ترجمہ اور تفسير سورة قريش
ترتيب: محمد ہاشم قاسمى بستوى
﷽
أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ ﴿1﴾
اے پیغمبر بھلا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا ہے جو سزا وجزا کی تکذیب کرتا ہے۔
فَذَٰلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ ﴿2﴾
سو وہ وہی شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔
وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ ﴿3﴾
اور مسکین کو کھانا دینے کی لوگوں کو ترغیب تک نہیں دیتا
فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ ﴿4﴾
سو ایسے نمازیوں کے لیے تباہی ہے
الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ﴿5﴾
جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں
الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ ﴿6﴾
جو ایسے ہیں کہ (جب نماز پڑھتے ہیں تو) ریاکاری کرتے ہیں۔
وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ ﴿7﴾
اور لوگوں کو روزمرہ کے برتنے کی معمولی چیز دینے سے گریز کرتے ہیں۔
تعارف سورة الماعون
یہ سورة مبارکہ ترتیب کے لحاظ سے 107 ویں نمبر پر آتی ہے اس میں ایک رکوع اور سات آیات آتی ہیں۔ اس میں بھی اخلاقی اور دینی فرائض کی پابندی پر زور دیا گیا ہے اور بری عادتوں کو چھوڑنے کی نصیحت کی گئی ہے جس میں خاص طور سے نماز سے غفلت ‘ یتیم سے سختی ‘ بخل ‘ حسد اور تنگ دلی و ریاکاری سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ عادات انفرادی و مجموعی ہر طرح سے خود اپنے لیے ‘ خاندان ‘ قوم و ملک اور پوری انسانیت کے لیے انتہائی نقصان دہ اور اللہ کی ناراضگی کا باعث ہیں۔ جس کی وجہ سے عذاب کے مستحق ہوں گے
لغات :
ارءیت: کیا تو نے دیکھا۔ الدین: انصاف کا دن۔ قیامت۔ یدع: دھکے دیتا ہے۔ لا یحض: آمادہ نہیں کرتا۔ ساھون: بےخبر ۔ سستی کرنے والے۔ یراء و ن: وہ دکھاتے ہیں۔ یمنعون : وہ منع کرتے ہیں۔ الماعون: برتنے کی (چھوٹی چھوٹی) چیزیں۔
تشریح ِ آيات:
چند جملوں پر مشتمل سورة الماعون میں فکر آخرت، حقوق اللہ اور حقوہ العباد کو اس قدر خوبصورتی سے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اس میں غوروفکر کرنے والا کسی کے حق میں کمی کا تصور بھی نہی کرسکتا۔ فرمایا:
أرأيت: کیا آپ نے دیکھا کہ کون ” الدین “ کو جھٹلاتا ہے۔ ممکن ہے اس سورت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہو یا ہر دیکھنے والی آنکھ کو اس طرف متوجہ کیا ہو کہ کیا تم نے کبھی اس بات پر غوروفکر کیا ہے کہ ” الدین “ کو جھٹلانے والوں کا مزاج کیسا بن جاتا ہے کہ وہ اپنے پرائے کسی کا خیال تک نہیں کرتے۔ علماء مفسرین نے فرمایا ہے کہ ” الدین “ سے مراد انصاف کا دن یعنی قیامت کا دن ہے۔ بعض نے فرمایا ہے کہ اس سے مراد ملت اسلامیہ اور دین اسلام ہے۔
بہرحال قیامت کے دن اور ملت اسلامیہ کے سچے اصولوں کو جھٹلانے والوں کا یہی مزاج ہوسکتا ہے کہ وہ ایک غریب اور یتیم کے ساتھ حسن سلوک اور مشفقانہ برتاؤ کرنے کے بجائے اس کو ذلیل و خوار کرتے ہیں اور اس کو خود بھی دھکے دیتے ہیں اور ہر شخص کے سامنے اس کو اس قدر نیچا اور ذلیل کردیتے ہیں کہ ہر شخص اس کو دھکے دے کر اپنے قریب نہ بیٹھنے دے۔ ایسا شخص نہ تو خود ضرورت مندوں کی مدد کرتا ہے اور نہ دوسروں کو اس راستے پر چلنے کی تلقین کرتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مجبوروں، غریبوں اور یتیموں کے ساتھ وہ شخص سنگ دلی کا مظاہرہ کرسکتا ہے جس کو اس بات کا یقین ہی نہ ہو ہکا سے بھی ایک دن مر کر اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور لمحے لمحے کا حساب دینا ہے۔ جس کو آخرت، قیامت اور ملت اسلامیہ کے اصولوں کا لحاظ نہیں ہوتا وہی نمازوں میں سستی کاہلی کرتا ہے۔ اس کا کوئی کام اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے نہیں ہوتا بلکہ سستی شہرت اور وقت واہ واہ کے لیے ہوتا ہے تاکہ ہر شخص اس کی دریا دلی کا قائل ہوجائے۔ وہ زکوۃ تو کیا ادا کرے گا اپنے پڑوسیوں کو وہ معمولی چیزیں دینے سے بھی کنجوسی کرے گا جس کے دینے میں اس کا کوئی نقصان نہیں ہے یعنی وہ برتنے کی معمولی چیزوں سے بھی انکار کردے گا۔ اس سے معلو ہوا کہ آخرت پر یقین ہی سے انسان کی مزاج، عقیدہ اور ذہن میں تبدیلی آسکتی ہے۔ جس کو قیامت کا یقین ہی نہ ہو اور آخرت کی گرفت اور پکڑ کر انکار کرتا ہے اس میں انسانیت کی بھلائی اور محبت کے جذبے کے بجائے سنگ دلی کا مزاج پیدا ہوجاتا اور آخرت کی گرفت اور پکڑ کا انکار کرتا ہے اس میں انسانیت کی بھلائی اور محبت کے جذبے کے تحت کرتا ہے کہ اس کے حسن سلوک سے خود اس کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
فذلک ۔۔۔: وہ یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ اصل میں جس کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ جائے وہ بچہ اس بات کا مستحق ہوتا ہے کہ پورا معاشرہ اور اس کا ہر فرد ایسے بچوں کے ساتھ بہترین حسن سلوک اور اچھا معاملہ کے کیونکہ ملت کا ہر فرد پوری توجہ کا حق دار ہوتا ہے۔ اگر یتیم بچوں کو ویسے ہی چھوڑ دیا جائے گا اور اس ان کے اخلاق و کردار کی نگرانی نہیں کی جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہی بچے کلپورے معاشرے کی تباہی کا سبب بن جائیں۔ لیکن اس کی فکر صرف ان لوگوں کو ہوتی ہے جنہیں اپنے دین اور اپنی ملت سے محبت ہوتی ہے جو لوگ صرف اپنی ذات ہی میں گم رہتے ہوں ان کو صرف اپنی ذات کی فکر ہوتی ہے ان کی نظر قوم کے بچوں پر نہیں ہوتی۔
ولا يحض۔۔۔: وہ مسکین کے کھانے پر آمادہ نہیں کرتا۔ یعنی نہ تو خود اس کو اس بات کی توفیق ہوتی ہے کہ وہ بھوکوں اور فاقہ زدہ لوگوں کی امداد و اعانت کرے نہ اپنے گھروالوں اور دوست احباب کو اس کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ وہ غریبوں اور مسکینوں کا خیال رکھیں۔ فکر آخرت سے بےنیاز یہ شخص فضولیات میں تو ہزاروں کی رقم خرچ کردے گا لیکن کسی مسکین، محتاج اور فرق فاہ سے بےحال شخص کے حال پر رحم نہیں کرے گا۔ اس کے برخلاف ہر وہ شخص جس کو اللہ و رول کے احکامات کا لحاظ ہوگا وہ خود بھی کھائے گا اور اس بات کا بھی خیال رکھے گا کہ اس کے پڑوسی یارشتہ دار میں کوئی بھوکا تو نہیں ہے۔
فويل۔۔۔: ان لوگوں کے لیے بڑی خرابی ہے جو نمازوں سے غفلت اختیار کرتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ نمازوں سے اس درجہ غفلت اختیار کرتے ہیں کہ نہ تو ان کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ کس عالی شان دربار میں حاضر ہیں۔ نہ خشوع و خضوع کا خیال رکھتے ہیں نہ وقت کی پابندی کا۔ کبھی نماز پڑھ لی کبھی نہ پڑھی۔ نماز پڑھی تو دو چار ٹھونگیں مار لیں۔
قرآن کریم اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مومن اور منافق کی نماز میں بہت فرق ہے۔ مومن کی نماز میں اللہ کی عبادت و بندگی کو پورا پورا خیال ہوتا ہے۔ وقت کے اندر وہ نماز کو ادا کرتا ہے۔ نماز کے پورے آداب اور اصولوں کی پابندی کرتا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ اللہ کی تو فقی سے آج وہ اپنے اللہ کے عالی شان دربار میں حاضر ہے۔ وہ فکر آخرت کو سامنے رکھ کر نماز کو پڑھتا ہے۔ کسی طرح کی سستی، کاہلی اور دکھاوا نہیں کرتا۔
اس کے برخلاف منافق کی نماز کے لیے فرمایا گیا ہے کہ وہ جب بھی دنیا کو دکھانے کے لیے نماز پڑھتا ہے تو اس میں ذوق و شوق کے بجائے کاہلی، سستی اور اکتاہٹ کا انداز نمایاں ہوتا ہے ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ منافق آدی کا یہ حال ہوتا ہے کہ عصر کے وقت بیٹھا سورج کو دیکھتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان پہنچ جاتا ہے (یعنی سورج ڈوبنے لگتا ہے تو) تو اٹھ کر ( مرغے کی طرح) دو چار ٹھونگیں مارلیتا ہے۔ جس میں وہ اللہ کا ذکر بہت کم کرتا ہے۔ (بخاری۔ مسلم۔ مسند احمد) ۔
حضرت ابن ابی وقاص (رض) سے ان کے صاجزادے حضرت مصعب ابن سعد روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھا جو نماز میں غفلت کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کا وقت ٹال کر پڑھتے ہیں۔ (ابن جریر۔ بیہقی) ۔
اسی طرح حضرت مصعب (رض) کی ایک دوسری روایت بھی ہے کہ انھوں نے اپنے والد سے پوچھا کہ آپ نے اس آیت پر غور کیا ؟ کیا اس کا مطلب نماز کو چھوڑ دینا ہے ؟ یا اسے مراد نماز پڑھتے ہوئے آدمی کا خیال ادھر ادھر چلا جاتا ہے۔ اور کیا ہم میں سے ایسا کوئی شخص بھی ہے جس کا خیال ادھر ادھر نہ بھٹک جاتا ہو ؟ آپ نے جواب دیا کہ اس سے مراد نماز کے وقت کو ضائع کرنا اور اسے وقت سے ٹال کر پڑھنا ہے۔ (ابن جریر۔ بیہقی) ۔
خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں في صلاتھم ساھون نہیں فرمایا بلکہ عن صلاتھم ساھون فرمایا۔ یعنی وہ لوگ جو نمازوں سے غفلت اختیار کتے ہیں۔ پڑھی نہ پڑھی۔ پڑھی تو وقت ٹال کر پڑھی، اوپر سے دل سے اکتاہٹ کے ساتھ پڑھی اور پھر اس نماز میں بھی پورا دھیان نماز کی طرف نہیں بلکہ اپنے وجود اور کپڑوں سے کھیلنے میں گزر جاتا ہے۔
ساھون کی وضاحت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا۔ ساھون کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا إضاعة الوقت۔ یعنی نماز کے وقت کو ضائع کرنا۔ یا وہ منافق مراد ہیں جو نماز پڑھتے ہیں لیکن اس کی طرف توجہ نہیں دیتے اور غفلت میں مبتلا رہتے ہیں۔ نمازوں کی پروا نہیں کرتے۔ اگر نماز جاتی رہے تو اس پر وہ ندامت تک کا اظہار نہیں کرتے۔ رکوع اور سجدوں کے آداب کا خیال نہیں کرتے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نمازوں کو پوری طرح ادا کرنے اور ان کے آداب کا لحاظ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
الذین ھم یراؤن: “ یعنی وہ لوگ جو ریار کاری کرتے ہیں۔ اصل میں مومن کے ہر کام میں ایک اخلاص ہوتا ہے۔ اس کے پیش نظر ایک ہی جذبہ ہوتا ہے کہ وہ ایسے کام کرے جس سے اللہ راضی ہوجائے اور اس کی رضا خوشنودی حاصل ہوجائے۔ لیکن منافق کی پہچان یہ ہے کہ اس کا ہر کام دنیا کو دکھانے، نمود ونمائش اور ریار کاری کے لیے ہوتا ہے۔ دراصل دکھوے اور ریاکاری کا عمل انسان کی ذہنی اور قلبی بیماری کا دوسرا نام ہے۔ وہ ہر وقت اسی فکر میں رہتا ہے کہ لوگ اس کے حسن عمل کو دیکھیں اور اس کی تعریف کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ریاکاری کے اس بدترین جذبے سے محفوط رکھے اور ہر وہ کا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس سے اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل ہوسکے۔
الماعون: وہ عام استعمال کی چیزیں جیسے نمک، مرچ، مصالحہ، دیا سلائی آگ اور کھانے پینے کی معمولی چیزیں جن کی عام طور پر ضروت پڑتی رہتی ہے ریاکاری کرنے والوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ ایسی معمولی چیزوں کے دینے سے بھی کنجوسی اور بخل کا مظاہرہ کرتے ہیں جن کے دیدینے سے اس کا کوئی خاص نقصان نہیں ہوتا۔ مثلاً پڑوس میں ایک خاتون کھانا پکار رہی ہیں۔ ان کے پاس سب کچھ ہے مگر نمک ختم ہوگیا یا مرچ مصالحہ ختم ہوگیا۔ اس کے پاس کوئی ایسا ذریعہ بھی نہیں ہے کہ وہ فوری طور پر منگوا سکے اس حالت میں اگر وہ ان معمولی چیزوں میں سے کسی چیز کو مانگ لے تو یہ نہ تو کوئی عیب ہے اور نہ ان چیزوں کے دینے میں کسی قسم کا نقصان ہے۔ اصل میں اللہ یہ فرما رہے ہیں کہ جس کا آخرت پر یقین کامل ہوتا ہے وہ کبھی ایسی گری ہوئی حرکتیں نہیں کرسکتا کیونکہ ہماری اخلاقی زندگی میں فکر آخرت ایک فیصلہ کن طاقت کا نام ہے۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.