(سلسلہ نمبر: 482).
تنخواہ جب تک وصول نہ کرلے اس پر زکوٰۃ نہیں
سوال: بندہ ایک مسجد میں امامت کرتا ہے، اور اس کی تنخواہ گھر والدین کے پاس بھیجتا ہے. ایک جگہ اور کام کرتا ہے جس کا پیسہ اپنے پاس رکھتا ہے، سال بھر پہلے جب کام کیا تھا تو بیس ہزار روپئے جہاں کام کرتا ہوں مالک کے پاس تھا اور اس میں سے کبھی کبھار والدین کے پاس بھی کچھ پیسے بھیجتا تھا، اس وقت جہاں میں کام کرتا ہوں مالک کے پاس میرا ستر، اسی ہزار روپئے ہیں اور وہ پیسے میرے پاس نہیں ہیں، آیا جب وہ پیسے مجھے حاصل ہونگے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی یا نہیں ؟
المستفتی: عبد اللہ اعظمی۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:
صورت مسئولہ میں اگر آپ نے تنخواہ لے کر مالک کے پاس جمع کردی ہو تو وصول ہونے کے بعد گزشتہ سالوں کی بھی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، اور اگر مالک سے وصول ہی نہیں کی تو چونکہ آپ ابھی اس کے مالک ہی نہیں ہوئے اس لئے جب آپ کی ملکیت میں آجائے تو صرف اسی وقت سے زکوٰۃ کی ادائیگی کرنی ہوگی۔
الدلائل
عن ابن عمر قال: زکاۃ أموالکم حول إلیٰ حولٍ ، فما کان من دین ثقۃ فزکوہ، وماکان من دین ظنون فلا زکاۃ فیه حتی یقضیه صاحب. (المصنف لابن أبي شیبة ، کتاب الزکاۃ / في زکاۃ الدین، مؤسسة علوم القرآن جدید، 6/ 485، الرقم: 10351).
فتجب زکاتها إذا تم نصاباً وحال الحول؛ لکن لا فوراً بل عند قبض أربعین درهما من الدین القوي کقرض وبدل مال التجارۃ. (الدر المختار: 2/ 205 کراچی).
وأما سائر الدیون المقر بها فهي علی ثلاث مراتب عند أبي حنیفة رحمه اللّٰه علیه ضعیف وهو کل دین ملکه بغیر فعله لا بدلا عن شيء لا زکاۃ فیہ عندہ حتی یقبض نصاباً ویحول علیه الحول إلی قوله، وقوي وهو ما یجب بدلا عن سلع التجارۃ إذا قبض أربعین زکی لما مضیٰ. (الفتاویٰ الهندیة: 1/ 157 الباب الأول کتاب الزکاۃ، دار الکتاب دیوبند).
هذا ما ظهر لي والله أعلم وعلمه أتم وأحكم
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.
26- 1- 1442ھ 16- 9- 2020م الأربعاء
المصدر: آن لائن إسلام
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.