کون سی طلاق بہتر ہے؟
سوال : شوہر بیوی کے درمیان رشتہ استوار نہ رہنے کی شکل میں تفریق کے لئے کیا شکل اپنانی مناسب ہے؟ طلاق رجعی یا بائن؟
المستفتی: ڈاکٹر محمد یعقوب أعظمی قاسمی
ارنولہ، أعظم گڑھ (مقیم حال ملیشیا)
الجواب باسم الملهم للصدق والصواب :
رشتہ نکاح ایک نعمت ہے، حتی الامکان اس کی حفاظت کرنی چاہئے؛ لیکن اگر معاملات اتنے خراب ہو جائیں کہ اس بیوی کے ساتھ رہنا مشکل ہو جائے تو ایسے طہر میں جس میں صحبت نہ کیا ہو ایک طلاق رجعی دینی چاہیے تاکہ اگر رجوع کرنا چاہے تو کرلے۔
اور اگر زیادتی شوہر کی طرف سے ہو اس لیے بیوی الگ ہونا چاہتی ہو تو دار القضا میں دعوی کرکے طلاق بائن لے لے تاکہ بیوی کی رضامندی کے بغیر دوبارہ نکاح نہ ہو سکے۔
الدلائل
أحسن الطلاق في ذوات القرء أن يطلقها طلقة واحدة رجعية في طهر لا جماع فيه. (بدائع الصنائع 3/88) دار الکتب العلمیة بیروت.
أما الطلاق السني في العدد (إلی قوله) فالأحسن أن یطلق امرأته واحدة رجعیة في طهر، الخ. (الفتاوی العالمكیرية، قدیم زکریا ۱/۳4۸، جدید زکریا 1/415).
ویجب لو فات الإمساک بالمعروف. (الدر المختار، کراچي 3/229، زکریا 4/429).
أما الأحسن: أن یطلقها واحدة في وقت السنة، ویترکها حتی تنقضي العدة. وفي الکافي: وروي عن إبراهیم أن أصحاب النبي صلی الله علیه وسلم کانوا یستحبون أن لا یزاد في الطلاق علی واحدة حتی تنقضي العدة، وهذا أفضل عندهم. (الفتاوى التاتارخانیة، زکریا 4/378، رقم: 6472).
والطلاق البائن ھو الذی لا یملک الزوج فیه استرجاع المرأة إلا بعقد جدید. (لسان العرب باب الباء: 1/560).
والله أعلم
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله، أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند
29/8/1439ه 16/5/2018م الأربعاء.
۞۞۞۞۞۞
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.