Surah Munafiqun With Urdu Translation

Surah Munafiqun With Urdu Translation, Surah Munafiqun Tafsir



Surah Munafiqun PDF 49 KB

Read Surah Munafiqun Translation and Explanation

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے۔

إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ ﴿1﴾

(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب وہ منافق آپ کے پاس آکر کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اور اللہ جانتا ہے کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اور اللہ اس بات کی بھی گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین البتہ جھوٹے ہیں۔

 اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿2﴾

یہ لوگ اپنی قسموں کو ڈھال بنا کر لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ بیشک وہ جو کچھ کر رہے ہیں بہت برا کر رہے ہیں۔

 ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا فَطُبِعَ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ ﴿3﴾

یہ ساری باتیں اس وجہ سے ہیں کہ یہ (شروع میں بظاہر) ایمان لے آئے پھر انھوں نے کفر اپنا لیا اس لیے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی، نتیجہ یہ کہ یہ لوگ (حق بات) سمجھتے ہی نہیں ہیں۔

 وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ ۖ وَإِنْ يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۖ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ ۖ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۚ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴿4﴾

جب تم ان کو دیکھو تو ان کے ڈیل ڈول تمہیں بہت اچھے لگیں، اور اگر وہ بات کریں تو تم ان کی باتیں سنتے رہ جاؤ، (٢) ان کی مثال ایسی ہے جیسے یہ لکڑیاں ہیں جو کسی سہارے سے لگا رکھی ہیں، یہ ہر چیخ پکار کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔ یہی ہیں جو (تمہارے) دشمن ہیں، اس لیے ان سے ہوشیار رہو۔ اللہ کی مار ہو ان پر۔ یہ کہاں اوندھے چلے جارہے ہیں؟

 وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُءُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ ﴿5﴾

اور جب ان (منافقین) سے کہا جاتا ہے کہ آؤ تاکہ اللہ کے رسول تمہارے لیے بخشش ( کی دعائیں) مانگیں تو یہ لوگ اپنے سروں کو پھیر لیتے ہیں اور آپ ان کو دیکھیں گے کہ وہ تکبر کرتے ہوئے بےرخی اختیار کرتے ہیں۔

 سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ ﴿6﴾

(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کے لیے دعائے مغفرت کریں یا نہ کریں دونوں باتیں برابر ہیں۔ اللہ ان کو ہرگز ر معاف نہ کرے گا۔ بیشک اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔

 هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنْفِقُوا عَلَىٰ مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّىٰ يَنْفَضُّوا ۗ وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ ﴿7﴾

یہ لوگ ہی تو ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ کے پاس رہتے ہیں ان پر خرچ نہ کرو تاکہ وہ خود بخود منتشر ہوجائیں۔ حالانکہ آسمانوں اور زمین کے سارے خزانے اللہ کے پاس رہیں لیکن منافق تو اتنی سی بات بھی نہیں سمجھتے۔

 يَقُولُونَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ ۚ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ ﴿8﴾

حالانکہ اللہ ہی کے تو ہیں آسمانوں اور زمین کے خزانے البتہ منافقین ہی نہیں سمجھتے۔ کہتے ہیں کہ اگر ہم اب مدینہ میں لوٹ کر جائیں گے تو غلبہ والا وہاں سے مغلوبوں کو نکال باہر کریگا۔ حالانکہ عزت تو بس اللہ ہی کی ہے، اور اس کے پیغمبر کی اور ایمان والوں کی، البتہ منافقین (ہی اس کا) علم نہیں رکھتے۔

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴿9﴾

اے ایمان والو کہیں تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں، اور جو کوئی ایسا کرے گا، تو وہی لوگ تو گھاٹے میں رہنے والے ہیں۔

 وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ ﴿10﴾

(لوگو ! ) ہم نے تمہیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے اس سے پہلے خرچ کرلو کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے۔ پھر وہ یہ کہنے لگے کہ اے میرے پروردگار آپ نے مجھے تھوڑی مہلت کیوں نہ دی تاکہ میں خوب خرچ کرتا اور صالحین میں سے ہوجاتا۔

 وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴿11﴾

(لیکن اللہ کا قانون یہ ہے کہ ) جب کسی جاندار کا مقرر وقت آجاتا ہے تو اس کو مزید مہلت نہیں دی جاتی۔ اور اللہ کو خبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔

شان نزول

جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ بنی مصطلق سے فارغ ہو کر واپس تشریف لارہے تھے تو راستہ میں ایک جگہ مسلمانوں کے لشکر نے آرام کرنے کے لیے پڑاؤڈالا ۔

وہاں پانی کی ضروت ہوئی تو مہاجرین نے کنوئیں سے پانی لانے کے لیے جہجاہ بن مسعود نامی لڑکے کو بھیجا ۔ انصار نے بھی سنان بن وبر جہنی نامی لڑکے کو اسی کے لیے بھیجا ۔ وہاں ونوں نے پانی لینے کے لیے جلدی کی تو دونوں میں جھگڑا ہوگیا۔ ان میں سے ایک نے دوسرے کو سرین پر لات ماردی تو جہنی چیخا : ” اے انصاریو ! مدد کو آؤ۔ “ اس کے ساتھ ہی جہجاہ نے بھی آواز لگائی : ” اے مہاجرین مدد کو آؤ ۔ “ یہ چیخ پکار سننی تھی کہ انصار اور مہاجرین دونوں جوش میں آگئے۔ جھگڑا بڑھا ۔ یہ سب میدان جنگ سے آرہے تھے اور ہتھیاروں سے مسلح تھے۔ یہ شوروغل سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں تشریف لائے اور ان سب کے جوش کو ٹھنڈا کیا لیکن یہ موقع دیکھ کر فتنہ پر ورسانپ حرکت میں آگئے ۔

عبداللہ بن ابی ابن سلول کی کارستانیاں

 منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی ابن سلول نے بڑا غصہ دکھایا اس کے ساتھ انصار کا ایک گروہ تھا۔ وہ کہنے لگا : ” کیا ان لوگوں نے واقعی ایسا کیا ہے ! !۔ یہ لوگ اب ہم سے لڑنے جھگڑنے لگے ہیں ہمارے شہر میں ان کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ واللہ ! ہماری اور ان پر دیسی قریشیوں کی وہی مثال ہے جو اگلے لوگوں نے بیان کی ہے : ” اپنے کتے کو کھلا پلا کر موٹا تازہ کر ، کہ وہ تجھے پھاڑ کھائے ، یا اپنے کتے کو بھوکا رکھ تاکہ وہ دم ہلاتا ہوا تیرے پیچھےپیچھے چلے۔ “

پھر اس خبیث نے یہ بھی کہا کہ : ” واللہ “ اگر ہم مدینہ لوٹے تو عزت والا ذلیل شخص کو وہ سے نکال باہر کرے گا “۔ پھر اپنے ارد گرد بیٹھے ہوئے اپنی قوم کے لوگوں سے کہنے لگا : ” یہ سارا خود تم ہی لوگوں کا کیا کرایا ہے۔ ان کو خود تم نے اپنے شہر میں بسا یا اور پھر انا مال آدھا تقسیم کر کے ان کو دے دیا۔ میں قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اگر اب بھی تم ان کو اپنا مال دینا بند کر دو تو وہ خود تمہارا شہر چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے۔ “

 پھر یہ خبیث اور بھی طرح طرح کی دہمکیاں دیتا رہا اس کے پاس جو اس کے ساتھی منافقین بیٹھے تھے وہ اس کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے اور اس کی حوصلہ افزائی کررہے تھے۔ وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں میں ایک کم عمر لڑکا بھی موجود تھا۔ اس کا نام زید بن ارقم (رض) تھا۔ وہ اٹھ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا اور اس نے عبداللہ بن ابی کی ساری باتیں آپ کو بتائیں۔ وہاں حضرت عمر بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ ایک دم بڑھک اٹھے کہ اس منافق کو اتنی ہمت کیسے ہوئی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں ایسی گستاخانہ بات کرے۔ ان کی رائے میں اس سانپ کی دم کاٹنے سے بہتر ہے کہ اس سانپ کو ہی مار دیا جائے۔ ان کا خیال تھا کہ اس فتنہ کو ابھرنے سے پہلے ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عبداللہ بن ابی کو قتل کردیا جائے لیکن بجائے اس کے کہ کوئی مہاجر اس کو قتل کرے، بہتر ہوگا کہ اس کی قوم انصار کا کوئی آدمی اس کو قتل کرے۔

یہ سوچ کر حضرت عمر (رض) نے عرض کیا : ” یارسول اللہ ! عبادبن بشر انصاری کو حکم دیجئے کہ وہ اس منافق کو قتل کر دے “۔

لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذہن میں ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا صورتحال یہ تھی کہ یہ سب لوگ ایک جنگ سے واپس آرہے تھے سب کے پاس ہتھیار تھے ، سب جوش وجذبہ میں بھرے ہوئے تھے لہٰذا ان کو مزید جوش دلانا مناسب نہیں تھا۔ آپ نے حضرت عمر (رض) سے فرمایا : ” دیکھو عمر ! ہم نے ایسا کیا تو لوگوں میں چرچا ہوگا کہ محمد خود اپنے ساتھیوں کو قتل کر رہے ہیں۔ یہ کیسی بری بات ہوگی ! نہیں عمر ! یہ مناسب نہیں ہے۔ بلکہ میں قافلہ کی روانگی کا حکم دیتا ہوں ۔ “ لیکن لوگوں نے تو ابھی ابھی پڑاؤ ڈالا تھا اور وہ دھوپ سے سائے میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ اتنی گرمی اور دھوپ میں آپ کا روانگی کے لیے حکم دینا بڑا عجیب تھا کیونکہ آپ اتنی شدید گرمی میں سفر نہیں فرمایا کرتے تھے۔ بہرحال قافلہ روانہ ہوگیا ۔ ادھر عبداللہ ابن ابی کو خبر ملی گئی کہ زید بن ارقم (رض) نے اس کی ساری باتیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتادی ہیں۔ وہ جلدی سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور قسمیں کھانے لگا کہ میں نے ایسا نہیں کہا تھا ۔ اس لڑکے نے مجھ پر جھوٹا الزام لگایا ہے۔

عبداللہ بن ابی اپنی قوم کا سردار صاحب رتبہ شخص تھا۔ انصار نے کہا : یارسول اللہ ! ممکن ہے اس لڑکے کو غلط فہمی ہوگئی ہو، یا اس کی کہی ہوئی اصل بات یادنہ رہی ہو۔ یہ لوگ مسلسل عبداللہ بن ابی کی وکالت کررہے۔ لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کی طرف دھیان دیئے بغیر اپنی سواری پر بیٹھے آگے بڑھتے رہے۔ اتنے میں انصار کے سردار سید بن حضیر (رض) آپ کے سامنے سے آئے ، آپ کو پورے آداب کے ساتھ سلام کیا اور عرض کرنے لگے : ” یارسول اللہ ! آپ نے بڑی سخت گرمی میں سفر شروع کیا ہے ، پہلے تو آپ نے کبھی ایسے گرم وقت میں سفر نہیں فرمایا ۔ “

آپ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا : تمہیں نہیں معلوم تمہارے ساتھی نے کیا کہا ہے ؟ “ انھوں نے عرض کیا : کون سے ساتھی نے ؟ آپ نے فرمایا : عبداللہ بن ابی نے۔ انھوں نے پوچھا : کیا کہا ہے اس نے ؟ آپ نے فرمایا : ” وہ کہتا ہے کہ جب وہ مدینہ واپس پہنچے گا تو عزت والا ذلیل شخص کو وہاں سے نکال کر باہر کر دے گا “ ۔

حضرت اسید یہ سن کر بہت مشتعل ہوگئے اور کہنے لگے: اللہ کی قسم یارسول اللہ پھر تو آپ ہی اس کو نکالیں گے اگر آپ چاہیں گے۔ اللہ کی قسم ! وہ ذلیل ہے اور آپ باعزت ہیں ! “پھر حضرت اسید نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے غرض کیا: ”یارسول اللہ! اس سے کچھ نرمى برتئے دراصل بات یہ ہوئی کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہماری طرف بھیجا تو اس کی قوم اپنا بادشاہ بنانے کے لیے اس کی تاجپوشی کرنے والی تھی تو اب وہ یہ سمجھتا ہے کہ آپ نے اس کی بادشاہت چھین لی ہے “۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوگئے اور اپنا سفر جاری رکھا ۔ اس وقت قافلہ کے کچھ لوگ تو اپنا سامان اکٹھا کررہے تھے۔ اور کچھ لوگ سوار ہو کر چل پڑے تھے اس واقعہ کی خبر سب میں پھیل گئی تھی ، اور پورا لشکر اسی کے متعلق آپس میں باتیں کررہا تھا۔ کوئی کہہ رہا تھا : ایسے وقت ہم سفر کیوں شروع کیا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی پوچھ رہا تھا : اس (منافق ) نے کیا کہا تھا ؟ کوئی پوچھتا تھا : اب اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟

کوئی کہتا تھا : ” عبداللہ ابن ابی کے باتیں صحیح ہیں “ ۔ دوسرا کہتا تھا : ” نہیں وہ غلط کہتا ہے۔ “ الغرض اسی طرح چہ میگوئیاں اور افواہیں بڑھتی رہیں ۔ پورے لشکر میں بےچینی اور اضطراب پھیلا ہوا تھا ۔ ویسے بھی وہ جنگ سے واپس لوٹ رہے تھے۔ ان کا گذر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محسوس کیا کہ لشکر میں اختلاف پیدا ہو رہے ہیں۔ آپ نے سوچا کہ ان کو ایسے کام میں لگادیں کہ وہ اس مسئلہ کو بھول جائیں ۔ اور اس پر باہم بحث وتکرار چھوڑدیں ، کیونکہ اس بحث مباحثہ سے یہ معاملہ مزید گرم ہورہا تھا۔ قافلہ کے لوگ سوچ رہے تھے کہ ہم کب فروکش ہوں گے اور پھر ایک دوسرے کے پاس بیٹھ کر اس معاملہ پر گفتگو کریں گے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محسوس کیا کہ لشکر میں اختلاف پیدا ہو رہا ہے ۔ آپ نے سوچا کہ ان کو ایسے کام میں لگادیں کہ وہ اس مسئلہ کو بھول جائیں ۔ اور اس پر باہم بحث وتکرار چھوڑ دیں ، کیونکہ اس بحث مباحثہ سے یہ معلوم مزید گرم ہو رہا تھا۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سارادن چلتے رہے ، سورج سرپر تھا، اس کی بھی پروا نہیں کی ، بلکہ برابر چلتے رہے ، چلتے رہے۔ آخر جب سورج غروب ہوگیا تو لوگوں نے سوچا کہ شاید اب نماز کے لیے رکیں گے اور کچھ دیر آرام کریں گے۔ لیکن آپ صرف چند منٹ کے لیے رکے ، نماز پڑھی اور پھر روانہ ہوگئے۔

آپ رات بھر مسلسل چلتے رہے، جب صبح ہوئی تو فجر کی نماز پڑھی اور پھر روانگی کا حکم دے دیا ۔ پھر دن چڑھے تک سب چلتے رہے ، یہاں تک کہ خوب تھک گئے اور دھوپ ستانے لگی ۔ جب آپ نے محسوس کیا کہ ان کا تھکان نے نڈھال کردیا ہے اور اب ان میں باتیں کرنے کی طاقت نہیں رہی تو آپ نے پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا ۔ لوگ جیسے ہی اترے اور زمین پر لینے تو گہری نیند سو گئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ حکمت عملی اسی لیے اختیار کی تھی کہ لوگ عبداللہ بن ابی والی بات میں مشغول نہ ہو سکیں ۔

پھر آپ نے ان کو جگایا اور دوبارہ سفر پر روانہ ہوئے اور بالآخر مدینہ پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چل دیئے تاکہ اپنے اہل وعیان سے جلد ملاقات کرلیں ۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورة منافقون نازل فرمائی

اب تو سب لوگ عبداللہ بن ابی کو برا بھلا کہنے لگے اور اس پر ہر طرف سے لعنت ملازمت ہونے لگی۔ یہ صورتحال دیکھ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) کو متوجہ کر کے فرمایا : ” اے عمر ! تم نے دیکھا۔ اگر میں نے اس روز تمہارے کہنے سے اس کو قتل کردیا ہوتا توکتنی ناکیں اس کے لیے بھنبھناتیں اور لوگ بڑا بڑا تے ۔ لیکن اگر آج میں ان کو اس کے قتل کا حکم دوں تو وہ (بلا جھجک ) اس کو قتل کردیں گے “۔

پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن ابی کے بارے میں میں خاموش اختیار فرمالی ، اور اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سب لوگوں کے سامنے کسی سے کوئی غلطی سرزرد ہوتی ہے تو ایسے موقع پر ضروری ہوتا ہے کہ آپ اس پر مناسب طریقہ سے نا پسندیدگی کا اظہار کر کے اس کو ایسا کرنے سے روکیں ، خواہ وہ سب کے سامنے ہو ۔

آپ کا مطلب یہ تھا کہ صرف ایک غلط بات کی وجہ سے اس سے بالکل متنفر نہ ہوجائے ، بلکہ اس میں جو دوسری خوبیاں ہیں ان کے پیش نظر اس ایک غلطی کو معاف کر دے اور درگزر سے کام لے۔ اگر اس کی ایک بات بری لگتی ہے تو اس کی دوسری اچھی باتوں اور خدمات کو یاد کرنے ، اور بری لگنے والی بات کو نظرانداز کردے۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٩٠٠ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٧٢، سنن ترمذیر قم الحدیث : ٢٣١٢ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١١٥٩٨)



Surah Munafiqun PDF 49 KB

Read Surah Munafiqun Translation and Explanation

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply