زندگی میں جائداد کی تقسیم
سوال: مکرمی مفتی صاحب! ایک آدمی کو پہلی بیوی سےاولاد تھی، پہلی بیوی کےانتقال کےبعد انھوں نےدوسری شادی کی، اور پہلی بیوی کےبچوں سے باپ نے یہ کہہ دیا کہ میں اب (دوسری شادی کے بعد) جو کماؤں گا یا بناؤں گا وہ دوسری بیوی سے ہونے والی اولاد کا ہوگا، اور پہلی پراپرٹی وکارخانہ سب پہلی اولاد کا ہوگا۔
سوال یہ ہےکہ کیا:
1 – اس طرح کی تقسیم اورتفریق درست ہے؟
2 – کیا پہلی بیوی کی اولاد کے وقت جو مال وجائداد تھی اس میں دوسری بیوی کی اولاد کاحصہ بنےگا؟
3 – اور کیا دوسری بیوی کی اولاد کےوقت جو نئی جائداد بنی ہےاس میں پہلی بیوی کی اولاد کا حصہ بنے گا؟
4 – دوسری بیوی باحیات ہے اسے کیا ملےگا؟
5 – کیا اسے پہلی بیوی کے وقت موجود جائداد میں بھی حصہ ملے گا؟
امید کہ تشفی بخش جواب سے ممنون فرمائیں گے.
المستفتی: ابوحنظلہ شیرواں
الجواب باسم الملهم للصدق والصواب:
اگر والد اپنی زندگی میں اولاد کے درمیان مال تقسیم کرنا چاہے تو بہتر یہ ہے کہ تمام اولاد کو برابر حصہ دے خواہ وہ ایک بیوی کی اولاد ہوں یا الگ الگ بیویوں کی، اور بیٹے بیٹیوں کو برابر حصہ دے، بہتر یہی ہے لیکن اگر بیٹوں کو بیٹیوں کا دو گنا دینا چاہے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
اب صورت مسئولہ کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ شخص کو دونوں بیویوں کی اولاد میں تفریق نہیں کرنی چاہئے تھی؛ لیکن اگر پہلی بیوی کی اولاد اس شخص کی زندگی ہی میں کارخانے وغیرہ پر قبضہ کرلیا تھا اور دوسری بیوی کی اولاد نے بعد کی جائداد پر اپنے والد کی زندگی ہی میں قبضہ کرلیا تھا تو اب یہ مذکورہ جائداد ان لوگوں کی ملکیت ہوگئی اور یہ وراثت میں تقسیم نہیں ہوگی اور نہ ہی ان چیزوں میں سے ایک دوسرے اور دوسری بیوی کو کچھ ملے گا۔
لیکن اگر والد نے صرف زبان سے کہا تھا اور کسی نے کارخانے وغیرہ پر قبضہ نہیں کیا تھا تو تمام جائداد ترکہ میں شمار ہوگی اور شرعی ضابطہ کے مطابق دونوں بیویوں کی اولاد اور آخری بیوی کے درمیان تقسیم ہوگی، ایسی صورت میں دوسری بیوی کو پہلی بیوی کے وقت کی جائداد سے لیکر اب تک کی تمام موجودہ جائداد کا آٹھواں حصہ ملے گا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
الدلائل
قال الله تعالى: ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ﴾ (سورة النساء : 11).
وقال تعالى : ﴿وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ. ﴾(سورة النساء :12).
عن النعمان بن بشیر رضي اللّٰه عنه وهو علی المنبر یقول: أعطاني أبي عطیة، فقالت عمرة بنت رواحة: لا أرضی حتی تشهد رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم، فأتی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم، فقال: إني أعطیت ابني من عمرة بنت رواحة عطیة، فأمرتني أن أشهدک یا رسول اللّٰه! قال: أعطیت سائر ولدک مثل هٰذا؟ قال: لا، قال: فاتقوا اللّٰه واعدلوا بین أولادکم۔ قال: فرجع، فردّ عطیته. (صحیح البخاري / باب الإشهاد في الهبة 1/ 352 رقم: 2515).
ولو وهب رجل شیئًا لأولاده في الصحة، وأراد تفضیل البعض في ذٰلک علی البعض۔ روی المعلی عن أبي یوسف أنه لا بأس به إذا لم یقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سویٰ بینهم یعطي للإبنة مثل ما یعطي للإبن، والفتویٰ علی قول أبي یوسف رحمه الله. (فتاویٰ خانیة 3/279)
وأما إذا أراد الرجل أن یقسم أملاکه فیما بین أولاده في حیاته، لئلا یقع بینهم نزاع بعد موته؛ فإنه وإن کان هبة في الاصطلاح الفقهي، ولکنه في الحقیقة، والمقصود استعجال لما یکون بعد الموت، وحینئذ ینبغي أن یکون سبیله سبیل المیراث. (تکملة فتح الملهم/ کتاب الهبة 2/75 مکتبة دارالعلوم کراچی)
ولو وھب رجل لأولادهٖ في الصحة سوّی بینھم ھو المختار. (الفتاویٰ الهندیة 4/391 زکریا)
وفي الخلاصة: المختار التسویة بین الذکر والأنثیٰ في الهبة، ولو کان ولده فاسقًا. (البحر الرائق/ کتاب الهبة 7/288 کراچی، 7/ 490 زکریا)
وذهب الجمهور إلیٰ أن التسویة مستحبة، فإن فضل بعضًا صح وکره. (فتح الباري 5/ 215 دار الفکر بیروت).
والله أعلم
تاريخ الرقم: 25- 11- 1439 ه 8-8-2018م الأربعاء.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.