surah yaseen tafseer in urdu

Surah Yaseen Tafseer In Urdu, Surah Yaseen Tafseer In Urdu PDF


Surah Yaseen PDF With Urdu Translation



Surah Yaseen PDF With Urdu Translation

مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ يوپى انڈيا۔

سورہ یٰسٓ كا تعارف

اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی وہ نشانیاں بیان فرمائی ہیں جو نہ صرف پوری کائنات میں بلکہ خود انسان کے اپنے وجود میں پائی جاتی ہیں، اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ان مظاہر سے ایک طرف یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو ذات اتنی قدرت اور حکمت کی مالک ہے اس کو اپنی خدائی کا نظام چلانے کے لیے نہ کسی شریک کی ضرورت ہے نہ کسی مددگار کی، اس لیے وہ اور صرف وہ عبادت کے لائق ہے، اور دوسری طرف قدرت کی ان نشانیوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جس ذات نے یہ کائنات اور اس کا محیر العقول نظام پیدا فرمایا ہے، اس کے لیے یہ بات کچھ بھی مشکل نہیں ہے کہ وہ انسانوں کے مرنے کے بعد انھیں دوسری زندگی عطا فرمائے۔

اس طرح قدرت کی ان نشانیوں سے توحید اور آخرت کا عقیدہ واضح طور پر ثابت ہوجاتا ہے، حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو یہی دعوت دینے کے لیے تشریف لائے ہیں کہ وہ ان نشانیوں پر غور کرکے اپنا عقیدہ اور عمل درست کریں، اس کے باوجود اگر کچھ لوگ اس دعوت کو قبول نہیں کررہے ہیں تو وہ اپنا ہی نقصان کررہے ہیں ؛ کیونکہ اس کے نتیجے میں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کے مستحق بن رہے ہیں، اسی سلسلے میں آیات نمبر ١٣ سے ٢٩ تک ایک ایسی قوم کا واقعہ ذکر فرمایا گیا ہے جس نے حق کی دعوت کو قبول نہ کیا ؛ بلکہ حق کے داعیوں کے ساتھ ظلم وبربریت کا معاملہ کیا جس کے نتیجے میں حق کے داعی کا انجام تو بہترین ہوا لیکن حق کے یہ منکر اللہ تعالیٰ کے عذاب کی پکڑ میں آگئے ؛ چونکہ اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد کو بڑے فصیح وبلیغ اور جامع انداز میں بیان فرمایا گیا ہے، اس لیے حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے کہ آپ نے اس سورت کو قرآن کا دل قرار دیا ہے۔

 سورہ يس کے فضائل

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر چیز کا ایک قلب ہوتا ہے اور قرآن کا قلب یٰسین ہے اور جس نے یٰسین کو پڑھا اللہ تعالیٰ اس کو یٰسین کے پھنے کی وجہ سے دس بار قرآن پڑھنے کا اجر عطا فرمائے گا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :2887 سنن الدارمی رقم الحدیث 3417)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے کسی رات میں یٰسین کو اللہ عزوجل کی رضا کے لیے پڑھا، اس کی اس رات میں مغفرت کردی جائے گی۔ (سنن الدارمی رقم الحدیث :3418)

عطاء بن ابی رباح بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے دن کے ابتدائی حصہ میں یٰسین کو پڑھا اس کی حاجات پوری کردی جائیں گی۔ (سنن الدارمی رقم الحدیث :3419)

شہر بن حوشب بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا جس نے صبح کے وقت یٰسین کو پڑھا اس کے لیے شام تک آسانی کردی جائے گی اور جس نے رات کی ابتداء میں یسیٰ کو پڑھا اس کے لیے اس رات میں صبح تک آسانی کردی جائے گی۔ (سنن دارمی رقم الحدیث :3420)

حضرت معقل بن یسار (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یٰسین قرآن کا قلب ہے، جو شخص بھی اللہ کی رضا اور آخرت کے لیے اس کو پڑھے گا اللہ کے پچھلے گناہوں کی مغفرت فرما دے گا، تم یٰسین کو اپنے مردوں پر پڑھا کرو۔ (السنن الکبریٰ رقم الحدیث :10914، سنن ابوداؤد رقم الحدیث :3121 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :1448 مسند احمد ج ٥ ص 27-26 مصنف ابن ابی شیبہ ج ٣ ص 237 المستدرک ج 1 ص 565 السنن الکبری للبیہقی ج ٣ ص 283)

امام طبرانی نے حضرت انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص ہر رات یٰسین پڑھنے پر دوام کرے وہ مرجائے گا تو شہادت کی موت مرے گا۔

امام بزار نے حضرت ابن (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے یہ پسند ہے کہ میری امت میں سے ہر شخص کے دل میں یٰسین ہو۔

امام بزار نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ پسند ہے کہ میری امت میں سے ہر شخص کے دل میں یٰسین ہو۔

امام ابن مردویہ اور امام دیلمی نے حضرت ابوالدرداء (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس میت کے پاس بھی یٰسین کو پڑھا جائے گا اللہ اس پر آسانی فرما دے گا۔

امام بیہقی نے شعب الایمان میں ابوقلابہ سے روایت کیا ہے کہ جس شخص نے یٰسین کو پڑھا اس کو بخی دیا جائے گا اور جس شخص کو کھانے کی کمی کا خوف ہو وہ سورة یٰسین پڑھے تو وہ کھانا اسے کافی ہوجائے گا اور جس نے میت کے پاس یٰسین کو پڑھا اس پر آسانی ہوجائے گی اور جس عورت کے ہاں مشکل سے ولادت ہو رہی ہو اس کے پاس یٰسین کو پڑھا جائے تو اس کے ہاں ولادت آسانی سے ہوجائے گی، اور جس نے یٰسین کو پڑھا تو گویا اس نے گیارہ مرتبہ قرآن میں پڑھا اور ہر چیز کا قلب ہوتا ہے اور قرآن کا قلب یٰسین ہے۔

امام حاکم اور بیہقی نے ابو جعفر محمد بن علی سے روایت کیا ہے کہ جس شخص کے دل میں سختی ہو وہ ایک پیالہ میں زعفران سے یٰسین والقرآن الحکیم لکھ کر اس کو پی لی۔

امام ابن النجار نے اپنی تاریخ میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے اپنے والدین کی یا ان میں سے کسی ایک کی ہر جمعہ زیارت کی اور ان کی قبر کے پاس یٰسین پڑھی تو اللہ اس کے ہر حرف کے بدلہ میں ان کی مغفرت فرما دے گا۔ (الدرا المنثور ملتقطاً ج ٧ ص 35-37 داراحیاء التراث العربی بیروت، 1421 ھ)

حضرت معقل بن یسار (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے مردوں پر سورة یٰسٓ کی قرات کرو۔ (سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٣١٢١‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٤٤٨‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٣ ص ٢٣٧‘ مسند احمد ج ٥ ص ٢٧۔ ٢٦‘ المعجم الکبیر ج ٢٠‘ رقم الحدیث : ٥١٠‘ المستدرک ج ١ ص ٥٦٥‘ سنن کبریٰ للبیہقی ج ٣ ص ٣٨٣)

﴿ٰسۗ﴾

يس كے معانى

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں: حضرت معاویہ، حضرت علی اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ یٰسین اللہ کے اسماء میں سے ہے اور اس اسم سے اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے۔ (جامع البیان رقم الحدیث :2220، دارالفکر بیروت، 1415 ھ)

عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یٰسین کا معنی حبشی زبان میں اے انسان ہے۔ (جامع البیان رقم الحدیث :22221، تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :18024)

قتادہ نے کہا قرآن مجید میں جتنے حروف مقطعات ہیں وہ سب اللہ کے اسماء ہیں۔ (جامع البیان رقم الحدیث :22224)

امام عبدالرحمٰن بن محمد بن ادریس المعروف بابن ابی حاتم متوفی 327 ھ لکھتے ہیں :

اشھب بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام مالک بن انس سے پوچھا : آیا کسی شخص کے لیے یٰسین نام رکھنا جائز ہے؟ امام مالک نے فرمایا میری رائے میں اس کو یہ نام نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ يس والقرآن الحکیم کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرا نام ہے میں نے اپنے نام کے ساتھ اس سورت کا نام رکھا ہے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :18025)

حسن نے اس آیت کی تفسیر میں کہا اللہ تعالیٰ جس چیز کے ساتھ چاہے قسم کھائے، پھر اس سے اعراض کر کے سلم علی ال یاسین (الصفت :130) کے متعلق کہا اللہ نے اپنے رسول پر سلام بھیجا ہے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :18026)

امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ھوازن القشیری المتوفی 465 ھ لکھتے ہیں: يس کا معنی یا سید ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یا سے یوم میثاق کی طرف اشارہ ہے، اور سین سے اس کے احباب کے سر (راز) کی طرف اشارہ ہے گویا یوم میثاق کے حق کی قسم اور احباب کے ساتھ راز کی قسم اور قرآن حکیم کی قسم۔ (لطاف الاشارات ج ٣ ص 74 دارالکتب العلمیہ بیروت، 1420 ھ)

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں:

علامہ ابن عباس اور حضرت ابن مسعود (رض) وغیرھم سے روایت ہے کہ يس کا معنی ہے یا انسان اور سلام علی الیاسین کا معنی ہے آل محمد پر سلام ہو اور سعید بن جبیر نے کہا یٰسین سیدنامحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسماء میں سے ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے بعد فرمایا : انک لمن المرسلین ” بیشک آپ ضرور رسولوں میں سے ہیں “ امام مالک نے جو يس نام رکھنے سے منع کیا ہے اس کی توجیہ میں علامہ ابن العربی نے کہا بندہ اپنے رب کا نام اس وقت رکھ سکتا ہے جب اس نام کا کوئی معنی ہو جیسے عالم، قادر، مرید اور متکلم، امام مالک نے یٰسین نام رکھنے سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ان اسماء میں سے ہے جن کا معنی معلوم نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ اس کا معنی ایسا ہو جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہو اور وہ اس اسم کے ساتھ منفرد ہو، پس بندہ کو اس نام کے رکھنے پر جرأت نہیں کرنی چاہیے، اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے سلام علی الیاسین، اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارا کلام اس اسم میں ہ جو حروف تہجی پر مشتمل ہے اور یاسین ان حروف سے مرکب ہے، امام مالک نے یٰسین نام رکھنے سے منع کیا ہے یاسین نام رکھنے سے منع نہیں کیا، پس کوئی اشکال نہ رہا۔

يس کو حدیث میں قرآن کا قلب فرمایا ہے اور قلب پورے جسم کا امیر ہوتا ہے اسی طرح یٰسین بھی تمام سورتو کی امیر ہے اور ابومحمد مکی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے رب کے نزدیک میرے دس اسماء ہیں اور ان اسماء میں طہ اور یٰسین بھی آپ کے اسم ہیں۔

علامہ الماوردی نے حضرت علی (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں میرے ساتھ اسماء رکھے ہیں (١) محمد (٢) احمد (٣) طہ (٤) یس (٥) المزمل (٦) المدثر (٧) عبداللہ، نیز علامہ الماوردی نے یہ بھی لکھا ہے کہ یٰسین کا معنی ہے یا محمد اور اس قول کو محمد بن الحنفیہ سے روایت کیا ہے۔ (النکت والعین ج ٥ ص ٥، دارالکتب العلمیہ بیروت)

امام جعفر الصادق سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یٰسین سے یاسید کا ارادہ فرمایا ہے اور اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب ہے اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ اس کا معنی ہے یا انسان اور اس سے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ فرمایا ہے، الزجاج نے کہا اس کا معنی یا محمد ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٥ ص 6-7 مطبوعہ دارالفکر بیروت 1415 ھ)

﴿اِنَّا جَعَلْنَا فِيْٓ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا فَهِىَ اِلَى الْاَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ﴾

اس کے بعد منکرین کے ایک عذاب کا تذکرہ فرمایا (اِنَّا جَعَلْنَا فِیْٓ اَعْنَاقِھِمْ ) (الآیة) کہ ہم ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیں گے یہ طوق ٹھوڑیوں تک ہیں (اور ہاتھ بھی اوپر ہی ان طوقوں میں بندھے ہوئے ہوں گے ) لہٰذا ان لوگوں کی کیفیت ایسی ہوجائے گی کہ ان کے سر اوپر ہی کو اٹھے ہوئے رہ جائیں گے نیچے کو نہ جھکا سکیں گے۔

علامہ قرطبی رحمہ الله نے  اپنى تفسير(جلد ١٥: ص ٩)ميں بعض حضرات سے آیت کا یہ مفہوم نقل کیا ہے اور بتایا ہے کہ اہل کفر کے ساتھ یہ معاملہ دوزخ میں ہوگا اور سورة المومن کی آیت کریمہ (اِذِ الْاَغْلٰلُ فِیْ اَعْنَاقِھِمْ وَالسَّلٰسِلُ ) سے استدلال کیا ہے، بظاہر یہ رائے ٹھیک ہے اس میں مجاز اور تمثیل کا ارتکاب نہیں کرنا پڑتا۔

آیات بالا کا شان نزول

اور صاحب روح المعانی نے بحوالہ دلائل النبوۃ حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن (مسجد میں) بلند آواز سے قرآن مجید پڑھ رہے تھے قریش مکہ کو اس سے تکلیف ہوئی وہ لوگ جمع ہو کر آپ کے قریب آئے تاکہ آپ کو پکڑ لیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے خود ان کی پکڑ ہوگئی، ان لوگوں کے ہاتھ گردنوں تک پہنچ کر جام ہوگئے اور نظر آنا بھی بند ہوگیا۔ جب یہ حال ہوا تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ہم آپ کو اللہ تعالیٰ اور رشتہ داری کے واسطہ دیتے ہیں دعا کیجیے کہ ہماری مصیبت دور ہوجائے، آپ نے ان کے لیے دعا کردی جس سے ان کی وہ حالت ختم ہوگئی اور (یٰسٓ وَ الْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ ) سے لے کر (اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ) تک آیات نازل ہوئیں، لیکن ان میں سے ایک شخص بھی ایمان نہ لایا۔

اس قصہ میں یہ تصریح ہے کہ جب ان لوگوں نے آپ کو پکڑنے کا ارادہ کیا تو ان کی یہ حالت ہوئی کہ ان کے ہاتھ گردنوں سے چپک کر رہ گئے۔ گر دنیا میں بھی ایسا واقعہ ہوا ہو جو حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے اور آخرت میں اس سے بڑھ کر ہوجائے تو اس میں کوئی منافاۃ نہیں ہے۔

صاحب روح المعانی نے ایک قصہ بھی لکھا ہے کہ ایک دن ابو جہل نے پتھر اٹھایا تاکہ آپ پر حملہ کرے، آپ نماز پڑھ رہے تھے، ابو جہل کا ہاتھ گردن تک اٹھا اور وہیں جاکر چپک گیا، وہ اپنے ساتھیوں کے پاس آیا، کیا دیکھتے ہیں کہ پتھر اس کے ہاتھ میں اور اس کا

ہاتھ گردن سے چپکا ہوا ہے، ان لوگوں نے بڑی محنت اور مشقت سے اس کا ہاتھ گردن سے چھڑایا، پھر اس پتھر کو بنی مخزوم کے آدمی نے لے لیا جب وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ کی روشنی ختم کردی اور وہ واپس لوٹا تو اس کے ساتھی اسے نظر نہ آ رہے تھے انھوں نے آواز دے کر اسے اپنے پاس بلالیا، اب تیسرا شخص اٹھا اس نے پتھر لیا اور یوں کہتا ہوا چلا کہ میں ان کا سر پھوڑوں گا، تھوڑا سا چلا کہ فوراً ایڑھیوں کے بل پیچھے لوٹا یہاں تک کہ گدی کے بل گرپڑا کسی نے کہا ارے تجھے کیا ہوا ؟ کہنے لگا کہ بہت بڑا حادثہ ہوگیا وہ یہ کہ میں جب ان کے قریب گیا تو دیکھتا ہوں کہ وہاں ایک بہت بڑا اونٹ ہے، ایسا اونٹ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا، یہ اونٹ میرے اور ان کے درمیان حائل ہوگیا، پھر بتوں کی قسم کھا کر کہا اگر میں ان کے قریب چلا جاتا تو یہ اونٹ مجھے کھائے بغیر نہ چھوڑتا۔ یہ قصہ لکھ کر صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ (اگر اس قصے کو سبب نزول مانا جائے تو) طوق ڈالنا اور آگے پیچھے آڑ بن جانا یہ سب استعارہ ہوگا یعنی وہ تینوں حملہ کرنے والے پیچھے ہٹ گئے اور حملہ نہ کرسکے، ایسے بےبس ہوگئے جیسے کسی کا ہاتھ گردن سے بندھ جائے اور آنکھوں کی روشنی چلی جائے۔  (الجامع لاحکام القرآن ج١٥ص ٩،  زاد المسیر ج ٧ ص ٦ معالم التنزیل ج ٤ ص ٦، روح المعانی جز ٢٢ ص ٣٢٣)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابو جہل نے کہا اگر میں نے (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو میں ان کی گردن کو پیروں سے روندوں گا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر وہ ایسا کرتا تو فرشتے اس کو ظاہراً پکڑ لیتے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :4958، سنن الترمذی رقم الحدیث :3348 مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٤ ص 298 مسند احمد ج ١ ص 248، مسند البزار رقم الحدیث :2189 السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث :11061، مسند ابویعلی رقم الحدیث :2604 دلائل النبوۃ لابی نعیم ج ١ ص 206 رقم الحدیث :157)

﴿اِنَّا جَعَلْنَا فِيْٓ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا فَهِىَ اِلَى الْاَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ﴾

مقمحون کا معنی

مقمحون کا مادہ قمح ہے اس کا معنی گردن پھنسنے کی وجہ سے سرکا اوپر اٹھا ہوا ہونا، اقماح کا معنی ہے سر اٹھا کر آنکھیں بند کرلینا، مقمح اس شخص کو کہتے ہیں جو اسر اٹھا لے اور آنکھیں بند کرلے، بعیر قامح اس اونٹ کو کہتے ہیں جو پانی پینے کے بعد آنکھیں بند کر کے سر اٹھائے کھڑا ہوتا ہے۔

ازہری نے کہا دوزخیوں کی گردنوں میں طوق پھنسے ہوئے ہوں گے جس کی وجہ سے ٹھوڑیاں اوپر کو اٹھ جائیں گی، پھر لامحالہ سر بھی اوپر کو اٹھ جائیں گے علامہ راغب اصفہانی نے کہا ہے کہ اس آیت میں تمثیل اور تشبیہ ہے، حقیقت مراد نہیں ہے، کفار سرکشی کرتے تھے، حق کو قبول کرنے سے تکبر کرتے تھے، راہ خدا میں خرچ کرتے وقت گردن اکڑاتے تھے، اس لیے ان کی شکل اس شخص کی طرح ہوگئی جس کی ٹھوڑی اوپر کو اٹھی ہوئی ہو۔ خلیل نے کہا اگر گندم پکنے کے بعد سے لے کر گودام میں رکھنے کے وقت تک اس گندم کو خوشوں میں ہی رکھا جائے تو اس گندم کو قمح اور اس سے بنائے ہوئے ستوکو قمیح کہتے ہیں۔ (المفردات ج ٢ ص 532-533 لسان العرب ج ٢ ص 565-567 ملحضا و موضحا)

﴿وَجَعَلْنَا مِنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ سَدًّا وَّمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَاَغْشَيْنٰهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ﴾

امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں حضرت ابن عباس (رض) سے یٰسین : ٩ کی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ ہم نے کفار قریش کی آنکھوں پر ایک پردہ ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے وہ ایذاء پہنچانے کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں دیکھ پاتے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ بنو مخزوم کے کچھ لوگوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کی سازش کی، جن میں ابوجہل اور ولید بن مغیرہ بھی تھے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پڑھ رہے تھے اور وہ آپ کی قرأت سن رہے تھے، انھوں نے آپ کو قتل کرنے کے لیے ولید بن مغیرہ کو بھجیا وہ اس جگہ جہاں آپ نماز پڑھ رہے تھے، وہ آپ کی قرأت سن رہا تھا لیکن اس کو آپ نظر نہیں آئے اس نے واپس جا کر ان کو بتایا، وہ سب اس جگہ پہنچے جہاں آپ نماز پڑھ رہے تھے، انھوں نے اپنے سامنے دیکھا اور اپنے پیچھے دیکھا لیکن آپ ان کو سامنے نظر آئے نہ پیچھے نظر آئے اور یہ اس آیت کا معنی ہے : ہم نے ایک دیوار ان کے آگے کھڑی کردی اور ایک دیوار ان کی پیچھے کھڑی کردی، سو ہم نے ان کو ڈھانپ دیا پس وہ کچھ نہیں دیکھ سکتے

امام ابن اسحاق، امام ابن المنذر، امام ابن ابی حاتم اور امام ابو نعیم نے دلائل النبوۃ میں محمد بن کعب القرظی سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کے دروازے پر قریش جمع ہوگئے اور ان میں ابوجہل بھی تھا، انھوں نے کہا (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کہتے ہیں کہ اگر تم نے ان کا کہنا مان لیا تو عرب اور عجم کے سردار بن جاؤ گے اور یہ کہ تم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے پھر تم کو دوزخ کی آگ میں جلایا جائے گا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاک کی ایک مٹھی لے کر نکلے، آپ نے فرمایا ہاں میں کہتا ہوں اور تم بھی ان دوزخیوں میں سے ایک ہو اور اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا سو وہ آپ کو دیکھ نہ سکے، پھر آپ نے وہ خاک کی مٹھی لے کر ان کے سروں پر ڈال دی اور اس وقت آپنے یٰسین والقرآن الحکیم سے لے کر فاغشینھم فھم لایبصرن تک نو آیتیں پڑھیں، حتیٰ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان آیات کے پڑھنے سے فارغ ہوگئے اور ہر شخص کے سر میں وہ مٹی پہنچ گئی، ان میں سے جو شخص بھی اپنے سر پر ہاتھ رکھتا اس کے سر میں وہ مٹی ہوتی، بالآخر انھوں نے کہا وہ ہم سے سچ کہتے تھے۔

امام ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کے دروازے پر قریش جمع ہوگئے وہ اس انتظار میں تھے کہ آپ گھر سے ابہر نکلیں تو وہ آپ کو ایذاء پہنچائیں، آپ پر یہ امر گراں گزرا تو حضرت جبرائیل سورة یٰسین لے کر آپ کے پاس آئے اور آپ سے کہا کہ آپ ان کے سامنے سے نکل جائیں، آپ نے ایک ہاتھ میں خاک کی مٹھی لی اور سورة یٰسین کی تلاوت کرتے ہوئے ان کے سامنے سے نکلے اور ان کے سروں کے اوپر خاک ڈالتے ہوئے گزرے، آپ ان کے سامنے سے گزر گئے اور وہ آپ کو نہ دیکھ سکے، ان میں سے جو شخص بھی اپنے سر پر ہاتھ لگاتا تو اس کے سر میں مٹی ہوتی، پھر ان کے پاس باہر سے کوئی شخص آیا اور ان سے پوچھا تم یہاں کیوں بیٹھے ہو ؟ انھوں نے کہا ہم (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتظار کر رہے ہیں، اس نے کہا میں نے تو ان کو مسجد میں داخل ہتے ہوئے دیکھا ہے، پھر انھوں نے کہا چلو اٹھو وہ تم پر جادو کر کے نکل گئے۔

﴿وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْيَةِ ۘاِذْ جَاۗءَهَا الْمُرْسَلُوْنَ﴾

جمہور مفسرین فرماتے ہیں اس ”قریة“ سے مراد انطاکیہ کی بستی ہے۔ (قرطبی : ص : ١٧: ج : ١٥)

 حضرت تھانوی (رح) بیان القرآن میں لکھتے ہیں کہ آیات قرآن کا مضمون سمجھنے کے لیے اس بستی کی تعیین ضروری نہیں اور قرآن کریم نے اس کو مبہم رکھا ہے۔ تو ضرورت ہی کیا ہے کہ اس کی تعیین پر اتنا زور لگایا جائے۔ سلف صالحین کا یہ ارشاد ہے کہ ” ابھموا ما ابھمہ اللہ “ یعنی جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے تم بھی اسے مبہم رہنے دو اس کا مقتضی بھی یہی ہے۔ ابن اسحاق نے حضرت ابن عباس (رض) کعب احبار اور وہب بن منبہ (رح) کی روایت نقل کی ہے کہ یہ تینوں بزرگ جن کا اس قریہ میں بھیجنے کا ذکر ہے اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے۔ ان کے نام اس روایت میں صادق، صدوق اور شلوم مذکور ہیں اور ایک روایت میں پہلے کا شمون دوسرے کا نام یوحنا اور تیسرے کا نام بولص آیا ہے۔ (ابن کثیر : ص : ٩٣٦: ج : ٦)

قرآن کریم نے نہ اس بستی کا نام ذکر فرمایا ہے، اور نہ ان رسولوں کا جو اس بستی میں بھیجے گئے تھے، بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ یہ بستی شام کا مشہور شہر انطاکیہ تھی ؛ لیکن نہ تو یہ روایتیں مضبوط ہیں اور نہ تاریخی قرائن سے اس کی تصدیق ہوتی ہے، دوسری طرف رسول کا لفظ عربی زبان میں ہراس شخص کے لیے بولا جاتا ہے جو کسی کا پیغام لے کر دوسرے کے پاس جائے ؛ لیکن قرآن کریم میں زیادہ تر یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کے لیے استعمال ہوا ہے، اس لیے ظاہر یہی ہے کہ یہ حضرات انبیاء کرام تھے، اور بعض روایات میں ان کے نام بھی صادق، صدوق اور شلوم یا شمعون بتائے گئے ہیں ؛ لیکن یہ روایات بھی زیادہ مضبوط نہیں ہیں، اور بعض مفسرین کا خیال یہ ہے کہ یہ حضرات انبیاء نہیں تھے ؛ بلکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے شاگرد تھے جنہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس بستی میں تبلیغ کے لیے بھیجا تھا، اور مرسلون کا لفظ اپنے لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے ؛ لیکن چونکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے انھیں بھیجنے کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے، اس لیے ظاہر یہی ہے کہ یہ انبیاء کرام تھے، شروع میں دو نبی بھیجے گئے تھے، پھر ایک تیسرے پیغمبر بھی بھیجے گئے، بہرحال ! عبرت کا جو سبق قرآن کریم دینا چاہتا ہے وہ نہ بستی کے تعین پر موقوف ہے اور نہ پیغام لے جانے والوں کی شناخت پر، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے نام نہیں بتائے، لہٰذا ہمیں بھی اس کی کھوج میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔

 اور حضرت قتادہ (رح) سے یہ منقول ہے کہ یہاں لفظ ”مرسلون“ اپنے اصطلاحی معنی میں نہیں بلکہ قاصد کے معنی میں ہے۔ اور یہ تین بزرگ جو اس قریہ کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے۔ خود پیغمبر نہیں تھے۔ بلکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریین میں سے تھے۔ انہی کے حکم سے یہ اس قریہ کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے۔ (ابن کثیر : ص : ٩٣٦: ج : ٦)

 اور چونکہ ان کے بھیجنے والے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے رسول تھے ان کا بھیجنا بھی بالواسطہ اللہ تعالیٰ ہی کا بھیجنا تھا اس لیے آیت میں ان کے ارسال کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ مفسرین میں سے ابن کثیر (رح) نے پہلے قول کو اور قرطبی وغیرہ نے دوسرے کو اختیار کیا ہے اور ظاہر قرآن سے بھی یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ حضرات اللہ کے نبی اور پیغمبر تھے۔ واللہ اعلم۔

﴿وَجَاۗءَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ رَجُلٌ يَّسْعٰى قَالَ يٰقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِيْنَ﴾

صاحب يس (حبیب النجار) کا تذکرہ

امام ابن اسحاق نے حضرت ابن عباس (رض) کعب احبار اور وہب بن منبہ سے روایت کیا ہے کہ جب انطاكيہ بستی کے لوگوں نے ان رسولوں کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو رسولوں کی مدد کرنے کے لیے اس شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا، مفسرین نے کہا ہے کہ اس شخص کا نام حبیب تھا وہ ریشم کا کام کرتا تھا اور اس کو جذام کی بیماری تھی، وہ شخص بہت نیک خصلت تھا اور بہت صدقہ اور خیرات کرتا تھا وہ اپنی کمائی میں سے نصف اللہ کی راہ میں خرچ کردیتا تھا، امام ابن ابی اسحاق نے ایک اور سند کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ صاحب یٰسین کا نام حبیب تھا اور اس کو جذام کی بیماری تھی، ثوری نے ابومجلز سے روایت کیا ہے کہ صاحب یٰسین کا نام حبیب بن مری تھا، اور عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ صاحب یٰسین کا نام حبیب نجار تھا اس کو اس کی قوم نے قتل کردیا تھا، السدی نے کہا وہ دھوبی تھے، عمر بن الحکم نے کہا وہ موچی تھے، قتادہ نے کہا وہ ایک غار میں عبادت کرتے تھے۔

انہوں نے اپنی قوم کو ان رسولوں کی اتباع کرنے كو كہا، اور يہ بھى كہا كہ:  جو تم کو محض اخلاص سے اللہ کی عبادت کی ترغیب دے رہے ہیں اور اس پر کوئی معاوضہ طلب نہیں کر رہے ان کی اتباع کرو۔ (تفسیر ابن کثیر ج ص 621-622 ملحضاً دارالفکر بیروت، 1419 ھ)

علامہ سدی محمود آلوسی متوفی 1270 ھ لکھتے ہیں:

حضرت ابن عباس (رض) ابومجزل، کعب احبار، مجاہد اور مقاتل سے مروی ہے اس شخص کا نام حبیب بن اسرائیل تھا، ایک قول یہ ہے کہ اس کا نام حبیب بن مری تھا، مشہور یہ ہے کہ یہ نجار (بڑھئی) تھا، ایک قول یہ ہے کہ یہ کسان تھا، ایک قول ہے کہ یہ دھوبى تھا، ایک قول یہ ہے کہ یہ موچی تھا ایک قول یہ ہے کہ یہ بت تراش تھا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ تمام پیشوں اور تمام صفات کا جامع ہو، بعض نے ذکر کیا ہے کہ وہ ایک غار میں رہتا تھا اور مومن تھا اور وہاں اللہ عزوجل کی عبادت کرتا تھا، جب اس نے یہ سنا کہ اس کی قوم رسولوں کی تکذیب کر رہی ہے تو یہ اپنی قوم کو نصیحت کرنے کی حرص میں دوڑتا ہوا آیا اور ایک قول یہ ہے کہ اس نے سنا کہ اس کی قوم رسولوں کو قتل کرنے کا عزم کرچکی ہے تو یہ ان رسولوں کو بچانے کے لیے دوڑتا ہوا آیا اور اس کا کسی غار میں رہنا شہر کے آخری کنارے سے آنے کے منافی نہیں ہے اس لیے کہ ہوسکتا ہے کہ وہ غار بھی شہر کے آخری کونے میں ہو، البتہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شخص مومن تھا اور یہ اس قول کے منافی ہے کہ وہ بت تراشتا تھا اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ وہ بت اور مجسمے تراش کر بناتا تھا اور اس لیے نہیں بناتا تھا کہ ان کی عبادت کی جائے، اور یہ ان کی شریعت میں جائز اور مباح تھا، اور اس کے مومن ہونے کا قول ابن ابی لیلیٰ کے اس قول کی تائید میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث پیش کی ہے۔ (البحر المحیط ج ٩ ص ٥٥ )

﴿قِيْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۭ قَالَ يٰلَيْتَ قَوْمِيْ يَعْلَمُوْنَ﴾

قوم کا حبیب نجار کو قتل کردینا اور اس کا اپنی قوم کی بہتری چاہنا

امام ابو اسحاق احمد بن محمد بن ابراہیم الثعلبی النیشا پوری المتوفی 427 ھ لکھتے ہیں :

جب اس نے اپنی قوم سے کہا میں تمہارے رب پر ایمان لے آیا تو وہ اس پر ٹوٹ پڑے اور اس کو زد و کوب کرنا شروع کردیا، حضرت ابن مسعود نے فرمایا کہ اس کی قوم نے اس کو اس قدر مارا کہ اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں۔ سدی نے کہا وہ اس کو سنگسار کر رہے تھے اور وہ اس حال میں بھی ان کے لیے دعا کر رہا تھا کہ اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے دے، تب اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جنت کو واجب کردیا اور فرمایا : اس سے کہا گیا تم جنت میں داخل ہو جاؤ، پھر وہ جنت میں داخل کردیا گیا اور اس نے وہاں اپنی عزت اور کرامت دیکھی تو بےساختہ کہا کاش میری قوم جان لیتی کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے عزت دار لوگوں میں سے بنادیا۔

ایک قول یہ ہے کہ انھوں نے اس کو قتل کر کے رس نامی (رپانے کنویں) میں ڈال دیا اور ان لوگوں کو اصحاب الرس بھی کہا جاتا ہے۔

اس روایت میں ہے کہ انھوں نے تینوں رسولوں کو بھی قتل کردیا تھا، ایک قول یہ ہے کہ انھوں نے ایک گڑھا کھودا اور اس کو گڑھے میں ڈال دیا اور اس کے اوپر گڑھے کا ملبہ ڈال دیا حتیٰ کہ وہ ملے تلے دب کر مرگیا۔ ایک قول یہ ہے کہ انھوں نے اس کو آری سے چیر ڈالا اور اس کی روح اس کے جسم سے نکلتے ہی جنت میں داخل ہوگئی۔

اس نے جنت میں داخل ہونے کے بعد کہا کاش میری قوم جان لیتی کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے عزت دار لوگوں میں سے بنادیا۔

اس نے جو یہ تمنا کی تھی اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کی قوم کو معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر کتنا انعام اور اکرام کیا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس نے یہ تمنا اس لیے کی کہ اس کی قوم بھی اس کی طرح ایمان لے آئے اور اس کو بھی اللہ تعالیٰ اسی طرح انعام اور اکرام سے نوازے، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اس نے زندگی میں بھی اپنی قوم کی خیر خواہی کی اور مرنے کے بعد بھی اپنی قوم کی خیر خواہی کی، امام قشیری نے اس کو مرفوعاً بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : اس نے اپنی زندگی میں بھی اپنی قوم کی خیر خواہی کی اور مرنے کے بعد بھی اپنی قوم کی خیر خواہی کی۔

﴿وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي قَوْمِهٖ مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ جُنْدٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَمَا كُنَّا مُنْزِلِيْنَ، اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمْ خٰمِدُوْنَ﴾

صاحب تفسیر روح المعانی فرماتے ہیں:  ظاہر یہ ہے کہ اس لشکر سے مراد فرشتوں کا لشکر ہے یعنی ہم نے ان کے ہلاک کرنے کے لیے آسمان سے فرشتے نہیں اتارتے اور نہ ہی ہم فرشتے اتارنے والے تھے کہ ہماری حکمت میں ان کی ہلاکت کے لیے فرشتوں کا اتارنا صحیح نہیں ہے اس لیے کہ ہم نے ہر چیز کے لیے سبب مقرر کیا ہے جیسا کہ بعض قوموں کو ہم نے پتھر برسا کر ہلاک کیا بعض کو چیخ سے بعض کو زمین میں دھنسا کر بعض کو پانی میں غرق کرکے ہلاک کیا فرشتے نہیں اتارے، لیکن اب یہ تیری قوم میں تیری مدد کے لیے فرشتوں کا اترنا تیری خصوصیات میں سے ہے۔ اور ہم نے ان کے لیے ایک فرشتہ کی چیخ کو کافی کردیا فرشتے نے چیخ ماری اور یہ سب ہلاک ہوگئے۔ یعنی اس آدمی سے خطاب کرکے یہ کہا گیا۔ (روح المعانى: ج ٣٣: ص ٢)

مفسرین نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی طرف بھیجا، انھوں نے ان کی بستی کے دروازے کی چوکھٹ کو پکڑ کر بہت زور سے چیخ ماری جس سے ان کے جسموں میں زندگی کی کوئی حرارت باقی نہ رہی اور چشم زدن میں وہ تمام لوگ بجھ کر رہ گئے۔ (معالم التنزیل ج ٤ ص 12 تفسیر ابن کثیر ج ٣ ص 624)

ان سے حواس اور حرکات کے آثار کا ظہور ختم ہوگیا، ان کے مردہ اجسام کو بجھی ہوئی آگ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اس میں یہ اشارہ ہے کہ جو شخص زندہ ہے وہ اپنے حواس کے آثار اور حرکات ارادیہ کے ظہور کی وجہ سے بھڑکتی ہوئی روشن آگ کی مانند ہے اور جو شخص مردہ ہے وہ راکھ کی مثل ہے۔

بعض تفاسیر میں مذکور ہے کہ رسولوں اور حبیب نجار کو قتل کرنے کی تین دن بعد حضرت جبرائیل نے ان کی بستی میں آ کر چیخ ماری تھی، اور بعض میں یہ مذکور ہے کہ وہ رسولوں اور حبیب نجار کو قتل کرنے کے بعد خوشی خوشی اپنے گھروں کی طرف جا رہے تھے کہ اچانک ایک چیخ کی آواز آئی اور وہ ہیں ڈھیر ہو کر رہ گئے۔

﴿وَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّهَا ۭذٰلِكَ تَــقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِــيْمِ﴾

یہ آیت منجملہ ان آیات میں سے ہے جن سے قرآن مجید کا منجانب اللہ ہونا ثابت ہے۔ پندرہویں صدی میں مشہور منجم نکولس کا پر نیکس ( Nicholas Copernicus 1473-1543 AD) نے یہ اعلان کر کے کہ سورج ساکن ہے اور زمین اس کے گرد گھوم رہی ہے دنیائے علم میں ایک زلزلہ سا ڈال دیا تھا۔ اس کی تائید جرمنی کے مشہور ہیئت دان کیپلر (Kepler 1571-1630 AD) نے بھی کی تو دنیا نے کا پر نیکس کے ” انکشاف ” کو ایک حقیقت سمجھ لیا۔ اور کیونکہ اس آیت کی رو سے سورج متحرک ہے اس لیے دنیائے اسلام میں اضطراب کی ایک لہر دوڑ گئی کیونکہ اس وقت مسلمانوں کے پاس نہ علم تھا نہ رصدگاہیں اور نہ فلک بین دوربینیں تھیں، اس لیے وہ اس ” انکشاف ” کی تردید نہ کرسکے۔ آخر قرآن کی حفاظت کرنے والے رب العزت نے قرآن کی تائید کا انتظام خود ہی کیا اور یورپ میں ایسے منجم پیدا کر دئیے جنہوں نے سالہا سال کے مشاہدے اور مطالعے کے بعد پورے وثوق سے اعلان کیا کہ سورج کسی نامعلوم منزل کی طرف جا رہا ہے ان میں سرفہرست سر ولیم ہر شل ( 1738-1822 AD Herschel) تھا۔ اس کا قول ہے : The Sun is travelling through space. (سورج خلا میں سفر کر رہا ہے) ۔ سورج کی منزل کون سی ہے اس کی وضاحت نہ قرآن نے کی ہے نہ ہر شل نے۔ لیکن قرآن نے چودہ سو سال پہلے جو دعویٰ کیا تھا وہ دانایان مغرب کو آخرکار تسلیم کرنا پڑا۔

بعد کے مشاہدات سے پتہ چلا کہ نہ صرف سورج، بلکہ وہ تمام تارے جن کو ثوابت (Fixed Stars) کہا جاتا ہے، ایک رخ پر چلے جا رہے ہیں۔ ثوابت کی رفتار کا اندازہ 10 سے لے کر 100 میل فی سکنڈ تک کیا گیا ہے۔ اور سورج کے متعلق موجودہ زمانہ کے ماہرین فلکیات کہتے ہیں کہ وہ اپنے پورے نظام شمسی کو لیے ہوئے 20 کلومیٹر (تقریباً 12 میل) فی سکنڈ کی رفتار سے حرکت کر رہا ہے۔ (ملاحظہ ہو انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا، لفظ ” اسٹار “۔ اور لفظ ” سن ” ) ۔

غور کرو کہ سورج کتنا بڑا سیارہ ہے ؟ اتنا بڑا کہ تمہاری اتنی بڑی زمین کو اس نے ڈھانکا ہوا ہے گویا اس پوری زمین سے کئی گنا بڑا ہے اور پھر دیکھو کہ یہ کس طرح اپنے مستقر پر محو حرکت کردیا گیا ہے اور اس کی مجال ہی نہیں کہ وہ اپنی اس گردش میں ذرا بھر کمی بیشی کرے اس بوڑھی دنیا کو کروڑوں سال گرزگئے کہ یہ اسی طرح چل رہی ہے اور چلتی ہی جا رہی ہے اللہ رب ذوالجلال والاکرام نے جو مدار اس سورج کے لیے مقرر کردیا ہے جس کے تحت ہم اس کو طلوع اور غروب کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں اس لیے کہ ہماری نظریں اس طرح اس کا مشاہدہ کرتی ہیں لہٰذا ہم اس مشاہدہ کی بنا پر طلوع و غروب کے الفاظ استعمال میں لاتے ہیں اگرچہ سورج ایک ہی جگہ پر رہ کر لٹو کی طرح حرکت کرتا چلا جا رہا ہے ذرا غور کرو تو سمجھ جاؤ گے کہ لاٹو متحرک بھی ہے اور ایک جگہ قائم بھی ہے یہی حال سورج کا ہے کہ وہ متحرک ہونے کے باوجود ایک جگہ قائم بھی ہے ، سورج کی یہ گردش اسی طرح کروڑوں سال سے جاری ہے اور ابھی نہ معلوم کتنی مدت جاری رہے گی ۔ جب سے جاری ہوئی جو رفتار اس کے لیے مقرر کردی گئی اس سے ایک سینکڈ بھی وہ کمی بیشی نہیں کر رہی اور نہ ہی اس کے کمی وبیشی کرنے کا کوئی امکان ہے کیونکہ اس ناظم اعلی نے یہ سارا نظام ان سیاروں کا آپس میں اس طرح باندھ دیا ہے کہ برابر اپنے اپنے انداز کے مطابق اپنی اپنی جگہ قائم ہیں اور کسی ایک جگہ ایک سیکنڈ کی کمی بیشی ہو تو یہ سارا نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے ، سورج ایک جگہ پر قائم ہے کا نظریہ اسی طرح صحیح ہے جس طرح لٹو گھومنے کے باوجود ایک جگہ قائم ہے اور تیزی سے گھومنے والی چیز جب رکتی ہے تو وہ پیچھے کو گھومتی ہے یہی سورج کی کا مغرب سے طلوع ہونا ہے جس کا ذکر صحیح احادیث میں ہے اور علامات قیامت میں سے آخری علامت ہے ۔ فرمایا یہ نظام للاوقات اس غالب آنے والے ‘ جاننے والے کا مقرر کیا ہوا ہے اس لیے جب تک یہ قائم ہے نہ تو اس میں ردوبدل ہے اور نہ ہی اس نظام میں کسی طرح کی کمی بیشی ممکن ہے ۔

﴿وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِيْمِ﴾

سورج کی طرح چاند ہمیشہ ایک طرح نہیں رہتا بلکہ روزانہ گھٹتا بڑھتا۔ اس کی اٹھائیس منزلیں اللہ نے مقرر کردی ہیں۔ ان کو ایک معین نظام کے ساتھ درجہ بدرجہ طے کرتا ہے۔ پہلی آیت میں رات دن کا بیان تھا، پھر سورج کا ذکر کیا جس سے سالوں اور فصلوں کی تشکیل ہوتی ہے۔ اب چاند کا تذکرہ کرتے ہیں جس کی رفتار سے قمری مہینوں کا وجود وابستہ ہے۔ چاند سورج مہینہ کے آخر میں ملتے ہیں تو چاند چھپ جاتا ہے جب آگے بڑھتا ہے تو نظر آتا ہے۔ ایک دن وہ ہلال بن کر طلوع ہوتا ہے۔ پھر روز بروز بڑھتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ چودھویں رات کو بدر کامل بن جاتا ہے۔ اس کے بعد روز گھٹتا چلا جاتا ہے۔ حتی کہ آخر کار پھر اپنی ابتدائی ہلالی شکل پر واپس پہنچ جاتا ہے۔ یہ چکر لاکھوں برس سے پوری باقاعدگی کے ساتھ چل رہا ہے اور چاند کی ان مقررہ منزلوں میں بھی فرق نہیں آتا۔ اسی وجہ سے انسان حساب لگا کر ہمیشہ یہ معلوم کرسکتا ہے کہ کس روز چاند کس منزل میں ہوگا۔ اگر اس کی حرکت کسی ضابطہ کی پابند نہ ہوتی تو یہ حساب لگانا ممکن نہ ہوتا۔

﴿لَا الشَّمْسُ يَنْۢبَغِيْ لَهَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۭ وَكُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ﴾

فلک کا لفظ عربی زبان میں سیاروں کے مدار (Orbit) کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کا مفہوم سماء (آسمان) کے مفہوم سے مختلف ہے۔ یہ ارشاد کہ ” سب ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔ ” چار حقیقتوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ ایک یہ کہ نہ صرف سورج اور چاند، بلکہ تمام تارے اور سیارے اور اجرام فلکی متحرک ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان میں سے ہر ایک کا فلک، یعنی ہر ایک کی حرکت کا راستہ یا مدار الگ ہے۔ تیسرے یہ کہ افلاک تاروں کو لیے ہوئے گردش نہیں کر رہے ہیں بلکہ تارے افلاک میں گردش کر رہے ہیں۔ اور چوتھے یہ کہ افلاک میں تاروں کی حرکت اس طرح ہو رہی ہے کہ جیسے کسی سیال چیز میں کوئی شے تیر رہی ہو۔

ان آیات کا اصل مقصد علم ہئیت کے حقائق بیان کرنا نہیں ہے بلکہ انسان کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھے اور عقل سے کام لے تو زمین سے لے کر آسمان تک جدھر بھی وہ نگاہ ڈالے گا اس کے سامنے خدا کی ہستی اور اس کی یکتائی کے بےحد و حساب دلائل آئیں گے اور کہیں کوئی ایک دلیل بھی دہریت اور شرک کے ثبوت میں نہ ملے گی۔ ہماری یہ زمین جس نظام شمسی میں شامل ہے اس کی عظمت کا یہ حال ہے کہ اس کا مرکز، سورج زمین سے 3 لاکھ گنا بڑا ہے، اور اس کے بعید ترین سیارے نیپچون کا فاصلہ سورج سے کم از کم 2 ارب 79 کروڑ 30 لاکھ میل ہے۔ بلکہ اگر پلوٹو کو بعید ترین سیارہ مانا جائے تو وہ سورج سے 4 ارب 60 کروڑ میل دور تک پہنچ جاتا ہے۔ اس عظمت کے باوجود یہ نظام شمسی ایک بہت بڑے کہکشاں کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ جس کہکشاں (Galaxy) میں ہمارا یہ نظام شمسی شامل ہے اس میں تقریباً 3 ہزار ملین (3 ارب) آفتاب پائے جاتے ہیں، اور اس کا قریب ترین آفتاب ہماری زمین سے اس قدر دور ہے کہ اس کی روشنی یہاں تک پہنچنے میں 4 سال صرف ہوتے ہیں۔ پھر یہ کہکشاں بھی پوری کائنات نہیں ہے، بلکہ اب تک کے مشاہدات کی بنا پر اندازہ کیا گیا ہے کہ یہ تقریباً 20 لاکھ لولبی سحابیوں (Spiral nebulae) میں سے ایک ہے، اور ان میں سے قریب ترین سحابیے کا فاصلہ ہم سے اس قدر زیادہ ہے کہ اس کی روشنی 10 لاکھ سال میں ہماری زمین تک پہنچتی ہے۔ رہے بعید ترین اجرام فلکی جو ہمارے موجودہ آلات سے نظر آتے ہیں، ان کی روشنی تو زمین تک پہنچنے میں 10 کروڑ سال لگ جاتے ہیں۔ اس پر بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انسان نے ساری کائنات دیکھ لی ہے۔ یہ خدا کی خدائی کا بہت تھوڑا سا حصہ ہے جو اب تک انسانی مشاہدے میں آیا ہے۔ آگے نہیں کہا جاسکتا کہ مزید ذرائع مشاہدہ فراہم ہونے پر اور کتنی وسعتیں انسان پر منکشف ہوں گی۔

تمام معلومات جو اس وقت تک کائنات کے متعلق بہم پہنچی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ پورا عالم اسی مادے سے بنا ہوا ہے جس سے ہماری یہ چھوٹی سی ارضی دنیا بنی ہے اور اس کے اندر وہی ایک قانون کام کر رہا ہے جو ہماری زمین کی دنیا میں کار فرما ہے، ورنہ یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ ہم اس زمین پر بیٹھے ہوئے اتنی دور دراز دنیاؤں کے مشاہدے کرتے اور ان کے فاصلے ناپتے اور ان کی حرکات کے حساب لگاتے۔ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ یہ ساری کائنات ایک ہی خدا کی تخلیق اور ایک ہی فرمانروا کی سلطنت ہے ؟ پھر جو نظم، جو حکمت، جو صناعی اور جو مناسبت ان لاکھوں کہکشانوں اور ان کے اندر گھومنے والے اربوں تاروں میں پائی جاتی ہے اس کو دیکھ کر کیا کوئی صاحب عقل انسان یہ تصور کرسکتا ہے کہ یہ سب کچھ آپ سے آپ ہوگیا ہے ؟ اس نظام کے پیچھے کوئی حکیم، اس صنعت کے پیچھے کوئی صانع، اور اس مناسبت کے پیچھے کوئی منصوبہ ساز نہیں ہے؟

﴿وَاٰيَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّــتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ، وَخَلَقْنَا لَهُمْ مِّنْ مِّثْلِهٖ مَا يَرْكَبُوْنَ﴾

صفتِ تخلیق اور صفت ابقاء سے استدلال

 اللہ تعالیٰ کی توحید اور انسانی زندگی پر اس کے احسانات اور کائنات کے نظم و نسق اور اس کے سنبھالنے میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے دلائل کے طور پر جو نشانیاں بیان کی جارہی ہیں ان میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی نسل کو حضرت نوح (علیہ السلام) کی بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔ بھری ہوئی کشتی سے مراد یہ ہے کہ قوم نوح پر تکذیب رسل کے نتیجے میں جب عذاب بھیجنے کا فیصلہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ایک بڑی کشتی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بحری جہاز بنانے کا حکم دیا۔ انسان اس سے پہلے کشتی کی صنعت سے بالکل بےخبر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی آبادی خشکی پر دریاؤں اور سمندروں میں گھری ہوئی تھی۔ اس کے پاس دریاؤں اور سمندروں کو پار کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ اور پھر جو عذاب آنے والا تھا وہ چونکہ غیرمعمولی پانی کا سیلاب تھا جس سے خشکی میں رہ کر بچنا ناممکن تھا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) جب کشتی تیار کرچکے تو اچانک طوفان کے آثار پیدا ہوئے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس تنور میں آگ جلتی تھی وہیں سے سب سے پہلے پانی ابلنا شروع ہوا۔ پھر جابجا چشمے ابل پڑے، آسمان نے اپنے بند کھول دیے، موسلادھار بارش نے دیکھتے ہی دیکھتے جل تھل ایک کردیا، حضرت نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا کہ اپنی کشتی میں ہر طرح کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا سوار کرلو تاکہ طوفان کے بعد کی زندگی میں ان سے کام لیا جاسکے۔ اور جو لوگ ایمان لا چکے ہیں وہ مرد ہوں یا عورت کشتی کے مختلف حصوں میں انھیں بھی سوار کرلو۔ ظاہر ہے کہ زندگی کی مختلف ضرورتوں اور مختلف جانوروں سے لدی ہوئی یہ کشتی اپنے اندر کس قدر وسعت رکھتی تھی کہ صاحب ایمان لوگوں کی نسل ساری کی ساری اس میں سوار کردی گئی۔ اور اسی کشتی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی اور بقاء کا سامان کیا۔ جبکہ باقی تمام نوع انسانی سیلاب کی نذر ہو کر لقمہ اجل ہوگئی۔ اس لیے سب سے پہلے اس وقت کے انسان پر زندگی کی حفاظت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے جو احسان کیا اور کشتی پر سوار کرکے ان کی بقا کا جو انتظام فرمایا اس کا ذکر کیا گیا۔

﴿وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ ۙ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْ يَشَاۗءُ اللّٰهُ اَطْعَمَهٗٓ ڰ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ﴾

جب مومنوں نے کفار سے کہا تھا کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو انھوں نے کہا ہم ان کو کیسے کھلائیں جن کو اگر اللہ کھلانا چاہتا تو کھلا دیتا۔ تم تو صرف کھلی گمراہی میں ہو اور تمہارا (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کرنا بھی صریح گمراہی ہے اور مقاتل وغیرہ نے کہا کہ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کا قول ہے جو انھوں نے کفار سے کہا تھا۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے جو اس نے کفار کے جواب کو رد کرنے کے لیے فرمایا تھا اور ایک قول یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) مسلمان مسکینوں کو کھانا کھلایا کرتے تھے تو ابو جہل نے ان کے پاس جا کر کہا ‘ اے ابوبکر ! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کھانا کھلانے پر قادر ہے ؟ حضرت ابوبکر نے کہا ہاں ! ابوجہل نے کہا ‘ پھر کیا وجہ ہے ان کو کیوں نہیں کھلا رہا ؟ حضرت ابوبکر نے کہا اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کو تنگ دستی میں مبتلا کیا ہے اور ایک قوم کو خوشحالی میں مبتلا کیا ہے اور فقراء کو صبر کرنے کا حکم دیا ہے اور امراء کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ان کو عطا کریں۔ تب ابو جہل نے کہا ‘ اللہ کی قسم ! اے ابوبکر تم صرف صریح گمراہی میں ہو۔ تم یہ سمجھتے ہو کہ اللہ انھیں کھلانے پر قادر ہے اور وہ ان کو نہیں کھلا رہا ‘ پھر تم ان کو کھلا رہے ہو ! تب یہ آیت نازل ہوئی اور مزید یہ آیات نازل فرمائیں۔

﴿وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ ۙ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْ يَشَاۗءُ اللّٰهُ اَطْعَمَهٗٓ ڰ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ﴾

ترمذی شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ منہ میں سینگ کی شکل میں ایک بگل تھامے کھڑا ہے اور منتظر ہے کہ کب اللہ کا حکم ہو تو وہ اس صور میں پھونک مارے اس وقت سارے جاندار ہلاک ہوجائیں گے۔ (ترمذی : ص : ٤٦٧)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ دو بار صور پھونکنے کے درمیان چالیس کا وقعہ ہوگا۔ لوگوں نے کہا ‘ اے ابوہریرہ ! چالیس دن ؟ یا چالیس ماہ ! انھوں نے کہا میں نہیں کہہ سکتا ‘ لوگوں نے کہا ‘ چالیس سال ! انھوں نے کہا میں نہیں کہہ سکتا ‘ پھر اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی نازل فرمائے گا جس سے لوگ اس طرح اگیں گے جس طرح سبزہ اگتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ نے کہا ‘ ایک ہڈی کے سوا انسان کے جسم کی ہر چیز گل جائے گی اور وہ دم کی ہڈی کا سرا ہے اور قیامت کے دن اسی سے انسان کو دوبارہ بنایا جائے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤١٨٤۔ ٥٣٩٤‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٥٩٢‘ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٩٥٤١١)

 علامہ بغوی (رح) لکھتے ہیں کہ جب پہلی دفعہ صور پھونکا جائے گا تو ہر چیز فنا ہوجائے گی۔ پھر چالیس سال کے بعد جب دوسری دفعہ صور پھونکا جائے گا تو لوگ قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اور میدان حشر میں اپنے رب کے حضور پیش ہوجائیں گے۔ اس جگہ دوسرے کا صور کا ذکر ہے۔ (معالم التنزیل: ص: ١٢، ج: ٤)

 فاذاھم من الاجداث: ”أجداث“ یہ جدث کی جمع ہے اس کے معنی ہیں قبر۔ قبروں کا ذکر اس لیے کیا کہ عرب میں جتنے لوگ بھی تھے وہ مردوں کو جلاتے نہیں تھے بلکہ قبر میں دفن کرتے تھے مشرکین ، عیسائی ، یہودی، صابی یہ سب لوگ مردوں کو دفن کرتے تھے۔ مردوں کو جلانے کا سلسلہ ہندوستان میں ہندؤں کا ایجاد کردہ ہے اس لیے یہاں یہ بتایا گیا کہ جن کو تم دفن کرتے ہو وہ قبروں سے نکلیں گے خواہ ان کو جلا دیا جائے یا پرندوں یا درندوں نے ان کو کھالیا ہو۔

منکرین عذاب قبر کا استدلال اور اس کا جواب

 قالوا یویلنا من بعثنا من مرقدنا : مشرکین کا شکوہ برائے پریشانی: یعنی قبروں سے اٹھ کر کہیں گے ہائے ہماری کم بختی ہمیں لیٹنے کی جگہ سے کس نے اٹھا دیا۔ منکرین عذاب قبر نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ ”مرقد“ کا مادہ ہے ” رقدیر قد “ ازباب نصر اس کا معنی سونا۔ ” مرقد “ کے معنی سونے کی جگہ تو سونا تو وہ ہے جس میں تکلیف نہ ہو جس کو تکلیف ہو اس کو نیند کہاں آتی ہے تو وہ کیسے سوئے گا جس کو فرشتے ہتھوڑے ماریں پسلیاں آرپار ہوں تو اس لیے اس لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو سزا نہیں ہوگی ؟ ۔ یہ اہل تفسیر نے اس کا ایک جواب : تو یہ دیا ہے کہ یہاں ” مرقد ” تجرید “ کے لیے ہے وہ یوں کہ ” مرقد “ کے معنی ہیں سونے کے جگہ اب اس سے سونے کا لفظ نکال دو تو مرقد کے معنی ہوں گے جگہ تو ان کا اس آیت سے استدلال باطل ہوا۔

 دوسرا جواب: یہ ہے کہ جس وقت قبروں سے اٹھائے جائیں گے دونوں نفخوں کے درمیان عذاب کو موقوف کردیا جائے گا تو جس وقت اٹھیں گے اس وقت کے لحاظ سے وہ مرقد ہے نہ کہ پہلے کے اعتبار سے مرنے کے بعد بدستور عذاب ہوتا ہے۔ (معالم التنزیل: ص: ١٢، ج: ٤)

 تیسرا جواب: یہ ہے کہ برزخ کی سزا تو معمولی نوعیت کی ہوگی پھر جب دوبارہ اٹھ کر حشر کی تلخی کو دیکھیں گے تو وہ برزخ کی سزا کو بھول جائیں گے گویا انھیں کوئی سزا ملی ہی نہیں تھی لہٰذا وہ کہیں گے کہ ہمیں خواب گاہوں سے کس نے جگا ہم تو آرام سے سوئے ہوئے تھے۔ (معالم التنزیل: ص: ١٢، ج: ٤، مظہری: ص: ٩٠، ج: ٨)

﴿وَمَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْۢبَغِيْ لَهٗ ۭ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّقُرْاٰنٌ مُّبِيْنٌ﴾

یعنی اوپر جو کچھ بیان ہوا وہ حقائق واقعہ ہیں۔ کوئی شاعرانہ تخیلات نہیں۔ اس پیغمبر کو ہم نے قرآن دیا ہے جو نصیحتوں اور روشن تعلیمات سے معمور ہے کوئی شعر و شاعری کا دیوان نہیں دیا جس میں نری طبع آزمائی اور خیالی تک بندیاں ہوں، بلکہ آپ کی طبع مبارک کو فطری طور پر اس فن شاعری سے اتنا بعید رکھا گیا کہ باوجود قریش کے اس اعلیٰ خاندان میں سے ہونے کے جس کی معمولی لونڈیاں بھی اس وقت شعر کہنے کا طبعی سلیقہ رکھتی تھیں۔ آپ نے مدت العمر کوئی شعر نہیں بنایا۔ یوں رجز وغیرہ کے موقع پر کبھی ایک آدھ مرتبہ زبان مبارک سے مقفی عبارت نکل کر بےساختہ شعر کے سانچہ میں ڈھل گئی ہو وہ الگ بات ہے۔ اسے شاعری یا شعر کہنا نہیں کہتے۔ آپ خود تو شعر کیا کہتے کسی دوسرے شاعر کا شعر یا مصرح بھی زندگی بھر میں دو چار مرتبہ سے زائد نہیں پڑھا۔ اور پڑھتے وقت اکثر اس میں ایسا تغیر کردیا کہ شعر شعر نہ رہے۔ محض مطلب شاعر ادا ہوجائے۔ غرض آپ کی طبع شریف کو شاعری سے مناسبت نہیں دی گئی تھی کیونکہ یہ چیز آپ کے منصب جلیل کے لائق نہ تھی۔ آپ حقیقت کے ترجمان تھے اور آپ کی بعثت کا مقصد دنیا کو اعلیٰ حقائق سے بدون ادنیٰ ترین کذب و غلو کے روشناس کرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ کام ایک شاعر کا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ شاعریت کا حسن و کمال کذب و مبالغہ، خیالی بلند پروازی اور فرضی نکتہ آفرینی کے سوا کچھ نہیں۔ شعر میں اگر کوئی جز محمود ہے تو اس کی تاثیر اور دلنشینی ہوسکتی ہے۔ سو یہ چیز قرآن کی نثر میں اس درجہ پر پائی جاتی ہے کہ ساری دنیا کے شاعر مل کر یہ بھی اپنے کلاموں کے مجموعہ میں پیدا نہیں کرسکتے۔ قرآن کریم کے اسلوب بدیع کو دیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ گویا نظم کی اصل روح نکال کر نثر میں ڈال دی گئی ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے فصیح و عاقل دنگ ہو کر قرآن کو شعر یا سحر کہنے لگے تھے۔ حالانکہ شعر و سحر کو قرآن سے کیا نسبت ؟ کیا شاعری اور جادو گری کی بنیاد پر دنیا میں کبھی قومیت و روحانیت کی ایسی عظیم الشان اور لازوال عمارتیں کھڑی ہوئی ہیں جو قرآنی تعلیم کی اساس پر آج تک قائم شدہ دیکھتے ہو۔ یہ کام شاعروں کا نہیں پیغمبروں کا ہے کہ خدا کے حکم سے مردہ قلوب کو ابدی زندگی عطا کرتے ہیں، حق تعالیٰ نے عرب کو یہ کہنے کا موقع نہیں دیا کہ آپ پہلے سے شاعر تھے شاعری سے ترقی کر کے نبی بن بیٹھے۔ (تفسير عثمانى)

﴿اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَيْدِيْنَآ اَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مٰلِكُوْنَ﴾

اس آیت میں چوپائے جانوروں کی تخلیق میں انسانی منافع اور ان میں قدرت کی عجیب و غریب صنعت کاری کا ذکر فرمانے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ایک اور احسان عظیم کو بتلایا گیا ہے کہ یہ چوپائے جانور جن کی تخلیق میں کسی انسان کا کوئی دخل نہیں، خالص دست قدرت کے بنائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کیا کہ انسان کو ان چوپاؤں سے نفع اٹھانے کا موقع ملا اور اجازت دے دی بلکہ اس کو ان کا مالک بنادیا کہ وہ ان میں ہر طرح کے مالکانہ تصرفات کرسکتے ہیں، خود نفع اٹھائیں یا ان کو فروخت کر کے ان کی قیمت سے فائدہ اٹھائیں۔

﴿وَذَلَّــلْنٰهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوْبُهُمْ وَمِنْهَا يَاْكُلُوْنَ﴾

اس آيت میں ایک اور احسان و انعام کی طرف اشارہ فرمایا کہ اکثر جانور اونٹ، گھوڑا، ہاتھی، بیل وغیرہ اگر دیکھو تو طاقت میں انسان سے بہت زیادہ ہیں، انسان ان کے مقابلہ میں کمزور ہے۔ اس کا اثر یہ ہونا چاہیے تھا کہ ان جانوروں پر قابو نہ پاسکتا، مگر حق تعالیٰ نے جیسا ان جانوروں کی تخلیق کا انعام انسان کو بخشا اس طرح یہ بھی فطرت بنادی کہ ان مست جانوروں کو انسان کے سامنے مسخر اور تابع بنادیا۔ ایک لڑکا ایک قوی گھوڑے کے منہ میں لگام ڈال دیتا ہے اور پھر اس کی پشت پر سوار ہو کر جہاں چاہے لیے پھرتا ہے۔ یہ بات بھی انسان کو کوئی اپنا کمال نہیں، صرف حق تعالیٰ کی عطا اور بخشش ہے۔

﴿اَوَلَمْ يَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِيْنٌ﴾

حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں اس سے مراد عبداللہ بن ابی ہے۔ سعید بن جبیر (رح) فرماتے ہیں عاص بن وائل السہمی ہے۔ حسن بصری (رح) فرماتے ہیں ابی بن خلف ہے۔ (قرطبی: ص: ٥٤، ج: ١٥)

 مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے اصل کو یاد نہیں رکھتا کہ وہ ایک ناچیز قطرہ تھا اللہ تعالیٰ نے اس کو کیا بنادیا آج اپنی حد سے تجاوز کر کے اللہ تعالیٰ کے مقابلے کے لیے کھڑا ہوگیا اور خدا تعالیٰ پر کیسے فقرے چسپاں کرتا ہے۔

﴿وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِيَ خَلْقَهٗ ۭ قَالَ مَنْ يُّـحْيِ الْعِظَامَ وَهِىَ رَمِيْمٌ﴾

مذکورہ اشخاص میں سے کوئی ایک شخص تھا جس نے قبرستان میں سے ایک بوسیدہ کھوپڑی کو لے آیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مجلس میں تھے فارغ ہونے کے بعد اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اس کو ہاتھ لگانے سے ریزہ ریزہ ہوگئی اس پر اس نے کہا کہ ”من یحیي العظام وھی رمیم“ تو کہتا ہے کہ مرنے کے بعد زندہ کیا جائے گا ؟

 قل یحییھا الذی انشاھا۔۔ الخ  شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) لکھتے ہیں جس نے پہلی مرتبہ ان ہڈیوں میں جان ڈالی اسے دوسری بار جان ڈالنا کیا مشکل ہے بلکہ پہلے سے زیادہ آسان ہونا چاہیے ”وھو أھون علیه“ اور اس قادر مطلق کے لیے تو سب ہی چیزیں آسان ہیں پہلی مرتبہ ہوں یا دوسری مرتبہ، وہ ہر طرح بنانا جانتا ہے اور بدن کے اجزاء اور ہڈیوں کے ریزے جہاں کہیں بھی منتشر ہوگئے ہوں ان کا ایک ایک ذرہ اس کے علم میں ہے۔

﴿الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا فَاِذَآ اَنْتُمْ مِّنْهُ تُوْقِدُوْنَ﴾

عرب میں دو قسم کے درخت ہوتے تھے ایک کا نام مرخ اور دوسرے کا عفار تھا ان دونوں درختوں کی لکڑیوں کو آپس میں رگڑنے سے بالکل اس طرح آگ نکلتی تھی جس طرح چقماق کے دو پتھروں کے رگڑنے سے آگ نکلتی ہے یا گھوڑے کے سم پتھروں سے ٹکرانے سے چنگاریاں نکلتی ہیں مطلب یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ سبز درختوں سے آگ پیدا کرتا ہے۔ کیا وہ بوسیدہ ہڈیوں میں حیات نہیں پیدا کرسکتا ہے؟


Surah Yaseen PDF With Urdu Translation



Surah Yaseen PDF With Urdu Translation

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply