KB حج ، شرائط، فرائض وواجبات، ممنوعات، اور حج كرنے كا طريقہ 322
حج ، شرائط، فرائض وواجبات، ممنوعات، اور حج كرنے كا طريقہ
بقلم: محمد ہاشم بستوى
اسلام كے اركان ميں سے ايك اہم اور ضرورى ركن حج بھى ہے، حج كا مطلب الله كے گھر خانہ كعبہ كا ديدار كرناہے، اور وہاں كے مناسك اور مخصوص اعمال كا مخصوص دنوں ميں انجام دينا ہے، ہر مسلمان پر جو مالدار ہو، حج كے مصارف اور اس كے جملہ اخراجات كى استطاعت ركھتا ہو اس پر زندگى ميں ايك بار حج كرنا فرض ہے، حج كے بڑے فضائل اور مناقب احاديث ميں وادر ہوئے ہيں اور استطاعت كے باوجود حج نہ كرنے كى بڑى سخت وعيديں آئى ہيں، درجِِ ذيل مضمون ميں حج تعريف، اس كى شرطيں، حج كے فرائض وواجبات، حج كے موقع پر استعمال ہونے والى بعض اصطلاحات،اور حج كرنے كا طريقہ اور اس كے فضائل ومناقب كے بارے ميں تفصيل سے بتايا گيا ہے۔
حج و عمرہ کی بعض اصطلاحات:
میقات: اس جگہ كو كہتے ہيں جہاں سے حدود حرم كى شروعات ہوتى ہيں۔
ميقاتى يا مكى: وہ شخص ہے جو حدود ِحرم كے اندر كاحرم كا باشندہ ہو۔
آفاقى: وہ شخص ہے جو میقات کی حدود سے باہر كا باشندہ ہو مثلا: يمنى، عراقى، چينى، جاپانى، ہندوستانی وغیرہ۔
حرم: كعبة الله كے چاروں طرف سے وہ علاقے جو ميقات كے اندر ہيں وہ حدودِ حرم كہلاتے ہيں، حرم كے اندر كے پيڑ پودوں، اور اس كى ہرى گھاس كو كاٹنا، جانوروں كا شكار كرنا حرام ہے۔
حلّ: وہ علاقےجو ميقات سے باہر ہوں، جو چيزيں حدودِ حرم ميں حرام ہيں وہ حل ميں جائز ہو جاتى ہيں۔
احرام: حج یا عمرہ کی نیت کر کے حل يا ميقات سے پہلے دو چادروں سے جسم كو ڈھانپا جاتا ہے ايك چادر كمر ميں لپيٹى جاتى ہے دوسرى اوڑھى جاتى ہے،اسى كو احرام کہتے ہیں۔ اس کے بغیر آدمی میقات سے نہیں گزر سکتا۔ اس کے پہننے کے بعد بعض حلال چیزیں بھی حرام ہو جاتی ہیں۔
محرم: احرام باندھنے والے كو كہتےہيں۔
حجِ مفرد: صرف حج كى نيت سے احرام باندھنا۔
حجِ قران: حج اور عمر ه دونو ں كى نيت سے ايك ساتھ احرام باندھنا۔
حجِ تمتع: پہلے عمرہ كى نيت سے احرام باندھنا،اس سے فارغ ہو كر ايام حج ميں حج كى نيت سے دوبارہ احرام باندھنا۔
تلبیہ: لبیک اللهم لبیک ، لبیک لاشریک لک، لبیک إن الحمد والنعمة لک والملک لا شریک لک پڑھنا۔
تہلیل: لا اله إلا اللہ پڑھنا۔
مطاف: طواف کرنے کی جگہ جو بیت اللہ کی چاروں طرف ہے۔
طواف: بیت اللہ کے چاروں طرف سات چکر لگانا۔
طواف قدوم: یہ طواف صرف حج افراد یا قران کرنے والے آفاقی کے لیے سنت ہے۔ حج تمتع یا عمرہ کرنے والے کے لیےچاہے وہ آفاقی ہو یاميقاتى اور مكى اس كے ليے سنت نہيں ہے۔
طواف زیارت: يعنى خانہ كعبہ كا طواف، اس کا وقت دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق سے لے كربارہویں ذى الحجہ كى غروب آفتاب تك ہے، یہ حج کا رکن ہے، اس کے بغیر حج پورا نہیں ہوتاے۔
طواف وداع: اس طواف کو طواف صدر بھی کہتے ہیں میقات سے باہر رہنے والوں کے لیے ہے، یہ طواف رخصتی واجب ہےاور حج کا آخری واجب رکن بھى ہے۔
طوافِ عمرہ: یہ طواف عمرہ كا فرض اور رکن ہے۔
طواف نفل: يعنى نفلى طواف، يه كسى وقت بھى كيا جا سكتا ہے۔
حجرِ اسود: جنت سے لايا گيا ايك كالا پتھر ہے، یہ بیت اللہ کى مشرقی دیوار میں گڑا ہوا ہے، اسکے چاروں طرف چاندی کا حلقہ چڑھا ہوا ہے۔
استلام: حجراسود کو بوسہ دینا،اور ہاتھ سے چھونا ۔
رمل: طواف کے پہلے تین پھيروں میں اكڑا كر کر شانہ ہلاتے ہوئے تیزی سے چلنا۔
شوط: بیت اللہ کے چاروں طرف ایک چکر لگانا۔
رمی: شيطان كوکنکریاں مارنا۔
سعی: صفا مروہ کے درمیان سات چکر لگانا۔
منى: يہ ايك ميدان ہے، جو بيت الله سے مشرق كى طرف 7.6 كلو ميٹر كى دورى پر ہے، اس كا رقبہ تقريبا مربع 20 كلو ميٹر ہے، ہر سال حاجيوں كے ليے اسى ميدان ميں خيمے لگائے جاتے ہيں، اور عيد الاضحى كے دنوں يہيں پر قربانى كى جاتى ہے۔
جمرات: مقام منى میں ايك جگہ ہےجہاں پر ديوار كى شكل ميں بڑے بڑےستون بنے ہوئے ہیں یہاں پر شيطان كو کنکریاں ماری جاتی ہيں، ان میں سے جو ستون مسجد خیف کے قریب مشرق کی طرف ہے اسکو جمرة الاولی کہتے ہیں، اور اس کے بعد مکہ مکرمہ کی طرف بیچ والے ستون كوجمرة الوسطی، اور اسکے بعد والے کو جمرة العقبہ اور جمرة الکبری کہتے ہیں، يہ مكہ كى طرف منى كا آخرى جمرہ ہے، يہاں سے خانہ كعبہ كى دورى 6.3 كلو ميٹر كى دورى پر ہے۔
صفا: بیت اللہ کے قریب جنوبی طرف ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے جس سے سعی شروع کی جاتی ہے، يہ پہاڑى بيت الله سے 1 كلو ميٹر كى دورى پر ہے۔
مروہ: ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے جس پر سعی ختم ہوتی ہے۔
عرفات: بيت الله سے تقریبا 24.1 كلو ميٹر كى دورى پر مشرق کی طرف ایک میدان ہے جہاں پر حاجی لوگ نویں ذی الحجہ کو ٹھہرتے ہیں۔
حلق: سر کے بال منڈانا۔
قصر: سر كے بالوں کو کتروانا ۔
حطیم: بیت اللہ کی شمالی جانب بیت اللہ سے متصل دیوار سے کچھ حصّہ زمین کا گھرا ہوا ہے اسکو حطیم کہتے ہیں۔
دم: احرام کی حالت میں ممنوع افعال کرنے سے قربانى واجب ہو جاتى ہے اسکودم کہتے ہیں۔
مقام ابراہیم: وہ پتھرجس پر كھڑے ہو كر حضرت ابراہيم علیہ السلام نے بیت اللہ كى تعمير كى تھى، يہ پتھر مطاف کے مشرقی کنارے پر منبر اور زم زم کے درمیان ایک جالی دار قُبے میں رکھا ہوا ہے۔
ملتزم: حجر اسود اور بیت اللہ کے دروازے کے درمیان کی دیوار كو كہتے ہيں،اس پر لپٹ کر دعا مانگنا مسنون ہے۔
مسجد خیف: مقامِ منى کی بڑی مسجد کا نام ہے جو منى كے شمالی جانب میں پہاڑی سے متصل ہے۔
مسجد نمرہ: ميدانِ عرفات کے کنارے پر ایک مسجد ہے۔
مزدلفہ: منٰی اور عرفات کے درمیان ایک میدان ہے جوكعبة الله سے 12 كلو ميٹر كى دورى پر ہے۔
محسّر: مزدلفہ سے ملا ہوا ایک میدان ہے جہاں سے گزرتےہوئے دوڑ کر نکلتے ہیں اس جگہ اصحاب فیل پر(جنہوں نے بیت اللہ پرچڑھائی کی تھی )عذاب نازل ہواتھا۔
یومِ عرفہ: نویں ذی الحجہ كو كہتے ہيں،اسى روز حج ہوتا ہے اور حاجی لوگ عرفات میں ٹھہرتے کرتے ہیں۔
حج کی تعریف :
حج کے لغوی معنی :ہے کسی عظیم شے کا قصد کرنا۔
حج كى اصطلاحى تعريف: مخصوص مناسك كے ادا كرنے كى نيت سے بيت الله كا قصد كرنا۔
حج كى شرطيں:
(1) حج اسلام کرنے والا مسلمان ہونا، (2) آزاد ہونا، مکلف ہونا (3) صحیح البدن اور تندرست ہونا، (3)صاحب استطاعت ہونا، (4) سواری ہو یا سواری کے انتظام كےخرچ كا ہونا،(5) راستہ كا مامون ہو نا، (6) حج پر جانے والى عورت كے ساتھ اس کےشوہر یا عاقل بالغ محرم كا ہونا۔
حج کے فرائض :
حج میں تین چيزيں فرض ہیں: (1) حج كى نيت سےاحرام باندھنا (2) 9/ ذوالحجہ کو زوال آفتاب سے دسویں کی فجر تک کسی بھی وقت میدان عرفات میں وقوف کرنا (3) طواف زیارت کرنا
حج کے واجبات:
(1) مزدلفہ میں نويں اور دسويں ذى الحجہ كى درميانى رات ميں ٹھہرنا (2) رمی جمار يعنى 11، 12، 13 ذى الحجہ كوشیطان کنکریاں مارنا) (3) حج قران اور حج تمتع کرنے والے کے لیے قربانی کرنا (4) حلق يا قصر یعنی سر کے بال منڈوانا یا کتروانا (5) صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا (6) آفاقی یعنی میقات سے باہر رہنے والے کو طواف وداع کرنا۔
نوٹ: ان واجبات میں سے کوئی واجب اگر چھوٹ جائے تو ايك دم( ایک قربانی) دینا ضروری ہے۔
حج کى سنتيں:
(1) مفرد (صرف حج كى نيت سے احرام باندھنے والا) آفاقی اور قارن کا طواف قدوم کرنا۔ (2) طواف قدوم اور طواف فرض میں رمل کرنا۔ (3) صفا مروہ کی سعی میں دونوں سبز نشانوں کے درمیان جلدی چلنا۔ (4) آٹھویں ذی الحجہ کی صبح کو منی کے لیے روانہ ہونا اور وہاں پانچوں نمازیں پڑھنا، اوررات ميں منیٰ میں قیام کرنا۔ (5) نویں ذی الحجہ کو سورج نکلنے کے بعد منیٰ سے عرفات كے ليے روانہ ہونا۔ (6) سورج نکلنے سے پہلے مزدلفہ سے منیٰ آجانا۔ (7) عرفات سے واپس ہوکر رات کو مزدلفہ میں ٹھہرنا اورمزدلفہ میں رات گزارنا۔ (8) گیارہ اور بارہ ذی الحجہ کو تینوں جمرات میں ترتیب سے سات سات کنکریاں مارنا۔
حج كے ممنوعات:
احرام باندھنے كے بعد محرم پربہت سى پابندياں عائد ہوتى ہيں مثلا:
(1) جماع اور اس كے دواعی سے دور رہنا۔ (2) سلا ہوا كپڑا پہننا۔(3) خوشبو ملے ہوئے رنگ سے رنگا ہوا كپڑا پہننا۔ (4) سر یا چہرے كا ڈھانكنا۔ خوشبو یا مہندی لگانا۔ (5) بدن كے كسی حصے كے بال كا كاٹنا۔(6) زیب و زینت اختیار كرنا۔ (7) بلاضرورت بدن كے كسی حصے پر پٹی باندھنا۔ (8) بدن كے میل كچیل كو دور كرنا۔ (9) آگ پر پكی ایسی خوشبودار چیز كھانا جس كی خوشبو باقی ہو۔ (10) جُوں كھٹمل چیونٹی وغیرہ كو مارنا۔ (11)خشكی كے جانوروں كا شكار كرنا۔ (12) حدود حرم كے پيڑ پودوں يا اس كى گھاس كاٹنا۔
حج كى قسميں:
حج كى تين قسميں ہيں: (1) حج افراد (2) حج تمتع (3) حج قران
حج افراد: اس حج كو كہتے جسم محرم ايامِ حج ميں صرف حج كى نيت سے احرام باندھے، اور عمرہ كرنے كى نيت نہ ہو۔ حج كى اس قسم ميں حاجى قربانى واجب نہيں ہوتى۔
حجِ تمتع: اس حج كو كہتے ہيں جس ميں حاجى حج كے سفر ميں پہلے عمرے کا احرام باندھے، پھر طواف و سعی حلق قصر کر کےاپنا احرام كھول دے، پھر ايام حج شروع ہونے كے بعد حج کا احرام باندھے اور اركانِ حج كو پورا كرے، حج كى اس قسم ميں حاجى پر قربانی واجب ہوتی ہے۔ اكثر عازمینِ حج عموماً حج ِتمتع ہی کرتے ہیں۔
حجِ قران: اس حج كو كہتے ہيں جس ميں حاجى حج كے سفر ميں حج و عمرہ دونوں کا احرام ايك ساتھ باندھے، پہلے عمرہ کے ارکان پورا كرے، لیکن عمرے کی سعی کے بعد حلق یا قصر نہ كرے، بلکہ طوافِ قدوم اور حج کی سعی کرنے کے بعدبدستور احرام كى حالت میں رہے،اس كے بعدحج كے ايام میں حج کے ارکان پورا كرے، اس كے بعد حلق یا قصرکراكے احرام كھول دے۔ حجِ قران ميں بھى حاجى پر قربانی واجب ہوتی ہے۔
میقات:
میقات اس جگہ كو كہتے ہيں جہاں سے حدود حرم كى شروعات ہوتى ہے، اس جگہ سے مكہ كى طرف بغير احرام كے كسى بھى حاجى يا عمرہ كرنے والے كا جانا جائز نہيں ہے، ميقات پر پہنچ كر حج یا عمرہ پر جانے والے احرام باندھتے ہیں، حضور صلى الله عليہ وسلم نے پانچ جگہوں كومیقات كے ليے متعين كرديا تھا، ان مقامات كى تفصيل درجِ ذيل ہے:
ذوالحلیفہ: يہ مدینہ كى طرف سے آنے والے حاجیوں معتمرين اور زائرین کی میقات ہے، يہ جگہ بيت الله سے شمال كى طرف ہے، يہاں سے بيت الله كى دورى جميم كے راستے سے 424 كلو ميٹر ہے، اور جدہ كے راستے سے 472 كلو ميٹر ہے۔
جحفہ: يہ ملك شام وغيرہ كى طرف سے مكہ آنے والوں كى ميقات ہے، يہ بيت الله سے شمال مغرب كى طرف ہے، يہاں سے بيت الله كى دور 179 كلو ميٹر ہے۔
قرن المنازل: نجد كى طرف سے مكہ آنے والوں کے لیے، يہ ميقات بيت الله سے شمال مغرب مين 80 كلو ميٹر كى دورى پر ہے ۔
یلملم: یمن كى طرف سےمكه آنے والوں کے لیے ہے، يہ ميقات بيت الله سے جنوبى سمت ميں 128 كلو ميٹر كى دورى پر ہے ۔
ذات عرق: عراق كى طرف سے مكہ سے آنے والوں کے لیے هے، يہ ميقات بيت الله شمال مشرق ميں 115، اور 136 كلو ميٹر كى دورى پر ہے۔
ان ميقات ميں ہندوستان، پاكستان اور دوسرے پورب كے ممالك كى ميقات كا ذكر نہيں ہے ، ان ممالك كى ميقات كى تفصيل درجِ ذيل ہے:
انڈيا پاكستان، اور دوسرے پورب كے ممالك سے آنے والے حجاج اور معتمرين كى فلائٹ اگر جدہ كے ليے ہو تو بہتر يہ ہے كہ وہ لوگ آغاز سفر میں یا سفر شروع ہونے کے ایک دو گھنٹہ بعد ہی احرام باندھ لیں، كيونكہ موجودہ وقت ميں ہوائی جہاز قرن منازل اور یلملم دونوں میقاتوں سے كسى ايك كى طرف ہو كر گزرتا ہے جہاز کس وقت میقات کے مقابل آیا ہے اس كا صحیح اندازہ دشوار ہے، تاہم جحاز كےعملہ كى طرف سے عام طور پر ميقات كا اعلان ہوا کرتا ہے، اور اگر فلائٹ مدينہ كى ہو تو ان كى ميقات وہى ہے جو مدينہ والوں كى ہے، يہ حضرات ذو الحليفہ پہنچ كر احرام باندھيں گے، اور اگر كسى كى فلائٹ جدہ كى ہو ليكن كسى وجہ سے جدہ سے پہلے احرام باندھنے میں بہت پریشانی ہو تو حرم جانے کے بجائے جدہ جانے کی نیت کر لے اور پھر وہاں سے حسب سہولت احرام باندھ کر مکہ لیےروانہ ہو۔
حج کا طریقہ:
آٹھويں ذى الحجہ كى صبح كو منى كى طرف روانگى:
حج افراد كرنے والے اسى طرح سے حج قران كرنے والے پہلے ہى سے احرام باندھے ہوئے ہوتے ہيں، البتہ حج تمتع والے جنہوں نے عمرہ کرکے احرام کھول دیا تھا۔ آج دوبارہ پہلے کی طرح احرام باندھیں۔ سب سے پہلے حج کی نیت سے دو رکعت نماز پڑھيں، تلبیہ پڑھیں، صبح کو ہی منیٰ کی طرف روانہ ہو جائیں، اور منیٰ میں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر پانچوں نمازیں پڑھنا، اور آٹھويں اور نويں ذى الحجہ کی رات ميں مقام منیٰ میں قیام کرنا سنت ہے۔
نويں ذى الحجہ كو ميدانِ عرفات كى طرف روانگى:
دوسرے دن يعنى نويں ذى الحجہ کو فجر کی نماز پڑھ کر میدان عرفات کی طرف روانہ ہو جائیں، وقوف عرفہ حج کا سب سے بڑا اور اہم رکن ہےاگر يہ چھوٹ جائے تو حج ادا نہيں ہوتا۔ زوالِ آفتاب سے لے كرغروب آفتاب تک مقامِ عرفات میں قیام واجب ہے، اگر کوئی آنے والی رات میں کسی وقت بھی پہنچ جائے، حتى كہ سوتے سوتے هى يہاں سےگزر جائے تو بھى اس كا حج ہو جائے گا۔ پورے میدان میں جہاں بھی جگہ ملے وقوف عرفہ ادا ہو جاتا ہے، لیکن افضل اور بہتر جبل الرحمۃ کے قریب قيام ہے۔ افضل و اعلیٰ یہ ہے کہ قبلہ رخ کھڑے ہوکر ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگیں۔ بیٹھ كر بھى دعائىں مانگ سکتے ہیں، درود شریف پڑھیں، اوراللہ کا ذکر کریں، اپنے لیے اور ساری امت محمدیہﷺ کیلئے دعائیں مانگیں۔ جس زبان میں چاہے دعائیں مانگ سكتےہيں اس كے ليے كوئى قيد نہيں ہے۔
مقامِ عرفات میں ایک اذان سے دو الگ الگ تکبیروں سے دو دو رکعت نماز ظہر اور عصر قصر ادا کریں۔
غروب آفتاب کے بعد مقامِ عرفات سے مزدلفہ کی طرف روانہ ہو جائيں۔ مغرب یا عشاء کی نماز عرفات میں نہ پڑھيں، راستہ میں تلبیہ پڑھتے رہيں۔
مقامِ مزدلفہ میں پہنچ کر مغرب اور عشاء ایک اذان سے دوالگ الگ تکبیروں سے مغرب كى تین ركعت فرض، اور عشاء كى دو ركعت فرض قصرادا کریں۔ سنتیں اور وتر كى نماز بعد میں ادا كريں۔
اگر جماعت کے ساتھ فرض پڑھیں تو زيادہ بہتر ہے ورنہ تنہا بھی دو نمازیں ايك ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔
مقام مزدلفہ کا قیام بہت فضیلت كا حامل ہےوالا ہے۔ اس رات ميں سونا بھی سنت ہے ذکر و اذکار کا بہت درجہ ہے۔
دسويں ذى الحجہ كو مزدلفہ سے منى كى طرف روانگى:
دسويں ذى الحجہ کو فجر کی نماز مزدلفہ میں پڑھ کر سورج طلوع ہونے کے بعد مزدلفہ سے منی کی طرف روانہ ہو جائیں۔ مزدلفہ سے منیٰ کے راستہ میں وادی محسر (اصحاب فيل كى وادى) سے تیزی سے گزرجائيں۔
راستے ميں تلبیہ، تکبیرتہلیل، درود شریف، استغفار و توبہ، اور دوسرى دعائيں كثرت سے کریں۔
بہتر يہى ہے كہ مقامِ مزدلفہ سے ۲۷ کنکریاں چن كر اپنے ساتھ لے لیں، ورنہ کہیں سے بھی کنکریاں چن سکتے ہیں۔ منیٰ پہنچ کر سب سے پہلے جمرہ عقبہ کی رمی كريں سات کنکریاں ماریں، اس كو جمرہ كبرى بھى كہتے ہيں۔ جمرہ عقبہ كى رمى كا مسنون وقت طلوع آفتاب كے بعد زوال تك ہے،
پہلی کنکری مارنے کے بعد تلبیہ اور اللهم لبيك پڑھنا بند کردیں۔
يہ حكم مفرد، قارن، متمتع سب كے ليےہے۔
ہر کنکری مارتے وقت تکبیر پڑھیں دعا مانگیں۔ اس رمی کا وقت دسويں ذى الحجہ طلوع آفتاب سے لیکر آنے گيارہويں ذى الحجہ صبح صادق تک ہے۔ البتہ کچھ اوقات مسنون کچھ جائز اور کچھ مکروہ ہیں۔ضیعفوں بیماروں اور عورتوں کیلئے مکروہ وقت ميں بھی رمى كرنا جائز ہے۔
رمی جمرات سے فارغ ہو کر حج كے شکرانہ كے طور پرقارن اور متمتع كے ليے قربانی کرنا واجب ہے، جب كہ مفرد كے ليے قربانى مفرد كے ليے مستحب ہے۔
قربانی کرنے کے بعد حلق (سرمنڈوانا)یا قصر(بال کٹوانا) کریں۔
حلق یا قصر کے بعد احرام کھول دیں۔ احرام کی پابندی ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن میاں بیوی کے خاص تعلقات حلال نہیں ہوتے۔
طواف زیارت كے ليے بيت الله كى طرف روانگى:
منیٰ میں رمی جمرات، قربانی، حلق یا قصر کے بعد مکہ معظمہ جاکر بیت اللہ کاطواف فرض ہے۔ اس طواف کا افضل وقت 10، ذوالحجہ کو طلوع آفتاب کے بعد شروع ہو جاتا ہے اس سے پہلے جائز نہیں۔ البتہ یہ طواف دسويں، گيارہويں اور بارہويں ذى الحجہ تینوں دنوں میں ہوسکتا ہے۔ رات یا دن كى كوئى قيد نہيں ہے، طواف زيارت کے بعد واپس منیٰ میں آنا ہوتا ہے۔ البتہ بارہويں ذى الحجہ کو رمی کرنے کے بعد طواف زيارت سے فارغ ہو کر واپس منیٰ آنے کی ضرورت نہیں۔
طواف زیارت کے بعدمیاں بیوی کے خاص تعلقات حلال ہو جاتے ہیں۔
گيارہويں ذى الحجہ كو رمى جمرات:
اگر كوئى شخص دسويں ذى الحجہ كو قربانى اور طواف زيارت نہ كر سكا ہو تو آج كر لے، آج پھر جمرات كى رمى كرنى ہے،رمى كا مستحب وقت زوال کے بعد غروب آفتاب تک ہے، البتہ بارہويں ذى الحجہ کو سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے رمى كر لينا چاہئے ورنہ دم دینا پڑے گا، آج كےدن رمی کی ترتیب اس طرح ہے، سب سے پہلے جمرہ اولیٰ اس کے بعد جمرہ وسطیٰ اور آخر میں جمرہ عقبہ کو سات سات کنکریاں پہلے دن کے کنکریاں مارنے کے طریقہ سے ماریں ایک جمرہ سے دوسرے جمرہ تک پہنچنے کے وقفہ کے دوران تکبیر تہلیل استغفار اور درود شریف کثرت سے پڑھیں۔
بارہويں ذى الحجہ كو بھى جمرات كى رمى:
گيارہويں ذى الحجہ كى طرح آج بھى تینوں جمرات کی رمی ہوگى، گيارہويں ذى الحجہ كى طرح آج بھى اس كا مستحب وقت زوال کے بعد غروب آفتاب تك ہے، البتہ عورتیں اوربوڑھے لوگ صبح صادق تک رمى کرسکتے ہیں۔ اگر کسی كى قربانى ابھى تك نہ ہوئى ہو، يا كسى نے ابھى تك طواف زیارت نہ کیا ہو تو وہ آج کی رمی کے ساتھ ساتھ قربانى اور طواف زيارت سورج غروب ہونے سے پہلے کرلیں۔
تيرہويں ذى الحجہ كے اعمال:
بارہويں ذى الحجہ كى رمی کرنے کے بعد آپ کو اختیار ہے کہ تيرہويں ذى الحجہ رمی کیلئے قیام کریں، يا غروب آفتاب سے پہلے پہلے منیٰ سے مكہ معظمہ كے ليے روانہ ہو جائیں۔ اگر آفتاب غروب ہو چکا تو آپ كے ليے منى سے نكلنا مكروہ ہے، اب آپ كو چاہئےكہ کہ آج رات اور منی میں قیام کريں اور تیرہویں تاریخ كى رمی کر کے مکہ معظمہ جائيں، اور اگر منی میں تیرہویں کی صبح ہو گئی تو اس دن کی رمی بھی آپ کے ذمہ واجب ہو گئی بغیر رمی کئے ہو ئے جانا جائز نہیں ہے، اگر بغیر رمی کے كوئى چلا جائے تو اس پر دم واجب ہو گا ۔
بہتر یہی ہے کہ بارہویں تاریخ کی رمی کے بعد منى ميں ٹھہريں، اورصبح کو زوال آفتاب کے بعد تینوں جمرات کی رمی کر کے مکہ معظمہ جائيں ،تيرہويں ذى الحجہ کی رمی کا وہی طریقہ ہے جو گیارہویں اور بارہویں کی كا ہے ، اور اس دن کی رمی کا صحیح وقت زوال سے لے کر غروب آفتاب تک ہے ، لہذا اس دن کی رمی صرف غروب سے پہلے پہلے ہو سکتی ہے رات میں نہیں ہو سکتی ، اکر غروب آفتاب تک كسى نے رمی نہ کی تو رمی کا وقت ختم ہو گیا مگر اس دن کی رمی واجب ہو چکی تھی اور غروب آفتاب تک نہ کی تو اس کے ترک کر نے سے ایک دم واجب ہو گا۔
اگر کسی نے تیرہویں تاریخ کی صبح صادق کے بعد زوال سے پہلے رمی کرلی تو کراہت کے ساتھ ادا ہو جائے گی، زوال سے پہلے اس دن کی رمی کرنا مکروہ ہے لیکن اس کراہت کی وجہ سے دم واجب نہ ہو گا ۔
طواف وداع:
اس طواف کو طواف صدر بھی کہتے ہیں، میقات سے باہر رہنے والوں کے لیے یہ طواف وداع واجب ہے یہ حج کا آخری واجب رکن ہے، طواف وداع ميں حج کی تینوں قسمیں برابر ہیں: یعنی مفرد، قارن اور متمتع سب پر يہ طواف واجب ہے ، البتہ اہل حرم اور حدود میقات کے اندر رہنے والوں پر واجب نہیں ، اور جو عورت حج کے سب ارکان و واجبات ادا کر چکی ہے اور طوافِ زیارت کے بعد اس كوحیض آگیا، اور اس نے ابھى تك طواف وداع نہيں كيا ہے اوراس كے پاك ہونے سے پہلےاس کا محرم روانہ ہو نے لگا تو یہ طوافِ وداع اس پر بھی واجب نہیں رہتا وہ اپنے محرم کے ساتھ طوافِ وداع کئے بغیر جاسکتی ہے ۔
طوافِ وداع کے لئے الگ سے كوئى نیت ضروری نہیں ہے، اگر طوافِ زیارت کے بعد کوئی نفلی طواف کرلیا تو وہ بھی طوافِ وداع کے قائم مقام ہو جاتا ہے،لیکن افضل یہی ہے کہ مستقل نیت سے واپسی کے وقت طواف وداع کرے۔
اگر طوافِ وداع کر لینے کے بعداچانك كسى ضرورت سے پھر مکہ میں قیام کرے تو پھر چلنے کے وقت طوافِ وداع کا دوبارہ کرنا مستحب ہے، طوافِ وداع کے بعد دوگانہ طواف پڑھے، پھر مستقبل قبلہ ہوکر زمزم کا پانی پیئے ، پھر حرم سے رخصت ہو جائے۔
حج کے فضائل كے فضائل قرآن وحديث كى روشنى ميں:
سورہ آل عمران ميں الله تعالى فرماتے ہيں:
{ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا} [آل عمران: 97]
لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔
حضرت ابوہریرہ سے روايت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے حج کیا اور اس میں جماع یا اس کے متعلق باتیں نہیں کیں اور نہ کوئی گناہ کیا تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو كر لوٹے گا جس طرح اپنی ماں کے بطن سےپاك صاف پیدا ہوا تھا۔ (صحیح بخاری:1820، صحیح مسلم: 1350)
حضرت ابوہریرہ ايك اور روايت ميں كہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک عمرہ دوسرےعمرے تك درميان ميں ہونےوالے گناہوں کا( گناہِ صغيرہ) کفارہ ہے، اور حج مبرور کی جزا اور بدلہ صرف جنت ہے (صحیح بخاری: 1773، صحیح مسلم: 1349)
حضرت عمرو بن العاص بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام لانے كى خواہش پيدا ہوئى تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ اپنا ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں آپ سے بیعت کروں: آپ نے ہاتھ بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا،آپ نے فرمایا اے عمرو کیا ہوا ؟ میں نے عرض کیا میں ایک شرط لگانا چاہتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: جو چاہو شرط لگاؤ، میں نے عرض کیا: اے الله كے رسول ميرى شرط يہى ہے كہ: اسلام لانے كے بعد میری مغفرت کردی جائے، كيونكہ كفر كى حالت ميں مجھ سے بڑى زيادتياں سرزد ہوئى ہيں، آپ نے فرمایا اے عمرو ! گھبراؤ نہيں اسلام لانے كے بعد كفر كى حالت ميں كئے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہيں، اور اسى طرح الله كے ليے كى گئى ہجرت اس سے پہلے کے گناہوں کو مٹا دیتی ہے اور اسى طرح حج بھى اس سے پہلے کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ (صحیح مسلم: 121 ، مسند احمد: 17880)
قدرت واستطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والے پر وعید:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «قَالَ اللَّهُ: إِنَّ عَبْدًا صَحَّحْتُ لَهُ جِسْمَهُ، وَوَسَّعْتُ عَلَيْهِ فِي الْمَعِيشَةِ يَمْضِي عَلَيْهِ خَمْسَةُ أَعْوَامٍ لَا يَفِدُ إِلَيَّ لَمَحْرُومٌ» (رواه ابن حبان في صحيحه: 3703، وأبو يعلى في مسنده: 1031)
حضرت علی سے روايت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا: جو شخص سفر خرچ اور سواری كا انتظام ہونے كے باوجود وہ حج نہ کرے تو اس کوئی افسوس نہیں خواہ وہ یہودی ہو کر مرے يا نصرانی ہو کر مرے۔ (سنن ترمذى: 812، شعب الايمان: 3692)
حضرت ابوہریرہروايت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب حج کرنے والا پاکیزہ کمائی لے کر نکلتا ہے اور اپنا پیر رکاب میں ڈالتا ہے اور اللہم لبیک اللہم لبیک سے ندا کرتا ہے تو آسمان سے ایک منادی کہتا ہے: لبیک وسعدیک، تمہارا سفر خرچ حلال ہے ، تمہاری سواری حلال ہے ،تمہارا حج مبرور (مقبول) ہے اس میں گناہ نہیں ہے، اور جب وہ حرام مال سے حج کے لیے روانہ ہوتا ہے اور اپنا پاؤں رکاب میں ڈالتا ہے اور لبیک کہتا ہے تو آسمان سے ایک منادی ندا کرتا ہے تمہارا لبیک کہنا مقبول نہیں، تمہارا زاد راہ حرام ہے، تمہارا خرچ حرام ہے تمہارا حج گناہ ہے، مقبول نہیں ہے۔
(رواه البزار كما في كشف الأستار: 1079، والأصفهاني في الترغيب والترهيب: 1075) (قال العجلوني في كشف الخفاء (1/ 98): قال في المقاصد: رواه الديلمي وابن عدي عن حديث دجين عن عمر مرفوعًا، ودجين ضعيف، وله شاهد عند البزار بسند ضعيف أيضًا عن أبي هريرة مرفوعًا)
KB حج ، شرائط، فرائض وواجبات، ممنوعات، اور حج كرنے كا طريقہ 322
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.