hamare masayel

بینک کے سود کو اپنے پاس موجود رقم سے دینا 

بینک کے سود کو اپنے پاس موجود رقم سے دینا

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ھذا کے بارے میں کہ میرے بینک میں کافی رقم سود کی ہے اگر میں اتنی رقم اپنی طرف سے نکال دوں تو کیا میری وہ رقم (بینک والی) پاک وصاف ہو جا ے گی؟اور سود کی رقم کہاں دی جائے؟

المستفتى: عبید اللہ اعظمی ممبر روشنی گروپ۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

 جی بینک میں موجود سود کی رقم کو اپنے پاس موجود رقم سے ادا کرنا جائز ہے۔

سود کی رقم کا اصل مصرف جس سے سود لیا ہے اسی کو واپس کرے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو کسی مستحق زکوٰة کو بلا نیت ثواب دیدے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

الدلائل

لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إن تعذر الرد علی صاحبه. (شامي 6/385 دار الفکر بیروت).

وأما إذا کان عند رجل مال خبیث، فأما إن ملکه بعقد فاسد أو حصل له بغیر عقد، ولا یمکنه أن یردہ إلی مالکه، ویرید أن یدفع مظلمة عن نفسه، فلیس له حیلة إلا أن یدفعه إلی الفقراء الخ. (بذل المجہود / باب فرض الوضوء 1/37 رشیدیة سہارنفور، الفتاوی الهندیة، کتاب الکراہیة / الباب الخامس عشر في الکسب 5/349 زکریا، شامي، کتاب البیوع / باب البیع الفاسد، مطلب فیمن ورث مالاً حرامًا  7/301 زکریا)

 والله أعلم

تاريخ الرقم: 2- 7- 1441ھ 27- 2- 2020م الخمیس.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply