Hamare Masayil Aur Unka Hal

امام کتنے نیچے کھڑا ہوسکتا ہے، امام کہاں کھڑا ہو؟

امام مقتدی سے کتنے نیچے کھڑا ہوسکتا ہے

سوال: حضرت! ایک مسئلہ درپیش ہے، مسئلہ یہ ہے کہ ہماری مسجد میں امام صاحب کے علاوہ مؤذن صاحب کے نیچے بھی مصلّی بچھا ہوا ہے۔

دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا امام صاحب کے نیچے دو مصلے بچھانے پڑیں گے؟کچھ مقتدیوں  کا کہنا ہے کہ امام صاحب نیچے ہوگئے اور نائب امام اوپر ہوگئے کیونکہ مؤذن صاحب کے نیچے چٹائی اور مصلی آگیا جب کے امام صاحب کے نیچے فقط ایک مصلی ہے، تو کیا مقتدی حضرات کا کہنا صحیح ہے؟

کتاب و سنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔

      المستفتی: محمد مسعود اجمل بجنوری۔


الجواب باسم الملهم للصدق والصواب

صورت مسئولہ میں صرف اِمام کا تنہا کسی بلند یا پست جگہ پر اس طرح کھڑا ہونا کہ مقتدیوں سے امتیاز ہوجائے تو یہ صورت مکروہ ہوگی، بلند جگہ پر کھڑا ہونا اس لئے مکروہ ہے کہ اہل کتاب سے مشابہت ہے  اور پست جگہ میں کھڑا ہونا اس لئے مکروہ ہے کہ اس میں امام کی توہین کا شائبہ ہے. (الفقہ الاسلامی :2/1209) (ہدایہ : 1/280).

 وہ انچائی جس سے امام ومقتدی میں امتیاز ہوتا ہے اس کی مقدار فقہاء نے ایک ذراع یعنی ڈیڑھ فٹ بیان کی ہے.

اس لئے جو حضرات یہ کہہ رہے ہیں کہ امام نیچے ہوگئے اور مؤذن اوپر ان کی بات درست نہیں ہے اس لئے کہ شرعا اس معمولی فرق کا کوئی اعتبار نہیں ہے .

نوٹ: مؤذن کے لئے مصلی بچھانے کا مقصد شاید اس کے لئے جگہ مخصوص کرنا ہے تاکہ کوئی دوسرا وہاں نہ بیٹھے حالانکہ اکثر حضرات کے نزدیک مسجد میں کسی کے لئے بھی جگہ متعین کرنا جائز نہیں، مؤذن اگر امام سے قریب رہنا چاہتا ہے تو دوسرے نمازیوں سے پہلے آجائے، ورنہ جہاں بھی جگہ ملے وہیں سے اقامت کہہ دے، اقامت کے لئے صفِ اول یا امام سے قرب کی کوئی قید نہیں۔ (احسن الفتاویٰ:۳/۲۹۵، زکریا بکڈپو، دیوبند(.

جبکہ بعض حضرات امام ومؤذن کی خصوصیات کی وجہ سے اس کو درست مانتے ہیں۔

مذکورہ بالا وضاحت سے معلوم ہوا کہ مؤذن وغیرہ کے لئے مخصوص مصلی بچھانا ضروری نہیں ہے۔


الدلائل:

عن ابن مسعود رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: لیَلِنِيْ أولوا الأحلام والنهی ثم الذین یلونهم ثم الذین یلونهم. (صحیح مسلم ۱/۱۸۱ رقم: ٤۳۲-۹۷٤).

 قال في التنویر و شرحه: وکره انفراد الإمام علی الدکان للنھي بقدر الارتفاع بذراع، ولا بأس بما دونه، وقیل: ما یقع به الا متیاز، وھو الأوجه. (الدر المختار/باب ما یفسد الصلاة وما یکره فیھا ۱/۲٤٦ ط سعید(.

قال صاحب البحر تحت قوله (وانفراد الامام علی الدکان وعکسه): قال قاضی خان فی شرح الجامع الصغیر: إنه مقدر بذراع اعتبارا بالسترة وعلیه الاعتماد، وفي غایة البیان وهو الصحیح، وفی فتح القدیر: وهو المختار؛ لکن قال: الأوجه الإطلاق، وهو یقع به الامتیاز؛ لان الموجب وهو شبه الازدراء یتحقق فیه غیر مقتصر علی قدر الذراع اھ. (البحرالرائق : ۲ / ٤٦).

وینبغي أن یکون بحذاء الإمام من هو أفضل۔ (الفتاویٰ الهندیة ۱/۸۹).

 والله أعلم

    حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله

       12/1/1440ه 23/9/2018م الأحد

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply