سورہ زلزال ترجمہ اور مختصر تشريح
مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ يوپى ، انڈيا۔
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا ﴿1﴾
جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی،
وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا ﴿2﴾
اور زمین اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی۔
وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَا لَهَا ﴿3﴾
اور اس حالت کو دیکھ کر کافر آدمی کہے گا اس کو کیا ہوا۔
يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا ﴿4﴾
اس روز زمین اپنی (سب) خبریں بیان کر گزرے گی۔
بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَىٰ لَهَا ﴿5﴾
یہ اس لیے کہ آپ کے پروردگار کا حکم اسے یہی ہوگا۔
يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِيُرَوْا أَعْمَالَهُمْ ﴿6﴾
اس روز لوگ گروہ گروہ واپس ہورہے ہوں گے کہ اپنے اعمال کو دیکھیں۔
فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ﴿7﴾
پھر جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔
وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ﴿8﴾
اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔
مختصر تشريح
﴿إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا﴾: یہاں زلزلہ سے مراد نفخہ ثانیہ ہے اور اس زلزلہ سے پہاڑ وغیرہ سب گر کر زمین کے برابر ہوجائیں گے تاکہ میدان بالکل صاف اور ہموار ہوجائے۔
بعض مفسرین نے بیان کیا ہے کہ: عرب کے کسی فصیح وبلیغ شاعر نے یہ فقرہ بنایا تھا: إذا زلزلت الأرض زلزالاً تو جب یہ آیت نازل ہوئی اور لفظ زلزالاً کے بجائے زلزالھا ہوا تو وہ اس کو سن کر وجد میں آگیا کیونکہ زلزالا محض مصدر زلزلہ کی عظمت وہیبت بیان کرنے سے قاصر تھا قرآن نے جب اس کو مصدر إضافة إلی الأرض کی صورت میں بیان کیا تو معنوی عظمت و بلندی کی حد نہ رہی اور بےساختہ بول اٹھا میں اس کلام کی فصاحت پر ایمان لایا۔ ( حاشیہ معارف القرآن ص ٥١٨ ج ٨)حضرت مولانا مالک کاندھلوی رحمہ الله۔
﴿ وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا﴾: زمین اس کے دفینے اور گڑھے ہوئے مردے اور جو کوئی چیز اس کی تہوں میں دبی ہوئی ہے اس ہیبت ناک زلزلہ سے سب کچھ باہر آجائے گا ۔اب اس زمین سے سارے خزائن اگل پڑیں گے ، ترمذی وغیرہ میں اس کی تفسیر میں حدیث مرفوع آئی ہے کہ جس شخص نے روئے زمین پر جیسا عمل کیا ہوگا بھلا یا براز میں سب کہہ دے گی بطور شہادت عنداللہ۔
﴿فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ﴾: آیت میں خیر سے مراد وہ خیر ہے جو شرعاً معتبر ہے، يعنی جو ایمان کے ساتھ ہو بغیر ایمان کے اللہ کے نزدیک کوئی نیک عمل نیک نہیں، یعنی آخرت میں ایسے نیک عمل کا جو حالت کفر میں کیا ہے کوئی اعتبار نہیں ہوگا کہ دنیا میں اس کو اس کا بدلہ دے دیا جائے اسی لیے اس آیت سے اس پر استدلال کیا گیا ہے کہ جس شخص کے دل میں ایک ذرہ برابر ایمان ہوگا وہ بالاخر جہنم سے نکال لیا جاوے گا کیونکہ اس آیت کے وعدہ کے مطابق اس کو اپنی نیکی کا پھل بھی آخرت میں ملنا ضرور ہے اور کوئی بھی نیکی نہ ہو تو خود ایمان بہت بڑی نیکی ہے۔ اس لیے کوئی مومن کتنا ہی گناہ گار ہو ہمیشہ جہنم میں نہ رہے گا البتہ کافر نے اگر دنیا میں کچھ نیک عمل بھی کئے تو شرط عمل یعنی ایمان کے نہ ہونے کی وجہ سے کالعدم ہیں اس لیے آخرت میں اس کی کوئی خیر خیر ہی نہیں۔
﴿وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ﴾: اس سے مراد وہ شر ہے جس سے اپنی زندگی میں توبہ نہ کرلی ہو کیونکہ توبہ سے گناہوں کا معاف ہونا قرآن و سنت میں یقینی طور پر ثابت ہے۔ البتہ جس گناہ سے توبہ نہ کی ہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا آخرت میں اس کا نتیجہ ضرور سامنے آئے گا۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت صدیقہ عائشہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ: دیکھو ایسے گناہوں سے بچنے کا پورا اہتمام کرو جن کو چھوٹا یا حقیر سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر بھی مواخذہ ہوگا۔ (رواہ النسائی وابن ماجہ عنہا)
حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ یہ آیت قرآن کی سب سے زیادہ مسحتکم اور جامع آیت ہے اور حضرت انس کی ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کو الفاذة الجامعہ فرمایا ہے، یعنی منفرد یکتا اور جامع
اور حضرت انس اور ابن عباس کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورة اذا زلزت کو نصف القرآن اور قل هو اللہ أحد کو ثلث القرآن اور قل یا أیھا الکفرون کو ربع القرآن فرمایا ہے (رواہ الترمذی و البغوی، مظہری)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.