hamare masayel

زنا کے حمل کا حکم، ولد الزنا کا حکم، حرامی بچہ کا حکم

(سلسلہ نمبر: 387)

زنا کے حمل کا حکم

سوال: ایک مسئلہ دریافت کرنا تھا برائے کرم جواب عنایت فرمائیں پوری نوعیت مسئلہ لکھتا ہوں:

ہوا یوں کہ ایک بچی کی شادی ہوئی پندرہ دن کا عرصہ ہوا اس بچی کے غلط مراسم کسی اور لڑکے سے تھے جسکی وجہ سے اس بچی کو ایک ماہ سات دن کا حمل ہے، اس کے شوہر نے اسے طلاق دیدی، اب وہ لڑکا جس سے اسکے غلط تعلقات تھے اسی سے شادی کرائی جارہی ہے چونکہ اس بچی کو حمل ہے بغیر وضع حمل کے شادی نہیں ہو سکتی،

کیا ایسی صورت میں اسقاط حمل کی کوئی  گنجائش نکل سکتی ہے؟ اگر اسقاط نہیں ہوگا تو کیا وہ زانی جو ناکح بن رہا ہے بعد وضع حمل اس بچہ کا باپ ہوگا؟ یا وہ بچہ حرامی ہوگا اس زانی سے اس کا نسب ثابت نہیں ہوگا؟ خلاصہ یہ ہے:

(1)اسقاط حمل کی گنجائش ہے؟

(2) وضع حمل کی لمبی مدت عذر ھو سکتی ہے؟

(3) زانی  سے اس بچہ کا نسب ثابت ہوگا؟

(4) زنا کی وجہ سے جو حمل ٹھہرا وہ حرامی ہے؟

المستفتی: محمد مسیح الزماں، ممبر ترجمان ملک وملت۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

 زنا شریعت اسلامیہ میں انتہائی گندہ اور بدترین جرم ہے، اس پر سچے دل سے توبہ اور استغفار لازم وضروری ہے. سوالات بالا کے ترتیب وار جواب ملاحظہ فرمائیں.

 (1) صورت مسئولہ میں چونکہ شوہر نے طلاق دیدیا ہے اور آئندہ زانی ہی سے نکاح کا ارادہ ہے اس لئے یہ بظاہر اس حمل کے اسقاط کی گنجائش نہیں معلوم ہوتی، لیکن اگر زانی اس پیدا ہونے والے بچے کی پرورش کے لئے تیار نہ ہو یا وہ حمل نکاح کے لئے مانع بنے تو چونکہ ابھی چار ماہ سے کم ہے اس لئے ایسی مجبوری میں اسقاط حمل کی گنجائش ہو سکتی ہے۔

(2) البتہ عدت کی مدت کا لمبا ہونا یہ اسقاط کے لئے عذر نہیں ہے۔

(3) زانی سے اس بچہ کا نسب بھی ثابت نہیں ہوگا اس لئے کہ پیدائش کے وقت زانی کے نکاح میں نہیں ہوگی۔

(4) جی یہ ثابت النسب نہیں ہوگا، صرف ماں کی طرف اس کی نسبت ہوگی۔

نوٹ: اگر اسقاط نہیں کراتے ہیں تو عدت بچہ پیدا ہونے کے بعد ہی پوری ہوگی، گرچہ یہ ناجائز حمل ہے، اور اگر اسقاط کرالیتے ہیں تو چونکہ ابھی حمل کم  مدت کا ہے اس لئے یہ اسقاط عدت مکمل ہونے کا سبب نہیں بنے گا بلکہ الگ سے تین حیض تک عدت گزارنا ضروری ہوگا۔

الدلائل

قال اللٰه تبارک وتعالیٰ: ﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا﴾ [الإسراء: 32]

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: إذا زنی العبدُ خرجَ منہ الإیمانُ، فکان فوق رأسہ کالظُّلۃِ، فإذا خرج من ذٰلک العمل رجعَ إلیہ الإیمان. (سنن الترمذي رقم: 2625، سنن أبي داود رقم: 4690).

وقال النبي صلى الله عليه وسلم : ” الولد للفراش،  وللعاهر الحجر. (صحيح البخاري، الرقم: 2053).

(و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة، أو كتابية، أو من زنا بأن تزوج حبلى من زناودخل بها ثم مات، أو طلقها تعتد بالوضع جواهر الفتاوى (وضع) جميع (حملها) . (الدر المحتار مع الرد: 3/ 511).

وإذا أسقطت سقطاً استبان بعض خلقہ انقضت بہ العدة لأنہ ولد وإن لم یستبن بعض خلقہ لم تنقض الخ (البحر الرائق: 4/229، زکریا).

صح نکاح حبلی من زنا عندہما، وقال أبویوسف: لایصح، والفتوی علی قولہما. (الدر المختار مع الشامي 4/141 زکریا).

 ونقل عن الذخیرۃ لو ارادت الالقاء  قبل مضی زمن ینفخ فیہ الروح ھل یباح لھا ذالک ام لا؟  اختلفوا فیہ ، وکان الفقیہ علی بن موسی یقول انہ یکرہ ، فان الماء بعد ما وقع فی الرحم مالہ الحیاۃ فیکون لہ حکم الحیاۃ کما فی بیضۃ صید الحرم، ونحوہ  فی الظہیریۃ قال ابن وھبان : فاباحۃ الاسقاط محمولۃ علی حالۃ العذر الخ (رد المحتار: 3/ 176، ط: سعید).

والله أعلم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

13- 11- 1441ھ 5- 7- 2020م الأحد.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply