(سلسلہ نمبر: 391)
جلے ہوئے جانور کی قربانی
سوال: قربانی کا ایک بکرا ہے، جو تین مہینہ پہلے آگ سے کچھ جل گیا تھا، علاج معالجہ کے بعد صحیح ہوگیا ہے؛ لیکن جلنے کے نشان ابھی باقی ہیں، کیا اس بکرے کی قربانی ہوسکتی ہے؟ جواب مرحمت فرماکر شکریہ کا موقع فراہم کریں۔
المستفتی: عبد الرب گورکھپوری، خادم مرسی ناصر العلوم، ڈوہریا بازار، گورکھپور۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:
صورت مسئولہ میں اگر جلنے کا نشان اتنا زیادہ نہ ہو کہ دیکھنے میں خراب معلوم ہو، نیز اس کی وجہ سے قیمت میں فرق نہ پڑا ہو تو اس بکرے کے قربانی درست ہے۔
حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی قدس سرہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ “صریح جزئیہ تو ملا نہیں مگر دو جزیئے اور ملے ان سے ان کی قربانی کا بھی جواز معلوم ہوتاہے۔
الدلائل
في العالمگیریۃ: وکذا (أی تجزی) المجزوزۃ، وھي التي جز صوفھا، کذا في فتاوی قاضیخان، وفیھا: تناثر شعر الأضحیۃ في غیر وقتہ یجوز إذاکا ن لھا نقی، أی مخ کذا في القنیۃ۔ 2/ 4). (امداد الفتاوی: 8/ 343).
ومن المشايخ من يذكر في هذا الفصل أصلا، ويقول: كل عيب يزيل المنفعة على الكمال، أو الجمال على الكمال يمنع الأضحية، وما لا يكون بهذه الصفة لا يمنع. (المحيط البرهاني: 6/ 93).
ثم الأصل أن العيب الفاحش مانع لقوله تعالى: ﴿وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ﴾ [البقرة: 267]واليسير من العيب غير مانع لأن الحيوان قلما ينجو من العيب اليسير، فاليسير ما لا أثر له في لحمها. (المبسوط للسرخسي: 12/ 26).
والله أعلم
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.
16- 11- 1441ھ 8- 7- 2020م الأربعاء.
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.