surah juma with urdu translation

Surah Juma Tarjuma Ke Sath, Surah Juma With Urdu Translation

ترجمہ اور تفسير سورہ جمعہ

مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ يوپى انڈيا

شروع اللہ کے نام سے جو بڑے مہربان نہایت رحم کرنے والے ہیں

يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ ﴿1﴾

جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں وہ (سب کا) بادشاہ ہے۔ پاک ذات ہے۔ زبردست ہے اور حکمت والا ہے۔

 هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ﴿2﴾

وہی تو ہے جس نے امیوں (ان پڑھ) لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے جو ان پر اللہ کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور ان کو (ہر طرح کے برے عقائد کی گندگیوں سے) پاک کرتا ہے۔ وہ ان کو کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور ان کو حکمت و دانائی کی باتیں سکھاتا ہے۔ اگرچہ وہ (عرب والے) اسے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔

وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿3﴾

اور دوسروں کے لیے بھی ان میں سے (آپ کو بھیجا) جو ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے، اور وہ (بڑا) زبردست ہے، حکمت والا ہے۔

 ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ﴿4﴾

اللہ کا یہ وہ فضل و کرم ہے جسے وہ دینا چاہے اسے دیتا ہے۔ اور اللہ بڑے فضل و کرم کا مالک ہے۔

 مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿5﴾

اور ان لوگوں کی مثال جن پر توراۃ کے (علم و عمل کا) بوجھ ڈالا گیا تھا۔ پھر انھوں نے اس بوجھ کو نہ اٹھایا اس گدھے جیسی ہے جس پر بہت سی کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا ان کی یہ بری مثال ہے۔ اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔

 قُلْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴿6﴾

(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ اے وہ لوگو ! جو یہودی بن گئے ہوا گر تم یہ سمجھتے ہو کہ سب لوگوں کے علاوہ صرف تم ہی اللہ کے دوت ہو تو پھر موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو۔

 وَلَا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ ﴿7﴾

(لوگو ! ) یہ اس کی (موت کی) تمنا کبھی نہ کریں گے کیونکہ انھوں نے جو اپنے آگے ( برے اعمال) بھیجے ہیں (ان کا انجام انھیں معلوم ہے) اور اللہ ظالموں کو خوب اچھی طرح جانتا ہے۔

 قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَاقِيكُمْ ۖ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿8﴾

(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ بیشک تم جس موت سے بھاگتے ہو وہ تمہیں پہنچ کر رہے گی۔ پھر تم اس اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے جو ہر چھپے اور کھلے کا جاننے والا ہے۔ پھر وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا کرتے رہے تھے۔

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿9﴾

اے ایمان والو جب جمعہ کے دن اذان کہی جائے نماز کے لیے تو چل پڑا کرو اللہ کی یاد کی طرف، ف ٩۔ اور خرید وفروخت چھوڑ دیا کرو، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم کچھ سمجھ رکھتے ہو۔

 فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿10﴾

جب نماز پوری ہوجائے تو پھر (تمہیں اختیار ہے کہ) زمین میں پھیل جاؤ ( چلو پھرو) اور اللہ کا فضل (رزق ) تلاش کرو۔ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو تاکہ تم فلاح و کامیابی حاصل کرو۔

 وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا ۚ قُلْ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ ۚ وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ﴿11﴾

اور جب انھوں نے تجارتی (قافلے) کو یا کھیل تماشے کو دیکھا تو وہ تمہیں تنہا چھوڑ کر اسی کی طرف دوڑ گئے۔ آپ کہہ دیجئے کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے زیادہ بہتر ہے۔ اور رزق دینے والوں میں وہی سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔

رسول الله صلى الله عليہ وسلم کی رسالت کا عموم

یہود یہ کہتے تھے کہ اس آیت میں آپ کے متعلق فرمایا ہے کہ آپ امیین کے رسول ہیں یعنی صرف مکہ والوں کے رسول ہیں، آپ کی نبوت اور رسالت تمام دنیا کے انسانوں کے لیے نہیں تھی لیکن ان کا یہ استدلال باطل ہے، کیونکہ قرآن اور حدیث میں مفہوم مخالف معتبر نہیں ہوتا، نیز کسی ایک آیت کو دیکھ کر کوئی نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے جب تک اس مسئلہ سے متعلق تمام آیات کو نہ دیکھ لیا جائے، قرآن مجید میں سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے عموم کے متعلق یہ آیات ہیں :

وما ارسلناک الا کآفۃ للناس بشیراً و نذیراً (سبا : ٢٨) اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے بشارت دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

تبارک الذی نزل الفرقان علی عبدہ لیکون للعلمین نذیراً (الفرقان : ١) وہ بہت برکت والا ہے جس نے اپنے مکرم بندہ پر قرآن نازل کیا تاکہ وہ تمام جہان والوں کے لیے عذاب سے ڈرانے والے ہوں الجمعہ :

وما أرسلناک إلا رحمة للعلمین (الأنبیاء : ١٠٧) اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے محض رحمت بنا کر بھیجا ہے

﴿وَّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ﴾

اس آیت کی تفسیر میں علماء کا اختلاف ہے۔ حضرت ابن عمر، سعید بن جبیر اور مجاہد نے کہا : اس سے مراد عجمی لوگ ہیں، ان کی دلیل یہ حدیث ہے : حضرت ابوہریرہ، (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، جب آپ سورة الجمعہ نازل ہوئی، جب آپ نے یہ آیت پڑھی :

وآخرین منھم لما یلحفوبہم (الجمعہ : ٣) اور ان میں سے دوسروں کو بھی جو ابھی ان پہلوں سے نہیں ملے۔

ایک شخص نے پوچھا، یا رسول اللہ ! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا، حتیٰ کہ اس نے دو یا تین بار پوچھا : اس وقت ہم میں حضرت سلمان فارسی (رض) بھی تھے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سلمان پر ہاتھ رکھ کر فرمایا : اگر دین ثریا (ستارے) کے پاس بھی ہو تو فرزند ان فارس وہاں جائیں گے اور دین کو حاصل کرلیں گے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٩٨ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٤٦ سنن ترمذی رقم الحدیث ٣٩٣٣۔٣٣١٠ صحیح ابن حبانرقم الحدیث : ٧١٢٣ دلائل النبوۃ ج ٦ ص ٣٢٤ مسند احمد ج ٢ ص ٤١٧)

امام ابوحنیفہ، امام ابوبکر رازی امام فخر الدین رازی، امام مسلم نیشا پوری امام حاکم نیشا پوری اور امام ابو اسحاق احمد بن ابراہیم نیشاپوری یہ تمام ائمہ فرزند ان فارس تھے اور انھوں نے حدیث، تفسیر اور فقہ میں بہت کمال حاصل کیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس پیش گوئی کے مطابق علم دین کی بلندیوں پر پہنچے۔

عکرمہ اور مقاتل نے کہا : اس سے مراد تابعین ہیں، ابن زید نے کہا : اس سے مراد صحابہ کے بعد قیامت تک کے علمائے دین ہیں۔ (معالم التنزیل ج ٥ ص ٨٢، داراحیاء التراث العربی، بیروت ١٤٢٠ ھ)

قیامت تک کے مسلمانوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کتاب و حکمت کی تعلیم دینا، اور ان  کے باطن کو صاف کرنا

اس سے پہلی آیت میں فرمایا : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امیین پر اللہ کی آیات تلاوت کرتے ہیں، ان کا باطن صاف کرتے ہیں اور انھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔ اس کے بعد فرمایا : اور بعد والوں کو بھی جو ان پہلوں سے نہیں ملے، اس کا معنی یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کے علاوہ قیامت تک کے ذی استعداد علماء اور الویاء کے سامنے قرآن مجید کی تلاوت فرماتے ہیں، ان کا بطن صاف کرتے ہیں اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، اس کی تائید ان عبارات سے ہوتی ہے :

علامہ عبدالوہاب بن احمد بن علی الشعرانی المتوفی ٩٧٣ ھ لکھتے ہیں :

میں نے سید علی الخواص (رح) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تمام اہل کشف کے نزدیک ائمہ مجتہدین کے اقوال شرعیہ سے نکلنا جائز نہیں ہے کیونکہ ان کے اقوال کشف صحیح سے کتاب و سنت اور اقوال صحابہ پر مبنی ہوتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک کی روح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح کے ساتھ جمع ہوتی ہے اور جن دلائل میں وہ توقف کرتے ہیں، ان کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کرلیتے ہیں اور وہ آپ سے بیداری میں سوال کرتے ہیں، یا رسول اللہ ! آیا، آپ نے یہ فرمایا ہے یا نہیں ؟ اور جن مسائل کا وہ قرآن اور سنت سے استنباط کرتے ہیں ان کو اپنی کتابوں میں درج کرنے سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معلوم کرلیتے ہیں اور کہتے ہیں : یا رسول اللہ ! ہم نے اس آیت کا یا فلاں حدیث کا یہ مطلب سمجھا ہے، آپ اس پر راضی ہیں یا نہیں ؟ اور آپ کے ارشاد کے تقاضے پر عمل کرتے ہیں اور یہ چیز اولیاء اللہ کی یقینی کرامات سے ہے اور اگر ائمہ مجتہدین اللہ کے اولیاء نہیں ہیں تو پھر روئے زمین پر کوئی بھی ولی نہیں ہے اور بہ کثرت اولیاء اللہ سے منقول ہے، حالانکہ وہ ائمہ مجتہدین سے کم مرتبہ کے ہیں کہ انھوں نے بہتر مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کی ہے اور ان کے زمانہ زمانہ کے اولیاء نے ان کی تصدیق کی ہے۔

اور میں نے حافظ جلال الدین سیوطی کے ہاتھ کا لکھا ہوا رقعہ دیکھا ہے، ان سے ایک شخص نے سوال کیا تھا کہ وہ سلطان کے پاس اس کی سفارش کریں، حافظ سیوطی نے اس کو جواب میں لکھا: اے میرے بھائی ! میں نے پچھتر مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کیا ہے اور اگر مجھے یہ خطرہ نہ ہوتا کہ حاکم کے پاس تمہاری سفارش کرنے سے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت اور آپ سے ملاقات اور استفادہ کرنے سے محروم ہو جاؤں گا تو میں ضرور حاکم کے پاس تمہاری سفارش کرتا اور جن احادیث کو محدثین نے اپنے طریقہ سے ضعیف قرار دیا ہے، میں ان کے صحیح یا غریب صحیح ہونے کو معلوم کرنے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات اور آپ سے استفادہ کرنے کا محتاج ہوں اور استفادہ میں مسلمانوں کا اجتماعی فائدہ ہے اور تمہارے ایک کے فائدہ کی بہ نسبت تمام مسلمانوں کا اجتماعی فائدہ زیادہ اہم ہے۔

اور حافظ جلال الدین کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ مشہور ہے کہ سیدی محمد بن زین، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیداری میں ملاقات کرتے تھے، حتیٰ کہ ایک شخص نے ان سے درخواست کی کہ وہ حاکم شہر کے پاس اس کی سفارش کریں اور جب وہ حاکم شہر کے پاس پہنچ گئے اور اس نے ان کو اپنے پاس بٹھایا تو یہ نعمت ان سے جاتی رہی، اور شیخ ابو الحسن شاذلی اور ان کے شاگرد شیخ ابوالعباس المرسی یہ کہتے تھے کہ اگر پلك جھپکنے کی مقدار بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سے حجاب میں ہو تو ہم اس ساعت میں اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار نہیں کرتے اور جب اولیاء اللہ کا یہ حال ہے تو ائمہ مجتہدین کا مرتبہ تو ان سے بہت اونچا ہے۔ (المیزان الکبریٰ ج ١ ص ٥٥۔٥٤ دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ)

شیخ انور شاہ کشمیری متوفی ١٣٥٢ ھ لکھتے ہیں :

میرے نزدیک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیداری میں دیدار کرنا ہر اس شخص کے لیے ممکن ہے جس کو اللہ تعالیٰ یہ نعمت عطا فرمائے، جس طرح حافظ سیوطی (رح) سے منقول ہے کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بائیس مرتبہ (صحیح پچھتر بار ہے) زیارت کی اور آپ سے بعض احادیث کی صحت کے متعلق سوال کیا، اور جب آپ نے فرمایا کہ وہ صحیح ہیں تو حافظ سیوطی نے ان کو صحیح قرار دیا اور شاذلی نے سوال کیا کہ وہ حاکم وقت کے پاس اس کی شفاعت کریں تو حافظ سیوطی نے انکار کردیا اور کہا : اگر میں حاکم کے دربار میں گیا تو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت سے محروم ہو جاؤں گا اور اس سے امت کا بہت نقصان ہوگا اور علامہ شعرانی (رح) نے بھی بیداری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کی اور آٹھ ساتھیوں کے ساتھ آپ سے ” صحیح بخاری “ پڑھی، ان آٹھ میں سے ایک حنفی تھا، لہٰذا بیداری میں آپ کی زیارت ثابت ہے اور اس کا انکار کرنا جہل ہے۔ (فیض الباری ج ١ ص ٢٠٤ مطبعہ مجلس علمی، ھند، ١٣٥٧ ھ)

﴿ مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾

احکام تورات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے یہود کی مذمت

اس سے پہلے ہم نے یہ بیان کیا تھا کہ یہود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور رسالت کے عموم میں یہ شبہ پیش کرتے تھے کہ آپ صرف امیین اور مکہ والوں کے رسول ہیں اور ہم نے اس کا جواب ذکر کیا کہ آپ تمام مخلوق کے رسول ہیں، آپ نے خود کو فرمایا :

أرسلت إلی الخلق کافة و ختم بي النبیون (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٢٣) مجھے تمام مخلوق کی طرف رسول بنایا گیا ہے اور مجھے پر انبیاء کو ختم کردیا گیا ہے۔

اور اس آیت سے مقصود یہودیوں کی اس بات پر مذمت کرنا ہے کہ ان کو ” تورات “ دی گئی اور انھوں نے ” توراۃ “ کی آیات پر عمل نہیں کیا ” توراۃ “ میں ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کے متعلق لکھا ہوا تھا اور آپ کی نشانیاں بیان کردی گی تھیں اور انھیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ جب آپ کا ظہور ہو تو وہ آپ پر ایمان لے آئیں لیکن انھوں نے اس حکم پر عمل نہیں کیا، موجودہ ” توراۃ “ میں بھی لکھا ہوا ہے :

موجودہ ” توراۃ “ کے متن میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بشارتیں

موجودہ ” توراۃ “ میں بھی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے متعلق بشارتیں موجود ہیں :

خداوند تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا، تم اس کی سننا۔ یہ تیری اس درخواست کے مطابق ہوگا جو تو نے خداوند اپنے خدا سے مجمع کے دن خواب میں کی تھی کہ مجھ کو نہ تو خداوند اپنے خدا کی آواز پھر سننی پڑے اور نہ ایسی بڑی آگ ہی کا نظارہ ہوتا کہ میں مر نہ جاؤں۔ اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں، سو ٹھیک کہتے ہیں۔ میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا۔ جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا۔ ( توراۃ استثنائ، باب : ١٨ آیت : ١٩۔١٥ پرانا عہد نامہ ص ١٨٤ مطبعہ بائبل سوسائٹی، لاہور)

اور مرد خدا موسیٰ نے جو دعائے خیر دے کر اپنی وفات سے پہلے بنی اسرائیل کو برکت دی وہ یہ ہے۔ اور اس نے کہا : خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر آشکارا ہوا اور کوہ فاران سے جلوگر ہا اور لاکھوں قدسیوں میں سے آیا، اس کے داہنے ہاتھ پر ان کے لیے آتشی شریعت تھی، وہ بیشک قوموں سے محبت رکھتا ہے، اس کے سب مقدس لوگ تیرے ہاتھ میں ہیں، ایک ایک تیری باتوں سے مستفیض ہوگا۔ ( توراۃ استثنائ، باب : ٣٣، آیت : ٣۔٢ پرانا عہد نامہ ص ٢٠١ مطبوعہ بائبل سوسائٹی، لاہور، ١٩٩٢ ئ)

 توراۃ کے پرانے (١٩٢٧ ء کے) اردو ایڈیشن میں یہ آیت اس طرح تھی : دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ میں دس ہزار صحابہ کے ساتھ داخل ہوئے تھے، اس طرح یہ آیت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پوری طرح منطبق ہوتی تھی، جب عیسائیوں نے یہ دیکھا تو انھوں نے اس آیت کے الفاظ بدل دیئے اور یوں لکھ دیا : اور لاکھوں قدسیوں میں سے آیا۔ توراۃ کے پرانے (١٩٢٧ ء کے) ایڈیشن میں یہ آیات اس طرح تھیں :

اور اس نے کہا کہ خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا، فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا، دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے دہنے ہاتھ ایک آتشیں شریعت ان کے لیے تھی۔ (کتاب مقدس، استثنائ، باب : ٣٣، آیت : ٢ ص ١٩٢، مطبوعہ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی، انار کلی لاہور، ١٩٢٧ ئ)

اس کی تائید عربی ایڈیشن سے بھی ہوتی ہے، اس میں یہ آیت اس طرح لکھی ہے :

واتی من ربوات اقدس۔ دس ہزار قدسیوں میں سے آیا۔ (مطبوعہ دارالکتاب المقدس فی العالم العربی ص ٤٣٣، ١٩٨٠ ئ)

لوئیس معلوف نے ” ربوۃ “ کے معنی لکھے ہیں : ” الجماعۃ العظیمۃ نحوعشرۃ الاف “ (المنجد ص ٢٤٧) یعنی تقریباً دس ہزار افراد کی جماعت۔

دیکھو ! میرا خادم (پچھلے ایڈیشنوں میں د ’ بندہ “ تھا۔ سعیدی غفرلہ) جس کو میں سنبھالتا ہوں میرا برگزیدہ جس سے میرا دل خوش رہے میں نے اپنی روح اس پر ڈلای، وہ قوموں میں عدالت جاری کرے گا۔ وہ نہ چلائے گا نہ شور کرے گا اور نہ بازاروں میں اس کی آواز سنائی دے گی۔ وہ مسلے ہوئے سرکنڈے کو نہ توڑے گا اور ٹمٹاتی بتی کو نہ بجھائے گا، وہ راستی سے عدالت کرے گا۔ وہ ماندہ نہ ہوگا اور ہمت نہ ہارے گا جب تک کہ عدالت کو زمین پر قائم نہ کرے، جزیرے اس کی شریعت کا اتنظار کریں گے۔ جس نے آسمان کو پیدا کیا اور تان دیا جس نے زمین کو اور ان کو جو اس میں سے نکلتے ہیں پھیلایا، جو اس کے باشندوں کو سانس اور اس پر چلنے والوں کو روح عنایت کرتا ہے یعنی خداوند یوں فرماتا ہے : میں خداوند نے تجھے صداقت سے بلایا میں ہی تیرا ہاتھ پکڑوں گا اور تیری حفات کروں گا۔ اور لوگوں کے عہد اور قوموں کے نور کے لیے تجھے دوں گا۔ تو اندھوں کی آنکھیں کھولے اور اسیروں کو قید سے نکالے اور ان کو جو اندھیرے میں بیٹھے ہیں، قید خانہ سے چھڑائے۔ یہو واہ میں ہوں، یہی میرا نام ہے، میں اپنا جلال کسی دوسرے کے لیے اور اپنی حمد کھودی ہوئی مورتیوں کے لیے روانہ رکھوں گا۔ دیکھو پرانی باتیں پوری ہوگئیں اور نئی باتیں بتاتا ہوں، اس سے پیشتر کہ واقع ہوں میں تم سے بیان کرتا ہوں۔ ( توراۃ یسعیاہ، باب : ٤٢، آیت ٩۔١ ص ٦٩٤ مطبوعہ پاکستان بائبل سوسائٹی، لاہور، ١٩٨٠ ئ)

اس اقتباس کی آیت نمبر ٢ میں ہے : وہ نہ چلائے گا اور نہ شور کرے گا اور نہ بازاروں میں اس کی آواز سنائی دے گی۔ اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق پیش گوئی ہے : حضرت مرو بن العاص کی یہ روایت گزر چکی ہے کہ ” توراۃ “ میں آپ کی یہ صفت لکھی ہوئی ہے، اور نہ بازاروں میں شور کرنے والے ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢١٢٥ )

اس باب کی آیت میں ٦ میں ہے : میں ہی تیرا ہاتھ پکڑوں گا اور تیری حفاظت کروں گا۔

اس کی تائید قرآن مجید کی اس آیت سے ہوتی ہے :

والله یعصمک من الناس (المائدہ : ٦٧) اور اللہ آپ کے لوگوں سے حفاظت کرے گا۔

عیسائی یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ پیش گوئی حضرت عیسیٰ کے متعلق ہے کیونکہ ” انجیل “ میں لکھا ہے کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ کو پھانسی دے دی اور حضرت عیسیٰ نے چلا کر کہا اے میرے خدا ! اے میرے خدا ! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ؟ ملاحظہ ہو :

اور انھوں نے اسے مصلوب کیا اور اس کے کپڑے قرعہ ڈال کر بانٹ لئے۔ (الیٰ قولہ) اور تیسرے پہر کے قریب یسوع نے بڑی آواز سے چلا کر کہا : ” ایلی، ایلی لما شقبتنی ؟ “ یعنی اے میرے خدا ! اے میرے خدا ! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ؟ (متی کی انجیل، باب : ٢٧ آیت : ٦٤۔٣٥، ص ٣ و مبوعہ پاکستان بائبل سوسائٹی، لاہور، ١٩٩٢ ء )

نیز اس باب کی آیت ٧ میں ہے کہ تو اندھوں کی آنکھیں کھولے اور اسیروں کو قید سے نکالے اور ان کو جو اندھیرے میں بیٹھے ہیں، قید خانہ سے چھڑائے۔

اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق پیش گوئی ہے اور اس کی تصدیق ان آیتوں میں ہے :

(المائدہ : ١٦۔١٥) بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور آگیا اور کتاب مبین۔ اللہ اس کے ذریعہ ان لوگوں کو سلامتی کے راستوں پر لاتا ہے جو اس کی رضا کے طالب ہیں اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نور کی طرف لاتا ہے اور ان کو سیدھے راستے کی طرف لاتا ہے۔

اور حضرت عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ ” توراۃ “ میں آپ کی یہ صفت ہے : اور اللہ اس وقت تک آپ کی روح ہرگز قبض نہیں کرے گا حتیٰ کہ آپ کے سبب سے ٹیڑھی قوم کو سیدھا کر دے گا، بایں طور کہ وہ کہیں گے : ” لا الہ الا اللہ “ اور آپ کے سبب سے اندھی آنکھوں، بہرے کانوں اور پردہ پڑے ہوئے دلوں کو کھول دے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢١٢٥ )

یہود کو گدھے کے ساتھ تشبیہ دینے کی وجوہ

اور جب یہودیوں نے توراۃ کے احکام پر عمل نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا : ان کی مثال اس گدھے کی طرح ہے جس پر کتابوں کا بوجھ لدا ہوا ہے، اسی طرح اس مسلمان عالم دین کی مثال ہے جو قرآن اور سنت کے احکام پر عمل نہ کرے۔

اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی مثال گدھے کے ساتھ دی ہے، اس کی حسب ذیل وجوہ ہیں :

(١) گھوڑے اور خچر کی بہ نسبت گدھے پر زیادہ بوجھ لادا جاتا ہے۔

(٢) گدھے میں جہل اور حماقت کا معنی دوسرے جانوروں کی بہ نسبت زیادہ ظاہر ہے۔

(٣) عرف میں دوسرے جانوروں کی بہ نسبت گدھے کو زیادہ حقیر سمجھا جاتا ہے۔

(٤) کتابوں کے لیے ” اسفار “ کا لفظ فرمایا ہے اور کتابوں کو جس جانور پر الدا جائے اس کے لیے لفظ حمار، اس میں ” اسفار “ کے ساتھ لفظی مجانست اور مشاکلت ہے۔

قرآن مجید کی پیش گوئی کی صداقت سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی حقانیت پر استدلال

یہود یہ سمجھتے تھے کہ باقی امتوں کی بہ نسبت وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب اور اس کے دوست ہیں اور اللہ تعالیٰ صرف ان ہی کو جنت عطا فرمائے گا، اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اگر ایسا ہی ہے جیسا تم سمجھتے ہو تو تم موت کی تمنا کرو، تاکہ جلد سے جلد جنت میں چلے جاؤ، لیکن وہ کبھی ایسا نہیں کریں گے کیونکہ ان کو اپنی بد اعمالیوں کا عمل ہے۔

الجمعہ : ٧۔٦ میں اللہ تعالیٰ نے یہ پیش گوئی فرمائی ہے کہ یہودی کبھی بھی موت کی تمنا نہیں کریں گے، یہودی قرآن مجید کے اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخلاف اور دشمن تھے، انھیں چاہیے تھا کہ وہق رآن مجید کو اور ہمارے نبی کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے کہتے کہ لو ہم موت کی تمنا کر رہے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوا، انھوں نے موت کی تمنا نہیں کی، یہودیوں کا بطلان ظاہر ہوگیا اور قرآن مجید کی پیشگوئی سچی ہوگئی ہوگئی اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور رسالت کی حقانیت آشکارا ہوگئی۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے الجمعہ ٨ میں فرمایا : آپ کہیے : جس موت سے تم بھاگ رہے ہو وہ تمہیں ضرور پیش آنے والی ہے، پھر تم اس کی طرف لوٹا دیئے جاؤ گے جو ہر غیب اور ہر شہادت کا جاننے والا ہے پس وہ تم کو خبر دے گا کہ تم کیا کرتے رہے تھے۔

اس آیت میں یہ بتایا کہ تم نے کھلم کھلا بھی جرائم کئے اور چھپ کر بھی گناہ کئے تم نے ” توراۃ “ میں تحریف کی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے صدق کو چھپایا، تم نے جو کچھ ظاہراً برائیاں کیں اور جو چھپ کر برائیاں کیں، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تم کو ان سب کی خبر دے دے دے گا، کیونکہ اس پر ظاہر اور باطن میں سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔

﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾

جمعہ کی وجہ تسمیہ

امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت سلمان فارضی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ جمعہ کا دن کیا ہے؟ میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں، پھر دوسری بار آپ آپ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ جمعہ کا دن کیا ہے ؟ میں نے کہا : نہیں، پھر آپ نے تيسری یا چوتھی بار میں فرمایا : یہ وہ دن ہے جس میں تمہارے باپ آدم (کی تخلیق) کو جمع کیا گیا، اس دن جو مسلمان بھی وضو کر کے مسجد میں جائے، پھر اس وقت تک خاموش بیٹھا رہے حتیٰ کہ امام اپنی نماز پڑھ لے تو یہ عمل اس جمعہ اور اس کے بعد کے جمعہ کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے بشرطیکہ اس نے خن ریزی سے اجتناب کیا ہو۔ (مسند احمد ج ٥ ص ٤٤٠ طبع قدیم، مسند احمد ج ٣٩ ص ١٣٣، رقم الحدیث : ٢٣٧٢٩ موستہ الرسالتہ، بیروت، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١٦٦٥ المعجم الکبیر رقم الحدی : ٦٠٨٩)

علامہ ابوعبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ لکھتے ہیں :

ابو سلمہ نے کہا : پہلے جمعہ کے دن کو العروبتہ کہا جاتا تھا اور سب سے پہلے جس نے اس دن کا نام الجمعہ رکھا وہ کعب بن لوی ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ سب سے پہلے انصار نے اس دن کا نام الجمعہ رکھا۔

امام ابن سیرین نے کہا : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے اور جمعہ کی فرضیت نازل ہونے سے پہلے اہل مدینہ جمع ہوئے اور ان ہی لوگوں نے اس دن کا نام الجمعہ رکھا، انھوں نے کہا : یہود کا بھی ایک دن ہے جس میں وہ عبادت کے لیے جمع ہوتے ہیں اور ہر سات دنوں میں ان کا ایک مقدس دن ہے اور وہ السبت (سنیچر) ہے اور نصاریٰ کے لیے بھی اس کی مثل ایک دن ہے اور وہ اتوار کا دن ہے، پس آؤ ! ہم بھی ہفتہ میں ایک دن معین کریں جس میں ہم سب جمع ہو کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں اور اس دن خصوصی نماز پڑھیں، پھر انھوں نے کہا : یہود نے سنیچر (ہفتہ) کا دن معین کیا ہے اور نصاریٰ نے اتوار کو دن معین کیا ہے، پھر ہم یوم العروبتہ کا دن معین کرتے ہیں، پھر وہ سب حضرت اسعد بن زرارۃ (ابوامامتہ) (رض) بیان کرتی ہیں کہ ہر بالغ پر نماز جمعہ کے لیے جانا واجب ہے۔ (سنن کبریٰ للبیہقی ج ٣ ص ١٧٢ مطبوعہ نشرالسنتہ، ملتان)

جمعہ كى فضيلت اور چھوڑنے پر وعيد

حضرت اوس بن اوس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارے ایام میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے، اسی دن حضرت آدم پیدا ہوئے، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی، اسی دن صور پھونکا جائے گا، اسی دن سب بےہوش ہوں گے ، سو تم اس دن مجھ پر زیادہ درود وسلام پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود وسلام مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ نے کہا : یا رسول اللہ ! آپ پر ہمارا درود کیسے پیش کیا جائے گا حالانکہ آپ بوسیدہ ہوچکے ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : بیشک اللہ عزوجل نے زمین پر انبیاء کے کھانے کو حرام کردیا۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ١٠٤٧، سنن نسائی رقم الحدیث : ١٣٧٣ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٦٣٦۔١٠٨٥)

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص (نماز) جمعہ کے لیے آئے تو غسل کرے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٨٧٧ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٤٤ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٤٩٣، سنن نسائی رقم الحدیث : ١٤٠٧، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٣٥٢ )

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (نماز) جمعہ اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈھل جاتا تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٩٠٤ سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ١٠٨٤ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٥٠٣)

 جمعہ کےاحادیث

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس بہترین دن پر سورج طلوع ہوتا ہے وہ جمعہ کا دن ہے، اسی دن حضرت آدم پیدا کئے گئے، اسی دن ان کو جنت میں داخل کیا گیا اور اسی دن ان کو جنت سے باہر لایا گیا۔ ” مسلم “ کی دوسری حدیث میں ہے : قیامت (بھی) جمعہ کے دن قائم ہوگی۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٥٤ سنن نسائی رقم الحدیث : ١٣٧٣)

حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جمعہ کی ساعت (قبولیت) امام کے منبر پر بیٹھنے سے لیکر نماز ادا کئے جانے تک ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٥٣ سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ١٠٩٤)

اور جمعہ کے دن اور نماز جمعہ دونوں پر جمعہ کا اطلاق اس حدیث میں ہے :

حضرت سہل (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہماری ایک خاتون نے نہر کے کنارے ایک کیاری بنائی تھی، جس میں چقندر اگائے ہوئے تھے، جمعہ کے دن وہ چقندروں کو ایک دیگچی میں ڈالتی اور اس میں جو پیس کر ڈالتی، جب ہم نماز جمعہ پڑھ کر آتے تو ہم اس کو سلام کرتے اور وہ ہم کو وہ طعام پیش کرتی، ہم اس کو چاٹ چاٹ کر کھاتے اور ہم اس کھانے کے لیے یوم جمعہ کا انتظار کرتے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٩٣٨ سنن نسائی رقم الحدیث : ٥٢٥ )

حضرت ابوالجعد الضمری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے سستی کی وجہ سے تین بار جمعہ کو ترک کردیا، اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دے گا۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ١٠٥٢ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٥٠٠ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١١٢٥ صحیح ابن حبانرقم الحدیث : ٢٧٨٦، المسدترک ج ١ ص ٢٨٠ سنن بیہقی ج ٣ ص ١٧٢ مسند احمد ج ٣ ص ٤٢٤ )

حضرت طارق بن شہاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھنا واجب ہے، ماسوا چار کے : غلام، عورت، بچہ یا بیمار (ہدایہ میں ہے کہ مسافر اور نابینا پر بھی جمعہ کی نماز فرض نہیں ہے۔ ) (سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ١٠٦٧ )

حضرات ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر بالغ پر جمعہ کے دن غسل کرنا واجب ہے (یعنی ثابت ہے) اور یہ کہ وہ مسواک کرے اور اگر میسر ہو تو خوشبو لگائے۔ الحدیث (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٨٨٠ سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٣٤١ سنن نسائی رقم الحدیث : ١٣٧٧ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٠٨٩)

حضرت سمرہ بن جندب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے جمعہ کے دن غسل کیا تو فبہا (یہ اچھا کام ہے) اور عمدہ ہے اور جس نے غسل کیا تو غسل کرنا افضل ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٤٩٧ سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٣٥٤ سنن نسائی رقم الحدیث : ١٣٧٩)

حضرت ابوہریرہ ری اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے جمعہ کے دن غسل جنابت کی طرح غسل کیا، پھر نماز کے لیے گیا تو گویا اس نے ایک اونٹ صدقہ کیا اور دوسری ساعت میں گیا تو گویا اس نے ایک گائے صدقہ کی اور جو تیسیر ساعت میں گیا، اس نے گویا سینگھوں والا مینڈھا صدقہ کیا اور جو چوتھی ساعت میں گیا اس نے گویا مرغی صدقہ کی اور جو پانچویں ساعت میں گیا گویا اس نے انڈا صدقہ کیا، پس جب امام نکل آئے تو فرشتے خطبہ سننے کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٨٨١ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٥٠ سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٣٥١ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٤٩٩ سنن نسائی رقم الحدیث : ١٣٨٩)

حضرت السائب بن یزید بیان کرتے ہیں کہ جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) کے عہد میں یہی معمول تھا، جب حضرت عثمان (رض) کا عہد آیا اور لوگ زیادہ ہوگئے تو مقام الزوراء پر تیسری اذان کا اضافہ کردیا (اقامت کے اعتبار سے تیسری اذان فرمایا ہے۔ ) (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٩١٢ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٥١٦ سنن ابود اؤد رقم الحدیث : ١٠٨٧ سنن نسائی رقم الحدیث : ١٤٩٤)

حضرت السائب بن زیدی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب منبر پر بیٹھ جاتے تو آپ کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان دی جاتی تھی اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے عہد میں بھی۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ١٠٨٨)

حضرت ابن عمر (رض) نے بیان فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو خطبے دیتے تھے، آپ منیر پر بیٹھ جاتے اور جب موذن اذان سے فارغ ہوتا تو آپ کھڑے ہو کر ایک خطبہ دیتے، پھر بیٹھ جاتے اور کوئی بات نہیں کرتے تھے پھر کھڑے ہو کر دوسرا خطبہ دیتے تھے۔ (سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ١٠٩٢)

نماز جمعہ کے ضروری مسائل

علامہ علاء الدین محمد بن علی محمد حصکفی متوفی ١٠٨٨ ھ لکھتے ہیں :

نماز جمعہ فرض عین ہے اور اس کا انکار کفر ہے کیونکہ اس کا ثبوت بھی قطعی ہے اور اس کی لزوم پر دلالت بھی قطعی ہے، نماز جمعہ پڑھنے جواز کی سات شرائط ہیں :

(١) پہلی شرط یہ ہے کہ جمعہ صرف شہر میں فرض ہے، گاؤں اور دیہات میں جمعہ فرض نہیں ہے اور شہر کا ثبوت اس حدیث سے ہے :

حارث بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا : نہ جمعہ جامع شہر کے بغیر ہوگا نہ تشریق۔ (مصنف عبدالرزاق ج ٣ ص ٧٠ رقم الحدیث : ٥١٨٩ دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢١ ھ)

ابوعبدالرحمن سلمی بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی نے فرمایا : نہ جمعہ جامع شہر کے بغیر ہوگا نہ تشریق اور وہ بصرہ، کوفہ، مدینہ، بحرین، مصر، شام، جزیرہ، یمن اور یمامہ کو شہر میں شمار کرتے تھے۔ (مصنف عبدالرزاق ج ٣ ص ٧٠ رقم الحدیث : ٥١٩١ دارالکتب العلمیہ، بیروت)

شہر کی معتمد تعریف جو امام ابوحنیفہ سے منقول ہے وہ یہ ہے: وہ بڑا شہر ہو جس میں گلیاں اور بازار ہو اور اس کے مضافات ہوں اور اس میں ایسا حاکم ہو جو مظلوم کا حق ظالم سے لینے پر قادر ہو اور اس میں ایسا عالم دین ہو جو پیش آمدہ مسائل میں شرعی رہنمائی کرسکتا ہو (ردا المختارج ٣ ص ٧، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٩١ ھ )

(٢) دوسری شرط یہ ہے کہ جمعہ کی نماز سلطان پڑھائے یا وہ شخص جو سلطان کی طرف سے مقرر ہو، تاہم مسلمان جس کے نماز جمعہ پڑھانے پر راضی ہوں وہ نماز جمعہ پڑھا سکتا ہے۔ اعلیٰحضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی لکھتے ہیں :

اقامت سلطان بمعنی مذکور ضرور شرط جمعہ ہے اور یہاں بوجہ تعذر تعیین مسلمین قائم مقام تعیین سلطان ہے۔

(فتاویٰ رضویہ ج ٣ ص ٧٤٠ مطبوعہ لائل پور، ١٣٩٣ ھ)

(٣) تیسری شرط یہ ہے کہ نماز جمعہ کے لیے ظہر کا وقت ہو۔

(٤) چوتھی شرط یہ ہے کہ نماز جمعہ سے پہلے خطبہ دیا جائے، دو خطبے دینا اور ان کے درمیان بیٹھنا سنت ہے۔

(٥) پانچویں شرط یہ ہے کہ جماعت کے سامنے خطبہ دیا جائے، خلاصہ میں تصریح ہے کہ ایک آدمی کا ہونا بھی کافی ہے۔

(٦) چھٹی شرط یہ ہے کہ نماز جمعہ کے لیے امام کے سوا جماعت ہو اور اس میں کم از کم تین آدمی ضروری ہیں۔

(٧) ساتویں شرط یہ یہ کہ نماز جمعہ کے لیے اذن عام ہو، مسجد کے دروازے آنے والوں کے لیے کھلے ہوں، ہاں ! اگر دشمن کے خطرہ کی وجہ سے یا عادت قدیمہ کی وجہ سے قلعہ کے دروازہ بند کردیئے جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے (موجودہ دور میں صدر، وزیر اعظم، گورنر اور وزیر اعلیٰ کی رائش بھی اسی حکم میں ہے۔ ) (الدرا المختار مع ردا المختارج ٣ ص ٤٢۔٥ ملحضاً و موضحاً و مخرجاً داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)

آیا اذان اول پر جمعہ کی سعی واجب ہے یا اذان ثانی پر؟

اس آیت میں فرمایا ہے : جب جمعہ کے دن (نماز) جمعہ کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو۔

اس آیت میں یہ الفاظ ہیں : ” فاسعوا الی ذکر اللہ “ یعنی تم اللہ کے ذکر (خطبہ) کی طرف سعی کرو۔

علامہ ابو الحسن علی بن محمد الماوردی الشافعی المتوفی ٤٠٥ ھ لکھتے ہیں :

سعی کی تفسیر میں چار قول ہیں : (١) دل سے نیت کرنا (٢) نماز جمعہ کی تیاری کرنا یعنی غسل کرنا (٣) اذان کی آواز پر لبیک کہنا (٤) بغیر بھاگے ہوئے نماز کی طرف پیدل چل کر جانا۔

اور ”ذکر الله“ کی تفسیر میں تین قول ہیں : (١) خطبہ میں امام کی نصیحت (٢) نماز کا قوت (٣) نماز۔

اور فرمایا : خریدو فروخت کو چھوڑ دو ، یعنی نماز کے وقت خریدو فروخت سے اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا، ایک قول یہ ہے کہ یہ ممانعت زوال کے وقت سے لے کر نماز سے فراغت تک ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ خطبہ کی اذان سے لے کر نماز سے فراغت تک ہے۔

امام شافعی (رح) نے کہا ہے کہ پہلی اذان بدعت ہے، اس کو حضرت عثمان (رض) نے ایجاد کیا تھا تاکہ لوگ خطبہ سننے کے لیے پہلے سے تیار ہوجائیں، کیونکہ مدینہ بہت وسیع ہوچکا تھا، اس پہلی اذان کے بعد خطبہ سے پہلے خریدو فروخت حرام نہیں ہے۔ (النکت و العیون ج ٦ ص ١٠۔٩، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

علامہ محمد بن علی بن محمد حصکفی حنفی متوفی ١٠٨٨ ھ لکھتے ہیں :

زیادہ صحیح یہ ہے کہ پہلی اذان کے ساتھ جمعہ کی طرف سعی کرنا واجب ہے، اگرچہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں نہیں تھی، حضرت عثمان (رض) کے زمانہ میں شروع ہوئی ہے۔

علامہ سید محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز شامی حنفی متوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں :

”شرح المنیۃ“ میں مذکور ہے کہ اس مسئلہ میں اختلاف ہے، ایک قول یہ ہے کہ اس اذان پر سعی واجب ہے جو منبر کے سامنے دی جاتی ہے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) کے زمانہ میں یہی اذان اول تھی، حتیٰ کہ حضرت عثمان (رض) نے اپنے زمانہ میں اذان ثانی شروع کی، جب لوگ زیادہ ہوگئے تو مقام زوراء پر یہ اذان دی جاتی تھی اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ وقت کے اعتبار سییہی اذان اول ہے جو کہ زوال کے بعد منارہ پر دی جاتی تھی۔ (الدرا المختار وردالمختار ج ٣ ص ٣٥ داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)

عید اور جمعہ دونوں ایک دن میں جمع ہوجائیں تو آیا دونوں کو پڑھنا لازم ہے یا نہیں؟

اگر ایک دن میں عید اور جمعہ دونوں جمع ہوجائیں تو دونوں نماز کو پڑھا جائے گا۔

حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عیدین میں اور جمعہ میں ” سبح اسم ربک الاعلیٰ “ اور “ ھل اتک حدیث الغاشیۃ “ پڑھا کرتے تھے اور بعض اوقات ایک دن میں عید اور جمعہ دونوں جمع ہوجاتے تو آپ دونوں میں یہ سورتیں پڑھا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٧٨ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٥٣٣ سنن نسائی رقم الحدیث : ١٤٢٣ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٢٨١)

علامہ ابن عابدین شامی حنفی متوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں :

ہمارا مذہب یہ ہے کہ عید اور جمعہ دونوں لازم ہیں  ”الہدایہ“ میں ”الجامع الصغیر“ سے منقول ہے کہ دو عیدیں ایک دن میں جمع ہوگئیں، پس عید سنت ہے اور دوسرا عید (جمعہ) فرض ہے اور دونوں میں سے کسی ایک کو بھی ترک نہیں کیا جائے گا۔ (ردا المختارج ٣ ص ٤٢ داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)

اس کے خلاف یہ حدیث ہے :

حضرت معاویہ بن ابی سفیان (رض) نے حضرت زید بن ارقم (رض) سے سوال کیا : کیا آپ اس دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر تھے جب ایک روز میں دو عیدیں جمع تھیں ؟ حضرت زید بن ارقم نے کہا : ہاں ! حضرت معاویہ نے پوچھا : پھر آپ نے کس طرح کیا ؟ حضرت زید نے کہا : آپ نے عید کی نماز پڑھائی، پھر جمعہ کی رخصت دے دی، جو چاہے جمعہ کی نماز پڑھے۔ (سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ١٠٤١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣١٠)

علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

” المغنی “ میں مذکور ہے کہ شعبی، نخعی اور اوزاعی کے نزدیک عید کے دن جمعہ کی نماز ساقط ہوجائے گی اور ایک قول یہ ہے کہ حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت سعد، حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس اور حضرت ابن الزبیر (رض) کا یہی مذہب ہے۔

اور عامۃ الفقہاء نے کہا ہے کہ آیت کے عموم اور دیگر احادیث کی بناء پر جمعہ کی نماز واجب ہے اور یہ دونوں نمازیں واجب ہیں اور ایک کے پڑھنے سے دوسری نماز ساقط نہیں ہوگی جیسے کے دن ظہر کی نماز ساقط نہیں ہوتی۔ (مغنی ابن قدامہ ج ٢ ص ٢١٢، دارالفکر بیروت) (شرح سنن ابوداؤد ج ٤ ص ٣٩٨۔٣٩٧، مکتبۃ الرشید، ریاض، ١٤٢٠ ھ)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آج کے دن دو عیدیں جمع ہوگئی ہیں پس جو شخص چاہے اسے عید کی نماز جمعہ سے کافی ہوگی اور ہم جمعہ پڑھیں گے۔

(سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٤٤٠١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣١٢)

علامہ محمود بن احمد عینی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

آپ نے جو یہ فرمایا ہے کہ جو چاہے اس کے لیے عید کی نماز جمعہ سے کافی ہوگی، یہ رخصت ابتداء میں ان لوگوں کے لیے تھی جو بالائی بستیوں سے جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے آتے تھے، پھر یہ امر مقرر ہو یا کہ عید کی نماز جمہ کی نماز سے کافی نہیں ہتی، حتیٰ کہ جس شخص نے عید کی نماز پڑھ لی اور امام کے ساتھ جمعہ پڑھنے حاضر نہیں ہوا وہ ظہر کی چار رکعات پڑھے گا۔

(شرح سنن ابو داؤد ج ٤ ص ٤٠٢ مکتبتہ الرشید، ریاض)

﴿فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾

نماز جمعہ پڑھنے کے بعد کاروبار کرنا واجب نہیں مباح ہے

اس آیت کا یہ معنی نہیں ہے کہ نماز جمعہ پڑھنے کے بعد خریدو فروخت کرنا واجب ہے، کیونکہ اس سے پہلی آیت میں نماز جمعہ کے بعد خریدو فروخت سے منع فرمایا تھا اور کسی کام کی ممانعت کے بعد جب اس کا امر کیا جائے تو وہ امر وجوب کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اباحت کے لیے ہوتا ہے، جیسے حالت احرام میں شکار کرنے سے منع فرمایا، پھر شکار کرنے کا امر فرمایا تو یہ امر وجوب کے لیے نہیں ہے، اباحت کے لیے ہے۔ قرآن مجید میں ہ؍

(المائده : ١) تمہارے لیے مویشی چوپائے حلالکئے گئے ہیں ماسوا ان کے جن کی تلاوت کی جائے گی مگر حالت احرام میں شکار کرنے والے نہ بننا۔

اس آیت میں حالت احرام میں شکار کرنے سے منع فرمایا اور دوسری آیت میں احرام کھولنے کے بعد شکار کرنے کا حکم دیا ہے۔

واذا حللتم فاصطادوا (المائدہ : ٢) اور جب تم احرام کھول دو تو شکار کرو۔

اس آیت میں بھی چونکہ شکار کرنے کا حکم ممانعت کے بعد ہے، اس لیے یہ حکم وجوب کے لیے نہیں بلکہ اجازت اور اباحت کے لیے ہے۔

اللہ کا فضل طلب کرنے کے محامل

عراک بن مالک جب جمعہ کی نماز پڑھ لیتے تو مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر یہ دعا کرتے : اے اللہ ! میں نے تیرے حکم پر عمل کیا اور تیرے فرض کو پڑھا اور تیرے حکم کے مطابق زمین میں پھیل گیا، اب تو اپنے فضل سے مجھے رزق عطا فرما اور تو سب سے بہتر رزق عطا فرمانے والا ہے۔

جعفر بن محمد نے ”وابتغوا من فضل اللہ“ کی تفسیر میں کہا : اس سے مراد ہفتہ کے دن کام کرنا ہے۔

حسن بصری اور سعید بن مسیب نے کہا : اس سے مراد علم کو طلب کرنا اور نفل نماز پڑھنا ہے۔

حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس آیت میں دنیا کو طلب کرنے کا حکم نہیں دیا، اس سے مراد بیماریوں کی عیادت کرنا ہے، جنازوں پر حاضر ہونا ہے اور مسلمان بھائیوں کی زیارت کرنا ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٨ ص ٩٧۔٩٦ دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

مقاتل نے کہا : اللہ تعالیٰ نے نماز کے بعد رزق کے طلب کرنے کو مباح کردیا ہے، جو چاہے رزق طلب کرے اور جو چاہے نہ طلب کرے۔

ضحاک نے کہا : اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت ہے وہ چاہے تو نماز کے عبد مسجد سے چلا جائے اور چاہے تو بیٹھا رہے، اور اللہ کے فضل کی طلب میں افضل یہ ہے کہ وہ رزق کو طلب کے یا نیک اولاد کو یا علم نافع کو یا دوسرے عمدہ کاموں کو۔

اور اس آیت میں یہ کثرت اللہ کا ذکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ مجاہد نے کہا، بہ کثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا تب ہوگا جب چلتے ہوئے، کھڑے ہوئے، بیٹھے ہئے، لیٹے ہوئے ہرحال میں اللہ کا ذکر کرے۔ (تفسیر کبیرج ١٠ ص ٥٤٣۔٥٤٢ داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

اتوار کی چھٹی کے حامیوں کے دلائل اور ان کے جوابات

اس آیت میں چونکہ نماز کے بعد اللہ کے فضل کو طلب کرنے کا حکم دیا ہے تو جو لوگ اتوار کے دن چھٹی کرنے کے حامی ہیں، وہ اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ اللہ کے فضل کا معنی ہے : کاروبار کرنا اور تجارت کرنا، لہٰذا اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ جمعہ کے دن چھٹی نہ کی جائے بلکہ اتوار کے دن چھٹی کی جائے اور امروجوب کے لیے آتا ہے، اس لیے جمعہ کے دن چھٹی کرنا ممنوع ہے اور کاروبار کرنا واجب ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ ہم بتا چکے ہیں کہ اس آیت سے پہلے نماز کے وقت کاروبار کرنے سے منع فرمایا تھا اور اس آیت میں نماز کے بعد کاروبار کرنے کا حکم دیا ہے اور ممانعت کے بعد جو امر ہو وہ اباحت کے لیے آتا ہے، پس اس دن کاروبار کرنا جائز ہے واجب نہیں ہے، دوسرا جواب یہ ہے کہ اللہ کے فضل کو طلب کرنے کا لازمی معنی کاروبار کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا یہ معنی بھی ہے کہ اللہ سے رزق اور علم کے حصول کی دعا کی جائے۔

اتوار کی چھٹی کے حامیوں کی دوسری دلیل یہ ہے کہ یورپی ممالک میں اتوار کی چھٹی ہوتی ہے اور ان ممالک سے تجارت کے لیے ضروری ہے کہ ہم بھی اسی دن چھٹی کریں، اگر ہم جمعہ کے دن چھٹی کریں تو وہ دن ہمارا کاروبار متاثر ہوگا، اتوار کو ان کی چھٹی کی وجہ سے اور جمعہ کو ہماری چھٹی کی وجہ سے، اس کا جواب یہ ہے کہ ان ممالک کے ساتھ جغرافیائی فرق کی وجہ سے ویسے بھی ہمارے اور ان کے اوقات کی یکسانیت نہیں ہے۔ مثلاً امریکا کا وقت ہم سے تقریباً بارہ گھنٹے پہلے ہے اور برطانیہ کا وقت پانچ گھنٹے پیچھے ہے۔ اسی طرح مشرق بعید کے ممالک کا وقت بھی ہم سے کافی مختلف ہے، اس لیے اتوار کی چھٹی کرنے پر ان ممالک کی یکسانیت سے استدلال کرنا درست نہیں ہے۔

جمعہ کی چھٹی کرنے کے دلائل

اسلام میں چھٹی کرنے کا کوئی حکم نہیں ہے، لیکن جب ہفتہ میں ایک دن چھٹی کرنی ہی تو اس دن چھٹی کرنی چاہیے جو اسلام میں مقدس دن ہے۔ عیسائی اور یہودی اپنے اپنے مقدس دنوں میں اتوار اور ہفتہ کی چھٹی کرتے ہیں، سو ہمیں اپنے مقدس دن میں چھٹی کرنی چاہیے اور وہ جمعہ کا دن ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ باقی تمام مسلمان ملکوں میں جمعہ کے دن چھٹی ہوتی ہے تو ہمیں بھی باقی مسلمان ملکوں سے موافقت کرتے ہوئے جمعہ کے دن چھٹی کرنی چاہیے۔

تیسری دلیل یہ ہے کہ اتوار کو چھٹی کرنے سے عیسائیوں کی موافقت ہوگی جب کہ ہمیں عیسائیوں کی مخالفت کرنے کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ حسب ذیل احادیث سے ظاہر ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہود اور نصاریٰ بالوں کو نہیں رنگتے سو تم ان کی مخالفت کرو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٨٩٩ سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٢٠٣ سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٢٧٢ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٦٢١ مسند احمد رقم الحدیث : ٧٣٧٢)

حضرت ابوامامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر نکلے اور انصار کے بوڑھوں کے پاس آئے، ان کی ڈاڑھیاں سفید تھیں۔ آپ نے فرمایا : اے انصار کی جماعت ! اپنی ڈاڑھیوں کو سرخ اور زرد رنگ میں رنگو اور اہل کتاب کی مخالفت کرو۔ انھوں نے کہا : ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل کتاب شلوار پہنتے ہیں اور تہبند نہیں باندھتے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : شلوار پہنو اور تہبند باندھو اور اہل کتاب کی مخلافت کرو۔ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل کتاب موزے پہنتے ہیں اور اس پر چمڑے کی جوتی نہیں پہنتے۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم موزے پہنو اور اس پر چمڑے کی جوتی پہن اور اہل کتاب کی مخالفت کرو۔ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اہل کتاب ڈاڑھیاں کاٹتے ہیں اور مونچھیں چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : تم مونچھیں تراشو اور ڈاڑھیاں چھوڑ دو اور اہل کتاب کی مخلافت کرو۔ (مسند احمد ج ٥ ص ٢٦٥۔٢٦٤ طبع قدیم، مسند احمد رقم الحدیث : ٢٢٦٣٩ طبع طبع جدید عالم الکتب، بیروت، حافظ زین نے کہا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ مسند احمد رقم الحدیث : ٢٢١٨٤ دارالحدیث، قاہرہ، حافظ الہیثمی نے کہا : امام احمد کی سند صحیح ہے۔ مجمع الزوائد ج ٥ ص ١٦٠۔١٣ المعجم الکبیرج ٨ ص ٢٨٢ رقم الحدیث : ٧٩٢٤ )

خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ کی چھٹی کرنے میں مسلمان ملکوں کی موافقت ہے اور اتوار کی چھٹی کرنے میں عیسائیوں کی موافقت ہے۔ اب ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم کس کی موافقت کریں اور ہمارا مقدس دن (Holy Day) جمعہ ہے یا اتوار ؟

﴿وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا ۚ قُلْ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ ۚ وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ﴾

الجمعہ: ١١ میں فرمایا : اور جب انھوں نے کوئی تجارتی قافلہ یا تماشا دیکھا تو اس کی طرف بھاگ گئے اور آپ کو (خطبہ میں) کھڑا چھوڑ دیا، آپ کہیے کہ اللہ کے پاس جو (اجر) ہے وہ تماشے اور تجارتی قافلہ سے بہتر ہے اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔

خطبہ جمعہ کے دوران صحابہ کے اٹھ کر چلے جانے کی توجیہ

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے، اچانک غلہ کا ایک قافلہ آگیا، پس لوگ اس قافلہ کی طرف اٹھ کر چلے گئے، تب یہ آیت نازل ہوئی : ” واذا اراواتجارۃ اولھوا انفضوا الیھا وترکول فآئماً “ (الجمعہہ : ١١) (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٩٩ صحیح مسلم رقم الحدیث: ٨٦٣ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٣١١)

” صحیح بخاری “ اور ” صحیح مسلم ‘ کی روایت میں ہے کہ بارہ صحابہ کے سوا سب چلے گئے تھے اور ” سنن دارق طنی “ میں حضرت جابر سے روایت ہے کہ چالیس صحابہ بیٹھے رہے تھے، جن میں، میں بھی تھا، (سنن دارق طنی ج ٢ ص ٤ مطبوعہ نشرالسنتہ، ملتان)

صحابہ کرام کا خطبہ چھوڑ کر جانا خطبہ جمعہ سننے کے حکم سے پہلے کا واقعہ ہے، اس وقت خطبہ نماز کے بعد دیا جاتا تھا، صحابہ کرام نماز جمعہ پڑھ کر گئے تھے اور ان کے خیال میں اس میں کوئی حرج نہیں تھا حتیٰ کہ قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی۔

اس آیت کے نزول کے بعد خطبہ سننا واجب ہوگیا، خیال رہے کہ صحابہ کرام کے تسامحات بعض اوقات قرآن مجید کی آیات کے نزول کا سبب ہوتے ہیں، بعض اوقات احکام شرعیہ کی تنفیذ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسوہ حسنہ فراہم کرنے کا سبب ہوتے ہیں، جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بعض صحابہ پر حدود و تعزیرات جاری فرمانا اور بعض اوقات ان کی تسامحات کی وجہ سے امت پر احکام شرعیہ سہل ہوجاتے ہیں، جیسے رمضان کی راتوں کا امت پر حلال ہوجانا ہم نے جو لکھا ہے کہ صحابہ کا خطبہ چھوڑ کر جانا ابتدائی واقعہ ہے، اس کی دلیل یہ حدیث ہے : امام ابوداؤد اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

مقاتل بن حیان روایت کرتے ہیں کہ (پہلے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ سے پہلے نماز جمعہ پڑھتے تھے، جس طرح عیدین کی نماز میں ہوتا ہے، ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز جمعہ کے بعد خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص نے آ کر بتایا کہ دحیہ بن خلیفہ مال تجارت لے آیا ہے، اس کے آنے پر دف بجایا جاتا تھا، سو لوگ اٹھ کر چل گئے، ان کے گمان میں خطبہ ترک کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا (اور نماز وہ پڑھ چکے تھے) تب اللہ تعالیٰ نے ( سورة جمعہ کی مذکورہ) آیت نازل کی، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ جمعہ کو مقدم کردیا اور نماز جمعہ کو خطبہ سے موخر کردیا، پھر کوئی شخص خواہ نکسیر پھوٹ جائے یا وضو ٹوٹ جائے آپ سے اجازت لیے بغیر دوران خطبہ نہیں جاتا تھا۔ ایسی صورت میں وہ انگلی سے اشارہ کر کے اجازت لیتے تھے۔ (مراسیل ابو داؤد ص ٧، مطبوعہ اصح المطابع، کراچی)

(ماخوذ از تبيان القرآن غلام رسول سعيدى)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply