Surah Al Nasr

Surah Nasr With Urdu Translation, Surah Nasr Urdu Translation

ترتىب: محمد ہاشم قاسمى بستوى

ترجمہ اور تفسىر سورہ نصر

شروع اللہ کے نام کے ساتھ جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ﴿1﴾

جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے۔

 وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا ﴿2﴾

اور تو لوگوں کو دیکھے کہ وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں۔

 فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ﴿3﴾

تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر اور اس سے بخشش مانگ، یقینا وہ ہمیشہ سے بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔

تعارف سوره نصر

 تیرہ سال مکہ مکرمہ میں اور دس سال تک مدینہ منورہ میں صحابہ کرام (رض) نے دین اسلام کی سربلندی اور عظمت کے لیے وہ بےمثال قرابانیاں پیش کی ہیں جن کی مثال پوری تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ ان قربانیوں کا مقصد کسی ملک پر قبضہ یا اقتدار نہ تھا بلکہ وہ اپنے جان و مال سے محض اللہ کو راضی کرنے کے لیے جدوجہد اور کاوشیں کرنا تھا۔ لیکن ایک فطری بات ہے کہ شدید ترین مشکلات اٹھانے کے بعد اگر اس کے بہتر نتیجے کی کوئی خوش خبری سنائی جائے تو انسان کو اس سے بڑی خوش ہوتی ہے ۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں شدید ترین حالات کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمادیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جب اللہ کی طرف سے فتح اور کامیابی آجائے اور آپ یہ دیکھیں کہ لوگ اسلام میں گروہ کے گروہ جماعتیں کی جماعتیں داخل ہو رہی ہیں تو اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے اس کی حمد وثنا کیجئے اور دعائے استغفار کا سہارا لیجئے۔ کیونکہ اللہ اپنے بندوں بہت مہربان ہے۔ سورة النصر جو کہ سب سے آخری سورت ہے اس کے بعد ایک ایک دودو آیتیں تو نازل ہوئی مگر کوئی سورت نازل نہیں ہوئی اسی لیے علماء کرام نے فرمایا ہے کہ مکہ مکرمہ میں سب سے پہلے جو سورت نازل ہوئی وہ سورة فاتحہ ہے اور مدنی دور میں بالکل آخر میں جو سورت نازل ہوئی وہ سورة النصر ہے۔ سورة النصر نازل ہونے کے اسی دن (٨٠) بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب اعلیٰ سے جا ملے۔
بہت سی روایت وہ بھی ہیں جن میں خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے اس سورت کے ذریعہ بتادیا گیا ہے کہ آپ بہت جلد اس دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں چنانچہ سورة النصر کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کثرت سے ۔۔ پڑھا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے میرے رب نے اطلاع دی ہے کہ آپ بہت جلد اپنی امت میں ایک علامت دیکھیں گے۔ جب وہ علامت نظر آجائے تو کثرت سے استغفار کیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے وہ نشانی دیکھ لی ہے اور اس کے بعد آپ نے سورة النصر کی تلاوت فرمائی۔ (مسلم) ۔
یعنی آپ کو بتا دیا گیا تھا کہ وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے جب ساری دنیا پر مسلمانوں کو غلبہ اور اقتدار عطا کردیا جائے گا اور لوگ بڑی تعداد میں دین اسلام قبول کرلیں گے۔ اور اس طرح آپ کو وہ مشن اور مقصد پورا ہوجائے گا جس کے لیے اللہ نے آپ کو بھیجا تھا۔
یوں تو ایمان لانے والے ایمان لا ہی رہے تھے لیکن ہر جگہ پھیلی ہوئی ایک بہت بڑی تعداد تھی جو کافروں کے ظلم و ستم کی وجہ سے اپنے ایمان کا اظہار نہیں کرسکتی تھی۔ جیسے ہی مکہ فتح ہو اور کفر کی کمر توڑ کر رکھ دی گئی تو پھر تمام وہ لوگ جن کے دلوں میں اسلام کی عظمت بیٹھ چکی تھی وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دامن اطاعت و محبت سے وابستہ ہوتے چلے گئے۔
حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ فتح مکہ پر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے رب نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا تھا وہ پورا کردیا اور اس کے بعد آپ نے سورة النصر کی تلاوت فرمائی۔

نزول كا زمانہ

حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا بیان ہے کہ یہ قرآن مجید کی آخری سورت ہے، یعنی اس کے بعد کوئی مکمل سورت حضور ﷺ  پر نازل نہیں ہوئی حوالہ : مسلم، نسائی، طبرانی، ابن ابی شیبہ، ابن مردویہ۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی روایت ہے کہ یہ سورت حجۃ الوداع کے موقع پر ایام تشریق کے وسط میں بمقام منٰی نازل ہوئی اور اس کے بعد حضور ﷺ نے اونٹنی پر سوار ہو کر اپنا مشہور خطبہ ارشاد فرمایا ۔ ( ترمذی، بزار، بیہقی، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابو یعلٰی، ابن مردویہ)

حضرت ابن عباس (رض) سے متعدد روایات میں ہے کہ جب یہ سورة نازل ہوئی، تو فخر موجودات سید کائنات جناب والا حضرت خاتم الانبیاء ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس میں مجھے میری موت کی خبر دی گئی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ جب یہ سورة نازل ہوئی، تو خاتم الانبیاء ﷺ نے حضرت فاطمہ الزہرہ (رض) سے فرمایا : اس سورة میں مجھے میری موت کی خبر دی گئی ہے۔ وہ وئیں، کچھ بعد ہنس پڑیں۔ حضرت عائشہ (رض) نے پھوچھا : تمہارے رونے، پھر ہسنے کا کیا سبب تھا ؟ کہنے لگی : حضور انور ﷺ نے جب مجھے اپنی موت کی خبر سنائی، تو میں رونے لگی، پھر فورا مجھے خوشخبری سنائی، تو میں ہنس پڑی وہ یہ فرمایا کہ میرے اہل و عیال میں سب سے پہلے تم مجھ سے جا ملو گی۔ میں خوشی میں ہنسنے لگی (الحدیث)

مندرجہ بالا روايات كے تناظر مىں ہم ىہ كہہ سكتے ہىں كہ ىہ سورت حضور اكرم ﷺ كے انتقال سے دو تىن مہىنے پہلے نازل ہوئ ہے۔

سورة نصر كى تفسير روايات كے تناظر مىں

(1) ﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ۔۔: ابن کثیر نے فرمایا کہ ”الفتح“ سے مراد یہاں فتح مکہ ہے، اس پر اتفاق ہے۔ عرب کے قبائل اسلام قبول کرنے کے لیے فتح مکہ کا انتظار کر رہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ اپنی قوم پر غالب آگیا تو بلاشبہ وہ نبی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ہاتھوں سے مکہ فتح فرما دیا تو وہ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوگئے۔ اس کے بعد دو سال نہیں گزرے تھے کہ سارا عرب مسلمان ہوگیا اور تمام قبائل میں کوئی ایسا شخص نہ تھا جو اسلام کا اقرار نہ کرتا ہو۔ (الحمد للہ) بخاری (رح) نے اپنی صحیح میں عمرہ بن سلمہ (رض) سے بیان کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا، جب مکہ فتح ہوا تو ہر قوم نے چاہا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہو کر پہلے اسلام قبول کرلے اور تمام قبائل اپنے مسلمان ہونے کے لیے فتح مکہ کا انتظار کر رہغے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اسے اور اس کی قوم کو چھوڑ دو ، اگر یہ ان پر غالب آگیا تو بلاشبہ وہ نبی ہے۔ (دیکھیے بخاری، المغازی، باب : ٣٣٠٢)

(2) ابن ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت عمر (رض) نے شیوخ بدر کی موجودگی میں مجھے بلوایا اور حاضرین سے پوچھا : ” اللہ تعالیٰ کے فرمان :(اذا جآء نصر اللہ والفتح) کے متعلق تم کیا کہتے ہو ؟ “ تو ان میں سے بعض نے کہا کہ اس میں ہمیں حکم ہوا ہے کہ جب ہمیں فتح و نصرت حاصل ہو تو اللہ کی حمد اور استغفار کریں اور بعض خاموش رہے۔حضرت عمر (رض) نے کہا : ” ابن عباس ! تم بھی یہی کہتے ہو ؟ “ میں نے کہا : ” نہیں ! “ فرمایا : ” تو تم کیا کہتے ہو“  ؟  مىں نے كہا: ” اس سے مراد رسول اللہ ﷺ کی موت کا وقت ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کی اطلاع دی ہے، فرمایا : ﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ﴾” جب اللہ کی نصرت اور فتح آگئی“۔  یہ (فتح و نصرت) آپ ﷺ کی موت کی علامت ہے، لہٰذا اب آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجیے اور اس سے استغفار کیجیے، یقیناً وہ تواب ہے“۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ” جو کچھ تم کہہ رہے ہو اس سورت کے متعلق مجھے بھی یہی معلوم ہے“۔  (صحيح البخاري، التفسیر، باب قوله :﴿ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ ۔۔﴾ : ٣٩٨٠)

(3) حافظ ابن کثیر (رح) نے فرمایا کہ شیوخ بدر نے جو تفسیر کی ہے وہ بھی بہت خوب صورت مفہوم ہے۔ چنانچہ رسول ﷺ نے فتح مکہ کے بعد آٹھ رکعات ادا فرمائیں۔ اس لیے امیر لشکر کے لیے مستحب ہے کہ کوئی شہر فتح کرنے کے بعد اس میں داخل ہو تو آٹھ رکعات (نوافل) پڑھے۔ سعد بن ابی وقاص (رض) نے مدائن فتح کیا تو ایسے ہی کیا تھا۔ البتہ عمر بن خطاب اور ابن عباس (رض) نے جو مفہوم سمجھا ہے کہ اس میں ﷺ کو آپ کی موت کی اطلاع دی گئی ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا کام مکمل ہوچکا، اب آپ کو ہمارے پاس آنے کی تیاری کرنی چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی یہی سمجھا، اس لیے اس کے بعد آپ ﷺ تسبیح و تحمید اور استغفار کثرت سے کرنے لگے۔

(4) اس سورت کے نزول کے بعد رسول اللہ ﷺنے پہلے سے بھی زیادہ آخرت کی تیاری شروع کردی اور زیادہ سے زیادہ تسبیح و تحمید اور استغفار کرنے لگے۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ” اذا جآء نصر اللہ والفتح “ نازل ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے کوئی نماز نہیں پڑھی جس میں یہ نہ پڑھا ہو :(سبحانک ربنا وبحمدک اللھم اغفر لي ) (صحيح البخاري، التفسیر، سورة ﴿اذا جاء نصر الله : ٣٨٦٨) ”تو (ہر عیب سے) پاک ہے، اے ہمارے پروردگار ! ہم تیری تعریف اور پاکی بیان کرتے ہیں، اے اللہ ! مجھے بخش دے۔ “ بخاری کی اس سے بعد والی روایت بھی عائشہ (رض) ہی سے مروی ہے کہ آپ ﷺ اپنے رکوع اور سجدے میں کثرت سے یہ دعاپڑھتے ھتے :(سبحانک اللھم ربنا وبحمدک، اللھم اغفرلی) (بخاری، التفسیر، سورة (اذا جاء نصر الله) : ٣٨٦٨)” اے ہمارے اللہ ! اے ہمارے پروردگار ! تو (ہر عیب سے) پاک ہے، ہم تیری تعریف اور پاکی بیان کرتے ہیں، اے اللہ ! م جھے بخش دے“۔  آپ ﷺ یہ دعا قرآن پر عمل کرتے ہوئے پڑھتے تھے۔

(5) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(من جلس في مجلس فکثر فیه لغطه فقال قبل أن یقوم من مجلسه ذلک: سبحانک اللھم وبحمدک أشھد أن لا إله إلا أنت أستغفرک وأتوب إلیک إلا غفر له ما کان في مجلسه ذلک) (سنن  الترمذي، الدعوات، باب ما يقول إذا قام من مجلسه : ٣٣٣٣)” جو شخص کسی مجلس میں بیٹھے اور اس میں شور و غل زیادہ کر بیٹھے، پھر اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے یہ پڑھ لے تو اس مجلس میں اس سے جو کچھ ہوا وہ معاف کردیا جاتا ہے۔ سبحانک اللھم وبحمدک أشھد أن لا إله إلا أنت أستغفرک وأتوب إلیک إلا غفر له ما کان في مجلسه ذلک اے اللہ ! تو پاک ہے اور تیری حمد کے ساتھ (ہم تیری تعریف کرتے ہیں) ، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ، میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیری طرف کرتا ہوں “۔

(6) ﴿إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا﴾ میں ”کان“ استمرار کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا لیا ہے:  ”یقینا وہ ہمیشہ سے بہت توبہ قبول کرنے والا ہے“۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply