وینٹی لیٹر لگانا اور ہٹانا
دماغ کے دوحصے ہیں، ایک بالائی حصہ اور دوسرا نچلا حصہ، بالائی حصہ جسم کے نظام کوکنٹرول کرتا ہے اور اگر اس تک خون نہ پہنچنے کی وجہ سے اس میں زندگی باقی نہ رہے تو پھر دیکھنا، بولنا، سوچنا اورسمجھنا ممکن نہیں، البتہ دل کی حرکت اور سانس کی آمدورفت برقرار رہتی ہے اور اس وقت انسان کوما کی حالت میں چلاجاتا ہے اورایسا ہوسکتا ہے کہ وہ اسی حال میں مہینوں اوربرسوں زندہ رہے۔
اوراگرنچلے حصے کی موت واقع ہوجائے تو پھرتھوڑی دیر میں جسم کے دیگر حصوں سے بھی زندگی کے آثار ختم ہوجاتے ہیں اورمکمل طورپر موت واقع ہوجاتی ہے۔
پہلی صورت میں اگر ماہر ڈاکٹر کی رائے ہو کہ مریض کے بچ جانے کا گمان غالب ہے اور مریض مالی حیثیت سے اس لائق ہو کہ وہ علاج کا خرچ برداشت کرسکتا ہو تو پھر بوقت ضرورت دل کی حرکت کو برقرار رکھنے کے لیے مصنوعی آلۂ تنفس (وینٹی لیٹر) کولگانا ضروری ہوگا، کیوں کہ جان کی حفاظت واجب ہے اور اگر استطاعت نہ ہو تو پھر اسے نہ لگانے یا ہٹالینے میں کوئی حرج نہیں ہے اس لیے کہ انسان وسعت کے مطابق ہی شرعی احکام کا مکلف ہوتا ہے اور اگر مصنوعی آلہ تنفس کے استعمال سے جان بچ جانے کا محض امکان ہو، ظن غالب نہ ہوتو پھر صاحب استطاعت کے لیے بھی مصنوعی آلہ تنفس کو لگانا ضروری نہیں ہے۔
اوراگر دماغ یا دل نے کام کرنا بند کردیا ہو اور ماہر ڈاکٹروں کی رائے ہو کہ معمول کے مطابق دل کی حرکت بحال ہونے کی کوئی امید نہیں ہے یا یہ کہ دماغ کی کارکردگی دوبارہ بحال نہیں ہوسکتی تو مصنوعی آلہ تنفس کو ہٹالینا درست ہے، گرچہ اس کی وجہ سے مریض کے دل کی حرکت برقرار ہو، البتہ اس کی موت اس وقت سے مانی جائے گی جب اسے ہٹانے کی وجہ سے دل کی حرکت بند ہوجائے۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.