برتھ کنٹرول اور اسقاط حمل

برتھ کنٹرول اور اسقاط حمل كى شرعى حيثيت

برتھ کنٹرول اور اسقاط حمل كى شرعى حيثيت

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی، انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو۔

فیملی پلاننگ کی رائج شکلیں مجموعی اعتبار سے تین طرح کی ہیں :

1- عارضی طریقے.

2- مستقل طریقے.

3- اسقاط حمل۔

1- عارضی طریقے

یعنی ایسی کوئی تدبیر اختیار کرنا کہ قوت تولید باقی رہے لیکن حمل نہ ٹھہرے اس وقت اس کے لیے درج ذیل طریقے اختیار کیے جاتے ہیں:

1- کنڈوم

2- لوپ اور کوائل

3- مانع حمل دوائیں

4- پانی کی پچکاری سے دھونا

عارضی طریقے ہی کی ایک صورت عزل ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جماع کے وقت منی نکلنے سے پہلے ہی عورت سے علیحدہ ہو جائے۔

احادیث میں عزل سے متعلق تفصیلی تذکرہ ملتا ہے مگر بظاہر ان میں ایک گونہ اختلاف محسوس ہوتا ہے۔ کچھ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عزل جائز ہے، جبکہ بعض دوسری حدیثوں سے نادرستگی اور ناپسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے۔

دونوں طرح کی حدیثوں میں موافقت پیدا کرتے ہوئے علماء نے لکھا ہے کہ عزل کرنا جائز ہے البتہ اس طریقے کار کو پسند نہیں کیا گیا ہے اور اس عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ہے؛ کیونکہ اس میں ایک طرح سے تقدیر سے فرار ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک حدیث میں کہا گیا ہے :

«لَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَفْعَلُوا، فَإِنَّمَا هُوَ الْقَدَرُ» (صحيح مسلم: 1438)

عزل کی طرح دیگر عارضی طریقوں کا بھی حکم ہے چنانچہ فقہاء نے عزل پر قیاس کرتے ہوئے لکھا ہے:

عورت کے لئے جائز ہے کہ مرد کے پانی کو بچہ دانی تک پہونچنے سے روکنے کیلئے اس کے منہ کہ بند کردے۔

(يجوز للمرأة أن تسد فم الرحم من وصول ماء الرجل إليه لأجل منع الحمل واشترط صاحب البحر لذلك إذن الزوج. (رد المحتار 412/2)

امام ابن تیمیہ سے دریافت کیا گیا کہ کیا جماع کے وقت عورت کے لیے دوا رکھنا جائز ہے تاکہ منی بچے دانی تک نہ پہنچ سکے؟نیز اگر دوا اندر ہی رہ جائے تو کیا غسل کے بعد اسی حالت میں نماز اور روزہ درست ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ دوا کی موجودگی میں بھی نماز اور روزہ درست ہے البتہ دوا رکھنے کے سلسلے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے احتیاط اسی میں ہے کہ ایسا نہ کرے. (فتاوی ابن تیمیہ: 272/32)

لہذا کسی عذر کی وجہ سے عارضی طریقوں کو اختیار کرنا درست ہے لیکن اسے ایک عام طرز عمل اور قومی پالیسی بنا لینا اسلامی احکام کے قطعا خلاف ہے۔

چونکہ یہ ایک انفرادی معاملہ ہے اس اعتبار سے عذر بھی مختلف ہو سکتے ہیں تا ہم عام طور سے جو عذر پیش  آسکتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:

1- حمل کی وجہ سے ماں کی زندگی خطرے میں ہو،کسی شدید بیماری کا اندیشہ ہو یا اس کے اندر زچگی کی برداشت کرنے کی صلاحیت نہ ہو۔

2- حمل کی وجہ سے دودھ پیتے بچے کی صحت پر خراب اثر پڑنے کا احتمال ہو۔

3- بچوں کی تربیت اور نگرانی کا مناسب انتظام مشکل ہو جس کی وجہ سے ان کے بگڑ جانے اور خراب ہو جانے کا امکان ہو۔

معاشی پریشانی کے خوف سے عارضی طریقوں کے استعمال کی بھی اجازت نہیں ہے؛ کیونکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ رازق ہے وہ افزائش نسل کے ساتھ وسائل معاش میں بھی اضافہ کرتا ہے نیز محض حسن و جمال برقرار رکھنے کے لیے بھی فیملی پلاننگ نادرست ہے کہ زیبائش و آرائش کا یہ مبالغہ آمیز تصور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔

2- مستقل طریقے

مرد و عورت کے اعضائے تناسل میں ایسی کوئی تبدیلی کر دی جائے کہ ہمیشہ کے لیے پیدائش کا سلسلہ بند ہو جائے اس کے زمرے میں درج ذیل طریقے اتے ہیں:

1- نسبندی.

2- گرہ بندی.

3- اخراج رحم.

قدیم زمانے میں اس مقصد کے تحت لوگ خصی ہو جاتے تھے روایتوں میں آتا ہے کہ بعض صحابہ کرام نے گوشہ نشینی اور عبادت میں کامل یکسوئی کے مقصد سے خصی ہو جانے کی اجازت چاہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شدت کے ساتھ ایسا کرنےسے منع فرما دیا۔ (صحیح بخاری : 759/2)

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے شکایت کی کہ میں کنوارا ہوں اور بیوی کے خرچ کا بار نہیں اٹھا سکتا کیا مجھے خصی ہو جانے کی اجازت ہے؟ تو انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو خصی بنے یا بنائے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (فتح الباری 149/9)

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نسبندی یا اس جیسے منع حمل کے وہ طریقے جو ہمیشہ کے لیے تولید کی قوت کو ضائع کر دیتے ہیں ایک غیر اسلامی طرز عمل ہے اور اس کے ناجائز اور حرام ہونے پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔

3- اسقاط حمل :

اسقاط کی دو صورت ہے: روح پڑ جانے سے پہلے حمل کو ضائع کرنا یا روح پڑ جانے کے بعد حمل کو ساقط کرنا۔

1-  نفخ روح سے پہلے اسقاط حمل:

نطفہ جب تک بار آور نہ ہو اس کی کوئی حیثیت نہیں، لیکن رحم مادر میں پڑ جانے کے بعد زندگی کی ابتدا ہو جاتی ہے اس لیے اس پر ایک طرح سے زندگی کے احکام جاری ہو جاتے ہیں لہذا اسے ضائع کرنے کی کوشش ناجائز اور نا درست ہوگی چنانچہ علامہ سرخسی لکھتے ہیں:

عورت کے رحم میں منی جا کر جب تک کہ فاسد نہ ہو اس وقت تک وہ زندگی قبول کرنے کا اہل ہوتا ہے لہذا اس کو ضائع کرنے کا تاوان ایک زندہ شخص کے تاوان کی طرح ہے جیسا کہ کوئی شخص احرام کی حالت میں کسی شکار کا انڈا توڑ دے تو اس پر بھی وہی تاوان ہے جو ایک شکار کو مار ڈالنے کا ہے۔ ( المبسوط87/26)

اس لیے نطفہ جب رحم میں قرار پا جائے تو اسے ضائع کرنے کی کوشش ناروا ہے لیکن یہ حکم عمومی حالت میں ہے کسی شرعی مجبوری اور ضرورت کی وجہ سے ضائع کرانے کی گنجائش ہوگی مثلا ماں کے اندر زچگی برداشت کرنے کی صلاحیت نہ ہو یا اس کی جان کا خدشہ ہو یا شدید بیماری میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہو، جنین کسی خطرناک مرض میں مبتلا ہو یا اس درجہ ناقص الخلقت ہو کہ متعلقین کے لیے بوجھ بن جائے ان تمام صورتوں میں روح پھونکنے سے پہلے اسقاط کی گنجائش ہوگی چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں:

قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على علة العذر. (رد المحتار 380/2)

2- نفخ روح کے بعد اسقاط

{ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ} [المؤمنون: 14]

قرآن میں ہے کہ نطفہ قرار پائے جانے کے بعد سات مرحلوں سے گزر کر ایک زندہ انسان کا وجود ہو جاتا ہے۔ (المومنون: 14)

اور حدیث میں ہے کہ ان مراحل کی تکمیل 120 دن میں ہو جاتی ہے (صحیح بخاری و مسلم)

بار آوری کے بعد جب اتنے دن گزر جائیں تو جنین میں روح ڈال دی جاتی ہے اور روح پڑ جانے کے بعد جنین اور زندہ انسان میں کوئی فرق نہیں، لہذا اسے ساقط کرانا نہایت ہی قبیح جرم ہے اس کے ناجائز اور حرام ہونے پر خود قران ناطق ہے چنانچہ فرمان باری ہے:

{وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا } [الإسراء: 31]

اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو۔  ہم انہیں بھی رزق دیں گے، اور تمہیں بھی۔ یقین جانو کہ ان کو قتل کرنا بڑی بھاری غلطی ہے۔(سورہ بنی اسرائیل:31)

جاہلیت کے زمانے میں ایک نہایت ہی گھناونی رسم تھی کہ معاشرے اور سوسائٹی میں بدنامی کے خوف سے نیز ناداری اور افلاس کے اندیشے سے بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ حمل ساقط کرنا بھی جاہلیت کے اس طریقے کی نقل ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

اسقاط حمل کے حرام ہونے پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور یہ زندہ دفن کر دینے کی ایک شکل ہے جس کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ جب دفن کر دینے والی بچیوں سے پوچھا جائے گا کہ تمہیں کس جرم کی پاداش میں قتل کیا گیا ( فتاوی ابن تیمیہ 217/4)

روح پڑ جانے کے بعد گرچہ جنین ناقص الخلقت اور متعدی امراض کا حامل ہو پھر بھی اسقاط کی گنجائش نہیں مگر یہ کہ یقینی طور سے معلوم ہو جائے کہ حمل کی وجہ سے ماں کی زندگی کو خطرہ ہے اسقاط کے بغیر اس کا بچایا جانا ممکن نہیں ہے تو ایسی صورت میں اسقاط کی اجازت ہوگی کیونکہ شریعت کا اصول ہے کہ دو ضرر رساں چیزوں میں سے اسے اختیار کیا جائے گا جس کا ضرر کم ہو کیونکہ ماں کی زندگی مستقل اور اصل ہے نیز اس پر خاندان کی اساس ہے اس لیے بچہ کی بنسبت اس کی ہلاکت میں زیادہ ضرر ہے لہذا اسے بچانے کی خاطر بچے کی زندگی قربان کی جا سکتی ہے۔

(تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب فقہی مقالات/281)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply