ترجمہ اور مختصر تفسير سورہ قدر
مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفرپور اعظم گڑھ۔
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ﴿1﴾
بیشک ہم نے اسے (قرآن کو) شب قدر میں اتارا ہے۔
وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ ﴿2﴾
اور آپ کو خبر ہے کہ شب قدر ہے کیا ہے؟
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ ﴿3﴾
شب قدر ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔
تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ ﴿4﴾
اس میں فرشتے اور روح القدس اپنے رب کے حکم سے ہر امر کو لے کر اترتے ہیں ۔
سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ ﴿5﴾
وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک۔
شانِ نزول
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک مجاہد کا حال بیان فرمایا جو مسلسل ایک ہزار مہینے جہاد میں مشغول رہا کبھی ہتھیار نہیں اتارے مسلمانوں کو سن کر تعجب ہوا اس پر یہ سورة نازل ہوئی جس میں اس امت کیلئے صرف ایک رات کی عبادت کو اس مجاہد کی زندگی بھر کی عبادت یعنی ایک ہزار مہینے سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔
حافظ ابن جریر طبرى رحمه الله نے ایک اور واقعہ بیان کیا کہ بنی اسرائیل کے ایک عابد کا یہ حال تھا کہ ساری رات عبادت کرتا اور صبح کو جہاد کیلئے نکل جاتا، دن بھر جہاد میں مصروف رہتا ایک ہزار مہینے اس نے لگا تار عبادت میں گزارے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورة نازل فرمائی اور اس کی فضلیت سب پر ظاہر کردی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے بعض ائمہ شافعیہ نے اس کو جمہور کا قو ل لکھا ہے۔ ( مظہرى: ص ١٠ ٣ ج ١٠)
شبِ قدر كى تعيين ميں علما كے اقوال:
اس رات کو لیلۃ القدر اس وجہ سے کہتے ہیں کہ جس آدمی کی اس سے پہلے بےعملی کی وجہ سے قدرو قیمت نہ تھی اس رات میں توبہ و استغفار و عبادت کی وجہ سے صاحب قدر و شرف بن جاتا ہے۔ تعیین شب قدر میں علماء کے مختلف اقوال ہیں جو چالیس تک پہنچتے ہیں مگر قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمه الله تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں کہ: ان سب اقوال میں سب سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ شب قدر رمضان شریف کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے، مگر آخری عشرہ کی کوئی خاص تعیین نہیں بلکہ ہر رمضان میں بدلتی رہتی ہے اس آخری عشرہ میں بھی طاق راتیں مراد ہیں یعنی ٢١، ٢٣، ٢٥، ٢٧، ٢٩ رمضان المبارک ازروئے زیادہ صحیح احتمال بھی یہی ہے اس قول پر تمام احادیث جو شب قدر کے متعلق آئی ہیں وہ جمع ہوجاتی ہیں۔ ( مظہری ص ٣١٣ ج ١٠)
نیز عاصم عن زر بن حبيش سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: میں نے ابی بن کعب (رض) سے کہا کہ : اے ابوالمنذر ! ہمیں لیلۃ القدر کے متعلق بتلایئے کہ وہ کب ہوتی ہے؟ کیونکہ ہمارے صاحب یعنی عبداللہ بن مسعود (رض) سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا : جو آدمی سال بھر رات میں قیام کرے وہ لیلۃ القدر پالے گا ۔ تو ابی بن کعب (رض) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ابو عبد الرحمن ابن مسعود (رض) پر رحم فرمائے۔ اللہ کی قسم ! وہ خوب جانتے ہیں کہ لیلۃ القدر رمضان میں ہوتی ہے لیکن انھوں نے یہ جواب اس لیے دیا کہ کہیں لوگ اسی رات پر اکتفا نہ کرلیں ۔ اللہ کی قسم ! لیلۃ القدر رمضان کی ستائیسوں رات ہے۔
امام ابوبکر جصاص (رح) ان تمام روایات کو ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ تمام روایت سے درست ہوسکتی ہیں کیونکہ ممکن ہے کہ کسی سال لیلۃ القدر کسی رات میں ہو اور کسی سال میں کسی اور رات میں ۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ کسی سال میں عشرہ اخیرہ میں ہو اور کسی سال میں درمیان عشرہ میں ہو اور کسی سال پہلے عشرہ میں اور کسی سال غیر رمضان میں ہو ۔
ابن مسعود (رض) کا مذکورہ بالا قول قطعی طور پر لیلۃ القدر کے حصول کے بارے میں ہے کہ سال بھر جس نے قیام کیا تو اسے لیلۃ القدرضرور حاصل ہوجائے گی کیونکہ خواہ رمضان میں ہو یا غیر رمضان میں، اس سے وہ محروم نہ رہے گا ۔ کیونکہ اس کا قطعی علم تو وحی کے بغیر نہیں ہوسکتا ، لہٰذا یہ بات ممکن ہے کہ کبھی لیلۃ القدر رمضان میں ہو اور کبھی رمضان کے علاوہ۔ اسی لیے فقہاء احناف نے فرمایا کہ اگر کسی نے اپنی بیوی سے کہا : أنت طالق في لیلة القدر تو جب تک اس کے بعد ایک پورا سال نہ گزر جائے طلاق واقع نہ ہوگی کیونکہ شک کی وجہ سے طلاق نہیں ہوتی اور سال پورا ہونے سے قبل یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ لیلۃ القدر پائی ہے یا نہیں ( انتہیٰ کلام الجصاص (رح) : ج ٣ ص ٦٤١)
احناف رحمہم اللہ کا مشہور قول یہی ہے لیکن امام ابوحنیفہ (رح) سے ایک روایت جمہور کے قول کے مطابق بھی ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے ساتھ خاص ہے ، جبکہ شرح ہدایہ میں اسی قول کو امام صاحب (رح) کا حتمی قول قرار دیا گیا ہے اور ایک روایت امام ابوحنیفہ (رح) سے ستائیسویں شب کی ہے۔ جیسا کہ ابن کعب (رض) کی روایت میں حلفاً ذکر کیا ہے (کذا في فتح الباری)
لیلۃ القدر كى خصوصیات
﴿تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ﴾: اس آيت ميں روح سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب شب قدر ہوتی ہے تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ زمین پر اترتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے جتنے بھی بندے مرد عورت عبادت و نماز میں مصروف ہوتے ہیں سب کیلئے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔ ( مظہری ص ١٠ ٣ ص ١٠)
﴿مِنْ كُلِّ اَمْرٍ﴾: یہاں من بمعنی با کے ہے معنی یہ ہوگا فرشتے لیلۃ القدر میں تمام سال کے اندر پیش آنے والے تقدیری واقعات لیکر زمین پر اترتے ہیں۔
پھر اس رات کی برکات کسی خاص حصہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ شروع رات سے طلوع فجر تک ایک ہی حکم ہے حضرت عثمان غنی (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرلی تو آدھی رات کی عبادت کا ثواب اس نے پا لیا اور پھر جس نے صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی اس نے پوری رات کی عبادت کا ثواب پایا۔ ( رواہ مسلم مظہری ص ٣١٣ ج ١٠)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.