hamare masayel

بچے كے انتقال كے بعد عقىقہ، عقیقہ کے احکام و مسائل

انتقال کے بعد عقیقہ

سوال:  اگر کوئی بچہ پیدا ہوا اور چار روز بعد انتقال کر گیا ہو، تو کیا اس کا عقیقہ کر نا ہوگا؟

المستفتی:  عتیق احمد، شان پرنٹس

الجواب باسم الملهم للصدق والصواب

 عقیقہ زندگی میں کیا جاتا ہے؛ مرنے کے بعد عقیقہ کا مستحب ہونا ثابت نہیں، اس کے باوجود اگر مردہ بچہ کا عقیقہ محض شفاعت اور مغفرت کی امید سے کر دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے جیسے کسی نے حج نہیں کیا اور بلا وصیت مر گیا اور وارث نے اس کی مغفرت کی امید پر اپنے خرچ سے حج بدل کیا تو امید ہے کہ حق تعالیٰ قبول فرمائیں گے۔

نوٹ: ایسی صورت میں عقیقہ کا جانور مستقل ہو احتیاطاً قربانی کے جانور میں شرکت نہ کرے۔ (مستفاد فتاوی رحیمیہ: 10/63)

الدلائل

ویستحب لمن ولد له ولد أن یسمیه یوم أسبوعه، ثم یعق عند الحلق عقیقة إباحة أو تطوعا. (رد المحتار، کتاب الأضحیة، زکریا دیوبند 9/ 485).

قال رسول الله ﷺ: الغلام مرتهن بعقیقة یذبح عنه یوم السابع ویسمی ویحلق رأسه. (جامع الترمذي، أبواب الأضاحي، باب بلا ترجمة، النسخة الهندیة 1/278، دارالسلام، رقم: 1522، مسند البزار، مکتبة العلوم والحکم 10/ 408، رقم: 4549، سنن النسائي، کتاب العقیقة، باب متی یعق؟ النسخة الهندیة 2/ 167، دارالسلام، رقم: 4225، المستدرک علی الصحیحین 7/ 2074، رقم: 7587).

وحاصله ان الغلام اذا لم یعق عنه فمات لم یشفع لوالدیه، ثم إن الترمذی أجاز بھا الی یوم احدی وعشرین قلت بل یجوز الی ان یموت لما رأ یت فی بعض الروایات ان النبی ﷺ عق عن نفسه بنفسه الخ (فیض الباری: 4/337 کتاب العقیقة).

وهي ذبح شاة في سابع الولادة وضیافة الناس مباحة لا سنة ولا واجب، وذکر محمد في العقیقة فمن شاء فعل ومن شاء لم یفعل، وهٰذا یشیر إلی الإباحة فیمنع کونها سنة. (الفتاویٰ الهندیة 5/362، وهٰکذا في الشامي 6/ 336 کراچی، 9/ 485 زکریا).

وإنما أخذ أصحابنا الحنفیة في ذٰلک بقول الجمهور، وقالوا باستحباب العقیقة. (إعلاء السنن 17/ 113، حاشیة سنن الترمذي1/ 277).

 والله أعلم

تاريخ الرقم:  12/4/1440هـ 20/12/2018م الخميس

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply