سورہ تكوير ترجمہ اور تفسير
مرتب: محمد ہاشم بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ
﷽
إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ ﴿1﴾
( جس دن) سورج بےنور ہوجائے گا
وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ ﴿2﴾
اور جب ستارے ٹوٹ جائیں گے
وَإِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ ﴿3﴾
اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے
وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ ﴿4﴾
اور جب دس مہینے کی گابھن اونٹنیاں بیکار پھریں گی
وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ ﴿5﴾
اور جب وحشی جانور (مارے گھبراہٹ کے) سب جمع ہوجاویں گے۔
وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ ﴿6﴾
اور جب سمندروں کو بھڑکایا جائے گا۔
وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ ﴿7﴾
اور جب لوگوں کو جوڑ دیا جائے گا (جمع کردیا جائے گا)
وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ ﴿8﴾
اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا۔
بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ ﴿9﴾
کہ وہ کس جرم میں ماری گئی تھی؟
وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ ﴿10﴾
اور جب نامہ ہائے اعمال کھول دیے جائیں گے
وَإِذَا السَّمَاءُ كُشِطَتْ ﴿11﴾
اور جب آسمان کا چھلکا اتار دیا جائے گا۔
وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ ﴿12﴾
اور جب دوزخ بھڑکائی جائے گی۔
وَإِذَا الْجَنَّةُ أُزْلِفَتْ ﴿13﴾
اور جب جنت قریب کردی جائے گی۔
عَلِمَتْ نَفْسٌ مَا أَحْضَرَتْ ﴿14﴾
تو اس وقت ہر شخص کو اپنا سارا کیا دھرا معلوم ہوجائے گا۔
فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ ﴿15﴾
میں قسم کھاتا ہوں پیچھے ہٹنے والے (ستاروں) کی
الْجَوَارِ الْكُنَّسِ ﴿16﴾
چلتے رہنے والوں جاچھپنے والوں کی،
وَاللَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ ﴿17﴾
اور قسم ہے رات کی جب وہ جانے لگے،
وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ ﴿18﴾
اور قسم ہے صبح کی جب وہ سانس لینے لگتی ہے
إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ﴿19﴾
یقینا یہ (قرآن) ایک معزز فرشتے کی زبانی (پیغام) ہے،
ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ ﴿20﴾
جو بڑی قوت والا اور عرش والے کے نزدیک بڑے رتبے والا ہے۔
مُطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ ﴿21﴾
اس کی بات مانی جاتی ہے اور وہ امانت دار ہے۔
وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ ﴿22﴾
کہ یہ تمہارے رفیق (حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی دیوانے نہیں ہیں۔
وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ ﴿23﴾
اور بیشک انھوں نے اس (فرشتے جبرئیل) کو آسمان کے صاف کنارے پر دیکھا ہے
وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ ﴿24﴾
اور یہ (محمد) غیب (یعنی وحی) کی باتیں بتانے پر بخیل بھی نہیں ہے
وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَيْطَانٍ رَجِيمٍ ﴿25﴾
اور یہ قرآن مجید کسی شیطان مردود کا قول نہیں ہے
فَأَيْنَ تَذْهَبُونَ ﴿26﴾
پھر تم کدھر جارہے ہو؟
إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ ﴿27﴾
یہ قرآن مجید تو اقوام عالم کے لیے سراسر نصیحت ہے
لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ ﴿28﴾
خصوصا تم میں سے اس شخص کے لیے جو سیدھا چلنا چاہے
وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿29﴾
اور جب تک اللہ رب العالمین نہ چاہے تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔
سورة التکورکا تعارف
یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی اس کی انتیس آیات ہیں۔ جو ایک رکوع کا احاطہ کیے ہوئے ہیں اس کا نام اس کی پہلی آیت میں موجود ہے اس میں قیامت کے ابتدائی اور آخری مراحل کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے رات اور ستاروں کی قسم کھا کر یہ بات واضح فرمائی ہے کہ قرآن مجید کسی جن اور شیطان کا کلام نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جسے ملائکہ کے سردار اور نہایت ہی معزز فرشتہ جبرائیل امین نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پڑھتا ہے جسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روشن افق پر دیکھا ہے اس کے کلام اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں یہ ہر اس شخص کے لیے نصیحت ہے جو صراط مستقیم پر چلنا چاہتا ہے اس پر چلنے کی اسے توفیق ملتی ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کیونکہ وہی کچھ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کرنا چاہتا ہے۔
تشريح
اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ
”کُوّرت” تکویر سے ہے یعنی لپیٹا جانا، سورج کو لپیٹنے کی کیا کیفیت ہوگی؟ اس کی حقیقت تو اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ البتہ یہ بات ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں سورج بےنور ہوجائے گا۔ چونکہ لپیٹنے کو عربی میں تکویر کہا جاتا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ سورج اپنی موت کو پہنچ کر بےنور مردہ ہوجائے گا۔ جس کی وضاحت ڈاکٹر دلدار صاحب یوں کرتے ہیں۔ ” جب ستارے کا ایندھن (ہائیڈروجن) ختم ہوجاتا ہے تو وہ ٹھنڈا ہونے لگتا ہے۔ چنانچہ کشش ثقل حر کی توانائی پر غالب آجاتی ہے۔ اور ستارہ سکڑنے لگتا ہے اور بالآخر موت سے ہمکنار ہوجاتا ہے۔ ستاروں کی موت مندرجہ ذیل تین حالتوں میں سے کسی ایک حالت کی طرف لے جاتی ہے۔
1 ۔ سفید بونا White Dwosf
2 ۔ نیوٹران ستارہ Neutron Star
3 ۔ سیاہ سوراخ Black Hole
کم کمیت کے ستارے سفید بونے کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ ایک سفید بونا تقریباً زمین کی جسامت کے برابر بجھا ہوا ستارہ ہوتا ہے۔ جس میں کوئی قابل استعمال ایندھن موجود نہیں ہوتا۔ خیال ہے کہ سورج کا خاتمہ بھی سفید بونے پر ہوگا۔ زیادہ تر ستارے اس انجام کو پہنچتے ہیں۔
سورج کی تخلیق اور انجام
کوئی پانچ ارب سال قبل سورج گیس اور گرد کے بادل سے بنا۔ آج سے پانچ ارب سال بعد سورج پھیل کر بہت بڑی شکل اختیار کرے گا اسے Red giant کہا جاتا ہے۔ ممکن ہے یہ اس وقت زمین تک پہنچ جائے۔ اس کے دو ارب سال بعد سورج دوبارہ سکڑنے لگے گا۔ اور سفید بونے کی شکل اختیار کرلے گا۔ اور کوئی پچاس ارب سال بعد یہ ٹھنڈا ہو کر ختم ہوجائے گا۔ بہرحال قرآن دعویٰ کرتا ہے کہ کائنات ‘ کہکشاؤں اور ستاروں كو ہمیشہ نہیں رہنا ہے اور بالآخر انھیں بھى موت سے دوچار ہونا ہے۔ جدید علم کائنات اس دعوے کی مکمل تائید کرتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم مستقبل میں واقع ہونے والے کسی عظیم حادثہ کی خبر دے رہا ہے جو موجودہ کائناتی نظام کو درہم برہم کر دے گا ”۔ (از کائنات قرآن اور سائنس)
وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ
العِشار سے دس مہینوں کے گابھن اونٹنیاں مراد ہیں ‘ یعنی ایسی اونٹنیاں جن کے وضع حمل کا وقت بہت قریب ہو۔ عربوں کے ہاں ایسی اونٹنی بہت قیمتی سمجھی جاتی تھی اور اس لحاظ سے وہ لوگ اس کی خصوصی حفاظت اور خدمت کرتے تھے ۔ آیت میں اس حوالے سے قیامت کی ہول ناک کیفیت کی تصویر دکھائی گئی ہے کہ جب قیامت برپا ہوگی تو بہت قیمتی اونٹنیاں بھی لاوارث ہوجائیں گی ‘ انھیں کوئی سنبھالنے والا نہیں ہوگا۔ ظاہر ہے اس وقت جبکہ خود عورتوں کو اپنے حمل کی کوئی فکر نہیں ہوگی تو اونٹنیوں کی کسے ہوش ہوگی۔
وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ
اس کی وضاحت سائنس کی زبان میں کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ جب زمین و آسمان کا پورا نظام الٹ پلٹ ہوجائے گا تو سمندروں کی تہہ میں موجود آتش فشاں بھی پھٹ جائیں گے اور ان کا سرخ شدید گرم لاوہ سمندروں کی سطح کو آگ سے سرخ کردے گا۔ ایک دوسرا ممکنہ ذریعہ اس آگ کا زیر زمین ہائیڈروکاربن کا وہ ذخیرہ ہے جو سمندروں کے اندر سے پھوٹ کر نکلیں گے اور ساتھ ہی زیر زمین یعنی سمندروں کی تہہ سے تہہ کے پھٹ جانے پر مختلف گیسیں اور پٹرول وغیرہ نکل کر سطح سمندر پر پھیل کر آگ پکڑ لیں گے اور تمام سمندر آگ کے سمندر بن جائـیں گے۔ یہ ایک بہت بڑی غیب کی خبر ہے جو قرآن میں چند الفاظ میں بتا دی گئی ہے۔ اب انسان چاہے تو اس پوشیدہ خزانے کو قیامت سے پہلے حاصل کرے اور اپنی عام زندگی کی ضروریات میں اس سے فائدہ اٹھالے۔ بہرحال یہ تمام حالات جن کا ذکر قرآن پاک میں قیامت کے حوالے سے کیا ہے نہ صرف سچ ہے بلکہ انسانی علم میں اضافہ کا باعث بھی ہیں اور یہ علم ہمیں قرآن کی سچائی کی طرف لے جانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے اور پھر یہ سچائی ہمیں آخرت کا یقین اور بھی زیادہ دلاتی ہے اور ہمارے اندر خوف خدا کو مضبوط کرتی ہے۔ جو ہمیں دنیا بھر کی خباثتوں سے بچاتا ہے۔
وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ
یہاں ايك بڑے خاص نکتہ کی وضاحت کردینا ضروری ہے کہ اسلام نے عورت کو ایک بڑا مقام دیا ہے جس کی وجہ سے عربوں کی اس جہالت کی رسم کو بالکل ختم کردیا گیا ہے کہ وہ لڑکی کی پیدائش کو اس قدر منحوس سمجھتے تھے کہ پیدا ہوتے ہی اس کو زندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے یا کسی بھی طرح مار دیتے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لڑکی کی عزت افزائی اور اس غلط رسم کی مذمت ان الفاظ میں کی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” جس مسلمان کے ہاں دو بیٹیاں ہوں اور وہ ان کو اچھی طرح رکھے وہ اسے جنت میں پہنچائیں گی ”۔ (بخاری،الادب المفرد)
وَاِذَا السَّمَاۗءُ كُشِطَتْ
”کشط” کے اصل معنی کسی چیز کے اوپر سے اس چیز کے اتار لینے کے ہیں جو اس کو ڈھانکے ہوئے ہو۔ یہیں سے یہ ذبیحہ کی کھال اتار لینے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ اونٹ کی کھال کھینچ لینے کے لیے یہ عربی میں معروف لفظ ہے اور یہ امر بالکل ظاہر ہے کہ ذبیحہ کی کھال اتار لینے کے بعد اس کا گوشت سرخ سرخ نظر آنے لگتا ہے۔ گویا یہ آسمان کے سرخ ہوجانے کی تعبیر ہے۔ سورة رحمٰن میں ” فکانت وردۃ کالدھان (٣٧) کے الفاظ آئے ہیں اور یہاں آگے کی آیت میں جہنم کے بھڑکائے جانے کا ذکر ہے جو نہایت واضح قرینہ اس بات کا ہے کہ آسمان کی یہ سرخی جہنم کے بھڑکائے جانے کے سبب سے ہوگی۔
فَلَآ اُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ، الْجَوَارِ الْكُنَّسِ
ان دونوں آيتوںمیں آسمانی فزکس Astrophysics کے بنیادی اصول بیان کئے گئے ہیں۔ ”خنس” یعنی چھپنے والے تارے۔ اور ”کنس ”یعنی ایک مخصوص راستہ کا محور کسی چلتی ہوئی چیز میں دبک جانے والا۔ ڈاکٹر ہلوک نور باقی صاحب اس کی وضاحت بڑے خوبصورت انداز میں کرتے ہیں لکھتے ہیں: ” اللہ قسم کھاتا ہے ان تمام طبیعاتی قوانین کی جو ساری کائنات کی وسعتوں میں کار فرما ہیں۔ جس کی طرف اشارہ ان دو آیات مبارکہ میں کیا گیا ہے ہر مخلوق ایک خنس اور ایک کنس کی حالت میں ہے۔ ایک خوش اسلوب اور ہم آہنگ روانی یا بہنا ہے جب کہ دوسرا ہٹتے ہوئے پردہ کرنے کی طرح ہے جیسے موت کی وادی میں چلے جانا۔ طبیعیات کی رو سے ہم انھیں رفتار یا حرکت اور مخفی ٹھہراؤ یا وقفہ کہہ سکتے ہیں۔ اور درحقیقت اجرام فلکی کی سائنس کے بالکل نئے نظریات اس بنیادی نظریہ کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہاں ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اعلان کیا ہے کہ ” انسانوں ! حیات بعد الموت کو سمجھنے کے لیے اشد ضروری ہے کہ تم پیچھے ہٹ کر غائب ہونے والی اور رواں دواں ظاہری حرکت پذیر کائناتوں کا مطالعہ کرو ”۔
یہ اعلان کرتے ہوئے اللہ شروع ہی قسم سے کرتا ہے تاکہ کائنات کی پیدائش کے عظیم راز کا انسان کو احساس ہوجائے۔ اس طرح چودہ سو برس (آغاز اسلام میں یعنی ساتویں صدی عیسوی) قبل آغاز کائنات کا علم اور فزکس کا حیران کن راز ہمارے ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے۔ جس طرح قوت ثقل ایک توانائی کی حیثیت میں ستاروں اور ایٹموں میں موجود ہے اسی طرح ” خنس ” اور ” کنس ” کے راز بھی تمام مادی نظاموں میں موجود ہیں۔ اسی طرح رات کی قسم اور دن کی قسم کھائی گئی ہے۔ وہ رات جو پوری طرح اندھیرے میں ڈوب گئی ہو۔ اور وہ صبح جو مکمل طور پر چمک کر دنیا میں چھا گئی ہو۔ تو یہ تمام قسمیں اللہ تعالیٰ نے کس بات کی یقین دہانی کے لیے کھائی ہیں ؟ اس لیے کھائی ہیں کہ یہ قرآن پاک اور اس میں بیان کی گئی تمام باتیں ‘ اصول ‘ قانون ‘ راز ‘ ماضی ‘ حال ‘ مستقبل چاہے ان کا تعلق انسان کی ذات سے ہو یا کائنات سے ہو۔ سب بالکل سچ ہیں۔
وَمَا هُوَ عَلَي الْغَيْبِ بِضَنِيْنٍ
یعنی حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی کے ذریعے غیب کی جو باتیں معلوم ہوتی ہیں، وہ انھیں لوگوں سے چھپاتے نہیں ہیں، بلکہ سب کے سامنے ظاہر فرما دیتے ہیں، جاہلیت کے زمانے میں جو لوگ کاہن کہلاتے تھے، وہ بھی غیب کی باتیں بتانے کا دعوی کرتے تھے، اور شیطانوں سے دوستی کرکے ان سے کچھ جھوٹی سچی باتیں سن لیا کرتے تھے، لیکن جب لوگ ان سے پوچھتے تو وہ انھیں فیس لیے بغیر کچھ بتانے سے انکار کرتے تھے، اللہ تعالیٰ کافروں سے فرما رہے ہیں کہ تم آنخضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کاہن کہتے ہو، حالانکہ کاہن تو تمہیں جھوٹی باتیں بتانے میں بھی بڑے بخل سے کام لیتے ہیں، اور پیسے لیے بغیر کچھ نہیں بتاتے، لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غیب کی جو سچی باتیں معلوم ہوتی ہیں وہ بتانے میں بھی نہ بخل سے کام لیتے ہیں، اور نہ اس پر کوئی معاوضہ مانگتے ہیں۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.