فلسطین کے اصلی حقدار کون؟ اور اسرائیل کی حقیقیت
مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى
فلسطین ملک شام کے مغربی جنوبی حصے کو کہا جاتا ہے۔ یہ برّ اعظم ایشیا کے مغرب میں، بحر ابیض متوسط کے ساحل پر واقع ہے، اس کی حیثیت برِّ اعظم ایشیاء اور برِّ اعظم افریقہ کے درمیان ذریعۂ ارتباط کی ہے۔ اس کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ یورپ سے بھی قریب ہے۔ اس کے شمال میں لبنان، شمال مشرق میں سیریا، مشرق میں اردن اور جنوب میں مصر واقع ہے۔ اس کی متعارف سرحدوں کے حوالے سے، اس کا کل رقبہ ۲۷۰۰۰ (ستائیس ہزار) مربع کلومیٹر ہے، یہاں کی آب و ہوا معتدل ہے اور بحر ابیض متوسط کا سارا خطہ ہی متعدل آب و ہوا والا شمار کیا جاتا ہے۔
سرزمينِ فلسطين كى عظمت
سرزمینِ فلسطین، دنیا کے قدیم ترین تہذیبی علاقوں میں سے ایک ہے۔ جدیدترین دریافت کے مطابق 9 ہزار سال قبل مسیح، استحکام و زراعت کی زندگی کی طرف سب سے پہلے انسان نے یہیں اپنی منزل طے کی تھی ۔ اسی کی گود میں دنیا کا قدیم ترین شہر اریحا معرض وجود میں آیا تھا۔ یعنی ۸ ہزار سال قبل مسیح ۔ ہنوز ارضِ فلسطین، مختلف تہذیبوں کا گہوارہ ہے۔
فلسطین کی، ہر مسلمان کے دل میں بڑی عظمت ہے۔ قرآن کریم کے نص قطعی کی روسے يہ مقدس اور مبارک سرزمین ہے، یہیں مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصیٰ واقع ہے، جو مذہب اسلام میں تین بڑی مسجدوں میں سے ایک ہے۔ اس کو ارض اسرا و معراج ہونے کا شرف حاصل ہے، مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک حضور کو شب معراج میں پہلے یہیں کا سفر کرایا گیا تھا۔ یہ اُن تمام انبیا کی زمین ہے جن کا تذکرہ مبارک قرآنِ پاک میں وارد ہوا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر کے اعتبار سے یہ حشر و نشر کی زمین بھی ہے، اس کو اسلام کے اصلی گھر ہونے کی حیثیت تھی اور رہے گی۔ یہاں ثواب اور اجرالہی کی امید میں قیام کرنے والے کو مجاہد فی سبیل اللہ کا ثواب ملے گا، نیز یہ قیامت تک منصور و فتح مند اور حق پر جمی رہنے والی جماعت کا مرکز رہے گا۔
فلسطین یہود و نصاری کے نزديك
فلسطین کی سرزمین یہود و نصاری کے يہاں بھی مقدس ہے۔ یہودی اس کو اپنی ارض موعودہ مانتے ہیں، یعنی ایسی زمین جسے اُنھیں خدا کی طرف سے دیے جانے کا وعدہ کیا گیا ہے؛ لہذا ان کے نزدیک یہ اُن کی تاریخ کا محور اور اُن کے انبیا کی خواب گاہ ہے۔ شہر قدس وخلیل میں اُن کے مقدسات کا مرکز بھی ہے۔ جب کہ عیسائیوں کے نزدیک یہ اُن کے مذہب کے وجود کی جا ہے؛ کیوں کہ عیسی علیہ السلام کی ولادت یہیں ہوئی تھی ، یہیں اُنھوں نے اپنے دعوتی عمل کو انجام دیا، یہیں عیسائیوں کے مذہبی مراکز ہیں بالخصوص شہر قدس ، بیت اللحم اور ناصرہ میں ۔
فلسطين سچے جانشیں
مسلمانوں کا ایمان ہے کہ داؤد وسلیمان اور انبیائے بنی اسرائیل اور اُن کے صلحا کے اصل وارث اور سچے جانشیں وہی ہیں؛ کیوں کہ بنی اسرائیل کے انبیا و صالحین نے یہاں تو حید کی بنیاد پر ہی حکومت کی تھی اور چوں کہ مسلمان ہی اس وقت علم بردارِ تو حید ہیں اورراه انبیا کے سچے راہ رو ہیں اور یہودی راہِ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں، اپنی کتابوں میں اُنھوں نے تحریف کی ہے، اپنے انبیا کے وہ قاتل ہیں اور اللہ کے غیظ و غضب کا محل ہیں ؛ اس لیے مسلمانوں کا یہ برحق عقیدہ ہے کہ اس زمین کے وہی مالک و وارث ہو سکتے ہیں اور ہیں۔
فلسطین اورشہر قدس كے ساتھ یہود ونصاری کا رویہ
فلسطین، بالخصوص شہر قدس میں اپنے اقتدار کے دوران، یہود ونصاری کا رویہ ، دوسرے مذاہب کے ساتھ معاندانہ بل کہ دشمنانہ اور پر امن بقائے باہم کی روح سے متصادم رہا، دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے صفایا کی کوشش کی گئی ، لیکن مسلمانوں کا رویہ روا دارانہ اور بقائے باہم کے جذبے سے بھرا پڑا رہا، دوسروں کے حقوق کی پاس داری اور اُس کی مکمل حفاظت کی گئی۔
فلسطین میں بسنے والی قدیم ترین قوم
فلسطین میں بسنے والی قدیم ترین قوم كنعانى تھی، جس نے اس کو اپنے رنگ میں رنگ دیا اور وہاں اپنی خاص چھاپ اور پہچان چھوڑی۔ کنعانی تقریباً ۴۵۰۰ سال قبل، جزیرۃ العرب سے یہاں آبسے تھے، انهيں کی وجہ سے فلسطین کو سر زمین “کنعان ” سے جانا جانے لگا۔ فلسطین کے موجودہ فلسطینی ابھی کنعانیوں کی اولاد ہیں یا اُن لوگوں کی اولاد ہیں، جن کا کنعانیوں سے اختلاط ہوا اور اُن سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ یہ بحر متوسط کے مشرقی خطے اور عربی قبیلوں کے لوگ تھے۔ حال آں کہ فلسطین پر مختلف قوموں نے حکومت کی لیکن وہاں کے اصل باشندے وہاں، بلا انقطاع آبادر ہے۔ ابھی باشندوں کی اکثریت حلقہ یہ گوش اسلام ہوئی اور اسلام کی آمد کے ساتھ اُن کی زبان عربی زبان بن گئی۔ ۱۵ ھ = ۶۳۶ء میں اسلامی فتح کے وقت سے اب تک، تاریخ کے اکثر اور طویل ترین دور میں فلسطین کی اسلامی شناخت بلا توقف قائم اور واضح رہی۔ ۱۹۴۸ء میں صہیونی قبضے کے بعد فلسطین کے کسی حصے سے زبردستی فلسطینیوں کو جلا وطن خانما بر باد کر دیے جانے سے، مذکورہ سچائی میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔
یہودیوں کے بے بنیاد دعوے
سرزمین فلسطین پر عرب مسلمانوں کے حق کے سامنے، اُس پر یہودیوں کے حق کے دعوے تاش کے پتوں کی طرح بکھر جاتے ہیں؛ اس لیے کہ یہودیوں کی ریاست کے قیام سے ۱۵۰۰ سو برس پہلے، مسلمانوں نے اس سرز مین کو آباد کیا تھا، اس پوری مدت میں یہاں اُن کی موجودگی کو تسلسل حاصل رہا۔ فلسطین پر یہودیوں کے بڑے بول کی حقیقت صرف یہ ہے کہ انھوں نے یہاں کے کچھ حصے پر حکومت کی تھی ، سارے فلسطین پر اُن کا اقتدار کبھی قائم نہ ہو سکا۔ یہاں اُن کی حکومت کی مدت ۱۰۰۰ سے ۵۸۶ قبل مسیح میں صرف چار صدی پر محیط رہی۔ پھر اُن کے اقتدار کی بساط لپٹ گئی، جیسے دگر اقوام یعنی آشوریوں، فارسیوں ، فراعنہ، یونانیوں اور رومیوں کے اقتدار کا اپنے اپنے وقت پر سنت اللہ کے مطابق خاتمہ ہوتا رہا۔ جب کہ فلسطینی یہیں آبادر ہے، اپنی خاک سے اُن کا رشتہ کبھی بھی منقطع نہیں ہوا۔ فلسطین پر اسلامی اقتدار ۱۲۰۰ سو سال تک قائم رہا یعنی ۶۳۶ء سے ۱۹۱۷ء تک جس میں صرف ۹۰ نوے سال کے صلیبی دور کا استثنا کیا جاسکتا ہے۔ یہودیوں کا فلسطین سے ۱۸۰۰ سو برس تک کوئی تعلق نہیں رہا، یعنی یہاں سیاسی ، تہذیبی ، اور قیادتی اعتبار سے اُن کی کسی موجودگی کا کوئی ریکارڈ تاریخ کے کسی صفحے میں موجود نہیں۔ اُن کی مذہبی تعلیمات کا بھی یہاں کوئی نشان دور دور تک نہیں ملتا۔ موجودہ یہودیوں میں سے 80 فی صد یہودی، خود یہودیوں کی تحقیقات کے مطابق ، تاریخی طور پر فلسطین سے کوئی رشتہ نہیں رکھتے ، نیز قومی اعتبار سے بنی اسرائیل سے اُن کا کوئی تعلق نہیں۔ آج کے یہودیوں کی بھاری اکثریت ” اشکناز یہودیوں سے تعلق رکھتی ہے، جو قدیم تا تاری ترکی نسل کے قبیلوں سے عبارت ہیں، جن کی بود و باش شمالی قوقاز کے علاقے میں تھی۔ یہ قبیلے آٹھویں صدی عیسوی میں یہودیت میں داخل ہوئے؛ لہذا اگر یہودیوں کی کہیں واپسی وطنی طور پر ضروری ہے اور یہ حق اُنھیں ملنا چاہیے ، تو انھیں جنوبی روس کو لوٹنے کا حق ملنا چاہیے، نہ کہ ارض فلسطین و کنعان کی طرف۔ پھر یہ کہ فلسطین سے یہودیوں کے تعلق اور اُس کی مٹی سے اُن کی وابستگی کا دعویٰ اس سچائی کے سامنے نہیں ٹھہرتا کہ بنی اسرائیل کی اکثریت نے ارض مقدسہ کی طرف روانگی کے تعلق سے موسیٰ علیہ السلام کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا، نیز اُن کی اکثریت نے، اُس وقت’ بابل سے یہاں آنے کو بھی مسترد کر دیا تھا، جب شہنشاہ فارس قورش نے اُن کو یہ پیش کش کی تھی۔
يہوديوں كى در در كى ٹھوكر اور ناجائز رياست اسرائيل كے قيام كا اعلان
دردر کی ٹھو کر کھاتے رہنے کے بعد، یہودیوں نے اسلام اور مسلمان دشمن مختلف النظریات و المذاہب قوموں اور افراد کے تعاون سے، جو اُنھوں نے (یہودیوں نے اپنی طبعی چال بازی، مکاری، عیاری اور جوڑ توڑ کی بھیا تک اور مجرمانہ صلاحیتوں کے ذریعے حاصل کی ، کس طرح فلسطین میں زبردستی اور ظلم و جبر و نا انصافی کے تاریخ عالم کے تمام ریکارڈوں کو توڑتے ہوے، اپنی جگہ بنالی اور پھر 14/ مئى 1948ء اسرائيل كے نام سے اپنی غاصبانہ ریاست قائم کرلی اور بالآخر پورے فلسطین پر قبضہ کر کے، اصل مکینوں یعنی فلسطینیوں کو اجنبی، غریب الدیار بنادیا اور لاکھوں کو دیس نکالا دے کر، وہاں رہنے پر اصرار کرنے والوں پر، کس طرح ظلم کا پہاڑ توڑنے کی راہ ہموار کی؟؟ ان حقائق کے تسلسل کو مختصرا جانے کے لیے، ذیل کی سطریں پڑھنا کافی ہے، توقع ہے کہ اس سے متن میں ذکر کردہ تفصیل کا اختصار قاری کے ذہن میں آسانی سے سمٹ آئے گا۔
يہوديوں كى ہٹ دھرمى اور ان كى خانہ بدوشىت كى تاريخى داستان
حال آں کہ یہود و نصاری میں تاریخ کے اکثر ادوار میں با ہم نہ صرف فکری؛ بل کہ ہر سطح پر تصادم کی کیفیت جاری رہی لیکن مسلمانوں سے چوں کہ یہودیوں کو دیرینہ پر خاش رہی تھی؛ اس لیے صلیبی جنگوں میں، یہودیوں نے کھل کر عیسائیوں کا ساتھ دیا اور مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کے شانہ بشانہ لڑتے رہے، لیکن شیر اسلام حضرت صلاح الدین ایوبی نے عیسائیوں ، رومیوں اور یہودیوں کو عبرتناک شکست سے دو چار کیا اور یوں یہودیوں کو بھی عرب ممالک سے نکلنا پڑا اور یہ روس، جرمنی، ہالینڈ، انگلینڈ اور فرانس منتقل ہو گئے۔ ان کی اکثریت خصوصاً امیر یہودی برطانیہ میں مقیم ہوئے اور وہاں کی اقتصادیات، نائٹوں ، ڈیوکوں کی محلاتی سیاست میں دخیل ہوئے ، تاہم عوام کے غم وغصہ کی تاب نہ لاتے ہوئے ۱۲۹۰ء میں برطانیہ بدر ہوے۔ فرانس پہنچے وہاں سے ۱۳۰۶ء میں نکالے گئے۔ بلجیم میں جمع ہوئے تو ۱۳۷۰ء میں چلتا کیے گئے ، اس کے بعد انھیں کہیں مستقل ٹھکانہ میسر نہ آیا۔ چناں چہ چیکوسلواکیہ سے۱۳۸۰ء ، ہالینڈ سے ۱۴۹۴ء ، روس سے ۱۵۱۰ء ، اٹلی سے ۱۵۴۰ء اور جرمنی سے بھی ۱۵۵۱ء میں دیس نکالا ملا۔ یہ صدیوں خانہ بدوشوں کی طرح ادھر اُدھر پھرتے رہے آخر کیوں؟ صرف اور صرف اس لیے کہ یہ خود کو دنیا کی افضل ترین قوم سمجھتے تھے، دیگر معاشروں میں ضم ہونا انھیں منظور نہ تھا۔
صہیونی تنظیم کے قیام كى ناپاك كوشش
يہود مسلمانوں کے تو ازلی دشمن تھے اور چوں کہ اس دور میں عرب ایک ترقی یافتہ ، بہادر اور فاتح قوم تھے ، اس لیے ان کے خوف سے کوئی بھی ملک انھیں سکتے نہیں دیتا تھا۔ لیکن جوں ہی مسلمانوں کا زوال شروع ہوا یہودی برطانیہ، فرانس، روس اور امریکہ میں قدم جماتے گئے ۔ صہیونی تنظیم کے قیام کا پہلا قدم “روم اور یروشلم ” نامی کتاب کو قرار دیا جانا چاہیے، جسے ایک یہودی مصنف موسیٰ ھیس نے ۱۸۶۲ء میں لکھا اور اس میں بھٹکتے یہودیوں کو قومیت کا احساس دلایا، انھیں مجتمع کرنے اور دوسری اقوام کے ساتھ مل جل کر رہنے کی ترغیب دی۔
دوسرا قدم یقینا روسى یہودی مصنف لیونسکر کی کتاب ”خود کار نجات“ کا ہے جو ۱۸۸۲ء میں شائع ہوئی ۔ اس روسى یہودی نے اسی پر اکتفا نہیں کیا؛ بل کہ اپنی بھر پور کاوشوں سے ۱۸۸۴ء میں جرمنی میں یہودی نیشنل کانفرنس منعقد کی، جس میں الگ وطن کے لیے متعدد ضابطے ترتیب دیے گئے ۔ ان ضابطوں میں دوسرے معاشروں میں مل جل کر رہنا، نئی نسل کو سائنسی تعلیم اور حکومتوں میں اچھی اسامیاں حاصل کرنا اور باعزت مقام پیدا کرنے پر زور دیا گیا۔ اس کا نفرنس کے نتیجے میں ہر ملک، ہر شہر، جہاں یہودی آباد تھے جماعتیں اور لیگیں بنے لگیں ۔ روس میں ۱۸۸۷ء میں صہیون محبان پارٹی وجود میں آئی ، اس کا تو پیغام ہی یہ تھا کہ یہودی زیادہ سے زیادہ فلسطین میں آباد ہوں ؛ تا کہ وہاں مستقبل میں اپنا وطن قائم کیا جائے۔ اس کے تقریباً 9 برس بعد ۱۸۹۶ء میں تھیوڈور ہرزل نامی یہودی نے “یہودی ریاست“ کے عنوان سے کتاب لکھی جسے روس، امریکہ اور یورپ میں اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی کہ اس کے کئی ایڈیشن نکلے اور تھیوڈور ہرزل کو عظیم رہنما اور بڑے بڑے القاب سے نوازا گیا۔ حقیقتاً یہی وہ پہلا شخص تھا جس نے یہودی ریاست کا واضح خاکہ پیش کیا اور تمام عواقب و عوامل پر تفصیلاً بحث کی ۔ جب تھیوڈور ہرزل کو انتہائی پذیرائی ملی، تو اس نے یہودیوں کے بین الاقوامی کنونشن کے لیے راہ ہموار کی اور بالآخر ۱۸۹۷ء میں سوئٹزر لینڈ کے شہر “باسل” میں یہودیوں کی پہلی عالمی کانفرنس کے متعدد اجلاس ہوئے جس میں یہودیوں کی ایک بین الاقوامی تنظیم تشکیل دی گئی جس کا نام یروشلم کے نزدیک ایک پہاڑی صہیون کے نام پر صہیونیت تجویز کیا گیا۔
صہیونیت کے بانی تھیوڈور ہرزل نے اس تنظیم کے لیے بہت سے پروٹوکول بھی بنائے ، ایک فنڈ قائم کیا گیا جس کا نگراں یورپ کا بہت بڑا یہودی بینک کار لارڈ روئس چائلڈ مقرر ہوا۔ چائلڈ نے ہر یہودی پہ اپنی آمدنی کا ۲ فی صد یہودی بینکوں میں جمع کرانا لازم ٹھہرایا۔ بینکوں نے سود کا چکر چلایا اور یوں چند سالوں میں ہی صہیونیت کا فنڈ اربوں میں جا پہنچا۔
اسرائیلی ریاست کے قيام كى كوشش
صہیونیت کو خطیر رقم میسر آئی تو اسے وطن خریدنے کی سوجھی چناں چہ ۱۹۰۲ء میں ہرزل کی سربراہی میں ایک وفد سلطان عبد الحمید سے فلسطین میں اسرائیلی ریاست قائم کرنے کے لیے ترکی پہنچا ؛ لیکن سلطان نے ان کی ہر بڑی سے بڑی پیش کش کو ٹھکرادیا۔ تاہم یہ فتنہ گر آرام سے نہیں بیٹھے ، انھوں نے عربوں اور ترکوں کو باہم ٹکرانے اور برطانیہ سے مدد کا منصو بہ تیار کیا۔ پہلی جنگ عظیم میں ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا ، لیکن لارنس نے عربوں کو جھوٹے وعدوں کے ذریعہ برطانیہ کی مدد پہ آمادہ کر لیا۔ ایک عیار یہودی کیمسٹ ڈاکٹر ویزمین نے اپنی بارودی دریافت کے بدلے برطانیہ کوزیرِ احسان کیا، جس کے نتیجے میں “اعلان بالفور” مرتب ہوا، جس کی توثیق فروری ۱۹۱۸ء میں فرانس ، مئی ۱۹۱۸ء میں اٹلی اور ۱۹۲۲ء میں امریکہ نے کردی۔ اس طرح گویا پوری مغربی دنیا، یہود کی پشت پناہ بن گئی اور یہی وہ دور ہے جب یہودیوں کے ایک خفیہ اجلاس میں با قاعدہ قرارداد کے ذریعے ، یہ طے پایا کہ چوں کہ یہ دنیا اور اس کی ہر شے خدا کی ہے اور خدا صرف بنی اسرائیل کا ہے، اس لیے اس دنیا میں صرف ہم کو حکم رانی کا حق ہے۔“
یہاں ذرا لمحہ بھر کے لیے ضرور رُکیے اور سوچئے کہ ایک ایسی خانہ بہ دوش قوم جس کا کوئی ملک ہی نہ تھا ، وہ اس وقت کی مضبوط ترین اقوام کی موجودگی میں دنیا پہ حکم رانی کی قرار داد پاس کر رہی ہے۔ مزید یہ کہ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے چند خودکار اسکیمیں بھی بنائی گئیں۔ مثلا عالمی بینک کاری پر مکمل کنٹرول؛ ذرائع نشر واشاعت ،صحافت پر قبضہ اپنی مرضی کی خبریں دینا اور من پسندلٹریچر کی تشہیر مذاہب کے برعکس نے تخریبی فرقوں کی تشکیل، جہاد کو جنگل کا قانون اور انسان دشمن جذ بہ قرار دینا کلیدی عہدوں پر فائز ہونا اور صنعت و تجارت پہ اپنی مکمل اجارہ داری۔
امريكہ اور روس كا اسرائيلى رياست كى تسليم كا اعلان
اگر چہ یہ قراردادیں ۱۹۰۱ء اور ۱۹۰۳ء میں تیار ہوئیں ، تاہم تقریبا پندرہ سال بعد ۱۹۱۷ء میں منظر عام پر آئیں جب روس میں سرخ انقلاب آیا۔ جس کی قیادت لینن اور ٹرائیگی نے کی جو دونوں یہودی تھے۔ صرف یہی نہیں کارل مارکس بھی کٹر یہودی تھا اور اسٹالن بھی یہود نواز تھا۔ ان سب نے مل کر کمیونزم کی آڑ میں ، جس طرح روسى مسلمانوں پر مظالم ڈھائے ، اس کی مثال نہیں ملتی ۔ عالمی بساط پہ یہود و نصاری ، روس اور اُن کے حواری جھوٹ مکر و فریب اور انسانیت کی تذلیل کا کھیل کھیلتے رہے اور بالآخر جنرل اسمبلی میں ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو چھ بج کر گیارہ منٹ پر امریکی نمایندے مسٹر آسٹن کا نائب پروفیسر فلپ پریشان حال اٹھا اور یہودی ریاست اسرائیل کے قیام کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔
اس کے فورابعد روس نے بھی تسلیم کر لیا اور یوں فلسطین کے قلب میں ایک سفید جھنڈا ابھرا، جس پر چھ کونوں والا نیلا تارا بنا ہوا تھا۔ بے شک یہ عالمی صہیونیت کی پرو پیگنڈہ مشینری کا کارنامہ تھا ، جس میں دنیا کے ہر ملک، ہر شہر میں ہر یہودی مرد وزن نے عیاریوں، مکاریوں اور انسانیت سے بعید ترین مکروہ کردار ادا کیا، تب ہی تو اسرائیل وجود میں آیا۔
تقسیم فلسطین کا اعلان
اسرائیل کا یہ شجر خبیث سامراجیوں کی شہ پر جب سے لگا ہے تب سے اب تک لاکھوں عربوں کا خون پی چکا ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ یہودی ۱۹۴۸ء والے اسرائیل پر بھی قانع نہیں ؛بل کہ وہ تو دنیا پر حکم رانی کے پہلے مرحلے کے لیے عظیم تر اسرائیل کے مجوزہ خاکے کے مطابق، صحرائے سینا، نہر سویز کے دونوں کنارے بہ شمول پورٹ سعید، قاہرہ، خلیج سویز اور بحیرہ احمر کا کچھ حصہ، شمالی تجاز، نجد مع مدینہ، کویت، عراق، اردن، شام، لبنان اور ترکی کے جنوبی حصے، کوہ ارارات پر نیلا تارا چمکا نا چاہتے ہیں۔
خود کو مہذب دنیا کی مہذب اقوام کہلانے والوں نے فلسطین کو تقسیم کرنے اور اسرائیل قائم کرنے میں جس عجلت، ڈھٹائی اور بے انصافیوں کا مظاہرہ کیا، یقیناً قیامت تک ایسی مثال ملنا ناممکن رہے گا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے فیصلے، خود اس کے دستور کے مطابق ان کا نفاذ لازم نہیں آتا، جب کہ اس مخصوص فیصلے میں تو حالت يہ تھی کہ خود اس ادارے کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی اور عوام سے ان کی آزادی اور خود اختیاری کا حق چھین لیا گیا۔
اس غیر منصفانہ فیصلے کے مطابق، فلسطینیوں کی اکثریت کو نظر انداز کر کے یہودی اقلیت کو زمین کا ۵۴ فی صد حصہ عطا کیا گیا، جب کہ ان کے پاس اس وقت محض ۵٫۶ فی صد زمیں تھی اور وہ کل آبادی پر ۳۱ ء۱ فى صد تھے۔
تقسیم فلسطین کے اعلان کے ساتھ ہی ، جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔ قلیل تعداد میں خود ساختہ جیش الانقاذ اور فلسطینی فوج الجہاد للقدس‘ نے پہلے چھ ماہ بہت کام یابیاں حاصل کیں اور عرب ممالک کی طرف سے دیے گئے ناقص اسلحے کے باوجود ۸۲ فی صد رقبہ بچالیا۔ صرف مصر کی جماعت الاخوان المسلمون” نے ہی فلسطین کے تحفظ کے لیے بہترین کوشش کی ۔ ان کے رہنما مرشد حسن البناء نے اکتوبر ۱۹۴۸ء میں ہزاروں جاں بازوں کا دستہ روانہ کیا، ان میں سے گنتی کے مجاہدین مصری حکومت کی پابندیوں سے بچ کر پہنچے اور میدان جنگ میں انتہائی بہادری سے لڑے۔ سیکولر مصری حکومت نے لڑائی کے دوران ہی، بہت سے مجاہدین کو گرفتار کر کے ، جیلوں میں ڈال دیا اور اخوان المسلمون پر سخت پابندی لگادی اور ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے شرم ناک معاہدے سے، چند روز پہلے قائد اخوان حسن البناء کو شہید کر دیا۔ فرعونوں کی سرزمین میں فرعونیت سے نسبت جوڑنے والوں سے، نہ تب خیر کی امید تھی نہ اب ہے۔ (اسحاق طور : فلسطین اور قبلہ اول کی آزادی، سہ روزہ دعوت ، نئی دہلی ، شماره ۸۴ ، جلد ۵۵) (نور عالم خليل امينى: فلسطين كسى صلاح الدين كے انتظار ميں، كتاب كے مختلف حصوں سے ماخوذ)
تب سے لے كر آج تك فلسطىنى اپنے حقوق كى لڑائى لڑ رہے ہيں،اس ميں غلط ہى كيا ہے، ہر ايك كو اپنا ملك لينے اور اس پر ناجائز قبضے كو ہٹانے كا پورا حق ہے، يہى وہاں كى تنظيم حماس اور دوسرى تنظيميں كر رہى ہيں، آج فلسطين كو دہشت گرد كہنے والوں كى اكثريت اس حقيقت سے نا بلد ہے جو بيان كى گئى ہے، يا پھر وه اسلام دشمنى ميں اتنے آگے نكل چكے ہيں كہ ان مسلمانوں كا دفاعى حملہ انہيں دہشت گردى لگتا ہے، كيا اپنے ملك كو ظالم وجابر حكومت كے ناجائز قبضے سےچھڑانا دہشت كردى ہے؟ اگر ہے تو ايسى عقل وسمجھ پر ماتم كے علاوہ اور كيا كيا جا سكتا ہے؟ تعجب ان مردہ ضميرمسلم ممالك پر ہے جو يہود جيسى مسلم دشمن قوم كى طرف سے مسلمانوں پرہونے والى ظلم وزيادتى كو خندہ پيشانى سے برداشت كر رہےہيں، الله تعالى فلسطىنيوں كى غيب سے مدد فرمائيں اور ان كے ملك كو ظالم وجابر مسلم دشمن يہود كے قبضہ سے آزاد كرے۔ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.