ادا كيوں كر كريں گے چند آنسو دل كا افسانہ
بقلم: محمد ہاشم بستوى
8/ ستمبر 2024 بروز اتوار كى صبح مجھ پر اور ميرے پورے خاندان پرقيامت كى صبح بن كر ٹوٹى، يہ صبح مجھے مرتے دم تك ياد رہے گى، اسى صبح كو ميرى سب سے عزيز اور قيمتى متاع مجھ سے چھن گئى، يعنى اسى دن ميرى والدہ محترمہ نور الله مرقدہا ہم سے روٹھ كر ہميشہ ہميش كے ليےاپنے مالك حقيقى سے جامليں انا لله وانا اليه راجعون ۔
يوں تو ہر كسى كے دنيا سے جانے سے دلى تكليف ہوتى ہے، آنكھيں اشكبار ہو جاتى ہيں ليكن والده كا دنيا سے جانا ميرے ليے ايسا جانكاہ حادثہ تھا جس كو الفاظ كے جامے ميں پہنانا نا ممكن ہے، والده مرحومہ ہمارے پورے خاندانى نظام كى زنجير كى ايسى مضبوط اور آخرى كڑى تھيں جس سے ہمارا پورا خاندان مربوط تھا، ان كے چلے جانے سے پورا خاندانى شيرازہ بكھرا بكھرا سا نظر آرہا ہے،جيتے جى دنيا تاريك محسوس رہى ہے۔
ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے كے بعد يہ معلوم
كہ تو نہيں تھى ترے ساتھ ايك دنيا تھى
والده مرحومہ كى تاريخ پيدائش تو كہيں درج نہيں ہے، انتقال كے وقت ان كى عمركوئى 70/ 75 برس رہى ہوگى، كيونكہ وہ اپنے بھائى بہنوں ميں سب سے بڑى تھيں، اور سب بھائى بہن اس وقت ما شاء الله ناتى پوتے والے ہو گئے ہيں بلكہ كئيوں كے پوتوں اور نواسوں كى شادياں بھى ہو چكى ہيں، وہ بھى صاحبِ اولاد ہيں، اور راقم بھى اپنے بھائى بہنوں ميں سب سے چھوٹا ہے، اس كى عمر بھى اس وقت 40 كو چھو رہى ہے، اس ليے كہا جا سكتا ہے كہ وہ 70+ پلس رہى ہوں گى۔
والدہ مرحومہ پڑھى لكھى تو نہيں تھيں، ليكن الحمد لله پارہ عم كى اكثر سورتيں اور روزمرہ كى جملہ دعائيں ان كو ازبر تھيں، نماز روزہ كے موٹے موٹے مسائل سے انہيں گہرى واقفيت تھى، جب سے ميں نے ہوش سنبھالا انہيں صلاة وصوم اوراوراد ووظائف كا پابند پايا، روزانہ ہزاروں تسبيحات پڑھنے كا معمول تھا، ميرے محلے كى نہ جانے كتنى عورتوں كو انھوں نے نماز پڑھنے كا طريقہ سكھايا، ميرے بچپنے ميں مجھے اچھى طرح ياد ہے كہ وہ اكثر محلے كى عورتوں كو اپنے گھر جمع كركے نماز كى عملى مشق كراتى تھيں، ان كے سامنے ديہاتى زبان ميں ہلكى پھلكى تقرير بھى كرتيں، تقرير ميں جنت وجہنم كا نقشہ كھينچتيں، انہيں آخرت كے عذاب سے ڈراتيں، محلے كى ہر ہر عورت كو نماز كى تاكيد كرتى تھيں، انہيں دعائيں سكھلاتيں، ان كى سكھائى ہوئى بہتيرى عورتيں آج بھى زندہ ہيں، اور الحمد لله صلاة وصوم كى پابند ہيں۔ انفاق فى سبيل الله ميں بھى ان ہاتھ كشادہ تھا، كيا مجال ہے كہ كوئى سوال كرنے والا خالى ہاتھ لوٹ جائے۔
سن 2008 سے بينائى كمزور ہوگئى تھى، ممبئى اور بھيرہواں (نيپال ) سے آنكھ كا آپريشن بھى كرايا گيا تھا، جو كامياب بھى ہو گيا تھا، مگرادھر كچھ سالوں سے بينائى نہ كے برابر ہو گئى تھى، پھر بھى دھيرے دھيرے ديوار كے سہارے سے چل كر اپنى بشرى ضروريات پورى كر ليتى تھيں، سن 2012 ميں والد مرحوم كے ساتھ حج بيت الله كى زيارت سے مشرف بھى ہو چكى تھيں، اس كے بعد سے ان كى زندگى ميں مزيد تبديلى آگئى تھى، ہمہ وقت ذكر وتسبيح ميں مشغول رہتى تھيں، گرمى كى تپش ہو يا جاڑے كى شدت اس پيرانہ سالى اور ضعف كے باوجود فجر سے ايك گھنٹہ پہلے اٹھنے كا معمول تھا، بغير كسى كو جگائے ہوئے دھيرے دھيرے خود ہى چل كر آنگن تك جاتى تھيں اور خود ہى نل سے پانى نكال كر وضو كرتى تھيں اس كے بعد تہجد اور نوافل ميں مشغول ہو جاتى تھيں، مزاج ميں تھوڑى سى شدت تھى، جس كام كے ليے كہہ ديا اس ميں تاخير ناقابلِ برداشت تھى ، اگر فورا كوئى كام نہ ہو، يا جس سے كسى كام كو كہا وہ اگر بھول جائے تو بلا تاخير اس كو بار بار ياد دلاتى تھيں، الله تعالى انہيں غريق رحمت فرمائيں۔
والد مرحوم كا انتقال 4/ مئى 2014 كو ہوا تھا ، اس كے بعد مرحومہ اپنے تين بيٹوں ميں سے ميرے پاس ہى زيادہ رہى تھيں، يہ ميرے ليے بڑى سعادت كى بات ہے جس پر ميں الله تعالى كا ہزار شكر ادا كرتا ہوں، عمر كے آخرى پڑاؤ ميں بھى ان كے حواس بجا تھے، بينائى كى كمزورى كے علاوہ الحمد لله ان كو كوئى اور بيمارى نہيں تھى، تھوڑا بہت چل پھر ليتى تھيں، ليكن كولہے كى ہڈى ٹوٹنے كے بعد چلنے پھرنے سے بالكل معذور ہو گئى تھيں، انتقال كے تقريبا ڈھائى مہينے پہلے 18/ جون 2024كوعيد الاضحى كے دوسرے دن بيت الخلاء ميں پھسل كر گر گئى تھيں، اور كولہے كى ہڈى ٹوٹ گئى تھى، جس كاكامياب آپريشن الحمد لله22 جون 2024 كو اعظم گڑھ ميں ہو گيا تھا، ليكن ہسپتال سے ڈسچارج كے بعد ان كو بيڈ سور (ايك طرح كا زخم جو مريض كو ليٹے ليٹے ہو جاتا ہے) كا عارضہ لاحق ہو گيا تھا، يہى مرض ان كے ليے جان ليوا ثابت ہوا، اور اس كا علاج ومعالجہ انتقال كے وقت تك چلتا رہا۔
انتقال كے دن يعنى 8/ ستمبر 2024 كو بھى وہ الحمد لله وہ ٹھيك ٹھاك تھيں، اپنے پورے ہوش وحواس ميں تھيں، حسبِ معمول بات چيت بھى كر رہى تھيں، ہاں اتنا ضرور تھا كہ دو دن سے كچھ پچتا نہيں تھا، تھوڑا بہت جو كچھ كھاتى تھيں فورا قے ہو جاتى تھى، صبح كو ضروريات سے فارغ كراكر ان كوچائے اور دوا پلا كر بندہ 8/ بجے اسكول چلا گيا، 10 بجے ناچيز گھر آيا اور ان كى خيريت دريافت كى، اور كچھ كھانے پينے كو كہا تو كہنے لگيں: بابو ! ميں جو كچھ كھاتى ہوں تو فورا الٹى كرنے كو جى چاہتا ہے، مجھے بڑى تشويش ہوئى كہ انھوں نے كچھ دو دن سےدوا اور دو گھونٹ جوس كے علاوہ كچھ نہيں كھايا ہے، يہ اچھى علامت نہيں ہے، ميں نے فورا اپنے فيملى ڈاكٹر (جو لكھنؤ ميں رہتے ہيں) كو فون لگايا، اور والدہ كى كيفيت بيان كى انہوں نے كچھ ضرورى ٹيسٹ كرانے كو كہا، اس كے بعد ميں نے پيتھالوجى والے ڈاكٹر كو فون كركے بلايا، وہ بلڈ سيمپل لے كر چلے گئے، اور 1 بجے رپورٹ دينے كو كہا، اور ميں بھى اسكول ميں چلا گيا۔
دوپہر ميں چھٹى كے بعدمعمول كے مطابق بندہ گھر پہونچا، اس وقت بھى وه الحمدلله وہ ٹھيك ٹھاك اور پورے ہوش وحواس ميں تھيں، ميں نے خيريت دريافت كى اور مطمئن ہو گيا، ميرى چھ سالہ بچى لبنى عم پارہ ميں اپنا سبق دہرا رہى تھى، والدہ نے اس كو بلا كر كہا ميرے پاس آكر پڑھو، وہ والده كے پاس آ كر پڑھنے لگى، ميں نے كہا: ميں بھى پڑھوں؟ تو كہنے لگيں: نہيں تم جاؤ تم كو بہت كام ہے، ميں مطمئن ہو گيا، ساڑھے بارہ بجے ميں نے اہليہ سے كہا: ميں جاكراماں كى رپورٹ لے آتا ہوں اس كے بعد كھانا كھاؤں گا، اس كے بعد ميں رپورٹ لينے چلا گيا۔
پيتھالوجى سينٹر سے رپورٹ لے كر ميں نے اس كا فوٹو لكھنؤ بھيجا، رپورٹ ميں كوئى قابلِ تشويش بات نہيں تھى، ليور تھوڑا بڑھا ہوا تھا، اور خون كچھ كم تھا، ڈاكٹر صاحب نے رپورٹ كے مطابق دوائيں اور انجكشن لكھ كر ميرے پاس بھيجا، يہ كوئى پونے دو بجے كا وقت تھا ميں دوائيں اور انجكشن لے كر ميڈكل اسٹور سے آنے والا ہى تھا كہ اچانك ميرے بچوں كا فون آيا كہ دادى كچھ بول نہيں رہى ہيں، ميں نے انا لله پڑھا،اور دوائيں ميڈكل پر چھوڑ كر تيزى سے گھركى طرف لوٹا كہ ضرور كوئى انہونى بات ہوگئى ہے، افسوس كہ ميرے گھر پہونچنے سے پہلے ہى والدہ دارِ فانى سے كوچ كر چكى تھيں۔
نہ سوچا تھا كہ اس جانِ جہاں سے يوں جدا ہوں گے
گو سنتے يہ چلے آئے تھے اك دن جان جانى ہے
انتقال كے عين وقت پر صرف ميرى اہليہ اور ميرے بچے گھر پر تھے، سب لوگ دوپہر كا كھانا كھا رہے تھے، كسى كے دل ميں يہ وہم بھى نہيں تھا كہ والدہ كا يہ آخرى وقت ہے، انتقال كے ايك آدھ منٹ پہلے والدہ نے ميرى چھوٹى بچى سےپانى مانگا، وہ گلاس ميں پانى لے كر گئى اور فورا اپنى امى سے بتايا كہ دادى پانى نہيں پى رہى ہيں، اور اہليہ بھى فورا والدہ كے پاس گئيں اور چمچ سے پانى پلانے كى كوشش كى ، پانى كا ايك گھونٹ اندر گيا ، ايك ہچكى آئى اس كے بعد منھ بند ہو گيا اور زبان ہميشہ كے ليے خاموش ، بچے دادى دادى كہہ كر زور زور سے پكارنے لگے، اور رونے لگے كہ دادى كو اچانك كيا ہو گيا؟ دادى بيچارى كيا جواب ديتيں ان كى روح توقفسِ عنصرى سے پرواز كر چكى تھى، انا لله وانااليه راجعون
حشر تك اب زباں نہ كھوليں گے
تم پكارو گے ہم نہ بوليں گے
ميں بھى آنا فانا گھر پہونچا ، بچے اور اہليہ دہاڑيں مار مار كر رو رہے تھے، نا چاہتے ہوئے بھى ميں نے اپنے حواس پر قابو ركھا، سب كو رونے سے منع كيا، دعا اور صبر كى تلقين كى ، اور خود ہى يہ فيصلہ كيا كہ والدہ كى تجہيز وتدفين ان شاء الله اپنے آبائى وطن ہٹوا بازار ضلع بستى ميں ہوگى،ايمبولينس كے ذريعہ ہم لوگ والدہ كو لے كر تقريبا 4 بجے شام كو اعظم گڑھ سے روانہ ہوئے اور آٹھ بجے شام كو ہٹوا بازار بستى پہونچ گئے، اور رات كو دس بجے ناچيز نے نمازِ جنازہ پڑھائى اور والدہ كو ہميشہ كے ليے سپردِ خاك كر ديا:
آسماں تيرى لحد پہ شبنم افشانى كرے
سبزہ نورستہ اس گھر كى نگہبانى كرے
ناچيز كا پورا خاندان ممبئى اور اس كے اطراف ميں ايك عرصے سے مقيم ہے صرف ميں اور ميرى ايك ہمشيرہ يوپى ميں رہتے ہيں، اس ليے والدہ كے علاج ومعالجے كى پورى ذمہ دارى اور ان كى ديكھ ريكھ ناچيز پر ہى تھى، والدہ كى بيمارى كے ايام ميں ميرى اہليہ نے والدہ كى جو خدمت اور ديكھ ريكھ كى الله گواه ہے كہ ايسى مثاليں بہت كم ديكھنے كو ملتى ہيں، ميں باہر كى ذمہ داريوں ميں مشغول رہتا تھا، ليكن وہ بيچارى گھر كے كام كاج كے ساتھ ساتھ صبح سے شام تك بلكہ رات تك والدہ كى خدمت ميں لگى رہتى تھيں، انھوں نے اپنا سب كچھ والدہ كے ليے وقف كر ركھا تھا، والدہ كا بيڈ سور والا زخم كافى بڑا اور گہرا تھا، جسے ديكھنے كى ہمت ميں نہيں جٹا پاتا تھا، ليكن يہ الله كى بندى روزانہ اس كى ڈريسنگ كرتى تھى، اكثر وبيشتر والدہ كا پيشاب پاخانہ خطا كر جاتا تھا، كيونكہ وه مسلسل صاحبِ فراش تھيں، دن ہو چاہے رات اس الله كى بندى كو ايك لمحہ كے ليے يہ گوارہ نہيں تھا كہ والدہ ناپاكى ميں رہيں، وہ فورا صاف ستھرا كركے چادر بستر دغيرہ بدل ديتى تھيں، ان كا پيشاب پاخانہ اپنے ہاتھ سے صاف كرتى تھيں، اور يہ سلسلہ انتقال كے دن تك چلتا رہا، اماں نے ان كوكتنى دعائيں رو رو كر ديں يہ الله ہى بہتر جانتا ہے۔
آج اماں ہمارے پاس نہيں ہيں، اس كا احساس شايد زندگى بھر رہے، كيونكہ ان كى كمى دنيا كى كوئى چيز پورى نہيں كر سكتى، ہاں يہ سوچ كر تھوڑا سا سكون ضرور ملتا ہےكہ الله تعالى نے ہميں جو توفيق دى اس كے اعتبار سے الحمد لله ميں نے اور ميرے بچوں نے ان كى خدمت ميں كوئى دقيقہ فروگزاشت نہيں كيا، پھر والدہ كى تكفين كے بعد جب آخرى نگاہ ميں نے ان كے چہرے پر ڈالى تو مجھے انتہائى سكون ملا، كيونكہ والدہ كا اتنا حسين وجميل چہرہ اپنى زندگى ميں ميں نے كبھى نہيں ديكھا تھا، چہرہ ديكھ كر دل كو قرار آگيا، دل سے يہ آواز نكلى بيشك وہ الله كى امانت تھيں اور الله تعالى نے ان كو اپنے پاس بلا ليا، اس كى رضا ميں ہم بھى خوش ہيں، ہم كو بھى ايك نہ ايك دن اسى كى طرف لوٹ كے جانا ہے۔
ميرى اہليہ نے والدہ كوغسل دينے كےوقت كا واقعہ نقل كيا كہ جب وہ والدہ كو غسل دے رہى تھيں اس وقت والدہ كى شہادت كى انگلى اور انگوٹھا اس ہيئت ميں تھے كہ گويا كہ وہ تسيبح ہاتھ ميں لے كر تسبيح پڑھ رہى ہوں اور چہرہ انتہائى پر سكون اور خوبصورت نظر آرہا تھا، ان كى اس بات سے مجھے كافى سكون ملا۔ الله تعالى والدہ مرحومہ كو كروٹ كروٹ جنت نصيب فرمائيں، ان كى قبر كو نور سے بھر ديں، ان كے سيئات كو در گزر كركے اعلى عليين ميں جگہ مرحمت فرمائيں، آمين يا رب العالمين۔
ادا کیوں کر کریں گے چند آنسو دل کا افسانہ
بہت دشوار ہے جتنا سمجھنا اتنا سمجھانا
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.