روزے كى حالت ميں خوشبو استعمال کرنا

روزے كى حالت ميں خوشبو استعمال کرنا

روزے كى حالت ميں خوشبو استعمال کرنا

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی۔ جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو یوپی۔

خوشبو کے استعمال کے تین طریقے رائج ہیں:

۱۔ تیل کی طرح سے اسے جسم میں لگایاجائے، اس سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا لہذا اگر خوشبو سر میں لگائی جائے اور اس کا ذائقہ منہ یا حلق میں محسوس ہو تو  اس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا، کیونکہ روزہ فاسد ہونے کے لیے شرط ہے کہ پیٹ یا دماغ میں کسی چیز کے داخل ہونے کے جو طبعی راستے ہیں ان راستوں میں سے کوئی چیز داخل ہو اس لئے جسم کے مسامات کے ذریعے داخل ہونے والی چیزوں سے روزہ خراب نہیں ہوتا ہے۔[1]

۲۔ خوشبو اِسپرے کرنا اورچھڑکنا، جس کی وجہ سے اس کے اجزاء ہوا میں بکھر جائیں، خوشبو کے اس طرح کے استعمال سے بھی روزہ فاسد نہیں ہوگا بشرطیکہ چھڑکا ؤ کے وقت اسے ارادہ و اختیار سے ناک یا منہ کے ذریعے اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش نہ کی جائے، کیونکہ ایسی حالت میں اس کے اجزاء ناک یا منہ کے راستے دماغ یا پیٹ تک پہنچ سکتے ہیں اوراس کے نتیجے میں روزہ فاسد ہوسکتا ہے، البتہ چھڑکا ؤ کا عمل ختم ہونے کے بعد اسے جان بوجھ کر سونگھنے سے بھی روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ اب منہ کے  اندر اس کے اجزاء کے داخل ہونے کا اندیشہ نہیں ہے اس لئے کہ وہ ہوا میں تحلیل ہوچکے ہیں اور روزہ خراب ہونے کے لیے شرط ہے کہ کوئی چیز منہ یا ناک وغیرہ کے راستے سے پیٹ یا دماغ تک پہنچ جائے۔

۳۔ خو شبو سلگانا، اگر کوئی خوشبو سلگا کر اس کے دھوئیں کو سونگھ رہا ہے اور جذب کررہا ہے تو روزہ فاسد ہوجائے گا، کیونکہ دھواں ایک جسم دار چیز ہے جو اس کے اختیار سے اس کے پیٹ یا دماغ میں داخل ہورہا ہے اور اگر ارادہ و اختیار کے بغیر خود سے دھواں منہ میں داخل ہوجائے تو روزہ فاسد نہیں ہوگاکیونکہ اس سے بچنا دشوار ہوتا ہے۔[2]


حواله

[1]  أو أدهن أو اكتحل أو احتجم وإن وجد طعمه في حلقه (الدرالمختار:367/3)

أي طعم الكحل أو الدهن كما في السراج وكذا لو بزق فوجد لونه في الأصح بحر قال في النهر؛ لأن الموجود في حلقه أثر داخل من المسام الذي هو خلل البدن والمفطر إنما هو الداخل من المنافذ للاتفاق على أن من اغتسل في ماء فوجد برده في باطنه أنه لا يفطر. (ردالمحتار:367/3)

[2]  أو دخل حلقه غبار أو ذباب أو دخان ولو ذاكرا استحسانا لعدم إمكان التحرز عنه، ومفاده أنه لو أدخل حلقه الدخان أفطر أي دخان كان ولو عودا أو عنبرا له ذاكرا لإمكان التحرز عنه (الدر المختار:366/3) ولا يتوهم أنه كشم الورد ومائه والمسك لوضوح الفرق بين هواء تطيب بريح المسك وشبهه وبين جوهر دخان وصل إلى جوفه بفعله  (رد المحتار:366/3)۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply