانہ ہے۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جنات کو ان کی اصل صورتوں میں دیکھنا محال نہیں ہے، جیسا کہ آپ فرشتوں کو ان کی اصل صورتوں میں دیکھتے تھے اور ہمارے لیے جنات اکثر سانپوں کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں، حدیث میں ہے :

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مدینہ میں جنات کی ایک جماعت اسلام لا چکی ہے، اگر تم نے ان سانپوں میں سے کسی کو گھروں میں رہتے ہوئے دیکھا تو اس کو تین دفعہ نکلنے کے لیے خبردار کرو، اگر اس کے بعد بھی وہ سانپ نظر آئے تو اس کو مار دو ، وہ شیطان ہے۔ ( صحیح مسلم، کتاب الالسلام، رقم الحدیث : ١٤١ )

حضرت ابو البابہ بن عبد المنذر البدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھروں میں رہنے والے سانپوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ( صحیح مسلم، کتاب السلام، رقم الحدیث : ١٣٢)

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان گھروں میں جنات سانپوں کی شکل میں رہتے ہیں، اگر تم ان میں سے کسی کو دیکھو تو اس کو تین دفعہ ڈراؤ، اگر وہ نکل جائے تو فبہا ورنہ اس کو قتل کردو، وہ کافر ہے۔ ( سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٥٢٥٧ )

جنات اجسام عاقلہ خفیہ ہیں، جن پر ناریت یا ھوایت غالب ہوتی ہے، ایک قول یہ ہے کہ یہ ارواح مجردہ کی ایک نوع ہیں، ایک قول یہ ہے کہ یہ ابدان سے جدا ہونے والے نفوس شریرہ ہیں۔ (تفسیر البیضاوی مع الخفا جی ٩ ص ٢٨٩، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٧ ھ)

سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :

جناب اجسام عاقلہ میں جن پر ناریت غالب ہے، اس کی دلیل یہ آیت ہے: وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ ۔ (الرحمن : ١٥) اور جن کو خالص آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔

ایک قول یہ ہے کہ یہ اجسام ھوائیہ ہیں اور تمام صورتوں کو قبول کرلیتے ہیں یا ان کی ایک قسم مختلف اشکال کو قبول کرلیتی ہے، یہ لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رہتے ہیں، اور کبھی اپنی صورت اصلیہ کی مغائر صورت میں دکھائی دیتے ہیں اور کبھی اپنی اس اصلی صورت میں دکھائی دیتے ہیں، جس صورت میں ان کو پیدا کیا گیا اور یہ مشاہدہ انبیاء صلوات اللہ وسلامہ علیہم کے ساتھ مخصوص ہے، اور ان اولیاء کرام کے ساتھ مخصوص ہے، جن کو اللہ تعالیٰ ان کی اصلی صورت دکھانا چاہے، ان کو سخت مشکل اور دشوار کاموں کے کرنے کی قوت حاصل ہوتی ہے، اور اس میں کوئی عقلی مانع نہیں ہے کہ بعض اجسام لطیفہ کی نوع دیگر اجسام لطیفہ کی ماہیت سے مخالف ہو اور ان میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ یہ حیات کو اور افعال عجیبہ پر قدرت کو قبول کرلیں، اور جدید سائنس نے بعض اجسام لطیفہ میں ایسے خواص کو ثابت کیا ہے جن سے عقل حیرات ہوتی ہے، تو ہوسکتا ہے جنات کے اجسام بھی اسی طرح ہوں، اور عالم طبعی میں اتنے عجائبات ہیں کہ عقل ان کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ ( روح المعانی جز ٢٩ ص ٤٢، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنات کو دیکھا تھا یا نہیں؟

بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنات کو نہیں دیکھا نہ ان کا کلام سنا تھا، آپ کی طرف صرف جنات کے کلام کی وحی نازل کی گئی تھی۔

اور بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنات کو دیکھا تھا، ان میں سے ایک حدیث یہ ہے :

علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن مسعود (رض) سے پوچھا : کیا آپ میں سے کوئی شخص اس رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا، جب آپ کی جنات سے ملاقات ہوئی تھی ؟ انھوں نے کہا : ہم میں سے کوئی آپ کے ساتھ نہیں تھا، لیکن ایک رات ہم نے آپ کو گم پایا اور ہم کو یہی خیال آتا تھا کہ کسی دشمن نے آپ کو دھوکا دے دیا، یا آپ کے ساتھ کوئی نا خوش گوار واقعہ پیش آیا، ہم نے انتہائی پریشانی میں وہ رات گزاری، جب صبح ہوئی تو ہم نے آپ کو غار حرا کی طرف سے آتے ہوئے دیکھا، ہم نے کہا : یا رسول اللہ ! اور ہم نے آپ سے اپنی پریشانی بیان کی، آپ نے فرمایا : میرے پاس ایک جن دعوت دینے آیا، میں ان کے پاس گیا اور میں نے ان کے سامنے قرآن پڑھا، پھر آپ ہم کو لے کر گئے اور ان کے نشانات اور آگ کے نشانات ہمیں دکھائے، شعبی نے بیان کیا کہ انھوں نے آپ سے ناشتہ طلب کیا تھا، عامر نے کہا : یہ ایک جزیرہ کے جن تھے، آپ نے فرمایا : ہر وہ ہڈی جس پر اللہ کا نام پڑھا گیا ہو جب وہ تمہارے ہاتھوں میں آئے گی تو گوشت سے بھر جائے گی، اور اسی طرح گوبر تمہارے جانوروں کا چارہ بنے گا، پس اے مسلمانو ! ان دونوں چیزوں سے استنجاء نہ کیا کرو، یہ تمہارے بھائی جنات کی (اور ان کے جانوروں کی) خوراک ہیں۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور یہ امام مسلم کی شرط کے مطابق ہے۔

(مسند احمد ج ١ ص ٤٣٦ طبع قدیم، مسند احمد ج ٧ ص ٢١٥، ٢١٤ طبع جدید۔ رقم الحدیث : ٤١٤٩، مؤسستہ الرسالۃ، بیروت، ١٤١٦ ھ، دلائل النبوۃ ج ٢ ص ٢٢٩، صحیح مسلم رقم الحدیث، ٤٥٠، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢٥٨، مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ٤٢٣٧، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٣٢٠، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٨٢، مصنف ابن ابی شیبہ ج ١ ص ٥٥، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٨٥، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٨، دلائل النبوۃ ج ٢ ص ٢٢٩ )

اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنات کو دیکھا تھا اور اس رات حضرت ابن مسعود آپ کے ساتھ نہ تھے اور بعض روایات میں ہے کہ اس رات آپ نے جنات کو دیکھا تھا اور حضرت ابن مسعود آپ کے ساتھ تھے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ وہ جنات سے ملاقات کی رات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے، پس ان سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عبداللہ ! کیا تمہارے ساتھ پانی ہے ؟ میں نے کہا : میرے ساتھ ایک مشکیزہ میں پانی ہے، آپ نے فرمایا : مجھ پر وہ ڈالو، پھر آپ نے وضو کیا، سو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عبداللہ بن مسعود ! یہ پاک مشروب ہے اور پاک کرنے والا ہے۔ ( شعیب الارنووط نے کہا : اس حدیث کی سند ضعیف ہے، کیونکہ اس کی سند میں ابن الہیعہ ہے اور وہ ضعیف راوی ہے، مسند احمدج ١ ص ٩٨ طبع قدیم، مسند احمد ج ٦ ص ٣٣٣۔ رقم الحدیث : ٣٧٨٢ طبع جدید، مؤسستہ الرسالۃ ٗ بیروت، ١٤١٦ ھ، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨٥، سنن دارقطنی ج ١ ص ٧٨ طبع قدیم)

جنات کو دیکھنے اور نہ دیکھنے میں احادیث میں تطبیق

حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ نے بھی ان احادیث کو روایت کیا ہے، بعض احادیث میں ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) لیلۃ الجن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہیں تھے اور بعض احادیث میں ہے کہ وہ اس شب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے، اور بعض احادیث میں ہے کہ جنات نے از خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن مجید سنا تھا، جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تہامہ میں کھجوروں کے جھنڈ کے پاس اپنے بعض اصحاب کو صبح کو نماز پڑھا رہے تھے، اور بعض احادیث میں ہے کہ آپ قصداً انھیں تبلیغ کرنے کے لیے تشریف لے گئے تھے، حافظ ابن کثیر ان احادیث میں تطبق دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

یہ تمام احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قصداً جنات کی طرف گئے تھے اور آپ نے ان کو اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرف دعوت دی، اور ان کے لیے وہ احکام شرعیہ بیان کیے جن کی انھیں ضرورت تھی، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلی بار جنات نے آپ سے قرآن مجید سنا ہو اور اس وقت آپ کو یہ علوم نہ ہو کہ جناب قرآن سن رہے ہیں، جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) کی روایت میں ہے، اور اس کے بعد جنات کا وفد آپ کے پاس آیا ہو جیسا کہ حضرت ابن مسود (رض) کی روایت میں ہے، اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنات سے خطاب فرما رہے تھے، اس اثناء میں حضرت ابن مسعود آپ کے ساتھ نہ تھے اور آپ سے دور تھے، اور حضرت ابن مسعود کے علاوہ آپ کے اصحاب میں سے کوئی آپ کے ساتھ نہیں گیا تھا اور یہ سنن بیہقی کی روایت میں ہے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب پہلی بار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنات کی طرف تشریف لے گئے، اس بار آپ کے ساتھ حضرت ابن مسعود (رض) تھے، نہ کوئی اور صحابی تھے جیسا کہ مسند احمد کی حدیث میں ہے اور حدیث صحیح مسلم میں بھی ہے، اور حضرت ابن مسعود کے ساتھ جانے کے واقعات پہلی بار جانے کے بعد پیش آئے۔ ( تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ١٨١، دارالفکر، بیروت، ١٨١ ھ)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جناب کو دیکھنے پر دلائل

یہ امر متفق علیہ ہے کہ حضرت سلیمان السلام کی جناب پر حکومت تھی اور آپ جناب سے مشقت والے کام لیتے تھے، قرآن مجید میں ہے : حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے جن نے کہا :

قال عفریت من الجن انا اتیک بہ قبل ان تقوم من مقامک وانی علیہ لقوی امین۔ ( النمل : ٣٩)

ایک سرکش جن نے کہا : میں وہ تخت آپ کے پاس اس سے پہلے لے آؤں گا کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں اور بیشک میں اس پر ضرور قوت والا امانت دار ہوں۔

اور جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) جنات کو دیکھتے تھے تو ضروری ہوا کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی یہ وصف حاصل ہو، کیونکہ آپ افضل الرسل ہیں، اور خصوصیت کے ساتھ آپ کے جنات کو دیکھنے اور ان پر تصرف کرنے کی قوت کے حصول پر دلیل یہ حدیث ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک سرکش جن رات کو مجھ پر حملہ آور ہوا تاکہ میری نماز منقطع کر دے، اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت دی، میں نے ارادہ کیا کہ میں اس کو مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دوں، حتیٰ کہ تم سب صبح اٹھ کر اس کو دیکھتے، پھر مجھے اپنے بھائی حضرت سلیمان کی یہ دعا یاد آئی : اے میرے رب ! مجھے ایسا ملک عطاء فرما جو میرے بعد اور کسی کے لائق نہ ہو، پھر آپ نے اس کو ناکام واپس کردیا۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٦١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٤١، مسند احمد ج ٢ ص ٢٩٨)

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

حضرت ابن مسعود (رض) کا مذہب یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جناب کو دیکھا ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حکم دیا کہ وہ آپ کے ساتھ چلیں تاکہ آپ جنات کے سامنے قرآن پڑھیں، وہ آپ کے ساتھ گئے حتیٰ کہ شعب ابن ابی ادب کے ساتھ مقام الحجون کے نزدیک پہنچے، آپ نے میرے سامنے ایک خط کھینچ کر فرمایا : اس لکیر سے آگے نہ بڑھنا، پھر آپ الحجون کی طرف گئے تھے جنات بہت بڑے اجسام میں آپ کی طرف بڑھے، وہ اس طرح دف بجا رہے تھے جس طرح عورتیں دف بجاتی ہیں حتیٰ کہ انھوں نے آپ کو ڈھانپ لیا اور آپ میری آنکھوں سے اوجھل ہوگئے، میں اٹھا پھر آپ نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا، پھر آپ نے قرآن کی تلاوت کی اور آپ کی آواز بلند ہورہی تھی، جنات زمین سے ملے ہوئے تھے میں ان کی آواز سن رہا تھا اور ان کو دیکھ نہیں رہا تھا۔

دوسری روایت میں ہے : انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : آپ کون ہیں ؟ آپ نے کہا : میں اللہ کا نبی ہوں، انھوں نے کہا : آپ کے حق میں کون گواہی دے گا ؟ آپ نے فرمایا : یہ درخت، پھر فرمایا : آؤ اے درخت ! وہ درخت اپنی جڑوں کو کھینچتا ہوا آیا اور آپ کے سامنے کھڑا ہوگیا، آپ نے اس سے فرمایا : تم میرے لیے کس چیز کی گواہی دیتے ہو ؟ اس درخت نے کہا : آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ نے فرمایا : جاؤ ! وہیں لوٹ جاؤ جہاں سے آئے ہو، حتیٰ کہ وہ درخت اسی طرح لوٹ گیا، حضرت ابن مسعود نے کہا : جب آپ میرے پاس واپس آئے تو آپ نے پورچھا : کیا تم میرے پاس آنا چاہتے تھے ؟ میں نے کہا : جی ہاں ! یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا : یہ تمہارے لیے ممکن نہیں تھا، یہ جنات قرآن سننے کے لیے آئے تھے، پھر اپنی قوم کو عذاب سے ڈرانے کے لیے واپس گئے، انھوں نے مجھ سے خوراک کے متعلق سوال کیا تھا، میں نے ان کے لیے ہڈیوں اور مینگنیوں کی خوراک دی، پس تم میں سے کوئی شخص ہڈی سے استنجاء نہ کرے نہ مینگنی سے۔

مذکورہ احادیث کے متعلق دیگر مفسرین اور محدثین کی توجیہات

علامہ قرطبی مالکی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :

ایک قول یہ ہے کہ لیلۃ الجن میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنات کو دیکھا تھا اور یہ قول زیادہ ثابت ہے۔

(الجامع الاحکام القرآن جز ١٩ ص ٥، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :

یہ آیت اس میں ظاہر ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنات کے سننے کا علم اللہ تعالیٰ کی وحی سے ہوا اور آپ نے جنات کا مشاہدہ نہیں کیا اور احادیث سے یہ ثابت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنات کو دیکھا ہے اور اس کی توجیہہ یہ ہے کہ یہ واقعہ متعدد بار ہوا ہے۔ ( روح المعانی جز ٢٩ ص ١٤٣، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

مفسرین کے بعد اب ہم ان روایات کے متعلق محدثین کی تصریحات پیش کر رہے ہیں :

قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی ٥٤٤ ھ لکھتے ہیں:

حضرت ابن عباس اور حضرت ابن مسعود (رض) کی حدیثوں میں تعارض ہے، اور ان میں تطبیق اس طرح ہے کہ یہ دونوں الگ الگ واقعے ہیں اور ان میں کوئی تعارض اور تنافی نہیں ہے۔ ( اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٢ ص ٣٦٤، دارالوفاء، بیروت، ١٤١٩ ھ)

علامہ یحییٰ بن شرف نواوی متوفی ٦٧٦ ھ لکھتے ہیں :

علماء نے یہ لکھا ہے کہ یہ دو الگ الگ واقعے ہیں، حضرت ابن عباس (رض) کی حدیث کا تعلق نبوت کی ابتداء سے ہے، جب جنات آئے اور انھوں نے آپ سے قرآن مجید کی تلاوت سنی اور اس وقت یہ آیت نازل ہوئی، ” قل اوحی الی الایۃ “ اور حضرت ابن مسعود (رض) کی حدیث میں اس کے بہت بعد کے واقعہ کا ذکر ہے، اس وقت اسلام مشہور ہوچکا تھا اور اللہ ہی کو علم ہے کہ اس کے بعد کتنا عرصہ گزر چکا تھا۔ ( صحیح مسلم بشرح النواوی ج ٢ ص ١٦٤٤، مکتبہ نراز مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)

حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) کی حدیث کا تعلق بعث کے ابتدائی ایام کے ساتھ ہے اور حضرت ابن مسعود کی حدیث کا تعلق، اس کے بعد بعد کا ہے، کیونکہ اس کو حضرت ابوہریرہ (رض) نے روایت کیا اور وہ ہجرت کے بعد (٧ ھ) میں اسلام لائے تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جنات کے متعدد وفود کا آنا ثابت ہے۔ ( فتح الباری ج ٩ ص ٦٨٧، دارالفکر، بیروت، ١٤٣٠ ھ)

﴿قُمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾  نماز تہجد کی مشروعیت

زرارہ بناوفی سعد بن ہشام سے نقل کرتے ہیں ، انھوں نے فرمایا کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ (رض) سے عرض کیا کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رات کے قیام و تہجد کے بارے میں بتلایئے۔ انھوں نے فرمایا کہ : کیا تم یہ سورت مزمل نہیں پڑھتے ؟ میں نے عرض کیا : کیوں نہیں ؟ فرمایا کہ : اس سورت کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے رات کا قیام فرض قرار دیا ہے، چنانچہ اس بناء پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) رات کا اکثر حصہ میں التزاماً قیام فرمایا کرتے تھے اور طویل قیام کی وجہ سے ان کے پاؤں پر ورم آجاتا تھا اور اس صورت کی اختتامی آیات بارہ ماہ تک نازل نہیں ہوئیں ۔ بعد ازاں آخری آیات میں اس حکم کے بارے میں تخفیف نازل ہوگئی اور پھر اس کے قیام اللیل فرض نہیں رہا بلکہ نفل قرار دیا گیا ۔

نیز حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : جب سورة المزمل کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تو لوگ رمضان المبارک جتنا قیام اللیل کیا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ اس سورت کی آخری آیات نازل ہوئیں اور اس کی ابتدائی اور اختتامی آیات کے نزول کی درمیانی مدت تقریباً ایک سال تھی۔

امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ اس باب میں مسلمانوں کے مابین کوئی اختلاف نہیں کہ قیام اللیل کی فرضیت منسوخ ہوچکی ہے اور اب یہ نفل عبادت ہے۔ جس کی بہت ترغیب دی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ پسند ہے۔ اس کے اہتمام ، ترغیب اور فضائل کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کثرت سے روایات و احادیث منقول ہیں۔

 حضرت ابن عمرو (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : احب الصلوٰۃ الی اللہ صلوۃ داؤد کان ینام نصف اللیل ویقوم ثلثہ وینام سدسہ واحب الصیام الی اللہ صیام داؤد کان یصوم بوماً ویفطر یوماً ۔

نیز حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات میں آٹھ رکعات پڑھا کرتے تھے اور جب سپیدہ ٔ سحر ( صبح کا ذب) نمودار ہوتا تو تین رکعات سے وتر ادا فرمایا کرتے تھے ، پھر تسبیح و ذکر میں مشغول ہوجاتے اور جب فجر ( صبح صادق) ہوجاتی تو دو رکعت سنت فجر ادا فرماتے تھے ، نیز حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات میں گیارہ رکعات پڑھا کرتے تھے۔

﴿اِنَّا سَنُلْقِيْ عَلَيْكَ قَوْلًا ثَـقِيْلًا﴾ مشروعیت تہجد کی علت

بیشک ہم آپ پر ایک بھاری کلام ڈالنے والے ہیں بھاری کلام سے مراد قرآن کریم کا نزول ہے مطلب یہ ہے کہ آپ عبادت اور ریاضت کریں تاکہ وہ بھاری بوجھ ہلکا ہو اور تعلیم ارشاد سہل و آسان ہوجائے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ اگر سخت سردی کے زمانے میں بھی آپ پر وحی نازل ہوتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حالت بدل جاتی تھی جب فرشتہ رخصت ہو جاتا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جسم اطہر سے پسینہ بہتا رہتام تھا۔ ( بخاری شریف : ص ١ : ج : ١)

﴿وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا﴾ فریضہ خاتم الانبیاء:

اپنے رب کو یاد رکھیں ہر حال میں اسے نہ بھولیں کیونکہ جس وقت بندہ اس سے غافل ہوجاتا ہے تو انوارات کا سلسلہ روح سے منقطع ہوجاتا ہے اور دل تاریکی سے بھر جاتا ہے روح مردہ ہوجاتی ہے۔

وتبتل الیہ تبتیلاً : اپنا پورا قلبی رخ اللہ کی طرف رکھئے یعنی اللہ تعالیٰ سے جو تعلق ہے اس تعلق کے مظاہرے اور آثار ہر تعلق پر غالب رکھئے بظاہر بیویوں سے بھی تعلق ہے اولاد سے بھی اولیاء و اصدقاء سے بھی مگر اللہ تعالیٰ کا تعلق ان تمام تعلقات پر غالب رہے اس کے احکام کی ادائیگی میں ذرہ بھر بھی فرق نہ آنے پائے یہ درحقیقت بہت بڑی نصیحت ہے جو بندہ بھی پورے طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے وہ لوگوں سے بھی ملتا جلتا ہے لیکن اس کا باطن اللہ تعالیٰ کی یاد میں معمور رہتا ہے اور مخلوق کو راضی رکھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو کوئی نافرمانی نہیں کرتا۔

”تبتل“ کے لفظی معنی انقطاع اور گوشہ نشینی و خلوت کے ہیں۔ ( احکام القرآن ۔ جصاص : ج : ٣ : ص ٦٢٧)

آیت میں ’ ’ تبتل إلیہ تبتلاً ‘ ‘ کی تفسیر بعض حضرات نے ” أخلص إليه إخلا صاً “ سے کی ہے جبکہ قتادہ سے منقول ہے کہ ”أخلص إليه الدعاء والعبادۃ“ اور بعض حضرات سے ” الانقطاع إلی الله “ مراد ہے۔ یعنی تمام تعلقات سے انقطاع ہوجائے اور اللہ کے سو ا کسی سے خیر کی امید نہ ہو۔

( بہرحال حاصل یہ ہے کہ پہلے تو یہ حکم دیا گیا کہ حق تعالیٰ کو بلا واسطہ عبادت اور مناجات کے لیے توراۃ میں تہجد اور قیام کیا جائے لیکن دن میں بھی اگرچہ بظاہر مخلوق سے تعلقات و معاملات رکھنے پڑیں لیکن دل کی توجہ اور قلبی تعلق رب العالمین سے ہی رہنا چاہیے۔ غیر اللہ کا کوئی تعلق ، اللہ تعالیٰ سے توجہ ہٹنے نہ دے ، بلکہ سب تعلقات کٹ کر باطن میں اسی ایک کا تعلق باقی رہ جائے اور اسی کی یاد ہر عمل میں غالب رہے۔ جسے صوفیاء کرام رحمہم اللہ علیہ کے یہاں ” خلوت در انجمن “ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ( من افادات شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی (رح) )

فائدہ: ذکر عام ہے خواہ زبان سے ہو یا دل سے ہو خواہ روح سے ہو خواہ سری سے خواہ خفی سے ہو خواہ اخفی سے خواہ نفس سے ہو یا سلطان الاذکار سے ہو اور عام ہے کہ اسم ذات ( اللہ) کا ورد ہو یا کسی صفاتی نام کا یا کلمہ طیبہ کا جس سے اس کو مناسبت ہو یا کسی شیخ نے اس کے حال کے موافق تجویز کیا ہو حضرات صوفیائے کرام نے اجتہاد و استنباط اور تعلیم الہامی سے اذکار کے مختلف طریقے مبتدی اور منتہی کیلئے مقرر فرمائے ہیں جیسے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے حضرات سالکین حق کو ذکر خفی کا تلقین فرماتے ہیں جبکہ سلسلہ عالیہ قادریہ چشتیہ کے حضرات مبتدی کو بطور علاج ذکر جہر کا حکم صادر فرماتے ہیں۔ تجربہ ثقات اور بندہ ناچیز کے ناقص تجربہ نے واضح کردیا ہے کہ ان کا اثر جلد محسوس ہوجاتا ہے اور تنویر قلب و روح میں ان کی ایک عجیب خاصیت ہے اس کا انکار بد یہات کا انکار ہے منتی ہر حال میں ذاکر رہتا ہے اور مبتدی اگر تبتل اختیار کرے تو جلد اثر ظاہر ہوجاتا ہے۔

ذکر مع التبتل کی آسان صورت :۔ یہ ہے کہ اہل دننا سے تھوڑے وقت کے لیے تعلق منقطع کر کے کسی گوشہ میں سر ڈھانک کر قبلہ رخ بطہارت بیٹھے اور استغفار و درودشریف کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلا کر رو رو کر مانگے یا اللہ میرے جسم کے ذرہ ذرہ کو اپنی یاد والا بنا دے یا اللہ مجھے اپنی محبت والا فیض اپنی رضا والا فیض اور اپنے عشق والا فیض عطاء فرما اس کے بعد اپنے قلب کی طرف دھیان جما کر انتظار میں بیٹھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت آرہی ہے آرہی ہے اور میرے دل کی حرکت اللہ ، اللہ کر رہی ہے اس کے بعد اس پر جذبہ محبت کی حالت طاری ہوگی کہ جس میں تعداد ذکر بھی جاتی رہے گی وہ عین ذکر کثیر کا مصداق ہوگا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ” یایھا الذین امنوا اذکروا اللہ ذکراً کثیراً “ یعنی اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ کو بہت یاد کیا کرو۔

ذکر مع التبتل کی تائید

آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی مبارک سے ثابت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبوت سے قبل مکہ سے کئی میل کے فاصلہ پر غار حرا میں اپناخلوت خانہ بنا رکھا تھا وہاں یاد الٰہی میں مصروف رہتے تھے گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کے طالبان حق کے مبتدیوں کو بتا گئے کہ اپنے اوپر خلوت کو لازم پکڑ لو جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے ” وتبتل الیہ تبتلاً “ یعنی اور سب سے الگ ہو کر اس کی طرف جاؤ ۔ ذکر اللہ کی کثرت اور تعلقات دنیا کے ترک کے معاملہ میں صوفیائے کرام سلفاً خلفاً سب سے آگے رہے ہیں اتنا ضرور ہے کہ ہر دور کی نزاکتوں کا خیال رکھتے ہوئے اکابر صوفیائے عظام (رح) نے وصول الی اللہ کی تحصیل کے لیے تجدید واصل باللہ ہوگئے اور اس مادی دور میں بھی روحانیت کا سمجھانا بہت مشکل ہے مگر حق تعالیٰ نے سالکین حق کی رہنمائی کے لیے اس پرفتن دور میں بھی کچھ ایسے صاحب دل پیدا فرمادیئے ہیں جنکی صحبت کے اثر سے آج بھی انسانوں کی زندگیوں میں نمایاں تبدیلیاں آرہی ہیں ان صاحب دل حضرات میں سے ایک ہمارے حضرت حاجی محمد صاحب نقشبندی (رح) ہیں ( جواب وفات پاچکے ہیں) جنہوں نے آفتاب علم و ہدایت حضرت مولانافضل علی قریشی (رح) اور مفسر قرآنحضرت مولانا محمد عبداللہ بہلوی (رح) سے روحانی تربیت پائی اللہ تعالیٰ نے امت کی رہنمائی کیلئے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کہ اس عظیم رہنما سیدی و مرشدی حضرت حاجی محمد حسین صاحب (رح) ( بستی ککرے والا نزد ظریف شہید اسٹیشن شجاع آباد) کے قلب اطہر پردس مرابات القاء فرمائے ہیں جو کہ ایک قسم کی سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں تجدید ہے ات مراقبات پر عمل پیرا ہونے والے احباب کو دنیا والوں نے دیکھا ہے کہ چند دنوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت و رضا اور عشق والا فیض اتنا غالب آگیا کہ شریعت مطہرہ کے ہر حکم پر عمل کرنا ان کے لیے آسان ہوگیا ۔

اصلاح امت کی خاطر دس الہامی مراقبات کو مختصراً یہاں درج کیا جاتا ہے۔

١۔۔ لطیفہ قلب : بائیں پستان کے دو انگل نیچے۔ ٢۔۔ لطیفہ روح : دائیں پستان کے دو انگل نیچے۔ ٣۔۔ لطیفہ سری : بائیں پستان کے دو انگل اوپر ۔ ٤۔۔ لطیفہ خفی : دائیں پستان کے دو انگل اوپر۔ ٥۔۔ لطیفہ اخفی : وسط سینہ میں ۔ ٦۔۔ لطیفہ نفس : پیشانی میں۔ ٧۔۔ سلطان الاذ کار : ام الدماغ یعنی کھوپڑی میں۔

تفصیل ذکر و طریق مراقبات۔۔ تنہائی میں بیٹھ کر رو رو کر اللہ سے مانگیں کہ اے اللہ میرے لطیفہ دل روح ، سری ، خفی ، اخفی ، نفس ، سلطان الاذکار میں اپنا نام جاری فرمادے۔ ذکر کا طریقہ۔۔ یہ تصور کریں کہ اللہ کی رحمت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اطہر سے میرے اکابر مشائخ کے قلب سے میرے قلب میں آرہی ہے ، اور قلب کر رہا ہے ، اللہ ، اللہ ، اللہ ، اسی طرح تمام لطائف پر علیحدہ علیحدہ کچھ وقت کے لیے توجہ دیں ۔ مراقبہ : ہر غلطی کی معافی کا فیض حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اطہر سے مییر قلب میں آرہا ہے ، اسی طرح تمام مراقبات کا فیض متعلقہ مرکز پر آتا ہوا محسوس کریں۔

مراقبہ : ١۔۔ ہر غلطی کی معافی کا مراقبہ۔ ٢۔۔ ہر ہر نعمت کے شکرانے کا مراقبہ ۔ ان دونوں مراقبات کا مرکز دل ہے۔ اور۔ ٣۔۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کامل محبت کا مراقبہ ۔ ٤۔۔ قرآن کی رحمت و برکت اور فیوضات کا مراقبہ ۔ ٥۔۔ اللہ کی محبت کا مراقبہ۔ ٦۔۔ عالم برزخ اور قبر میں انبیاء اللہ کی رحمتوں کے نزول کا مراقبہ۔ ٧۔۔ اللہ کے عشق کا مراقبہ ۔ ٨۔۔ اللہ کی رضا کا۔۔ ٩۔۔ صحت و قوت ، طاقت کا مراقبہ ۔ ١٠۔۔ اللہ کی حفاظت کا مراقبہ ۔ ان مراقبات کا مرکز سلطان الاذکار سے سینے کے۔۔ پر فیض کا انتظار کرنا ہے۔

﴿وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيْلًا﴾

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویں تفسیر عزیزی میں لکھتے ہیں کہ آپ ان کو اچھے طریقے پر چھوڑ دیں اس میں تین چیزیں ہونی چاہئیں ۔ ١۔ ظاہری طور پر ان سے تعلقات چھوڑ دیں دل سے سب کے لیے ہدایت کی دعا کریں ۔ ٢۔ ان کی بد سلوکی کی شکایت کسی سے نہ کریں ۔ ٣۔ باوجود ان سے جدائی اور مفارقت کے ان کیلئے نصیحت میں پوری کوشش کریں ۔ حضرات علماء کرام فرماتے ہیں اسی کا نام ہجر جمیل ہے۔

﴿اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَيْكُمْ رَسُوْلًا ڏ شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا﴾

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت :۔ اس آیت میں ”شاھدا“ کا لفظ موجود ہے اس کی تفصیل دوسرے پارے میں گزر چکی ہے دیکھ لیں ۔ البتہ اتنی بات یاد رکھیں اگر لفظ ”شاھد“ اور ”شھید“ سے وہی مراد ہو جس کو مخالفین بیان کرتے ہیں یعنی حاضر و ناظر تو جن سورتوں میں اس صفت کا ذکر ہے ان سب سے سورة منافقوں بعد میں نازل ہوئی ہے جس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حاضر و ناظر ہونے کی تردید ہوتی ہے اور یہ محال ہے کہ قرآن کریم کی کوئی ایک آیت دوسری آیت کی اور ایک سورة دوسری سورة کی تردید کرے اور اس کی سورتوں کا اس طرح آپس میں اختلاف اور تعارض واقع ہو ” حاشاء کلا “ لہٰذا ” شاھد “ اور ” شھید “ سے حاضر و ناظر کا مراد لینا قرآن کریم کے سراسر خلاف ہے۔ ( تبرید النواظر : ص : ٨٨)

مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم نے تمہارے رسول کو اسی طرح بھیجا ہے جس طرح فرعون کے ہاں رسول موسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجا تھا فرعون نے انکار کیا اور ہم نے اس پر سخت گرفت کی اگر قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتے تو اس دن کے بچاؤ کی تم نے کونسی تدبیر کر رکھی ہے ؟ یہ قرآن کریم فرائض و حقوق انسانی کے لیے نصیحت ہے جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف اس کے ذریعے سے راہ پائے۔

ان ربک یعلم۔۔ الخ ربط آیات :۔ ایک سال تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) تہجد کے لیے اور شب بیداری کے پابند رہے اور کم از کم ایک ثلث رات سب بیداری کو بہت ضروری سمجھتے رہے اور اسی رات کا اندازہ ستاروں سے کیا کرتے تھے اسی حالت محمودہ کو اللہ تعالیٰ نے یہاں سے بیان کیا ہے۔

ان ربک يعلم۔۔ الخ  نسخ فرضیت تہجد

اس دوسرے رکوع کی آیت جب نازل ہوئی تو تہجد کی نماز کی فرضیت قیام لیل منسوخ ہوگئی اختیار دے دیا گیا کہ تہجد فرض نہیں جو چاہے پڑھے اور جو چاہے نہ پڑھے اور جو پڑھے وہ بھی جتنا آسانی سے ہو سکے پڑھے۔ علم ان لن تحصوہ الخ نسخ کی علت : ١۔۔ اللہ تعالیٰ کو یہ معلوم ہے کو یہ معلوم ہے کہ تم وقت کا صحیح اور ٹھیک اندازہ کرنے پر قابو نہ پا سکو گے لہٰذا اس نے تمہارے حال پر شفقت و مہربانی کے ساتھ توجہ فرمائی۔

فاقرء وا۔۔ الخ ١مر ندب ترغیب تلاوت قرآن :۔ مراد اس قرآن پڑھنے سے تہجد پڑھنا ہے کہ اس میں قرآن پڑھا جاتا ہے اور یہ عمل ندب کے لیے ہے مطلب یہ ہے کہ تہجد کی فرضیت منسوخ ہوگئی اب جس قدر آسانی ہو بطور ندب کے اگر چاہو تو پڑھ لیا کرو اور منسوخ ہونے کی اصل علت مشقت ہے جس پر ” علم ان لن تحصوہ “۔ دال ہے اور اس کے قبل کا مضمون اس کی تمہید ہے۔ ( بیان القرآن)

علم ان سیکون۔۔ الخ اس حکم ( تہجد) کو اس لیے بھی منسوخ کیا گیا ہے کیونکہ ان حالتوں میں تہجد کی اور اوقات کی مشکل ہے بس اس لیے بھی تم کو اجازت ہے کہ اب تم لوگ جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکو پڑھ لیا کرو دونوں ” فاقرء و اما تیسر “ کو قریب کیا تاکہ تکرار نہ ہو۔

تخریج مسائل

امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ : ” اس آیت سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ قیام اللیل جو سورت کی ابتدائی آیات کی بنا پر ابتداء ً فرض کیا گیا تھا اس کا نسخ اس آیت سے ہوگیا ۔

آیت مذکورہ سے دوسرا حکم یہ معلوم ہوا کہ نماز میں قرأت کرنا فرض اور لازم ہے ، کیونکہ ارشاد ہے : فاقرء واما تیسر من القرآن ۔ تیسرا حکم یہ معلوم ہوا کہ نماز تھوڑی قرأت سے بھی جائز ہوجاتی ہے۔

چوتھا حکم یہ معلوم ہوا کہ اگر نماز میں کسی نے سورة الفاتحہ نہیں پڑھی لیکن کوئی دوسری آیت یا سورت پڑھ لی تو اس سے فرض قرأت ادا ہوجاتا ہے۔ اگر اس پر یہ اشکال جائے کہ مذکورہ تمام احکامات صلوٰۃ اللیل کے ضمن میں بیان کیے گئے ہیں جبکہ خود صلوٰۃ اللیل کی فرضیت منسوخ ہوچکی ہے تو اس آیت سے قرأت کے فرض ہونے وغیرہ امور پر استدلال کیونکر درست ہوگا ؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ صلوٰۃ اللیل کی صرف فرضیت منسوخ ہوئی ہے اس کی شرائط اور احکامات تو منسوخ نہیں ہوئے، کیونکہ جب یہ احکام تطوع یعنی نفل ثابت اور لازم ہوگئے تو نماز ہونے کی حیثیت سے نفل اور فرض میں چونکہ کوئی فرق نہیں اس لیے فرائض کے حق میں بھی ان امور کی فرضیت و اثبات پر استدلال درست ہے۔

نیز آیت میں فاقرء و اما تیسر من القرآن میں صیغہ امر ہے وجوب کے لیے ہوتا ہے جب کہ نماز کے علاوہ کسی ایک موقع پر قرأت قرآن واجب نہیں ۔ لہٰذا لا محالہ اس نے نماز میں قرأت قرآن کی فرضیت وجوب بیان کیا گیا ہے۔

اسی طرح اگر یہ کہا جائے کہ آیت میں قرأت سے نفل نماز کی قرأت مراد ہے تو یہ نفل میں فرضیت قرأت کی دلیل ہے لیکن یہ فرض نماز میں قرأت کی فرضیت کی دلیل کیسے ہوسکتی ہے ؟ تو اس کا جواب یہ دیا جائے گا کہ بلاشبہ نفل نماز کا پڑھنا انسان پر فرض تو نہیں لیکن جب بھی کوئی نفل نماز پڑھے گا تو اس کے ذمہ لازم ہے کہ وہ اسے اس کی تمام شرائط کے ساتھ پڑھے اور انہی شرائط میں سے فرضیت قرأت بھی ہے اور جس طرح نفل پڑھنے والے پر نماز کی دیردیگر شرائط کی پابندی ضروری ہے مثلاً : طہارت ، ستر ، استقبال قبلہ وغیرہ ایسے قرأت بھی فرض ہوگی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے انسان پر بیع و شراء خریدو فروخت اور بیع کی دیگر اقسام مرابحہ سلم وغیرہ کوئی فرض نہیں لیکن اگر کوئی یہ معاملات کرے تو پھر ان کی تمام شرائط کی پابندی ضروری ہے۔ ( احکام القرآن ۔ جصاص : ج : ٣: ص ٢٦٨)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply