hamare masayel

حنفیہ کے نزدیک ہر اذان کے جواب کا حکم

 (سلسلہ نمبر: 751)

حنفیہ کے نزدیک ہر اذان کے جواب کا حکم

سوال: مفتیان کرام وفضلائے پاسبان سے ایک مسئلہ دریافت کرنا تھا کہ اذان واقامت کا جواب سامعین پر سنت ہے: إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما يقول المؤذن، ثم صلوا عليه الخ سے استدلال کرتے ہوئے۔

کیا احناف کے نزدیک اقامت ( تکبیر ) کا بھی جواب دینا سنت یا مستحب؟ اور کیا ان سے سے کوئی اذان مستثنٰی ہے؟ مثلا جمعہ کے دن امام کے منبر پر چڑھنے کے بعد دی جانے والی اذان کا جواب بھی مذکورہ حدیث کی عمومیت میں آتا ہے؟ ہمارے (شافعیہ کے) نزدیک آتا ہے تو کیا حنفیہ کے نزدیک اس کا جواب بھی دیا جائے گا یا نہیں؟ بینوا وتوجروا۔

المستفتی: عبدالقادر فیضان بن اسماعیل باقوی شافعی۔

الدلائل

الجواب باسم الملہم للصدق والصواب: حنفیہ کے نزدیک اقامت کا جواب دینا مستحب ہے البتہ جمعہ کے خطبہ کے لئے دی جانے والی اذان کا جواب زبان سے نہیں دیا جائے گا، زبان کے بجائے دل میں جواب دے سکتے ہیں.

(ويجيب الإقامة) ندباً إجماعاً (كالأذان) ويقول عند قد قامت الصلاة: أقامها الله وأدامها”. الدر المختار: 1/ 400).

وینبغي أن لا یجیب بلسانه اتفاقًا في الأذان بین یدي الخطیب الخ: (الدر المختار: 1/ 399).

وفي فتح القدير إن إجابة الإقامة مستحبة، وفي غيره أنه يقول إذا سمع قد قامت الصلاة أقامها الله وأدامها. (البحر الرائق: 1/ 273).

ينبغي أن لا تجب باللسان اتفاقا على قول الإمام في الأذان بين يدي الخطيب. (منحة الخلق: 1/ 273).

والله أعلم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

22- 10- 1444ھ 13-5- 2023م السبت

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply