farzi talaq

فرضی طلاق كى شرعى حيثيت

فرضی طلاق كى شرعى حيثيت

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی، انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو۔

بہت سے ملکوں میں ایک سے زائد شادی ممنوع ہے اور اس قانونی پابندی سے بچنے کے لیے بعض لوگ اپنی ایک بیوی کو ظاہری طور پر طلاق دے دیتے ہیں اور حقیقتاً طلاق دینے کا قصد و ارادہ نہیں ہوتا ہے اس طرح کی طلاق کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:

1- شوہر یا اس کا وکیل زبان سے طلاق کے الفاظ کہے۔ اس صورت میں بہ اتفاق طلاق واقع ہو جائے گی؛ کیونکہ  طلاق کے صریح الفاظ کے لئے  نیت اور قصد و ارادے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ اس طرح کی طلاق قصد و ارادے کے بغیر بھی واقع ہو جاتی ہے چنانچہ حدیث میں ہے: ثلاث جدهن جد وهزلهن جد النكاح والطلاق والرجعة. (سنن الترمذي: 1184)

تین چیزوں کی حقیقت تو حقیقت ہے ہی مذاق بھی حقیقت ہے: نکاح ،طلاق اور رجعت۔

2-  شوہر یا اس کا نائب طلاق لکھ کر دے اور زبان سے طلاق کے الفاظ نہ کہے لیکن دل میں ارادہ ہے کہ وہ صرف صورتا طلاق لکھ کے دے رہا ہے حقیقتاً طلاق دینا مقصود نہیں ہے۔

ایسی حالت میں نیت کے بغیر قضاء طلاق واقع ہو جائے گی بشرطیکہ اسے طلاق نامہ کی شکل میں لکھا جائے الا یہ کہ وہ اس پر دو گواہ بنا لے کہ وہ صرف صورتا طلاق نامہ لکھ رہا ہے تو قضاء بھی طلاق واقع نہیں ہوگی. اور اگر گواہ نہ بنائے تو دیانتا طلاق واقع نہیں ہوگی۔[1]

امام مالک، شافعی اور احمد کے نزدیک بلا قصد و ارادہ طلاق لکھنے کی صورت میں کسی تفصیل کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوگی۔ (المغنی 504/10)


حاشيہ

[1]  ولا يحتاج إلى النية في المستبين المرسوم ولا يصدق في القضاء أنه عنى تجربة الخط “بحر” ومفهومه أنه يصدق ديانة في المرسوم (ردالمحتار: 442/4)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply