aurang zeb aur teepu

اورنگ زيب عالم گير اور ٹيپو سلطان كى مذہبى روادارى كى ايك جھلك

اورنگ زيب عالم گير اور ٹيپو سلطان كى مذہبى روادارى كى ايك جھلك

مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى

آج ہندوستان فرقہ پرستى كى آگ ميں جل رہا ہے، مسلمانوں كے خلاف ايسى نفرت وبربريت كا ماحول بنا ديا  گيا ہے  جو اس سے پہلے كبھى نہيں ديكھا گيا، وطن كے تئيں ان كى جانفشانيوں اور قربانيوں يكسر فراموش كر كےان  غدار بتايا جا رہا ہے، اس ملك پر حكومت كرنے والے مسلم حكمرانوں كا نام لينا بھى جرمِ عظيم كى فہرست مىں شامل ہو گيا ہے،  يہ بات اپنى جگہ پر درست ہے كہ جب مسلمان ہندوستان آئے تو ان كو بڑى بڑى لڑائياں لڑنى پڑى، ان لڑائيوں ميں خوں ريزى بھى ہوئى، مسلمانوں كى فوجوں نے بعض علاقوں ميں غارت گرى بھى كى،  انھوں نے برسرِ پيكار باشندوں كو ستايا، سخت، نا مناسب اور تكليف دہ كلمات بھى كہے، جن سے غير مسلموں ميں اشتعال پايا جاتا ہے، اس طرح كے حربے اور خوں ريزياں  حصول اقتدار كےليے بادشاہوں كے بيچ آپس ميں چلتى رہتى ہيں،   وہ كسى مذہب كى لڑائى نہيں ہوتى  تھى،  رانا پرتاپ سے اکبر کی جو لڑائى ہلدی گھاٹ میں ہوئى وہ کسی طرح مذہبی جنگ نہ تھی۔ اس میں اکبر کی طرف سے چالیس ہزار راجپوت اور ساٹھ ہزار مغل لشکری تھے اور انکی کمان راجا مان سنگھ کر رہا تھا۔ اسی طرح رانا پرتاب کی فوج میں بہت سے پٹھان تھے۔ اس کے ایک دستہ کی کمان حکیم خاں سور کے ہاتھ میں تھی۔ جالور کا پٹھان راجہ تاج خاں ایک ہزار سواروں کے ساتھ رانا پرتاب کی حمایت میں لڑ رہا تھا۔ رانا پرتاب کی فوج میں چالیس ہزار راجپوت تھے۔راجپوت، راجپوت کے خلاف اور پٹھان، پٹھان کے خلاف لڑ رہے تھے۔ پھر اس لڑائى کو ہم اسلام اور ہندو مت کی لڑائى کیسے کہ سکتے ہیں۔ یہ مرکزی اور علاقائى دو قوموں کا تصادم  تھا۔ رانا پرتاب اس تعریف کے مستحق ہیں کہ وہ اپنی بہادری سے اپنی آزادی کو قائم رکھنا چاہتے تھے،لیکن کسی حال میں ہم انکی لڑائى کو اسلام اور ہندومت کی لڑائى نہیں کہ سکتے ہیں۔

ماضى قريب اور خاص طور پر دوسرى جنگ عظيم ميں امريكا كى جاپان كے شہر ہيروشيما پر بمبارى، اور امريكا كا افغانستان پر حملہ، زار روس كى مڈل اسيٹ كے ممالك پر سفاكيت، اور بربريت كى الم ناك داستانيں اسى كے قبيل سے  ہيں، يہ سب انسانى تاريخ كے ايسے درد ناك واقعات ہيں جس كو كبھى بھى فراموش نہيں جا سكتا، ان كے سامنے مسلم حكمرانوں كى تمام ہولناكياں ہيچ اور شرمندہ ہيں، ظلم بہر حال ظلم ہے تھوڑا ہو زيادہ  وه كسى صورت ميں روا نہيں،  ہمارى شريعت بھى اس كى اجازت نہيں ديتى ہے،ليكن اگر كسى حكومت كے جبر استبداد، ظلم وستم كے واقعات كے مقابلے ميں اس كے فياضانہ  سلوك اور روا دارانہ برتاؤ كا پلڑا اگر بھارى ہو تو وه حكومت قابلِ تعريف ہے،  اس اصول كو مدّ نظر ركھتے ہوئے اگر ہم مسلم حكمرانوں كا جائزه ليں تو اكثر مسلم حكمرانوں كى حكومتيں اسى زمرے ميں شامل ہوں گى،  جن كا استقصا كرنا اس مضمون كا مقصد نہيں ہے، اس مضمون ميں صرف  اورنگ زيب عالم گير اور ٹيپو سلطان كى مذہبى روادارى كى جھلكياں دكھانا ہے، جن كى سارى خدمات تعصب كى نذر چڑھ گئيں، اسلام دشمن ذہنيت كے مورخين  نے  ان دونوں كو ہندؤں كا سب سے بڑا دشمن بنا كر پيش كر ديا،  انھيں كے دجل وفريب سے  مرتب كردہ تاريخى كتابيں ہمارے ملك كے عصرى اداروں  ميں داخل نصاب ہيں،  نفرت كا جو بيج ان  متعصب مورخين نے بويا تھا آج وه پھل پھول رہا ہے ، جس كى چپيٹ ميں آج سارے ہندوستانى مسلمان ہيں۔

اس موقع پر ہم ناظرين كے سامنے پروفيسر بھِشَمبرناتھ پانڈے  كى تقرير كا كچھ حصہ پيش كرتے ہيں جو انھوں نے ہندوستان كى پارليميٹ ميں  29/ جولائى 1977ء ميں كى تھى،  وہاں یہ مسلہ درپیش تھا کہ ہندوستان کے ازمنہ وسطیٰ کی تاریخ کا نصاب کیسا ہو،کہ جس سے ثقافتی اور جزباتی ہم آہنگی پیدا ہو۔ ان كى تقرير سے پہلے ہم ان كا ايك مختصر تعارف پيش كرتے ہيں:

بھشمبر ناتھ (عرف بى اين  پانڈے) كى پيدائش 1906 ميں ہوئى، اور انتقال 1998 ميں ہوا،  وه آزادى كے سپاہى، اور سوشل وركر  تھے، سكولر مزاج كے تھے،  وه 1976 سے 1984، اور 1989 سے 1998 تك راجيہ سبھا كے ممبر تھے،  1984 سے 1989 وہ اڑيسہ كے گورنر بھى  رہے،  انھوں نے كئى كتابيں لكھى ہيں جن ميں :

  • Centenary history of the Indian National Congress 1885–1985
  • A Concise History of the Indian National Congress, 1947–1985(1986)
  • Indira Gandhi
  • Islam and Indian culture
  • Aurangzeb

قابل ذكر ہيں۔

 (ماخوذ از:  https://en.wikipedia.org/wiki/Bishambhar_Nath_Pande)

تقرير كا خلاصہ

بد قسمتی سے ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں گزشتہ كئى نسلوں سے جو کتابیں پڑھائى جا رہی ہیں وہ وہی ہیں جو یورپی مصنفوں کی لکھی ہوئى ہیں اور یورپین اساتذہ نے جو کچھ پڑھایا ہے، اسکے اثرات کو ہندوستانی اب تک دور نہیں کر سکے ہیں۔ایسی لکھی ہوئى تاریخوں سے جو تاثرات پیدا ہوتے ہیں وہ ہماری قومی زندگی کے سر چشمہ کو آلودہ کئے ہوئے ہیں۔ان کتابوں میں ایسے اختلافات پر زور دیا گیا ہے کہ ہندو،مسلمان کس طرح ایک دوسرے کے خلاف تشدد آمیز رویّہ اختیار کئے ہوئےتھے۔وہ ایک دوسرے کے علاقے کو فتح کرکے لوٹ مار کرتے اور مذہبی تعصب دکھاتے۔

 ان تاریخوں میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ مسلمان ہندؤوں کے کلچر اور روایات تہس نہس کرنے میں مشغول رہے۔ان کے مندروں اور محلوں کا انہدام کیا گیا۔ انکی مورتیاں توڑیں، اور انکے سامنے یہ خوفناک شرط پیش کرتے رہے کہ اسلام قبول کرو ورنہ تلوار استعمال کی جائےگی۔پھر یہ چیزیں زندگی کے اس زمانے میں پڑھائى جاتی ہیں جب ذہن پر کسی چیز کا اثر پڑ جاتا ہے تو پھر اسکا دور ہونا مشکل ہوتا ہے،اس لئے یہ کوئى تعجب کی بات نہیں کہ ہندو مسلمان ایک دوسرے کو شک و شبہ کی نظروں سے دیکھنے کے عادی ہو گئے اور ان میں باہمی بداعتمادی پیدا ہوگئى۔

 ہندو یہ یقین کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومتیں محض ہوّا تھیں۔وہ مسلمانوں کی تاریخ پر کوئى فخر محسوس نہیں کرتے ،بلکہ اسکو نظر انداز کرکے اپنی قدیم تاریخ سے سب کچھ سیکھنا چاہتے ہیں۔ پھر اسکو زریں دور سمجھ کر اسکی مدح سرائى کرنے لگتے ہیں۔

اسکے ساتھ برطانوی حکومت کے دستاویزات کا مطالعہ کیا جائےتو معلوم ہوگا کہ انگریزوں نے ”پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو“اس پر کس کس طرح سے عمل کیا۔ لارڈالگن کے زمانے میں سکریٹری آف اسٹینٹ ووڈ نے اسکو ایک خط مورخہ 3/ مارچ 1862ء میں لکھا کہ ”ہم لوگوں نے ہندوستان میں اب تک اپنا اقتدار اس طرح قائم کر رکھا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو مخالف بناتے رہے ہیں اور اس عمل کو جاری رکھنا چاہئے۔اس لئےجہاں تک ممکن ہے اسکی پوری کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ یہاں کے لوگوں میں مشترک جذبات پیدا نہ ہونے پائیں“۔

 9/  مئى 1862ء میں اسی ووڈ نے لارڈالگن کو پھر لکھا کہ” ہمارے خلاف جو مخالفت ہو اسکو مضبوط بننے نہ دیا جاۓ اور اسکو یقین جانیں کہ وہاں کے لوگوں میں جو ایک دوسرے سے دشمنی ہوگی وہ ہمارے لئےقابل اعتنا قوّت ہوگی۔ اگر پورا ہندوستان ہمارے خلاف متحد ہو جائے تو ہم وہاں کیسے باقی رہ سکتے ہیں“۔

اسی طرح ایک خاص پالیسی کے ماتحت  ہندوستان کی تاریخ سے متعلق نصاب کی کتابیں تیار کی گئیں اور واقعات توڑ مروڑ اور جھٹلا کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئى کہ ہندوستان کے عہد وسطی میں مسلمان حکمرانوں نے ہندوؤں پر مظالم کئے ہیں۔ انکو اسلامی حکومت میں خوفناک ذلتیں برداشت کرنی پڑی ہیں اور ان دونوں فرقوں کی معاشرتی،سیاسی اور اقتصادی زندگی میں کسی قسم کی مشترکہ قدریں نہ تھی۔

ٹيپو سلطان كى مذہبى روادارى كى ايك جھلك

پروفیسر پی۔این پانڈے نے بہت سی باتیں بیان کرکے کہا کہ جب میں 1928ء میں الہ باد میں ٹیپو سلطان پر ریسرچ کر رہا تھا تو وہاں کے اسکولوں کے کچھ طلبہ نے میرے پاس آکر اپنی ہسٹری ایسوسی ایشن کے افتتاح کی دعوت دی۔ وہ اسکول سے سیدھے میرے پاس آئے تھے۔انکے ساتھ انکے نصاب کی کتابیں تھیں۔میں نے اتفاقاً انکی تاریخ کی ایک کتاب پر نظر ڈالنی شروع کی۔ اس میں ٹیپو سلطان پر ایک باب تھا،اسکو پڑھنا شروع کیا تو اسکے بعض جملوں کو پڑھ کر کھٹک پیدا ہوئى، اس میں لکھا ہوا تھا کہ تین ہزار برہمنوں نے محض اس لئے خود کشی کرلی کہ ٹیپو انکو ذبردستی دائرہ اسلام میں لانا چاہتا تھا۔اس کتاب کو ترتیب دینے والے مہااپادھیا ڈاکٹر پرشاد شاشتری صدر شعبہ سنسکرت کلکتہ یونیورسٹی تھے۔میں نے فوراً ڈاکٹر شاشتری سے اس بیان کی سند کا حوالہ دریافت کیا ۔ انکو کئى خطوط لکھے تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ میسور گزیٹر سے لیا گیا ہے۔یہ گزیٹر نہ مجھ کو الہ باد اور نہ امپریل لائبریری کلکتہ سے ملا۔ اس وقت میسور یونیورسٹی کے وائس چانسلر سر ہری چندر ناتھ سیل تھے۔ میں نے ایک خط کے ذریعہ ان سے اس واقعہ کی تصدیق چاہی،انہوں نے میرے خط کو پروفیسر کانتیا کے پاس بھیج دیا۔ اس وقت وہ میسور گزیٹر  کا نیا ایڈیشن مرتب کررہے تھے۔انہوں نے مجھ کو لکھ بھیجا کہ:  میسور گزیٹر میں کوئى ایسا واقعہ درج نہیں،پھر یہ بھی لکھا ہے کہ جو میسور کی تاریخ سے اچھی طرح واقف ہیں، وہ یقین کے ساتھ کہ سکتے ہیں کہ میسور کا کوئى ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔یہ بھی لکھا کہ ٹیپو سلطان کا وزیرِ اعظم ایک برہمن مسمی پورنیا تھا،اور اسکا فوجی سپہ سالار بھی کرشنا راؤ نامی برہمن تھا۔

پھر انہوں نے میسور کے ایک سو چھپپن (156) مندروں کی فہرست بھی بھیجی جن کو ٹیپو سالانہ امداد دیا کرتا تھا۔ٹیپو کے بڑے خوشگوار تعلقات میسور کے سری نگری مٹھ کے جگت گرو شنکرا چاریہ سے تھے۔ ٹیپو نے انکو جو خطوط لکھے تھے ان میں سے تیس کی فوٹو اسٹیٹ کاپیاں منسلک کردی تھیں۔ میسور کے فرمارواؤں کا معمول تھا کہ سرنگا پٹنم کے اندر جو رنگا ناتھ مندر ہے،وہاں وہ جایا کرتے تھے۔ ٹیپو سلطان بھی اپنے صبح کے ناشتہ سے پہلے روزانہ جایا کرتا تھا۔

پروفیسر کانتیا نے یہ بھی لکھا کہ ڈاکٹر شاشتری نے یہ واقعہ شاید کرنل مائلس کی ہسٹری آف میسور سے لیا ہو،جنہوں نے فارسی کی ایک مخطوط  تاریخ ٹیپو سلطان کا ترجہ کیا ہے۔ یہ مخطوطہ ملکہ و کٹوریہ کی ذاتی لائبریری میں ہے۔ میں نے دریافت کیا تو پتہ چلا کہ ایسا کوئى مخطوط ملکہ وکٹوریہ کے کتب خانے میں نہیں ہے۔کرنل مائس کی تاریخ میں سارے واقعات من گھرٹ اور جھوٹے ہیں۔ ڈاکٹر شاشتری کی کتاب بنگال،آسام،بہار،اڑیسہ،یوپی،ایم۔پی اور راجستھان کے اسکولوں کے نصاب میں داخل تھی۔ میں نے کلکتہ یونیورسٹی کے اس وقت کے وائس چانسلر سر آشوتوش مکرجی سے خط و کتابت کی اور سارے واقعات لکھ بھیجے، تو انہوں نے اس کتاب کو نصاب سے نکلوا دیا۔لیکن مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ یوپی کے جونیر اسکولوں کے نصاب کی کتاب میں1972ء میں یہ پھر دہرایا گیا۔

(ماخوذ از كتاب : ہندوستان كے عہد ماضى ميں مسلم حكمرانوں كى مذہبى روا دارى، مصنفہ سيد صباح الدين عبد الرحمن جلد3، صفحہ 316، 317، مع حذف  وزوائد)

اورنگ زيب عالم گير كى مذہبى روا دارى

تاريخ ميں جو واقعات جس قدر شہرت پكڑ جاتے ہيں اسى قدر  ان كى صحت زيادہ مشتبہ ہوتى ہے، جيسے سدّ سكندرى، ديوار قہقہ، آبِ حيواں، مار ضحاك، جامِ جم وغيرہ، اورنگ زيب كى بدنامى كا قصہ مذكورہ واقعات كى طرح ہے، اس كى فرد قرار داد ِ جرم اتنى لمبى ہے كہ شايد كسى مجرم كى نہ ہوگى: باپ كو قيد كيا، بھائيوں كو قتل كرا ديا، ہندوؤں كو ستايا، بت خانے ڈھائے، مرہٹوں كو چھيڑ كر تيمورى سلطنت كے اركان متزلزل كئے۔

ہمارا مقصد يہاںاورنگ زيب كى مذہبى روا دارى كو بيان كرنا ہے، اس لئے ہم اسى پہلو كو يہاں اجاگر كريں گے۔اس موقع پر بھى ہم پروفيسر بى اين پانڈے كى تقرير كےكچھ مزيد حصے پيش كر رہے ہيں بى اين پانڈے كہتے ہيں:

جب میں الہ باد میونسپلٹی کا چیرمین تھا تو ایک داخل خارج کا مقدمہ میرے سامنے پیش کیا گیا جو سومیشورناتھ مہادیو مندرکی جاگیر کے،جھگڑے کے سلسہ کا تھا۔ اس کے مہنت کی موت کے بعد اس جاگیر کے دو دعویدار ہوگئے۔ ایک نے ایک ایسی دستاویز پیش کی جو اس کے خاندان میں محفوظ چلی آرہی تھی۔ یہ اورنگ زیب کا جاری کردہ فرمان تھا، جس کی رو سے مندر کو ایک جاگیر اور کچھ نقدی عطا کی گئى تھی۔ اس کو دیکھ کر میں سراسیمہ ہوا۔ خیال آیا کہ یہ فرمان جعلی ہے،کیوں کہ اورنگ زیب تو برابر مندر منہدم کرتا رہا۔ وہ یہ لکھ کر کیسے فرمان جاری کرسکتا تھا کہ یہ جاگیر مندر کے دیوتا کی پوجا اور بھوگ کے لئے ہے۔ وہ اس بت پرستی میں اپنے کو کیسے شریک کر سکتا تھا۔

مگر کسی آخری نتیجہ پر پہنچ نے سے پہلے  میں سر تیج بہادر سپرو کے پاس ان سے مشورہ لینے کے لئے چلا گیا۔ وہ فارسی اور عربی اچھی طرح جانتے تھے۔ میں نے یہ فرمان ان کے سامنے رکھ دیا۔جس کا مطالعہ کرکے انہوں نے فرمایا کہ یہ اصلی ہے جعلی نہیں ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے منشی سے جنگم باڑی شیو مندر کے اس مقدمہ کا فائل طلب کیا، جو الہ باد ہائى کورٹ میں گذشتہ پندرہ سال سے چل رہا تھا۔ جنگم باڑی شیو کے مندر کے منہت کے پاس بھی اورنگ زیب کے ایسے مختلف فرامین تھے،جن سے پتا چلتا تھا کہ اس مندر کے لئے جاگیر دی گئى،ان کو دیکھ کر اورنگ زیب کی ایک نئی تصویر میرے سامنے آئى اور میں بلکل متحیر تھا۔

 ڈاکٹر سپرو کے مشورے کے مطابق میں نے ہندوستان کے مختلف اہم مندروں کے مہنتوں کو خطوط لکھے کہ اورنگ زیب نے ان مندروں کو کچھ جاگیر دی ہے تو اس کے فرامین کی فوٹواسٹیٹ کاپیاں ان کے پاس بھیج دی جائیں، میرے تعجب کی انتہا نہ رہی جب مہا کلیثور،اجین،بالاجی مندر چترکوٹ اور مانند گوہاٹی،شرن و جےکے جین مندروں اور اسی طرح شمالی ہند کے دوسرے مندروں کی طرف سے مجھ کو ایسے فرامین کی نقلیں ملیں جو 1065ھ  یعنی 1659ء سے لیکر 1091ھ یعنی  1685کے درمیان جاری كئے گئے تھے۔

ہندوؤں کے ساتھ اورنگ زیب کا جو فیاضانہ سلوک رہا، اسکی محض یہ تھوڑی سی مثالیں ہیں۔ ان سے ظاہر ہوگیا کہ اورنگ زیب کے متعلق مورخین نے جو لکھا ہے اس میں کسی قدر تعجب ہے اور یہ محض ایک رخ کی تصویر ہے۔ ہندوستان بہت وسیع ملک ہے، یہاں ہزاروں مندر ہیں،اگر پورے طور پر تلاش و تحقیق کی جاۓ تو مجھ کو یقین ہے کہ اور بھی بہت سی مثالیں ملیں گی،اور پھر اندازہ ہوگا کہ غیر مسلموں کے ساتھ اورنگ زیب کا سلوک کریمانہ رہا۔

(ماخوذ از كتاب : ہندوستان كے عہد ماضى ميں مسلم حكمرانوں كى مذہبى روا دارى، مصنفہ سيد صباح الدين عبد الرحمن جلد3، صفحہ 318، 319، مع حذف  وزوائد)

اورنگ زیب كا وارانسی کے وشوناتھ مندر اور گولکنڈہ کی جامع مسجد  کو مسمار كرنے كا سبب

اورنگ زیب نے بلاشک و شبہ وارانسی کے وشوناتھ مندر اور گولکنڈہ کی جامع مسجد  کو مسمار کیا۔ لیکن اس مندر مسجد کے منہدم کرنے کے اسباب معلوم ہوں گے تو پھر اصل صورت حال  کی نوعیت ظاہر ہوگی۔

وشوناتھ مندر کے برباد کرنے کا قصہ یہ ہے کہ اورنگ زیب بنگال جارہا تھا  تو وارانسی کے پاس سے بھی گزرا۔ اس کے جلوس میں ہندوراجہ بھی تھے،انہوں نے اورنگ زیب سے درخواست کی کہ سفر میں ایک روز قیام کیا جاۓ،تاکہ انکی رانیاں وارانسی جاکر گنگا میں اشنان اور وشوناتھ جی کی پوجا کرسکیں۔ اورنگ زیب اس کے لئے فوراً راضی ہوگیا۔وارانسی پانچ میل دور تھا۔ فوج متعین کردی گئيں۔ رانیاں پالکیوں سے روانہ ہوئیں۔ انہوں نے گنگا میں اشنان، کیا اور وشوناتھ مندر میں پوجا کے لئے گئیں اور رانیاں واپس آئیں،مگر کچھ کی مہارانی لاپتہ تھی۔ ہر طرف اسکی تلاش ہوئى،کہیں پتہ نہ چلا۔ اورنگ زیب کو اس گمشدگی کی اطلاع ہوئى تو بہت برہم ہوا۔ اس نے رانی کی تلاش میں اپنے اونچے عہدے دار کو بھیجا۔ انہوں نے دیکھا کہ گنیش جی کی مورتی دیوار میں نصب ہے،لیکن اس میں حرکت ہوتی رہتی ہے۔ یہ مورتی اپنی جگہ سے ہٹائى گئى تو اس کے نیچے زینے تھے جو ایک تہ خانے میں جاتے تھے۔ لوگوں کے تعجب کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے اس رانی کو تہ خانے میں پایا۔ اسکی عصمت ریزی ہو چکی تھی اور وہ رو رہی تھی۔ یہ تہ خانہ وشو ناتھ مورتی کے ٹھیک نیچے تھا، ہندو راجاؤں نے سخت احتجاج کیا اور انہوں نے فریاد کی،انکے ساتھ انصاف کیا جائے۔ بڑا اہم مسلہ تھا۔ اورنگ زیب نے حکم دیا کہ یہ پورا احاطہ ناپاک کردیا گیا ہے۔ وشوناتھ کی مورتی تو کہیں اور منتقل کردی جاۓ لیکن مندر مسمار کردیا جائے اور مہنت کو گرفتار کرکے سزا دی جائے۔

ڈاکٹر بنابی  سیتارامیہ نے اپنی مشہور کتاب ” دی فیدرس اینڈ اسٹونس“میں اسی واقعہ کو پوری سند کے ساتھ لکھا ہے اور ڈاکٹر بی ایل گپتا نے بھی جو پٹنہ میوزیم کے سابق کیوریٹر تھے،اس کو دہرایا ہے۔

گولکنڈہ کا حکمراں تاناشاہ کے نام سے مشہور ہے۔  وہ اپنی ریاست کے محصولات کو وصول کرتا،لیکن دہلی کچھ نہ بھیجتا۔ چند برسوں کے اندر کروڑوں کی رقم جمع ہوگئى۔ تاناشاہ نے اس کو زمین میں دفن کر دیا اور اس کے اوپر ایک جامع مسجد بنا دی۔اورنگ زیب کو اسکی خبر ہوئى تو اس نے مسجد کو مسمار کرادیا اور خزانہ کو ضبط کرکے رفاہ عام میں صرف کر دیا۔

یہ دو مثالیں ایسی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اورنگ زیب صحیح فیصلہ کرنے میں مندر مسجد میں تفریق نہیں کرتا تھا۔

(ماخوذ از كتاب : ہندوستان كے عہد ماضى ميں مسلم حكمرانوں كى مذہبى روا دارى، مصنفہ سيد صباح الدين عبد الرحمن جلد3، صفحہ 319، 320، مع حذف  وزوائد)

اورنگ زيب كى مذہبى روا دارى كى مثال يوپى مشہور ضلع اعظم گڑھ  كے قصبہ نظام آباد ميں ايك مسجد اور مندر عالم گير كى بنوائى ہے، اسى طرح گوركھپور  كے مشہور مندر  گوركھناتھ كى زمينيں اورنگ زيب ہى كى دى ہوئى تھيں۔ (مرتب)

يہ تو كچھ مثاليں ہيں تاريخ كى ورق گردانى سے اس طرح كى سيكڑوں مثاليں مل جائيں گى، جو ان كى مذہبى روا دارى ، اور دوسرے مذاہب كے ساتھ اچھا برتاؤ  پر دلالت كرتى ہيں،  ہم حكومت سے درخواست كرتے ہيں كہ وه اسكولوں ميں پڑھائے جانے والےہمارے مسلم حكمرانوں كے تاريخى مواد پر نظر ثانى كركے ان ميں من گڑھت، تعصب زده اور  منافرت پھيلانے والے مواد كو ہٹائے، ہمارا يہ ديش گنگا جمنى تہذيب كا سنگم رہا ہے، اس كى فضا كو مسموم كرنے والى ہر فرقہ وارانہ ذہنيت كا قلع قمع كرنا ضرورى ہے، اور اسى ميں اس ملك كى ترقى كا راز پنہاں ہے، آپس ميں ايك دوسرے كو  لڑوا كر اقتدار تو حاصل كيا جا سكتا ہے ليكن ملك كبھى بھى ترقى نہيں كر سكتا۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply